امریکی مقتول بچے، پاکستانی مقتول بچے اور صدر اوبامہ

یوسف-2

محفلین
’’محض الفاظ آپ کے دکھوں کامداوانہیں کرسکتے اورنہ ہی آپ کے زخمی دل کومندمل کرسکتے ہیں۔۔۔اس قسم کے المیوں کواب ختم ہوناچاہیے اوران افسوسناک واقعات کوختم کرنے کے لیے ہمیں لازمی طورپر تبدیلی لانا ہوگی‘‘۔جوکچھ صدراوبامہ نے نیوٹاؤن میں بیس بچوں کی ہلاکت پرکہا،ان کی اس رائے سے تمام والدین متفق ہیں۔اس وقت بمشکل کوئی ہی ایساشخص ہوگاجس کی ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ ہو اورجونیوٹاؤن میں ہونے والے المیے سے متاثرنہ ہواہو۔یہ امربھی یقینی طورپریادرکھنی چاہیے کہ ایک پاگل نوجوان کے ہاتھوں بچوں کی ہلاکت کی اس صورت حال کا اطلاق ایک افسردہ صدرکے ہاتھوں پاکستان میں ہلاک ہونے والے بچوں پربھی ہوتاہے۔دنیاکے کسی بھی حصے کے بچے انسانیت کے ناتے یکساں اہمیت کے حامل ہیں اورعالمی برادری کی توجہ کے مستحق ہیں۔ لیکن ان کے لیے تو صدر کوئی الفاظ نہیں کہتے اورنہ ہی ان کی آنکھوں سے کوئی آنسوبہتاہے۔نہ ہی دنیاکے کسی مشہوراخبارکے صفحۂ اول پران کی تصویرشائع ہوتی ہے۔ان کے غم زدہ عزیزوں سے کوئی انٹرویوبھی نہیں لیتا اوراس صورت حال کامعمولی ساتجزیہ کرنے کی کوئی زحمت بھی گوارانہیں کرتا۔
اگراوبامہ کی طرف سے کیے گئے ڈرون حملوں کاشکارہونے والے بچوں کاذکرریاست کی سطح پرکیابھی جاتاہے تواس لحاظ سے کیاجاتاہے کہ جیسے وہ انسان نہیں۔رولنگ سٹون میگزین کی ایک اطلاع کے مطابق جولوگ ڈرون طیاروں کوحملوں کے لیے بھیجتے ہیں،وہ بچوں کے قتل عام کو’’حشرات الارض کاقتل ‘‘سمجھتے ہیں کیونکہ ڈرون حملوں سے ہلاک شدہ افراد کی فضاسے لی گئی تصاویرسے ظاہرہوتاہے کہ جیسے کیڑے مکوڑے مارے گئے ہیں۔یہ ہلاک شدہ بچے ایسے نظرآتے ہیں جیسے کٹی ہوئی گھاس ہو۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اوبامہ کے مشیربروس ریڈل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’آپ کولان میں ہمیشہ ہی گھاس کی کٹائی کرنی ہوگی مباداگھاس دوبارہ اگ آئے۔‘‘
عراق میں جارج بش حکومت کے مانند، اوبامہ انتظامیہ بھی شمال مغربی پاکستان میں سی آئی اے کی طرف سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کے باعث شہریوں کی ہلاکت کوقابل اہمیت سمجھتی ہے اورنہ ہی اس کااعتراف کرتی ہے۔ لیکن سٹینڈفورڈ کے قانون کے سکولوں اورنیویارک یونیورسٹیوں کی اطلاعات کے مطابق اس کے عہد ملازمت کے پہلے تین برس کے دوران259حملوں کے دوران کہ جن کاوہ مکمل طورپرذمہ دارہے،297اور569کے درمیان شہری ہلاک ہوئے جن میں سے 64بچے تھے۔یہ و ہ اعداد وشمار ہیں جوقابل اعتماداطلاعات کے ذریعے شمارکیے گئے لیکن بہت سے اعدادوشمار ابھی تک ظاہرنہیں کیے گئے۔
اس خطے کے بچوں پربڑھتے ہوئے اثرات بہت ہی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔بہت سے بچوں کواس خدشے کے باعث سکولوں سے واپس بلالیاگیا کہ کسی بھی قسم کے اجتماع پرحملہ ہوسکتاہے۔بش کی طرف سے ڈرون حملوں کے آغاز کے بعد سے سکولوں پرمتعددحملے کیے گئے جسے اوبامہ انتظامیہ بھی جوش وخروش سے جاری رکھے ہوئے ہے۔بش کی ایک احمقانہ حرکت کے باعث 60بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
اطلاعات سے ظاہرہوتاہے کہ جب بچے ڈرونز کی آواز سنتے ہیں تووہ خوف اوردہشت کاشکار ہوجاتے ہیں۔ایک ماہرنفسیات کے مطابق ان کی یہ حالت انہیں مستقل ذہنی عارضے میں مبتلاکردینے کاباعث بنتی جارہی ہے۔ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں نے بتایاکہ وہ اس قدرخوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ سکول واپس جاتے ہوئے دہشت محسوس کرتے ہیں اوراس طرح انہوں کے کسی بھی قسم کی پیشہ ورانہ زندگی اپنانے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں کیونکہ ان کے خوابوں کے علاوہ ان کے بدن بھی زخموں سے چورچورہیں۔
کچھ حدتک کہاجاسکتاہے کہ اوبامہ ان بچوں کودانستہ ہلاک نہیں کررہے لیکن بچوں کی یہ ہلاکتیں ڈرون حملوں کامنطقی نتیجہ ہیں۔ہمیں ان ہلاکتوں سے مرتب ہونے والے جذباتی اثرات کے بارے میں تو کچھ علم نہیں کیونکہ کسی امریکی افسرنے اس کے متعلق کبھی کوئی بات ہی نہیں کی اورنہ ہی کرے گا بلکہ سی آئی اے کی طرف سے پاکستان میں ظالمانہ ہلاکتوں کے معاملے کوخفیہ رکھاجاتاہے۔لیکن آپ کوتویہی تاثرملتاہے کہ انتظامیہ میں سے کوئی بھی اس معاملے پربولنے کاخطرہ مول نہیں لے سکتا۔
نیوٹاؤن میں قتل عام سے دودن قبل اوبامہ کے پریس سیکرٹری سے یمن اورپاکستان میں ڈرون حملوں کے باعث ہلاک ہونے والی خواتین اوربچوں کے متعلق سوال کیاگیا۔اس نے اس سوال کاجواب اس بنیادپردینے سے انکارکردیاکہ ایسے معاملات خصوصی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔بہر حال سوال کاجواب دینے کے بجائے انہوں نے صحافیوں کی توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ضمن میں اوبامہ کے معاون جان برینن کی تقریر کی طرف دلائی کہ ’’القاعدہ کی طرف سے بے گناہ افراد،خاص طورپرمسلمان مرد،خواتین اوربچوں کے قتل کے باعث مسلمانو ں کی نظرمیں القاعدہ کاتاثربری طرح خراب ہوچکاہے۔‘‘
اوبامہ نے کبھی کبھار ہی اپنے ڈرون منصوبے کے متعلق اظہارخیال کیا ہے اورنہ ہی ان حملوں کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکت کے بارے میں کبھی کچھ کہاہے۔ان کاصرف ایک ہی بیان میں تلاش کرسکتاہوں جوانہوں نے گزشتہ جنوری میں ایک ویڈیوکانفرنس کے دوران نہایت مختصراورمبہم انداز میں دیا۔ان ہلاکتوں بارے توجیہہ پیش کرنے کی ذمہ داری دوسروں پرڈال دی گئی ہے۔اکتوبر میں ایک ڈیموکریٹک رہنمانے کہا کہ نتیجہ یہ ہے کہ کس کا چار سالہ بچہ ماراگیا۔ہم جوکررہے ہیں ،وہ یہ ہے کہ یہاں بھی اندھادھند دہشت گردی سے ہلاک ہونے والے چارسالہ بچوں کی ہلاکت کے امکان کوکم سے کم کیاجائے۔ گلین گرینوالڈکاکہناہے کہ دہشت گردتوچارسالہ بچوں ہی کوہلاک کرتے ہیں۔اس صورت حال کے باعث انتقامی ہلاکتوں کونہیں روکاجاسکتا بلکہ اس قسم کی ہلاکتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کیونکہ عام طورپرغم اورانتقام بیک وقت وقوع پذیرہوتے ہیں۔
دنیاکے اکثر ذرائع ابلاغ جنہوں نے نہایت درست طورپرنیوٹاؤن میں بچوں کے لیے دعائے خیرکی ہے، کے متعلق سوال پیداہوتاہے کہ کیاانہوں نے اوبامہ کی طرف سے مقررکیے گئے قاتلوں کونظراندازکردیاہے یاپھرامریکی افسرکے اس موقف کوتسلیم کرلیاہے کہ جولوگ مارے گئے،وہ جنگجوتھے۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ شمال مغربی پاکستان کے بچے،ہمارے بچوں کے مانند نہیں،وہ بے نام ہیں،وہ بے تصویرہیں،ان کی یاد میں موم بتیاں روشن نہیں ہوتیں اورنہ ہی ان کی قبروں پرپھول کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں،ان کاتعلق کسی غیرانسانی دنیایعنی حشرات الارض اورگھاس سے ہے۔
اوبامہ سے پوچھاگیا’’کیاہم یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ سال بہ سال بچوں کے ساتھ یہ تشددآمیز واقعات کسی نہ کسی طرح ہماری آزادی کی قیمت ہے؟‘‘یہ ایک قابل فہم سوال ہے۔صدراوبامہ کواس سوال کااطلاق ان کی طرف سے پاکستان میں بچوں پرکیے گئے تشددپرکرناچاہیے!(نئی دنیا 19 دسمبر 2012 ء ۔بشکریہ: دی گارڈین، تجزیہ: جارج مونبائٹ ۔ترجمہ: ریاض محمود انجم)
 

سویدا

محفلین
جانوروں کے بچے مریں زندہ رہیں کوئی پرواہ نہیں
امریکی صدر اوبامہ کا کیا قصور ہے اس میں
 
Top