انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

پو پھٹے گی نہ سویرا ہو گا
بجھ گیا دل تو اندھیرا ہو گا

میں نے اس بارے میں سوچا ہی نہ تھا
تو بھی دُشمن کبھی میرا ہو گا

پوچھ لے اور کوئی بات کہ پھر
جانے کب یاروں کا پھیرا ہو گا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا
امیر شہر میں جب بھی کوئی غریب آیا

ہوا میں زہر گُھلا، پانیوں میں آگ لگی
تمہارے بعد زمانہ بڑا عجیب آیا

کسی کو اب نہ ستائے گی مرگِ نامعلوم
چراغِ دار جلا، موسمِ صلیب آیا

برس مہینوں میں، ہفتے دنوں میں ڈھلنے لگے
جو رام دور تھا وہ وقت اب قریب آیا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

میں ایسا پست صدا ہوں، میں ایسا تیرہ نصیب
کہیں جواب نہ پاؤں، کہیں جواب ملے

جو تو ملے تو کبھی یوں گلے لگاؤں تجھے
کسی حباب سے جیسے کوئی حباب ملے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

بچھڑنے والوں کو کیا کیا گمان رہتا ہے
کسی کا نام، کسی کا نشان رہتا ہے؟

مجھے تلاش نہ کر اب ہجومِ یاراں میں
اُبھرتے شہر میں کچا مکان رہتا ہے

نشاطِ رفتہ کی آنکھوں میں روشنی ہے ابھی
جہاز ڈوب گیا، بادبان رہتا ہے

ہزار دُکھ ہیں مگر رام کس سے بات کریں
ہمارا کون یہاں ہم زبان رہتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کئی نے سورج کو اپنایا کچھ تاروں کے ساتھ رہے
دیواروں کے سائے تھے ہم، دیواروں کے ساتھ رہے

جلتے گھروندے دیکھ کے دل کچھ ایسا ٹوٹا اس کے بعد
برسوں شہر کی شکل نہ دیکھی، بنجاروں کے ساتھ رہے

کس نے پہلا پتھر کاٹا، پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کسی مرقد ہی کا زیور ہو جائیں
کاش ہم پھول یا پتھر ہو جائیں

خشکیاں ہم سے کنارا کر لیں
تم اگر چاہو سمندر ہو جائیں

تو نے منہ پھیرا تو ہم ایسے لگے
جس طرح آدمی بے گھر ہو جائیں

اپنا حق لوگ کہاں چھوڑتے ہیں
دوست بن جائیں برادر ہو جائیں

یہ ستارے، یہ سمندر، یہ پہاڑ
کس طرح لوگ برابر ہو جائیں

آمدِ شب کا یہ مطلب ہو گا
رام کچھ چہرے اجاگر ہو جائیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

زنداں میں بھی وہی لب و رُخسار دیکھتے
دروازہ دیکھتے، کبھی دیوار دیکھتے

کس درجہ آنے والے زمانے کا خوف تھا
بجتا گجر تو شام کے آثار دیکھتے

سب دوڑتے تھے اس کی عیادت کے واسطے
جس کو ذرا سا نیند سے بیدار دیکھتے

اب کیا کہیں، وہ اجنبی کیسا تھا ہم جسے
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے بھی ناچار دیکھتے

تیرے سَوا بھی کچھ نظر آنا محال تھا
دنیا کو دیکھتے کہ ترا پیار دیکھتے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تیرا درد بھی یوں جھلکے ہے اب تیری آوازوں سے
جیسے روشنی باہر نکلے شیشے کے دروازوں سے

میں بھی تیرے بازو تھاموں میں بھی تیرے ساتھ اُڑوں
لیکن مجھ کو ڈر لگتا ہے ان اُونچی پروازوں سے

آنکھیں ڈھونڈتی رہتی ہیں کچھ ، کان سے بجتے رہتے ہیں
میں نے جب سے ناتا توڑا سایوں اور آوازوں سے

دل کے گھاؤ بڑے روشن ہیں آنکھیں لَو دے اُٹھیں گی
لاکھ اپنے چہروں کو چھپاؤ رنگ برنگے غازوں سے

سب کو اپنا حال سنائیں، سب سے تیرا ذکر کریں
کیسے کیسے فن سیکھے ہیں ہم نے زمانہ سازوں سے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

سامانِ طرب اور زمانے کے لئے ہیں
ہم جسم کا اسباب اُٹھانے کے لئے ہیں

اے کاریگرِ حسن کبھی تو نے یہ سوچا
یہ چاند بھی مٹی میں ملانے کے لئے ہیں

ان سوختہ جانوں کو نہ دھرتی میں اُتارو
یہ پھول تو گنگا میں بہانے کے لئے ہیں

سورج کی طرف دیکھ کے آنکھیں نہیں بجھتیں
دو ہاتھ ابھی چہرہ چھپانے کے لئے ہیں

یہ اس کا نصیبہ، کوئی جاگے کہ نہ جاگے
ہم آٹھ پہر شور مچانے کے لئے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ستارہ وار چمکنے لگے ہیں شام سے لوگ
تری تلاش میں نکلے کس اہتمام سے لوگ

کچھ ایسے بُت بھی نہیں ہیں کہ ہم جواب نہ دیں
اگر ہمیں بھی پکاریں کسی مقام سے لوگ

نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے ٹھہریں گے
ترے ستم سے گریزاں، مرے سلام سے لوگ

فضا میں کس قدر اونچی اڑان رکھتے تھے
ہوا تھمی ہے تو کیسے گرے دھڑام سے لوگ
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں

ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں

ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا
میں وہ پاگل کہ فقط آنکھ میں آنسو لایا

جب بھی دنیا میں کسی قصر کی بنیاد پڑی
سنگ کچھ میں نے فراہم کئے کچھ تو لایا

تو نے عالم سحروشام میں تقسیم کیا
اور میں دل میں نہ کبھی فرق سرِ مُو لایا

مجھ کو اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے
تو کہاں سے مری آنکھیں، مرے بازو لایا

ان میں کوئی نہیں لگتا ہے شناسا چہرہ
رام کس آئنہ خانہ میں مجھے تو لایا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

دور تک تیز ہواؤں کے نشاں ملتے ہیں
پیڑ اور آدمی صحرا میں کہاں ملتے ہیں؟

یوں نمایاں ہیں مرے دل پہ تری یاد کے زخم
جس طرح پھول سرِ آبِ رواں ملتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے
سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے

میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی
میرا سایہ تری دیوار سے جا ملتا ہے

تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ہر ایک دن کے تصور سے رات بنتی ہے
حصارِ رنگ سے نکلیں تو بات بنتی ہے

کسی کسی کو زمانہ فروغ دیتا ہے
کسی کسی کی زمانے کے سات بنتی ہے

نقوشِ ریگ سہی، تو بھی کچھ بنا کے تو دیکھ
کہ رفتہ رفتہ یونہی کائنات بنتی ہے

مرے نجوم پہ اب مستقل اندھیرا ہے
تری نگاہ میں کب چاند رات بنتی ہے

خلاء میں رام کئی بار غور سے دیکھا
کسی کی آنکھ ہی وجہِ ثبات بنتی ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

پہاڑ جب بھی کوئی راہ میں سَرَک آیا
ترا خیال مجھے کتنی دیر تک آیا

ترا نصیب، کہ منزل تجھے نصیب ہوئی
تو دائیں بائیں چلا، میں سڑک سڑک آیا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

بچھڑ رہا ہے زمانے سے اک زمانہ مگر
مری طرف کوئی مُڑ مڑ کے دیکھتا ہے ابھی

مرا خیال ہے مجھ سے متاعِ ضبط نہ چھین
فروغِ شب ہے ابھی، شہر جاگتا ہے ابھی
 
Top