ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

مقدس

لائبریرین
131

اسلوب بیان پر غور کرو! اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا:
فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّهِ ۚ
بظاہر عفو و درگذر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں دوبارہ اس پر زور دیا " وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ " یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو ودرگذر کی اہمیت واضح ہو جائے۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہو جائے کہ اگرچہ بدلے اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی وفضیلت کی راہ، عفوودرگذر ہی کی راہ ہے۔
پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو، جو برائی کے بدلے میں دی جائے برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا
یعنی "سیتہ" کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی "سیتہ" ہی ہو گا، عمل حسن نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے بظاہر رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کر دے "اصلح" کا لفاظ کہا، یعنی سنورنے والا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ ک اصلی سنورنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو ودرگذر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

قرآن کے زواجر و قوارع

ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی الحقیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے تو اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجروتوبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟
اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا، لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصر اشارہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے؟ ان کے لیے جن کی مخالفت مھض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی، یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی۔ ہمیں اس سے قطعا انکار ہے۔ ہم پورے وثوق
 

مقدس

لائبریرین
132

کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تمام قرآن میں شدت و غلظت کا ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا جو اس طرح کے مخالفوں کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس نے جہاں کہیں بھی مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے سختی کا اظہار کیا ہے، اس کا تمام تر تعلق ان مخالفوں سے ہت جن کی مخالفت بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی جارحانہ معاندت تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اصلاح و ہدایت کی کوئی تعلیم بھی اس صورت حال سے گریز نہیں کر سکتی۔ اگر ایسے مخالفوں کے ساتھ بھی نرمی و شفقت ملحوظ رکھی جائے تو بلاشبی یہ رحمت کا سلوک تو ہو گا، مگر انسانیت کے لیے نہیں ہوگا، ظکم و شرارت کے لیے ہو گا۔ اور یقیناسچی رحمت کا معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ظلم و فساد کی پرورش کرے۔ ابھی چند صفحوں کے بعد تمہیں معلوم ہو گا کہ قرآن نے صفات الہی میں رحمت کے ساتھ عدالت کو بھی اس کی جگہ دی ہے۔ اور سورۃ فاتحہ میں ربو بیت اور رحمت کے بعد عدالت ہی کی صفت جلوہ گر ہوئی ہے کہ وہ رحمت سے عدالت کو الگ نہیں کرتا، بلکہ اسے عین رحمت کا مقتصی قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم انسانیت کے ساتھ رحم و محبت کا برتاؤ کر ہی نہیں سکتے، اگر ظلم وشرارت کے لیے تم میں سختی نہیں ہے۔ انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی اپنے زمانے کے مفسدوں کو " سانپ کے بچے " اور " ڈاکوؤں کا مجمع" کہنے پر مجبور ہوئے۔

کفر محض اور کفر جارحانہ

قرآن نے کفر کا لفظ انکار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ انکار دو طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ انکار محض ہو ایک یہ کہ جارحانہ ہو۔
انکار محض سے مقصود یہ ہے کہ ایک شخص تمہاری تعلیم قبول نہیں کرتا، اس لیے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی یا س لیے کہ اس میں طلب صادق نہیں ہے یا اس لیے کہ جو راہ چل رہا ہے اسی پر قانع ہے! بہرحال کوئی وجہ ہے لیکن وہ تم سے متفق نہیں ہے۔
جارحانی انکار سے مقصود وہ حالت ہے کو صرف اتنے پر ہی قناعت نہیں کرتی بلکہ اس میں تمہارے خلاف ایک طرح کی کد اور ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ ضد بڑھتے بڑھتے بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی سخت سے سخت صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح کا مخالف صرف یہی نہیں کرتا کہ تم سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر تمہارے خلاف بغض و عناد کا
 

مقدس

لائبریرین
133

ایک غیر محدود جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور زندگی کی ساری قوتوں کے ساتھ تمہاری بربادی و ہلاکت کے درپے ہو جائے گا۔ تم کتنی ہی اچھی بات کہو وہ تمہیں جھٹلائے گا تم کتنا ہی اچھا سلوک کرو وہ تمہیں اذیت پہنچائے گا تم کہو: روشنی تاریکی سے بہتر ہے۔ تو وہ کہے گا: "تاریکی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔" تم کہو: کڑوایٹ سے مٹھاس اچھی ہے تو وہ کہے: نہیں، کڑواہٹ میں ہی دنیا کی سب سے بڑی لذت ہے۔
یہی حالت ہے جسے قرآن انسانی فکر و بصیرت کے تعطل تعبیر کرتا ہے اور اسی نوعیت کے مخالف ہیں جن کے لیے اس کے تمام زواجروقوارع ظہور میں آئے ہیں
لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ۔( 179:7)
ان کے پاس دل ہیں مگر سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ان کے پاس کان یہں مگر سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہو گئے ہیں جیسے چار پائے! نہیں بلکہ چارپایوں سے بھی کھوئے ہوئے۔ بلاشبی یہی لوگ ہیں جو غفلت میں ڈوبے ہیں۔

ہمارے مفسر اسی دوسری حالت کو "کفر حجود" سے تعبیر کرتے ہیں۔
دنیا میں جب کبھی سچائی کی کوئی دعوت ظاہر ہوئی ہے تو کچھ لوگوں نے اسے قبول کر لیا ہے، کچھ نے انکار کیا ہے۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف طغیان و حجود اور ظلم وشرارت کی جتھا بندی کر لی ہے۔ قرآن کا جب ظہور ہوا تو اس نے بھی یہ تینوں جماعتیں اپنے سامنے پائیں۔ اس نے پہلی جماعت کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا دوسری کو دعوت و تذکیر کا مخاطب بنایا۔ مگر تیسری کے ظلم و طغیان پر حسب حالت وضرورت زجر و توبیخ کی، اگر ایسے گروہ کے لیے بھی اس کے لب و لہجے کی سختی "رحمت" کے خلاف ہے تو بلاشبہ اس معنی میں قرآن رحمت کا معترف نہیں اور یقینا اس ترازو سے اس کی رحمت تولی نہیں جا سکتی۔
تم بار بار سن چکے ہو کہ وہ دین حق کے معنوی قوانین کو کائنات فطرت کے عام قوانین سے الگ نہیں قرار دیتا، بلکہ انہیں کا ایک گوشہ قرار دیتا ہے۔ فطرت کائنات کا اپنے فعل و
 

مقدس

لائبریرین
134

ظہور کے ہر گوشے میں کیا حال ہے؟ یہ ھال ہے کہ وہ اگرچہ سرتا سر رحمت ہے، لیکن رحمت کے ساتھ عدالت اور بخشش کے ساتھ جزاء کا قانون بھی رکھتی ہے۔ پس قرآن کہتا ہے میں فطرت سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتا تمہاری جس مزعومہ رحمت سے فطرت کا خزانہ خالی ہے یقیناً میرے آستین و دامن میں نہیں مل سکتی!"

فِطْرَ‌تَ اللَّ۔هِ الَّتِي فَطَرَ‌ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّ۔هِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَ۔ٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(30:30)
اللہ کی فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی (اللہ کی ٹھہرائی ہوئی فطرت) سچا اور ٹھیک ٹھیک دین ہے۔ لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالو جہاں اس نے سختی کے ساتھ منکروں کا ذکر کیا ہے؟ یہ حقیقت بیک نظر واضح ہو جائے گی۔
 

مقدس

لائبریرین
135
ملک یوم الدین

ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے وہ عدالت ہے اور اس کے لیے ملک یوم الدین کی تعبیر اختیار کی گئی ہے

الدین

سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ 'دان' اور 'دین' ہے جو بدلے اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد متقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالبا یہ لفظ قدیم ایران میں بھی جا پہنچا اور پہلوی میں'دینیہ' نے شریعت و قانون کا مفہوم پیدا کر لیا۔ خوردادستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاءوکتابت کے آئین و قواعد کو بھی دین'بیرہ' کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام 'دین کا رت' ہے جو غالبا نویں صدی مسیحی میں عار کے ایک موید نے مرتب کی تھی۔
بہرحال عربی میں 'الدین' کے معنی بدلے اور مکافات کے ہیں خواہ اچھائی کا ہو یا برائی کا۔

متعلم لیلی ای دین تعایت
وائ غریم فی التقاضی غریمھا

پس ملک ہوم الدین کے معنی ہوئے " وہ جو جزا کے دن کا حکمران ہے" یعنی روز قیامت کا اس سلسے میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
136

دین کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کر دی

اولا قرآن نے صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے الدین کا لفظ اختیار کیا ہے اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی۔ وی جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔
نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خوش نودی اور اس کے قہر وغضب کا نتیجہ ہے، اعمال کے نتائج کا اس میں دخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گم راہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ مطلق اعنان بادشای کبھی خوش ہو کر انعام و کرام دینے لگتا ہے، کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے، کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاؤں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربان کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہو گیا تھا، لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی دقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے۔ لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہیتی قوم بنا لیتا کبھی جوش انتقام میں آکر بربادی و ہلاکت کے حوالے کر دیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہو گئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح علیہ السلام قربان نہیں کر دیا، اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہو سکا۔

مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے۔
لیکن قرآن نے جزا و سزا ک اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو
 

مقدس

لائبریرین
137
بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: کائنات ہستی کا عالم گیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے ممکن نہیں یہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و نتائج کے سلسلے سے باہر ہو، پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں۔ اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں، معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرتی خواص و نتائج ہیں جہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہو گئی؟ ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے:
لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ‌ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ
'اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکساں نہیں ہو سکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں'

جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں اسی طرح معنویات میں بھی ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے، ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہو گئی جو پر اس انسان کے لیے ہ جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے گا، ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ یعنی ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کر دی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤم پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ انسان
 

مقدس

لائبریرین
138

کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات، جزاو سزا ہے۔
آگ جلاتی ہے، پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت،دودھ سے طاقت آتی ہے، کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیاء کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر! تم اپنے فیصلوں میں کتنے ناہموار ہو۔
تم گہیوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گہیوں پیدا نہیں ہو گا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گہیوں کی جگہ جوار پیدا ہو جائے تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبعیت میں راسخ ہو گیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دی گی۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گہیوں دے گی۔ تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر بتاؤ! جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی ہے کیونکر ممکن ہے کہ اچھے اعمال کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے پر برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟
أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَ‌حُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٢١﴾ وَخَلَقَ اللَّ۔هُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٢٢
جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انھیں ان لوگوں جیسا کر دیں ھے جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے اعمال اچھے ہیں دونوں برابر ہو جائیں، زندگی میں بھی اور موت میں بھی (اگر ان لوگوں کی فہم و دانش کا یہی فیصلہ ہے تو) افسوس ان کے فیصلے پر اور اللہ نے آسمان و زمین کو (بےکار اور عبث نہیں بنایا ہے بلکہ) حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلا ملے، اور یہ بدلا ٹھیک ٹھیک ملے گا، کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جزا وسزا کے لیے 'الدین' کا لفظ اختیار کیا، کیونکہ مکافات عمل کا مفہوم ادا کرنے کے لیے سب سے موزوں لفظ یہی تھا۔
 

مقدس

لائبریرین
139
اصلاح قرآنی میں "کسب"

اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے اچھے برے کام کرنئ کو جابجا کسب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ ' کسب' کے معنی عربی میں ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں 'کمائی' کے ہیں یعنی ایسا کام جس کے نتیجے سے تم کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہو، اگرچہ فائدے کی جگہ نقصان بھی ہو جائے۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لیے جزا و سزا خود انسان ہی کی کمائی ہے۔ جیسی کسی کی کمائی ہو گی ویسا ہی نتیجہ پیش آئے گا۔ اگر ایک انسان نے اچھے کام کر کے اچھی کمائی کر لی ہے تو اس کے لیے اچھائی ہے۔ اگر کسی نے برائی کر کے برائی کما لی تو اس کے لیے برائی ہے۔

كُلُّ امْرِ‌ئٍ بِمَا كَسَبَ رَ‌هِينٌ ﴿٢١
ہر انسان اس نتیجے کے ساتھ جو اس کی کمائی ہے، بندھا ہوا ہے۔

سورۃ بقرہ میں جزا وسزا کا قاعہ کلیہ بتا دیا۔
لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ
(ہر انسان کے لیے وہی ہے جیسی کچھ اس کی کمائی ہو گی) جو کچھ اسے پانا ہے وہ بھی اس کی کمائی ہے اور جس کے لیے جواب دہ ہوتا ہے وہ بھی اس کی کمائی ہے۔
اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی نسبت ایک عام قاعدہ بتا دیا:
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٣٤
یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ اس کے لیے وہ نتیجہ تھا جو اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ نتیجہ ہے جو تم کماؤ گے۔ تم سے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان لوگوں کےاعمال کیسے تھے؟

علاوہ بریں صاف صاف لفظوں میں جا بجا یہ حقیقت واضح کر دی کہ اگر دین الہی نیک عمل کی ترغیب دیتا ہے اور بد عملی سے روکتا ہے تو یہ صرف اس لیے ہے کہ انسان نقصان و ہلاکت سے بچے اور نجات و سعادت حاصل کرے، یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و قہر سے عذاب دینا چاہتا ہو اور اس سے بچنے کے لیے مذہبی ریاضتوں اور عبادتوں کی ضرورت ہو۔
 

مقدس

لائبریرین
140
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَ‌بُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴿٤٦
جس کسی نے نیک کام کیا اپنےلیے کیا اور جس کسی نے برائی کی تو خود اسی کے آگے آئے گی۔ اور ایسا نہیں ہے کہ تمہارا پرودگار اپنے بندوں کے لیے ظلم کرنے والاہو۔

ایک مشہور حدیث قدسی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یا عبادی! لو ان او لکم و آخر کم والسکم و جنکم کانو ا علٰی اتقی قلب رجل واحد منکم، ما زادفی ملکی شینا۔ یا عبادی! لو ان اولکم و آخر کم و وانسکم و جنکم کانو اعلی افجر قلب رجل واھد منکم، مانقص ذالک من ملکی شینا یا عبادی! لو ان اولکم اآکر کم و انسکم وجنکم قامو ا فی صعید و احد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ، ما نقص ذلک مما عندی الا کما ینقص المخیط اذا ادخل البحر، یا عبادی! انماھی اعمالکم احسیھالکم ثم اوفیکم ایاھا۔ فمن وجد خیرا فلیحمداللہ، ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ (مسلم عن ابی)
اے میرے بندو! اگر تم میں سب انسان جو پہل گزر چکے اور وہ سب جو بعد کر پیدا ہوں گے اور تمام انس اور تمام جن اس شخص کی طرح نیک ہو جاتے جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہے تو یاد رکھو! اس سے میری خدا وندی میں کچھ بھی اضافہ نہ ہوتا۔ اے میرے بندو! اگر وہ سب جو پہلے گزر چکے اور وہ سب جو بعد کو پیدا ہوں گے اور تمام انس اور تمام جن اس شخص کی طرح بدکار ہو جاتے جو تم میں سب سے بدکار ہے، تو اس سے میری خداوندی میں کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ اے میرے بندو! اگر وہ سب جو پہلے گزر چکے اور وہ سب جو بعد کو پیدا ہوں گے ایک مقام پر جمع ہو کر مجھ سے سوال کرتے اور میں ہر انسان کو اس کی منہ مانگی مراد بخش دیتا تو میری رحمت و بخشش کے خزانے میں اس سے زیادہ کمی نہ ہوتی جتنی کہ سوئی کے ناکے جتنا پانی نکل جانے سے سمندر میں ہو سکتی ہے۔ اسے میرے بندو! یاد رکھو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جہنیں میں تمہارے لیے انضباط اور نگرانی میں رکھتا ہوں اور پھر انہیں
 

مقدس

لائبریرین
146

ظلم کے معنی وضع الشنی فی غیر مو ضعہ۔ " یعنی جو بات جس جگہ ہونی چاہیے وہاں نہ ہو بےمحل ہو" تو لغت میں اس حالت کو ظلم کہیں گے، اسی لیے قرآن نے شرک کو ظلم عظیم کہا ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ کوئی بےمحل بات نہیں ہو سکتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کسی چیز کا اپنی صحیح جگہ میں نہ ہونا، ایک ایسی حالت ہے جو حقیقت عدل کے عین منافی ہے۔

طغیان کے معنی ہیں کسی چیز کا اپنی حد سے گزر جانا، دریا کا پانی اپنی حد سے گزر جانا، دریا کا پانی اپنی حد سے بلند ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں'طغی الماء' ظاہر ہے کہ حد سے تجاوز عین عدالت کی ضد ہے۔
اسراف سرف سے ہے سرف کے معنی یہ ہیں کہ "جو چیز جتنی مقدار می جہاں خرچ کرنی چاہیے، اس سے زیادہ خرچ کر دی جائے۔"
تبذیر کے معنی کسی چیز کو ایسی جگہ خرچ کرنا ہے جہاں خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ اسراف اور تبذیر میں مقدار اور محل کا فرق ہوا۔ کھانے میں خرچ کرنا خرچ کا صحیح محل ہے لیکن اگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو یہ اسراف ہو گا۔ دریا میں روپیہ پھینک دینا روپیہ خرچ کرنے کا صحیح محل نہیں ہے۔ اگر تم روپیہ پانی میں پھینک دو تو یہ فعل تبذیر ہو گا۔ دونوں صورتیں عدالت کے منافی ہیں کیونکہ حقیقت عدل مقدار اور محل دونوں میں تناسب چاہتی ہے۔

فساد کے معنی ہی خروج الشنی عن الاعتدال کے ہیں یعنی کسی چیز کا حالت اعتدال سے باہر ہو جانا۔
"اعتداء اور "عنوان" ایک ہی مادہ سے ہیں اور دونوں کے معنی حد سے گزر جانا ہے۔

××××××
 

مقدس

لائبریرین
147

ایاک نعبد وایاک نستعین

قرآن اور صفات الہی کا تصور
قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے سورۃ فاتحہ اس کی سب سے پہلی رونمائی ہے۔ ہم اس مرقوع میں وہ شبیہہ دیکھ سکتے ہیں جو ٖ قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی۔ یہ ربوبیت، رحمت اور عدالت کی شبیہ ہے۔ انہیں تین صفتوں کے تفکر سے ہم اس کے تصور الہی کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔

خدا کا تصور انسان کی روحانی واخلاقی زندگئ کا محور رہا ہے۔ یہ بات کہ مذہب کا معنوی اور نفسیاتی مزاج کیسا ہے؟ اور وہ اپنے پیرووں کے لیے کس طرح کے اثرات رکھتا ہے؟ صرف یہ بات دیکھ کر معلوم کر لی جا سکتی ہے کہ اس کے تصور الہی کی نوعیت کیا ہے۔ 58

انسان کا ابتدائی تصور

جب ہم انسان کے تصورات الوہیت کا ان کے مختلف عہدوں میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے تغیرات کی رفتار کچھ عجیب طرح کی دکھائی دیتی ہے۔ 59۔ اور تعطیل و توجیہ کے عام اصول کام نہیں دیتے۔ موجودات خلقت کے ہر گوشے میں تدریجی ارتقاء (Evolution) کا قانون کام کر رہا ہے اور انسان کا جسم و دماغ بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ جس طرح انسان کا جسم بتدریج ترقی کرتا ہوا نچلی کڑیوں سے اونچی کڑیوں تک پہنچا اسی طرح اس کے دماغی تصورات بھی نچلے درجوں سے بلند ہوتے ہوئے بتدریج اونچے درجوں تک پہنچے، لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کے تصورات کا تعلق ہے، معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال اس سے بالکل برعکس رہی اور ارتقاء کی جگہ ایک طرح کے تنزل یا ارتجاع کا قانون
 

مقدس

لائبریرین
148

یہاں کام کرتا رہا۔ ہم جب ابتدائی عہد کے انسانوں کا سراغ لگاتے ہیں تو ہمیں ان کے قدم آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
انسانی دماغ کا سب سے زیادہ پرانا تصور جو قدامت کی تاریکی میں چمکتا ہے وہ توحید کا تصور ہے یعنی صرف ایک ان دیکھی اور اعلی ہستی کا تصور جس نے انسان کو اور ان تمام چیزوں کو جہنیں وہ اپنے چاروں طرف دیکھ ریا تھا، پیدا کیا لیکن پھر اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے اس جگہ سے اس کے قدم بتدریج پیچھے ہتنے لگے اور توحید کی جگہ کی جگہ آہستہ آہستہ "اشتراک" اور "تعددالہ" کا تصور پیدا ہونے لگا۔ یعنی اب اس ایک ہستی کے ساتھ جو سب سے بالاتر ہے، دوسری قوتیں بھی شریک ہونے لگیں اور ایک معبود کی جگہ بہت سے معبودوں کی چوکھٹوں پر انسان کا سر جھک گیا۔

اگر خدا کے تصور میں وحدت کا تصور انسانی دماغ کا بلند تر تصور ہے اور اشراک اور تعدد کے تصورات نچلے درجے کے تصورات ہیں تو ہمیں اس نتیجہ تک پہنچنا پڑتا ہے کہ یہاں ابتدائی کڑی جو نمایاں ہوئی وہ نچلے درجے کی نہ تھی، اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعد جو کڑیاں ابھریں، انہوں نے بلندی کی جگہ پستی کی طرف رخ کیا۔ گویا ارتقاء کا عما قانون یہاں بےاثر ہو گیا،ترقی کی جگہ رجعت کی اصل کام کرنےلگی۔

انیسویں صدی کے نظریے اور ارتقائی مذہب:

انیسویں صدی کے علماء اجتماعیات کا عام نقطہ خیال یہ تھا کہ انسان کے دینی عقائد کی ابتداء ان اوہامی تصورات سے ہوئی جو اس کے ابتدائی معیشت کے طبعی تقاضوں اور احوال و ظروف کے قدرتی اثرات سے نشو ونما پانے لگے تھے یہ تصورات قانون ارتقاء کے ماتحت درجہ بدرجہ مختلف کڑیوں سے گزرتے رہے اور بالآخر انہوں نے اپنی ترقی یافتہ صورت میں ایک اعلی ہستی اور خالق کل کے عقیدے کی نوعیت پیدا کر لی۔ گویا اس سلسلہ ارتقاء کی ابتدائی کڑی اوہامی تصورات تھے جن سے طرح طرح کی الہی قوتوں کا تصور پیدا ہوا اور پھر اسی تصور نے ترقی کرتے ہوئے خدا کے ایک توحیدی اعتقاد کی شکل اختیار کر لی۔ بے جا نہ ہو گا اگر اختصار کے ساتھ یہاں ان تمام نظریوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے جو اس سلسلے
 

مقدس

لائبریرین
149

میں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے اور وقت کے علمی حلقوں کو متاثر کیا۔
دینی عقائد اور تصورات کی تاریخ بہ حثیت ایک مستقل شاخ علم کے انسیویں صدی کی پیدوار ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب انڈو جرمن (Indo -German) قبائل (یعنی وسط ایشیا کے آریائی قبائل) اور ان کی زبانوں کی تاریخ، روشنی میں آئی تو ان کے دینی تصورات بھی نمایاں ہوئے اور اس طرح بحث و تنقید کا ایک نیا میدان پیدا ہو گیا۔ یہی میدان تھا جس کے مباحث نے انیسویں صدی کے اوائل میں بحث و نظر کی ایک مستقل شاخ پیدا کر دی یعنی دینی عقائد کی پیدائش اور ان کی نشو ونما کی تاریخ کا علم مدون ہونے لگا۔ اسی دور میں عام خیال یہ تھا کہ خدا پرستی کی ابتداء نیچر متھس (Nature - Myths) کے تصورات سے ہوئی، یعنی ان خرافاتی اساطیر سے ہوئی جو مظاہر فطرت کے متعلق بننا شروع ہو گئے تھے مثلاً روشنی کی چمک دمک سے ایک مستقل ہستی کا تصور پیدا ہو گیا۔ بارش کی وقت نے ایک دیوتا کی شکل اختیار کر لی۔ قدیم آریائی تصورات سے کو مظاہر فطرت کی پرستش پر مبنی تھے اس خیال کا مواد فراہم ہوا تھا۔

لیکن انیسویں صدی کے نصف ابتدائی دور میں جب افریقہ اور امیکا کے وحشی قبائل کے حالات روشنی میں آئے تو ان کی دینی تصورات کی تحقیقات نے این نئے نظرئیے کا سامان فراہم کر دیا۔ سنہ 1760ء میں ڈی برو سے (De Brosses) نے انہیں وحشی قبائل کے تصورات سے فیٹش ورشپ (Fetish-worship) کا استنباط کیا تھا، یعنی ایسی اشیاء کی پرستش کا جن سے کسی جنی روح کی وابستگی یقین کی جاتی تھی۔ اب پھر سنہ1851ء میں اے اے کامٹ (A.Comte) نے اسی پرستش سے خدا پرستی کی پیدائش کا نظریہ اختیار کیا اور سرجان لنبک (Sir John Lubbock) نے (جو آگے چل کر لارڈ او بیری(Lord Avebury) کے لقب سے مشہور ہوا) اسے مزید بحث و نظر کا جامعہ پہنایا۔ اس نظریے کا اس عہد میں عام طور پر استقبال کیا گیا اور وقت کے علمی حلقوں لی قبولیت اس نے حاصل کر لی تھی۔

تقریباً اسی عہد میں مین ازم (Manism) یعنی اجدادپرستی کے نظرئیے نے سر اٹھایا۔ اس نظرئیے کی بنیاد اس قیاس پر رکھی گئی تھی کہ انسان آباؤ اجداد کی محبت و عظمت نے
 

مقدس

لائبریرین
150

پہلے ان کی پرستش کی راہ دکھائی، پھر اس پرستش نے قانون ارتقاء کے ماتحت ترقی کر کے خدا پرستی کی نوعیت پیدا کر لی۔ صحرا نشین اور چراگاہوں کی جستجو کرنے والے قبیلوں کے ابتدائی تصورات میں اجداد پرستی کا ذہنی مواد موجود تھا۔ چین کی قدیم تاریخ میں بھی اس پرستش کا سراغ بہت دور تک ملنے لگا تھا۔ اس لیے اس نئے نظرئیے کے لیے ضروری مواد فراہم ہو گیا اور سنہ1870ء میں جب ہربرٹ اسپنسر(Herbert Spencer) نے اپنے آسیبی نظریے(Ghost-theory) کی بنیاد اسی تخیل پر استوار کی تو وہ وقت فلسفیوں اور اجتماعیات کے عالموں کے حلقوں میں اس نے فوراً قبولیت پیدا کر لی۔
اسی عہد میں دوسرا نظریہ بھی بروئے کار آیا اور اس نے غیر معمولی مقبولیے حاصل کر لی۔ یہ ای بی ٹیلر(E.B.Tylor) کا اینمزم (Animism) کا نظریہ تھا۔ سنہ1872ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب پری می ٹیو کلچر(Primitive Culture) شائع کی اور اس میں دینی عقائد کی کم از کم تعریف اینمزم کے ذریعے کی۔ اینمزم سے مقصود یہ ہے کہ انسان کے تصورات میں اس کی جسمانی زندگی کے علاوہ ایک مستقل "روحانی زندگی" کا تصور بھی پیدا ہو جائے اس مستقل روحانی زندگی کا تصور ٹیلر کے نزدیک خدا پرستی اور دینی عقائد کا بنیادی مادہ تھا۔ اسی مادہ نے نشو ونما پا کر خدا کی ہستی کے عقیدے کی نوعیت پیدا کر لی غالباً دینی عقائد کی پیدائش کے تمام نظریوں میں یہ پہلا نظریہ ہے جو علمی طریقے پر پوری طرح مرتب کیا گیا اور بحث و نظر کے تمام اطراف و جوانب منظم اور آراستہ کیے گئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے تمام علمی حلقوں پر اس نظریے نے ایک خاص اثر ڈالا تھا اور عام طور پر ایک مقررہ اور طے شدہ اصول کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اس نظریے کا یہ اقتدار بلا اسشناء قائم رہا۔

اسی اثناء میں مصر، بابل اور اشوریا کے قدیم آثار و کتبات کے حل سے تاریخ قدیم کا ایک بالکل نیا میدان روشنی میں آنے لگا تھا اور ان آثار کے مباحث نے مستقل علوم کی حثیت پیدا کر لی تھی۔ اس نئے مواس نے مظاہر فظرے کی پرستش کی اصل کو از سر نو اہمیت دے کر ابھار دیا، کیونکہ وادی نیل اور وادی دجلہ و فرات کے یہ دونوں قدیم تمدن دینی عقائد کے یہی تصورات نمایاں کرتے تھے۔ چنانچہ اب پھر ایک نیا مذہب (اسکول) پیدا ہو گیا جو
 

مقدس

لائبریرین
151

خدا پرستی کی پیدائش کی ابتدائی بنیاد، مظاہر فطرت کے تاثرات کو قرار دیتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ اجرام سماوی کے تاثرات پر زور دیتا تھا۔ اس نظریے کے حامیوں نے اینمزم (Animism) کی مخالفت کی اور ایسٹرل اینڈ نیچر میتھا لوجسٹس(Astral and nature mythologists) کے نام سے مشہور ہوئے۔
لیکن انیسویں صدی کے نصف آخری حصے میں جب کہ یہ تمام نظریے سر اٹھا رہے تھے۔ دوسری طرف ایک خاص علمی حلقہ ایک دوسرے نظریہ کی بنیاد بھی چن رہا تھا۔ اس نظریے کا مواد قدیم ترین تمدنی عہد کے شکار پیشہ قبائل کے تصورات نے بہم پہنچایا تھا جن کے حالات اب تاریخ کی دسترس سے باہر نہیں رہے تھے۔ یہ نظریہ ٹوٹمزم (Totemism) کے نام سے مشہور ہوا اور بہت جلد اس نے وقت کے علمی حلقوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ٹوٹمزم سے مقصود مختلف اشیاء اور جانوروں کے وہ انتسابات ہیں جو جمعیت بشری کی ابتسائی قبائلی زندگی میں پیدا ہو گئے تھے اور پھر کچھ عرصے کے بعد ان اشیاء اور جانوروں کا غیرمعمولی احترام کیا جانے لگا اور اس نظریے کی رو سے خیال کیا گیا کہ ہندوستان کی گائے، مصر کا مگرمچھ اور بیل، شمالی خطوں کے ریچھ اور صحرا نشین قبائل کا سفید بچھڑا ااور اصل ٹوٹمزم ہی کے بقایا ہیں۔ سب سے پہلے 1885ء میں رابرٹس اسمتھ (Robertson Smith) نے اس نظریے کا اعلان کیا تھا پھر وقت کے دوسرے نظار نے بھی اس رخ پر قدم اٹھایا۔
لیکن کچھ عرصے بعد اس نظریے کی مقبولیت مجروح ہونا شروع ہو گئی۔ پروفیسر جے جی فریزر(J.G.Frazer) کا جمع کیا مواد جن منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ ٹوٹمزم(Totemism) کے تصورات نہ تو دینی تصورات کی نوعیت رکھتے تھے نہ دینی تصورات کا مبدہ بننے کی صلاحیت تھی۔ ان کی اصل نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک اجتماعی نظام کی تھی جس کے ساتھ طرح طرح کے تصورات کا ایک سلسلہ وابستہ ہو گیا تھا۔ اس سے زیادہ انہیں اس سلسے میں اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
مگر اس سلسلے میں معاملہ کا ایک اور گوشہ بھی نمایاں ہوا تھا۔ رفیزر نے ٹوٹمزم نے تصورات میں ایک خاص قسم ایسے بھی پائی تھی جس میں دینی عقائد کا ابتدائی مواد بننے کی زیادہ صلاحیت دکھائی دیتی تھی یعنی وہ قسم جو جادو کے اعتقاد سے تعلق رکھتی تھی، بحث و نظر کے اس گو
 

مقدس

لائبریرین
152

شے نے مفکروں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور جادو کا نظریہ علمی حلقوں میں روشناس ہو گیا۔ 1892ء میں ایک امریکی عالم جے کے کنیگ (J.J.Kenneg) اس پہلو پر توجہ دلا چکا تھا۔ اب بیسویں صدی کی ابتدائی برسوں میں بیک وقت جرمنی، انگلینڈ، فرانس اور امریکا کے علمی حلقوں سے اس کی بازگشت شروع ہو گئی۔ اور اینمزم کے خلاد ردفعل کام کرنے لگا۔ اب یہ خیال عام طور پر پھیل گیا کہ اینمزم کے تصورات سے پیش تر بھی انسانی تصورات کا ایک دور رہ چکا ہے۔ اور یہ ماقبل اینمزم(Pre-animism) دور جادو کے تصورات کا دور تھا۔ اسی جادو کے اعمال کے عقیدے نے آگے چل کر روحانی عقائد کی شکل اختیار کر لی اور خدا پرستی اور دینی عقائد کے مبادات پیدا ہو گئے۔
اب جادو کا نظریہ ایک عام مقبول نطریہ بن گیا اور پچھلے نظریے اپنی جگہ کھونے لگے نہ 1895ء میں آر آر میرٹ (R.R.Marett) نے سنہ1902ء میں ہیوٹ (Hewitt) نے، سنہ1904ء میں کے پرییو (K.Preuss) نے سنہ1907ء میں اے فیر کنڈٹ (A.Vier.Kandt) نے اور 1908ء میں ای ایس ہارٹلینڈ (E.S Hartland) نے اسی نظریے پر اپنے بحث و فکر کی تمام دیواریں اٹھائیں اور اسے دور تک پھیلاتے چلے گئے۔ سب سے زیادہ حصہ اس میں فرانس کے علماء اجتماعایات کے اس طبقے نے لیا جو درخیم (Durkheim)کے مسلک نظر سے تعلق رکھتا تھا، اس طبقے کا زعیم پہلے ایچ ہوبرٹ (H.Hubert) اور ایم ماس (M.Mauss) تھا, پھر سنہ1912ء میں خود درخیم آگے بڑھا اور اس نظرئیے کا سب سے بڑا علم بردار بن گیا۔ اس گروہ کی رائے میں ٹوٹمزم (Totemism) اور جادو کے تصوراے کا مرکب مجموعہ جیسا کہ وسط آسٹریلیا کے قبائل کے ادھام میں پایا جاتا ہے جمعیت بشری کے دینی تصورات کا اصلی مبدا تھا۔ قانون ارتقاء ک انھیں تصوارات نے خداپرستی کے عقائد کی ترقی یافتہ شکل پیدا کر لی۔
اس زمانے کے چند سال بعد بعض پروٹیسٹنٹ (Protestant)علماء نے جو دینی عقائد کے نفسیاتی مطالعے میں مشغول تھے اس مسئلے پر نفسیاتی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالی اور اس نظریئے کی حمایت شروع کر دی۔ وہ اس طرف گئے کہ خدا پرستی کے عقیدے کا مبدا ہمیں مذہب اور سحرکاری دونوں کے مرکب تصورات میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اس جماعت کا پیش
 

مقدس

لائبریرین
153

رو آرچ بشپ سوڈ بلویم (Soderblom) تھا جس کے مباحث 1916 میں شائع ہوئے۔
اس کے بعد کا زمانہ پہلی علم گیر جنگ کا زمانہ تھا جو چوبیسویں صدی کا ایک دور ختم کرکے دوسرے دور کا دروازہ کھول رہی تھی۔ اس نئے دور نے جہاں علم ونظر کے بہت سے گوشوں کو انقلابی تغیرات سے آشنا کیا وہاں علم کی اس شاخ میں بھی ایک نیا انقلابی دور شروع ہو گیا۔
یہ تمام پچھلےنظرئیے مادی مذہب ارتقاء (Materialistic Evolutionism) کی اصل پر مبنی تھے۔ ان سب کے اندر یہ بنیادہ اصل کام کر رہی تھی کہ اجسام و مواد کی طرح انسان کا دینی عقیدہ بھی بتدریج نچلی کڑیوں سے ترقی کرتا ہوا اعلٰی کڑیوں تک پہنچتا ہے اور خدا پرستی کے عقیدے میں توحید (Monotheism) کا تصور ایک طول طویل سلسہ ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ڈارون ازم کے شیوع وا احاطے کا زمانہ تھا بچنر(Buchner) ، ویلز(Wells)، اور اسپنسر(Spencer) ، نے اسے اپنے فلسیفانہ مباحث سے انسانی فکر و عمل کے تمام دائروں میں پھیلا دیا تھا، قدرتی طور پر خدا کے اعتقاد کی پیدائش کا مسئلہ بھی اس سے متاثر ہوا اور نظر و بحث کے جتنے قدم اٹھے وہ اس راہ پر گامزن ہونے لگے۔

مذہب ارتقاء کا خاتمہ اور زمانہ حال کی تحقیات

لیکن ابھی بیسویں صدی اپنے انقلاب انگیز انکشافوں میں بہت آگے نہیں بڑھی تھی کہ ان تمام نظریوں کی عمارتیں متزلزل ہونا شروع ہو گئیں اور پہلی عالم گیر جنگ کے بعد نے تو نہیں یک قلم منہدم کر دیا۔ اب تمام اہل نظر بالاتفاق دیکھنے لگے کہ اس راہ میں جتنے قدم اٹھائے گئے تھے وہ سرے سے اپنی بنیاد میں ہی غلط تھے، کیونکہ ان سب کی بنیاد قانون ارتقاء کی اصل پر رکھی گئی تھی اور ارتقائی اصل کی راہ نمائی یہاں سودمند ہونے کی جگہ کم راہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اب انہیں ٹھوس اور ناقابل انکار تاریخی شواہد کی روشنی میں صاف صاف نظر آگیا کہ انسان کے دینی عقائد کی جس نوعیت کو انہوں نے اعلٰی اور ترقی یافتہ قرار دیا تھا وہ بعد کے زمانوں کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ جمعیت بشری کی سب سے پرانی متاع ہے۔ مظاہر فطرت کی پرستش، حیوانی انتسابات کے تصورات، اجداد پرستی کی رسوم اور جادو کے توہمات
 

مقدس

لائبریرین
154

کی اشاعت سے بھی بہت پہلے جو تصور، انسانی دل و دماغ کے افق پر طلوع ہوا تھا وہ ایک اعلٰی ترین ہستی کی موجودگی کا بےلاگ تصور تھا یعنی خداکی ہستی کا توحیدی اعتقاد تھا۔
چنانچہ اب بحث و نظر کے اس گوشے میں ارتقائی مذہب کا یک قلم خاتمہ ہو چکا ہے۔
ڈبلیو شمٹ (W.Schmidt) پروفیسر وائنا یونیورسٹی جنہوں نے اس موضوع پر زمانہ حال کی سب سے بہتر کتاب لکھی ہے لکھتے ہیں:

"علم شعوب و قبائل انسانی کے پورے میدان میں پرانا ارتقائی مذہب یکسر دیوالیہ ثابت ہو چکا ہے۔ نشو ونما کی مرتب کڑیوں کا وہ خوش نما سلسلہ جو اس مذہب نے پوری آمادگی کے ساتھ تیار کر دیا تھا اب ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور نئے تاریخی رجحانوں سے اسے اٹھا کر پھینک دیا ہے"

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انسان کی ابتدائی عمران و تمدن کے تصور کی اعلی ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد کا خدائے واحد تھا اور انسان کا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایک توحیدی دین تھا۔ یہ حقیقت اب اس درجہ نمایاں ہو چکی ہے کہ ایک سرسری تحقیق بھی اس کے لیے کفایت کرے گی۔ نسل انسانی کے قدیم پستہ قد قبائل میں سے اکثروں کی نسبت یہ بات وثوق سے کہہ جا سکتی ہے۔ اس طرح ابتدائی عہد کے جنگلی قبیلوں کے جو حالات روشنی میں آئے ہیں اور کرنائی(Kurnai) ، جولن (Julin) اور جنوب مشرقی آسٹریلیا کے یائن(Yuin) قبیلوں کی نسبت جس قدر تاریخی مواد مہیا ہوا ہے ان سب کی تحقیقات ہیں اس نتیجے تک پہنچاتی ہے۔ آرکٹک (Arctic) تہذیب کے قبیلوں کے روایتی آثار اور شمالی امریکا کے قبائل کے دینی تصورات کی چھان بین نے بھی بالآخر اسی نتیجے کو نمایاں کیا۔"

زمانہ حال کے نظار نے اب اس مسئلے کا موضوعاتی(Pantologic) طریق نظر سے مطالعہ کیا ہے اور قدیم معلومات و مباحث کی تمام شاخیں جمع کر کے مجموعی نتائج نکالے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سلسلے کی بعض جدید تحقیات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے کیونکہ ابھی وہ اس درجہ شائع نہیں ہوئی ہیں کہ عام طور پر نظر و مطالعے میں آ چکی ہوں۔
 

مقدس

لائبریرین
155

آسٹریلیا اور جزائز کے وحشی قبائل اور مصر کے قدیم ترین آثار کی جدید تحقیقات

آسٹریلیا اور جزائز بحر محیط کے وحشی قبائل ایک غیر معین قدامت سے اپنی ابتدائی ذہنی طفولیت کی زندی بسر کرتے رہے۔ زندگی و معیشت کی وہ تمام ترقی یافتہ کڑیاں جو عام طور پر انسانی جماعتوں کے ذہنی ارتقاء کا سلسلہ مربوط کرتی ہیں یہاں ےک سر مفقودر ہیں۔ ابتدائی عہد کی بشری جمعیت کے تمام جسمانی اور دماغی خصائص ان کی قبائل کی زندگی میں دیکھ لیئے جا سکتے تھے، ان کے تصور اس درجہ محدود تھے کہ اوہام و خرافات میں بھی کسی طرح کا ارتقائی نظم نہیں پایا جاتا۔ تاہم ان کا ایک اعتقادی تصور بالکل واضح تھا، ایک بالاتر ہستی ہے جس نے ان کی زمین اور ان کا آسمان پیدا کیا ہے اور ان کا مرنا اور جینا اسی قبضہ و تصرف میں ہے۔ مصر کے قدیم باشندوں کی صدائیں آٹھ ہزار برس پیش تر تک کی ہمارے کانوں سے ٹکرا چکی ہیں۔ قدیم مصری تصورات کا پورا سلسلہ اپنی عہد بعہد کی تبدیلیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ابھر آیا ہے۔ ہمیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کا تصور اس سلسلے میں بعد کو نہیں ابھرا، بلکہ سلسلے کئ سب سے زیادہ پرانی کڑی ہے۔ مصر کے وہ تمام معبوس جن کے مرقعوں سے اس کے مشہور ہیکلیں اور دیواریں منقش کی گئی ہیں، اس قدیم ترین عہد میں اپنی کوئی نمود نہیں رکھتے تھے جب صرف ایک اسیریز(Osiris) کی ان دیکھی ہستی کا اعتقاد دریائے نیل کی تمام آباد وادیوں پر چھایا ہوا تھا۔

دجلہ و فرات کی وادیوں کی قدیم آبادیاں اور خدا کی ہستی کا تو حیدی تصور:

پہلی عالمگیر جنگ کے برد عراق کے مختلف حصوں کی کھدائی جوں ہی مہمیں شروع کی گئی تھیں اور جو موجودہ جنگ کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں اس کے انکشافات نے اس مسئلے کے لیے نئی روشنیاں بہم پہنچائی ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاتا کہ دریائے نیل کی طرح دجلہ اور فرات کی وادیوں میں بھی انسان نے پہلے پہل اپنے خدا کو پکارا تو وہ بہت ہی ہستوں میں بٹا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک ہی ان دیکھی ہستی کی صورت میں نمایاں ہوا تھا۔ کالڈ یا (Chaldea) کے سومیری (Summerian) اور عکادی (Akadian) قبائل جن انسانی نسلوں کے وارث ہوئے تھے وہ شمس یعنی سورج اور نانعار یعنی چاند کی پرستش نہیں
 
Top