زین
لائبریرین
انتباہ
تحریر: احمد علی بلوچ
ممبئی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تانے بانے خود بھارت کے اندر ملتے ہیں ۔بھارت میں انتہا پسند ہندوتنظیموں کے مسلم دشمن رویے اور بھارتی حکومت کی طرف سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ردعمل پیدا ہورہا ہے ۔ایک طرف بھارت میں نکسلائٹ اور مائو باغیوںکی تحریک 13 صوبوں تک پھیل چکی ہے ۔دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام بھارت سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں ۔بھارتی پنجاب کے سکھ بھی موقع کی تلاش میں ہیں ۔بھارتی گجرات میں بی جے پی کے انتہا پسند وزیراعلیٰ نریندر مودی کے مسلم کش رویہ کی وجہ سے اس صوبے میں ہولناک مسلم کش فسادات ہوئے اور ہزاروں مسلمانوں کو ان فسادات میں انتہا پسند ہندئوں نے قتل کردیا۔بھارتی مسلمان طلباء کی تنظیم ’’سیمی‘‘ بھارت میں رہنے والے 30 کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کیلئے پرامن طریقے سے جدوجہد کررہی ہے ۔اس تنظیم کے اراکین کی تعداد 60ہزار سے زیادہ ہے ۔اس طرح بھارت کے اندر بے شمار تنظیمیں بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں ۔بھارتی معاشرہ اپنے اندر تضادات کا ایک جہان رکھتا ہے ایک طرف تامل ناڈو کے لوگ بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے نجات کے خواہاں ہیں تو دوسری طرف آسام بہار حیدر آباد آندھرا پردیش اڑیسہ کے عوام بھی بھارتی حکومت سے نجات چاہتے ہیں ۔خود بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور بھارتی فوج کا ایک غالب حصہ بھی انتہا پسندہندو تنظیموں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔بھارتی فوج کے جرنیلوں کی ایک بڑی تعداد ریٹائر منٹ کے بعد انتہا پسند ہندوتنظیموں میں شمولیت اختیار کرلیتی ہے۔حال ہی میں بھارت کے مختلف شہروں میں بم دھماکوںاور دہشت گردی کی وارداتوں میں جہاںہندو انتہا پسندتنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے وہاںبھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل کو ملٹری سکول میں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کودہشت گردی کی تربیت دینے اوربم دھماکوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔اسی طرح بھارتی صوبے اریسیہ میں حالیہ ہفتوں میں انتہا پسند ہندوئوں نے عیسائیوں کا دل کھول کر قتل عام کیا۔
بھارت میں اقلیتوں پر جومظالم منظم انداز میں کئے جارہے ہیں اس کا ردعمل تو سامنے آنا ہی تھا اور وہ آرہا ہے بھارتی حکومت اپنے گھر پر توجہ دینے کی بجائے تحقیقات کے بغیر ہی ہمسایہ ممالک پر الزام تراشیاں کرکے خطے میں امن و استحکام کے خواب کو شرمندہ کررہی ہے۔ممبئی میںدہشت گردی کی حالیہ کارروائی میں پاکستان کسی طور پر ملوث نہیں ہے ۔پاکستان تو خوددہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اپنے اقتصادی مسائل سے نپٹ رہا ہے ۔پاکستان کے پالیسی ساز اس قدر احمق نہیں ہیں کہ وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کی واردات میں ملوث ہوں اور نہ ہی پاکستان کے ادارے اس طرح کے نیچ اورگھٹیا کاموں میں ملوث ہونا پسند کرتے ہیں ۔بھارتی قیادت کی طرف سے پاکستان پر یکطرفہ الزام تراشیاں انتہا درجے کی غیر ذمہ داری ہے ۔سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے قوم سے خطاب میں الزام عائد کیا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی کا منصوبہ بیرون ملک بنایا گیا ہے اور انہوں نے تحقیقات کے بغیر ہی ہمسایہ ممالک کو خبردار کردیا کہ وہ بھارت میں دہشت گردی کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں ۔اس دھمکی آمیز لہجے کی گونج ابھی باقی تھی کہ بھارتی فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے الزام عائد کردیا کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔اس کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ پرناب مکر جی بھی الزامات کی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔بھارتی وزیر خارجہ کا لہجہ دھمکی آمیز تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔عالمی برادری اس بات سے واقف ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں اور خود پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج کہلاتی ہے۔عالمی برادری اس بات کو بھی جانتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اگر کوئی ایڈونچر کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب ملے گااور عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے واضح کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث نہیں اور اگر کوئی پاکستانی ملوث ہو تو ہم کارروائی کریں گے۔صدر مملکت نے بھارت پر واضح کیا کہ حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیکھانے کی ضرورت نہیں۔اسی بھارتی رویے کے بناء پر وفاقی کابینہ نے بھی اپنے خصوصی اجلاس میں تشویش کا اظہارکیا ہے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے موجودہ صورتحال میںملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات چیت کی ہے۔وزیراعظم کی طرف سے مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد جمعیت علماء اسلام کے سربراہ فضل الرحمان عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پیر پگاڑا آفتاب شیرپائو عمران خان اور محمود اچکزئی سے بات چیت کی اور انہیں اعتماد میں لیا ۔
پاکستان نے نیٹو ممالک پر بھی واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان اپنے حصے سے زیادہ کام کررہا ہے اور پاکستان کی ایک لاکھ فوج مغربی سرحدوں پر تعینات ہے ۔اگر بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر فوج جمع کی تو پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو اپنی اولین ترجیح میں نہ رکھے اور قبائلی علاقہ جات سے اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج بھارتی سرحدوں پرلگانے پر مجبورہوجائے ۔بھارت کو صورتحال کا اندازہ کرنا چاہئے دھمکیاںدے کر پاکستانی قوم اور فوج کے جذبات کو چیلنج کرنے کا نتیجہ پاکستان میں قومی اتحاد کی صورتحال میں نکلے گا ۔ اور ملک دشمن قوتیں جو پاکستان میں افراتفری اور انتشار کی خواہاں ہیں ۔وہ کوئی بھی ایڈونچر کرکے پوری قوم کو متحد کردیں گی۔
٭٭٭
تحریر: احمد علی بلوچ
ممبئی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تانے بانے خود بھارت کے اندر ملتے ہیں ۔بھارت میں انتہا پسند ہندوتنظیموں کے مسلم دشمن رویے اور بھارتی حکومت کی طرف سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ردعمل پیدا ہورہا ہے ۔ایک طرف بھارت میں نکسلائٹ اور مائو باغیوںکی تحریک 13 صوبوں تک پھیل چکی ہے ۔دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام بھارت سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں ۔بھارتی پنجاب کے سکھ بھی موقع کی تلاش میں ہیں ۔بھارتی گجرات میں بی جے پی کے انتہا پسند وزیراعلیٰ نریندر مودی کے مسلم کش رویہ کی وجہ سے اس صوبے میں ہولناک مسلم کش فسادات ہوئے اور ہزاروں مسلمانوں کو ان فسادات میں انتہا پسند ہندئوں نے قتل کردیا۔بھارتی مسلمان طلباء کی تنظیم ’’سیمی‘‘ بھارت میں رہنے والے 30 کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کیلئے پرامن طریقے سے جدوجہد کررہی ہے ۔اس تنظیم کے اراکین کی تعداد 60ہزار سے زیادہ ہے ۔اس طرح بھارت کے اندر بے شمار تنظیمیں بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں ۔بھارتی معاشرہ اپنے اندر تضادات کا ایک جہان رکھتا ہے ایک طرف تامل ناڈو کے لوگ بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے نجات کے خواہاں ہیں تو دوسری طرف آسام بہار حیدر آباد آندھرا پردیش اڑیسہ کے عوام بھی بھارتی حکومت سے نجات چاہتے ہیں ۔خود بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور بھارتی فوج کا ایک غالب حصہ بھی انتہا پسندہندو تنظیموں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔بھارتی فوج کے جرنیلوں کی ایک بڑی تعداد ریٹائر منٹ کے بعد انتہا پسند ہندوتنظیموں میں شمولیت اختیار کرلیتی ہے۔حال ہی میں بھارت کے مختلف شہروں میں بم دھماکوںاور دہشت گردی کی وارداتوں میں جہاںہندو انتہا پسندتنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے وہاںبھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل کو ملٹری سکول میں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کودہشت گردی کی تربیت دینے اوربم دھماکوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔اسی طرح بھارتی صوبے اریسیہ میں حالیہ ہفتوں میں انتہا پسند ہندوئوں نے عیسائیوں کا دل کھول کر قتل عام کیا۔
بھارت میں اقلیتوں پر جومظالم منظم انداز میں کئے جارہے ہیں اس کا ردعمل تو سامنے آنا ہی تھا اور وہ آرہا ہے بھارتی حکومت اپنے گھر پر توجہ دینے کی بجائے تحقیقات کے بغیر ہی ہمسایہ ممالک پر الزام تراشیاں کرکے خطے میں امن و استحکام کے خواب کو شرمندہ کررہی ہے۔ممبئی میںدہشت گردی کی حالیہ کارروائی میں پاکستان کسی طور پر ملوث نہیں ہے ۔پاکستان تو خوددہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اپنے اقتصادی مسائل سے نپٹ رہا ہے ۔پاکستان کے پالیسی ساز اس قدر احمق نہیں ہیں کہ وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کی واردات میں ملوث ہوں اور نہ ہی پاکستان کے ادارے اس طرح کے نیچ اورگھٹیا کاموں میں ملوث ہونا پسند کرتے ہیں ۔بھارتی قیادت کی طرف سے پاکستان پر یکطرفہ الزام تراشیاں انتہا درجے کی غیر ذمہ داری ہے ۔سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے قوم سے خطاب میں الزام عائد کیا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی کا منصوبہ بیرون ملک بنایا گیا ہے اور انہوں نے تحقیقات کے بغیر ہی ہمسایہ ممالک کو خبردار کردیا کہ وہ بھارت میں دہشت گردی کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں ۔اس دھمکی آمیز لہجے کی گونج ابھی باقی تھی کہ بھارتی فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے الزام عائد کردیا کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔اس کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ پرناب مکر جی بھی الزامات کی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔بھارتی وزیر خارجہ کا لہجہ دھمکی آمیز تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔عالمی برادری اس بات سے واقف ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں اور خود پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج کہلاتی ہے۔عالمی برادری اس بات کو بھی جانتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اگر کوئی ایڈونچر کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب ملے گااور عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے واضح کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث نہیں اور اگر کوئی پاکستانی ملوث ہو تو ہم کارروائی کریں گے۔صدر مملکت نے بھارت پر واضح کیا کہ حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیکھانے کی ضرورت نہیں۔اسی بھارتی رویے کے بناء پر وفاقی کابینہ نے بھی اپنے خصوصی اجلاس میں تشویش کا اظہارکیا ہے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے موجودہ صورتحال میںملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات چیت کی ہے۔وزیراعظم کی طرف سے مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد جمعیت علماء اسلام کے سربراہ فضل الرحمان عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پیر پگاڑا آفتاب شیرپائو عمران خان اور محمود اچکزئی سے بات چیت کی اور انہیں اعتماد میں لیا ۔
پاکستان نے نیٹو ممالک پر بھی واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان اپنے حصے سے زیادہ کام کررہا ہے اور پاکستان کی ایک لاکھ فوج مغربی سرحدوں پر تعینات ہے ۔اگر بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر فوج جمع کی تو پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو اپنی اولین ترجیح میں نہ رکھے اور قبائلی علاقہ جات سے اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج بھارتی سرحدوں پرلگانے پر مجبورہوجائے ۔بھارت کو صورتحال کا اندازہ کرنا چاہئے دھمکیاںدے کر پاکستانی قوم اور فوج کے جذبات کو چیلنج کرنے کا نتیجہ پاکستان میں قومی اتحاد کی صورتحال میں نکلے گا ۔ اور ملک دشمن قوتیں جو پاکستان میں افراتفری اور انتشار کی خواہاں ہیں ۔وہ کوئی بھی ایڈونچر کرکے پوری قوم کو متحد کردیں گی۔
٭٭٭