ام اویس
محفلین
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
حضرت سودہؓ کے والد کا نام زمعہ تھا اور والدہ کا نام شموس بنت قیس تھا۔
قریش کے قبیلے عامر بن لُؤیّ سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے۔
سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبددود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لُؤیّ
ان کا پہلا نکاح سکران بن عمرو سے ہوا جو کہ ان کے چچا زاد تھے ۔ ان سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا ۔ حضرت سودہ اور ان کا شوہر دونوں اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوگیے
جب دوسری مرتبہ مسلمان ہجرت کرکے حبش گئے تب حضرت سودہ مع اپنے شوہر کے مکہ سے حبش چلی گئیں ۔ حبش سے واپس آئیں تو مکہ میں سنہ 3 قبل ہجری میں ان کے خاوند کا انتقال ہو گیا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تھی، بن ماں کی بچیوں کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعیت مبارک افسردہ رہتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی کہ
’’ یا رسول اللہ! خدیجہ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔‘‘
خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:
’’ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رفیق و غمگسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے نکاح ثانی کیلئے سلسلہ جنبانی کروں؟۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمالیا۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی حرم نبوی بننے پر اظہار رضامندی کیا۔ ان کے والد زمعہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قبول کر لیا اور اپنی لخت جگر کا نکاح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو درہم پر خود پڑھایا۔نکاح کے بعد ان کے صاحبزادے عبداللہ گھر تشریف لائے ، وہ ابھی تک مشرّف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، اس نکاح کا حال سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور سر پر خاک ڈالی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت قلق رہا۔
یہ مبارک نکاح باختلاف روایت اواخر رمضان یا شوّال سنہ ۱۰ بعد بعثت میں ہوا۔
اس وقت حضور ﷺ کی عمر 50 سال تھی او رحضرت سودہؓ بھی 50سال کی تھیں۔
مکہ مکرمہ کے ابتدائی دردناک حالات میں اُن کا اسلام قبول فرمانا موت، تشدد اور خطرات کے سمندر میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا ۔ اُنہوں نے اسلام کو سمجھا اور قبول فرمایا
سابقین اولین ایک سو بیس افراد جو اسلامی معاشرے کی بنیاد بنے وہ اُن میں شامل تھیں۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنی مؤثر دعوت کے ذریعہ اپنے خاوند کو اور اپنے قبیلے کے کئی افراد کو دعوت حق قبول کرنے پر مائل کیا۔
اُن کی ہمت، جرأت، استقامت ، سنجیدہ و باوقار شخصیت… اور اسلام کے ساتھ اُن کی وفاداری اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ…اُن کے لئے بڑی خوش نصیبی کا فیصلہ ہو گیا
اُنہوں نے آپ ﷺ کی چہیتی ، لاڈلی اور صاحب مقامات بیٹیوں کی دل وجان سے پرورش کی… جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ہوئی تو مسجد نبوی کے متصل جو پہلا حجرہ بنا
وہ حجرات جن کا تذکرہ قرآن مجید میں چمکتا ہے اُن حجرات میں پہلا حجرہ حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا
آم المؤمنین حضرت سودہ رضی الله عنھا کے فضائل و مناقب اور حالات بہت مفصل اور سبق آموز ہیں ۔ خاص طور پر حضور اقدسﷺکے وصال کے بعد اُن کی اطاعت، عبادت، صدقات اورخیرات کے واقعات ، حتی کہ انہوں نے حضور اقدسﷺ کے بعد حج کا سفر تک نہ فرمایا کہ حضرت آقا مدنیﷺکے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو کہ آپ نے گھر میں رہنے کا فرمایا تھا ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر وہ حضرت آقا مدنی ﷺ کے ساتھ اپنا فرض حج ادا فرما چکی تھیں
حضرت سودہؓ کے والد کا نام زمعہ تھا اور والدہ کا نام شموس بنت قیس تھا۔
قریش کے قبیلے عامر بن لُؤیّ سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے۔
سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبددود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لُؤیّ
ان کا پہلا نکاح سکران بن عمرو سے ہوا جو کہ ان کے چچا زاد تھے ۔ ان سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا ۔ حضرت سودہ اور ان کا شوہر دونوں اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوگیے
جب دوسری مرتبہ مسلمان ہجرت کرکے حبش گئے تب حضرت سودہ مع اپنے شوہر کے مکہ سے حبش چلی گئیں ۔ حبش سے واپس آئیں تو مکہ میں سنہ 3 قبل ہجری میں ان کے خاوند کا انتقال ہو گیا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تھی، بن ماں کی بچیوں کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعیت مبارک افسردہ رہتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی کہ
’’ یا رسول اللہ! خدیجہ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔‘‘
خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:
’’ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رفیق و غمگسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے نکاح ثانی کیلئے سلسلہ جنبانی کروں؟۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمالیا۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی حرم نبوی بننے پر اظہار رضامندی کیا۔ ان کے والد زمعہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قبول کر لیا اور اپنی لخت جگر کا نکاح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو درہم پر خود پڑھایا۔نکاح کے بعد ان کے صاحبزادے عبداللہ گھر تشریف لائے ، وہ ابھی تک مشرّف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، اس نکاح کا حال سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور سر پر خاک ڈالی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت قلق رہا۔
یہ مبارک نکاح باختلاف روایت اواخر رمضان یا شوّال سنہ ۱۰ بعد بعثت میں ہوا۔
اس وقت حضور ﷺ کی عمر 50 سال تھی او رحضرت سودہؓ بھی 50سال کی تھیں۔
مکہ مکرمہ کے ابتدائی دردناک حالات میں اُن کا اسلام قبول فرمانا موت، تشدد اور خطرات کے سمندر میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا ۔ اُنہوں نے اسلام کو سمجھا اور قبول فرمایا
سابقین اولین ایک سو بیس افراد جو اسلامی معاشرے کی بنیاد بنے وہ اُن میں شامل تھیں۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنی مؤثر دعوت کے ذریعہ اپنے خاوند کو اور اپنے قبیلے کے کئی افراد کو دعوت حق قبول کرنے پر مائل کیا۔
اُن کی ہمت، جرأت، استقامت ، سنجیدہ و باوقار شخصیت… اور اسلام کے ساتھ اُن کی وفاداری اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ…اُن کے لئے بڑی خوش نصیبی کا فیصلہ ہو گیا
اُنہوں نے آپ ﷺ کی چہیتی ، لاڈلی اور صاحب مقامات بیٹیوں کی دل وجان سے پرورش کی… جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ہوئی تو مسجد نبوی کے متصل جو پہلا حجرہ بنا
وہ حجرات جن کا تذکرہ قرآن مجید میں چمکتا ہے اُن حجرات میں پہلا حجرہ حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا
آم المؤمنین حضرت سودہ رضی الله عنھا کے فضائل و مناقب اور حالات بہت مفصل اور سبق آموز ہیں ۔ خاص طور پر حضور اقدسﷺکے وصال کے بعد اُن کی اطاعت، عبادت، صدقات اورخیرات کے واقعات ، حتی کہ انہوں نے حضور اقدسﷺ کے بعد حج کا سفر تک نہ فرمایا کہ حضرت آقا مدنیﷺکے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو کہ آپ نے گھر میں رہنے کا فرمایا تھا ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر وہ حضرت آقا مدنی ﷺ کے ساتھ اپنا فرض حج ادا فرما چکی تھیں
آخری تدوین: