نعمان حجازی
محفلین
احسن عزیز رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے۔۔۔
بچے تھے!
اور چھپن چھپائی کھیل رہے تھے
بہنیں تھیں!
اور ندیا سے ڈھوتی تھیں پانی
اماں کھانا پکا رہی تھیں
باپ اور بھائی مسجد سے لوٹے ہی تھے کہ ۔۔۔
اتنے میں گونجا اک کڑکا
بجلی چمکی شعلہ بھڑکا
دور کہیں اسکرین پہ بیٹھا
بربطِ قیصر کا سازندہ
جنگِ صلیب کا اک کارندہ
اپنے ہاتھوں کے کرتب سے
خونی داؤ کھیل چکا تھا!
دجالی آتش دانوں سے
آگ کا گولہ ریل چکا تھا
مٹی تنکوں کے چھپڑ کو
لمحے بھر میں ٹھیل چکا تھا!
اب ملبے کے ان ڈھیروں میں
کھیل نہیں تھا
ڈول نہیں تھے
اللہ ہو کے بول نہیں تھے!
لہو رسیدہ ۔۔۔۔ بدن دریدہ
پھول پراندے بکھر چکے تھے
غنچے کھل کر نکھر چکے تھے!
دور کہیں اسکرین پہ بیٹھا
بربط قیصر کا سازندہ
نشے میں دھت ایک درندہ
بازی اپنی جیت چکا تھا
دوزخ جنت کی تقسیم کا۔۔۔ نازک لمحہ بیت چکا تھا!
مانتے ہیں سب
ڈرون غصب ہیں!
پر کچھ ناداں یہ کہتے ہیں
اس غم کا چند لوگ سبب ہیں!
سوچتا ہوں یہ لوگ عجب ہیں!
کیا ان کو معلوم نہیں ہے
یہ پروازیں خود شاہد ہیں
نیچے خاک نشینوں میں یاں
کچھ اہل ایمان رہتے ہیں
امت کے زخموں کو یہ سب
اپنے سینوں پر سہتے ہیں
سو دھرتی کے آنگن میں جب
دین کے پہرے دار نہ ہوں گے
فضا سے ڈرون کے وار نہ ہوں گے!
خوف و خطر آزار نہ ہوں گے
نہ ہی لوگ یہ کڑھتے ہوں گے
لیکن دھرتی کے آنگن میں
علم صلیبی اڑتے ہوں گے!!!!
بچے تھے!
اور چھپن چھپائی کھیل رہے تھے
بہنیں تھیں!
اور ندیا سے ڈھوتی تھیں پانی
اماں کھانا پکا رہی تھیں
باپ اور بھائی مسجد سے لوٹے ہی تھے کہ ۔۔۔
اتنے میں گونجا اک کڑکا
بجلی چمکی شعلہ بھڑکا
دور کہیں اسکرین پہ بیٹھا
بربطِ قیصر کا سازندہ
جنگِ صلیب کا اک کارندہ
اپنے ہاتھوں کے کرتب سے
خونی داؤ کھیل چکا تھا!
دجالی آتش دانوں سے
آگ کا گولہ ریل چکا تھا
مٹی تنکوں کے چھپڑ کو
لمحے بھر میں ٹھیل چکا تھا!
اب ملبے کے ان ڈھیروں میں
کھیل نہیں تھا
ڈول نہیں تھے
اللہ ہو کے بول نہیں تھے!
لہو رسیدہ ۔۔۔۔ بدن دریدہ
پھول پراندے بکھر چکے تھے
غنچے کھل کر نکھر چکے تھے!
دور کہیں اسکرین پہ بیٹھا
بربط قیصر کا سازندہ
نشے میں دھت ایک درندہ
بازی اپنی جیت چکا تھا
دوزخ جنت کی تقسیم کا۔۔۔ نازک لمحہ بیت چکا تھا!
مانتے ہیں سب
ڈرون غصب ہیں!
پر کچھ ناداں یہ کہتے ہیں
اس غم کا چند لوگ سبب ہیں!
سوچتا ہوں یہ لوگ عجب ہیں!
کیا ان کو معلوم نہیں ہے
یہ پروازیں خود شاہد ہیں
نیچے خاک نشینوں میں یاں
کچھ اہل ایمان رہتے ہیں
امت کے زخموں کو یہ سب
اپنے سینوں پر سہتے ہیں
سو دھرتی کے آنگن میں جب
دین کے پہرے دار نہ ہوں گے
فضا سے ڈرون کے وار نہ ہوں گے!
خوف و خطر آزار نہ ہوں گے
نہ ہی لوگ یہ کڑھتے ہوں گے
لیکن دھرتی کے آنگن میں
علم صلیبی اڑتے ہوں گے!!!!