امریکی فوجی کا زندگی ختم کرنے کا فیصلہ

عراق میں دونوں ٹانگیں کھو دینے والے 33 سالہ امریکی فوجی ٹامس ینگ نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹامس نے سابق امریکی صدر جارج بش اور نائب صدر ڈک چینی کو خط میں خود سمیت عراق میں زخمی اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔
جب ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد جارج بش نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے کے اوپر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے تو اس وقت 22 سالہ ٹامس امریکی فوج میں بھرتی ہوئے۔
لیکن ان کو افغانستان نہیں بلکہ 2004 میں عراق بھیج دیا گیا۔ عراق میں تعیناتی کے پانچویں روز ہی بغداد میں ان کی یونٹ پر حملہ ہوا اور اس حملے میں ٹامس کو ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی۔
عراق سے واپس آ کر انہوں نے ویل چیئر پر عراق جنگ کے خلاف مہم میں حصہ لیا اور سنہ 2007 میں ان پر دستاویزی فلم باڈی آف وار بنی۔
لیکن اب ان کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ٹامس کی اہلیہ کلوڈیا نے بی بی سی ورلڈ سروس سے بات کی کیونکہ ٹامس کو بولنے میں مشکل پیش آ رہی تھی اور وہ بہت جلدی تھک جاتے ہیں۔
کلوڈیا کا کہنا تھا، ’ٹامس کا خیال ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے جتنی کوشش کر سکتے تھے وہ کر لی اور اب آرام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
کلوڈیا نے کہا کہ یہ دونوں جانتے تھے کہ تکلیف برداشت کرنی ہو گی لیکن پچھلے سال ان کی تکلیف میں بے حد اضافہ ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹامس بار بار ہسپتال کے چکر کاٹ کر تنگ آ گئے ہیں۔ ’وہ مزید آپریشن اور علاج نہیں کرانا چاہتے۔‘
سنہ 2008 میں ٹامس کے دماغ کو کم آکسیجن ملنے کے باعث ان کی زبان اور بازووں کو ہلانے پر اثر پڑا۔ پچھلے سال کیے گئے آپریشن سے عارضی فائدہ ہوا۔
ٹامس ٹھوس کھانا نہیں کھا سکتے اس لیے ان کو ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جاتی ہے۔ ان کے کولھوں پر سے جلد اتر رہی ہے اور گوشت اور ہڈیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ کلوڈیا کا کہنا ہے ’یہ سب کچھ دیکھنا بہت مشکل ہے۔‘
130330234723_tomas-young.jpg
ٹامس اور کلوڈیا شکاگو میں سنہ 2008 میں ملے تھے۔ کلوڈیا نے بتایا کہ ٹامس بستر سے نہیں اٹھ سکتے اور اب وہ اپنے آپ کو بھوکا رکھ کر اپنی جان لیں گے۔
ٹامس ینگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی کو خط لکھے ہیں۔
خط میں لکھا ہے ’عراق جنگ اخلاقی طور پر، دفاعی نقطۂ نظر سے اور معیشت کے لحاظ سے ناکام جنگ تھی۔ اور یہ جنگ آپ دونوں نے شروع کی۔ آپ دونوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ میرا وقت آ گیا ہے اور آپ کا بھی آئے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی جواب دہی ہو گی۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں اتنی احلاقی جرات آئے کہ آپ خود اس بات کا احساس کرسکیں کہ آپ نے میرے ساتھ کیا کیا اور ان تمام افراد کے ساتھ جو ہلاک ہو ئے۔‘
کلوڈیا کا ان خطوط کے بارے میں کہنا ہے ’ہم صرف اپنی کوششوں کی کہانی بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہی کہانی بہت سے لوگوں کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس کوشش کے باعث ہم جنگ کے نتائج کی اصلیت جان سکیں گے۔‘
ٹامس اور کلوڈیا شکاگو میں سنہ 2008 میں ملے تھے۔
کلوڈیا نے بتایا کہ ٹامس بستر سے نہیں اٹھ سکتے اور اب وہ اپنے آپ کو بھوکا رکھ کر اپنی جان لیں گے۔
کلوڈیا نے کہا کہ ٹامس بیس اپریل تک ٹیوب کے ذریعے خوراک لیتے رہیں گے کیونکہ اس تاریخ کو ان کی شادی کی پہلی سالگرہ ہے۔ اس کے بعد وہ اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیں گے اور جتنا بھی وقت رہ جائے گا دونوں اکیلے گزاریں گے۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/03/130330_us_soldier_letters_rh.shtml
 

عسکری

معطل
بہادر فوجی کو میرا سیلیوٹ ۔ :notworthy: جنگیں ہوتی رہیں گی اور ایسے جوان آگے آتے جائیں گے کچھ وہیں محاذوں پر اور کچھ زخم کھا کر جانیں دیتے رہیں گے ۔
 

ساجد

محفلین
حکومتیں کبھی لڑانے سے پہلے نہیں سوچتی اور نا بعد میں
جن بد معاشیوں اور غنڈہ گردیوں میں یہ جوان اپنی حکومت کی مدد کرتا ہوا اس حال کو پہنچا ان کی بہت لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اور اب ان کی حکومت انہیں واپس بلانے کا سوچ رہی ہے۔ یعنی سوچ بچار بدمعاشی کرنے سے پہلے بھی کی گئی اور بعد میں بھی۔
 

عسکری

معطل
جن بد معاشیوں اور غنڈہ گردیوں میں یہ جوان اپنی حکومت کی مدد کرتا ہوا اس حال کو پہنچا ان کی بہت لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اور اب ان کی حکومت انہیں واپس بلانے کا سوچ رہی ہے۔ یعنی سوچ بچار بدمعاشی کرنے سے پہلے بھی کی گئی اور بعد میں بھی۔
ساجد بھائی سولجر یہ سوچنا شروع کر دیں تو ملک بے عزت ہو جائیں یہ کام ان کا ہے سولجرز کا نہیں
 

ساجد

محفلین
حکومتیں کبھی لڑانے سے پہلے نہیں سوچتی اور نا بعد میں
ساجد بھائی سولجر یہ سوچنا شروع کر دیں تو ملک بے عزت ہو جائیں یہ کام ان کا ہے سولجرز کا نہیں
جوان ، تم نے حکومتوں کے سوچنے کی بات کہی تھی فوجیوں کا تو سبھی کو معلوم ہے کہ روبوٹ ہوتے ہیں۔
 
بہادر فوجی کو میرا سیلیوٹ ۔ :notworthy: جنگیں ہوتی رہیں گی اور ایسے جوان آگے آتے جائیں گے کچھ وہیں محاذوں پر اور کچھ زخم کھا کر جانیں دیتے رہیں گے ۔
مگر ایس جنگ جو گناہ نے لذت کی طرح ہو تو فخر نہیں احساس ندامت دامنگیر رہتا ہے
 
Top