امیرالمومنین کی عید

محمداحمد

لائبریرین
عید کے دن لوگ کاشانہ خدمت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر تعجب سے عرض کیا۔

یا امیر المومنین ! آج تو عید کا دن ہے، مسرت و شادمانی اور خوشی منانے کا دن ۔ یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟

آنسو پونچھتے ہوئے آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا۔

"اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔ آج جس کے نماز روزے مقبول ہوگئے بلاشبہ آج اس کے لئے عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز اور روزہ کو اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے آج وعید کا دن ہے۔ اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوں یا رد کردیا گیا ہوں ۔


"ایک تحریر جو عید کے موقع پر یاد آتی ہے۔ "

بشکریہ : کرن ڈائجسٹ
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر#

یہ وہ لوگ تھے جنہیں روزے کی اہمیت کا ادراک تھا اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ اور روزہ بھی ایسا کہ آنکھ اور کان کا بھی روزہ، زبان کا بھی روزہ، ہاتھ اور پاؤں کا بھی روزہ اور ایک ہم ہیں کہ بس کھانا پینا چھوڑ دیا اور سمجھ لیا کہ روزہ ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمارے صیام و قیام کو قبول و منظور فرمائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
امیر المومنین سے آپ کی مراد سیدنا عمر ہیں۔

قرین از قیاس تو یہی ہے لیکن اس تحریر میں کوئی حوالہ اور نام موجود نہیں تھا سو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ پچھلے سال یہ تحریر کہیں سے اپنے بلاگ پر نقل کی تھی وہاں صرف کرن ڈائجسٹ کا حوالہ تھا جسے ہم نے بھی نقل کردیا۔ نیت صرف یہ تھی کہ تحریر میں جس خیال یا احساس کا ذکر ہے وہ دوستوں تک پہنچ جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر#

یہ وہ لوگ تھے جنہیں روزے کی اہمیت کا ادراک تھا اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ اور روزہ بھی ایسا کہ آنکھ اور کان کا بھی روزہ، زبان کا بھی روزہ، ہاتھ اور پاؤں کا بھی روزہ اور ایک ہم ہیں کہ بس کھانا پینا چھوڑ دیا اور سمجھ لیا کہ روزہ ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمارے صیام و قیام کو قبول و منظور فرمائے۔

آمین۔

ٹھیک کہا شمشاد بھائی آپ نے۔
 
علامہ شبلی نعمانی ’’الفاروق‘‘ میں لکھتے ہیں۔​
امیر المئومنین کا لقب کیوں اختیار کیا۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اصول مساوات کے ساتھ اپنے لیے امیر المئومنین کا پر فخر لقب کیوں ایجاد کیا۔ اصل یہ ہے کہ اس زمانے تک یہ لقب کوئی فخر کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ اس سے صرف عہدہ اور خدمت کا اظہار ہوتا تھا۔ افسران ِ فوج عموماً امیر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ کفارِ عرب آنحضرت ﷺ کو امیرِ مکہ کہتے تھے۔ سعد بن ابی وقاص کو عراق میں لوگوں نے امیر المئومنین کہنا شروع کردیا تھا۔
حضرت عمر کو اس لقب کا خیال تک نہ تھا۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ ایک دفعہ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم مدینے میں آئے اور حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ قاعدہ کے موافق اطلاع کروائی گئی اور چونکہ کوفے میں رہ کر امیر المئومنین کا لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا تھا اطلاع کی اوریہی خطاب استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس خطاب کی وجہ پوچھی ۔ انھوں نے کیفیت واقعہ بیان کی۔ اس لقب کو پسند کیا ور اسی تاریخ سےاس کو شہرتِ عام ہوگئی۔​
( الفاروق۔ سیاست و تدبر ، عدل وانصاف۔ از علامہ شبلی نعمانی)​
 
اس واقعے کو پڑھ کر سوچتا ہوں میری ٹھوکریں (نمازیں) اور فاقے (روزے) اللہ کی بارگاہ میں کیا حیثیت رکھتی ہوں گی؟ اللہ کریم مجھے معاف فرمائے! آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرین از قیاس تو یہی ہے لیکن اس تحریر میں کوئی حوالہ اور نام موجود نہیں تھا سو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ پچھلے سال یہ تحریر کہیں سے اپنے بلاگ پر نقل کی تھی وہاں صرف کرن ڈائجسٹ کا حوالہ تھا جسے ہم نے بھی نقل کردیا۔ نیت صرف یہ تھی کہ تحریر میں جس خیال یا احساس کا ذکر ہے وہ دوستوں تک پہنچ جائے۔

گو کہ خلیل بھائی نے وضاحت کر دی ہے۔ پھر بھی ربط یہ رہا۔
 
Top