امریکہ، انتہاؤں کا ملک ہے۔ حسن نثار

یوسف-2

محفلین
یہ انتہاؤں کا ملک ہے۔ امیر بے حد امیر، غریب، بہت غریب ۔ جو ذہین ہے، وہ ارسطو سے کم نہیں۔ اور جو بے وقوف ہے، اس کا بھی کوئی بارڈر نہیں۔ محنتی، بہت ہی محنتی اور سست انتہائی سست۔ عام امریکن، بھولا بھالا، بالکل بے خبر اور بونگا ہے جس کی زندگی کافی کے مگ، بیف برگر اورہاٹ ڈاگ کے گرد گھومتے گھومتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔
23 تا 31 اگست 2012 کے دوران امریکہ کے نو شہروں کی سیاحی کرتے ہوئے ممتاز دانشور، شاعر، ادیب اور صحافی حسن نثار کے تاثرات جو انہوں نے روزنامہ دنیا لاہور کی 4 ستمبر کی اشاعت مین اپنے کالم میں پیش کئے۔ پورا کالم ملاحظہ کیجئے

734_19185682.jpg
 

یوسف-2

محفلین
ہا! ہا! عثمان بھائی!
آپ نے بالکل درست ”پکڑا“ :D یہ احقر حسن نثار کا بہت پُرانا اور باقاعدہ قاری ہے ۔
حسن نثار ایک قابل و فاضل دانشور، ممتاز ادیب، بلند پایہ شاعر، ایک کامیاب صحافی اور یاروں کا بہت اچھا یار ہے۔ حسن نثار کی ان خوبیوں سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکار کرسکتا ہے۔ مجھ میں بہت سی خامیاں ہیں، لیکن بہر حال میں عقل کا اتنا بڑا اندھا ہرگز نہیں ہوں :D میں حسن نثار کی ان تمام خوبیوں کا برملا اعتراف کرنے کے باوجود اس کی اسلامی تعلیمات، اسلامی شخصیات، شعائر اسلامی، نظریہ پاکستان، اور پاکستانیت وغیرہ سے نفرت کی حد تک چھوتی ہوئی بیزاری کا سخت مخالف ہوں اور رہوں گا، تاوقتیکہ حسن نثار اپنی ان ’خامیوں‘ سے رجوع نہ کرلے۔ :eek:
 

رانا

محفلین
بہت شکریہ یوسف ثانی صاحب اس عمدہ شئیرنگ کا۔
مجھے تو Oceans 11 یاد آگئی۔ آپ نے یہ کالم شئیر کیا تو پتہ لگا کہ بلاجیو سچ مچ کا کیسینو ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ شائد صرف فلم کے لئے گھڑا گیا تھا۔
یہ حسن نثار دنیا پر کیوں چلئے گئے؟ کسی کو پتہ ہے تو شئیر کریں۔ کوئی جھگڑا وگڑا تو نہیں ہوگیا جنگ سے۔:)
 

زین

لائبریرین
بہت شکریہ یوسف ثانی صاحب اس عمدہ شئیرنگ کا۔
مجھے تو Oceans 11 یاد آگئی۔ آپ نے یہ کالم شئیر کیا تو پتہ لگا کہ بلاجیو سچ مچ کا کیسینو ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ شائد صرف فلم کے لئے گھڑا گیا تھا۔
یہ حسن نثار دنیا پر کیوں چلئے گئے؟ کسی کو پتہ ہے تو شئیر کریں۔ کوئی جھگڑا وگڑا تو نہیں ہوگیا جنگ سے۔:)
’’جنگ‘‘ سے جنگ نہیں ہوئی بلکہ ’’دنیا‘‘ (پیسے )سے پیار ہوگیا :moneyeyes::moneyeyes: :biggrin:
نذیر ناجی ، ہارون رشید ، اوریا مقبول جان بھی ’’دنیا‘‘ چلے گئے ہیں
 

arifkarim

معطل
میں حسن نثار کی ان تمام خوبیوں کا برملا اعتراف کرنے کے باوجود اس کی اسلامی تعلیمات، اسلامی شخصیات، شعائر اسلامی، نظریہ پاکستان، اور پاکستانیت وغیرہ سے نفرت کی حد تک چھوتی ہوئی بیزاری کا سخت مخالف ہوں اور رہوں گا، تاوقتیکہ حسن نثار اپنی ان ’خامیوں‘ سے رجوع نہ کرلے۔ :eek:
ہر شخص کا اپنا ایک نظریہ ہے اور حسن نثار کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے اختلاف رکھے۔ یہی حقیقی جمہوریت اور آزادی اظہار کی نشانی ہے۔
 

رانا

محفلین
’’جنگ‘‘ سے جنگ نہیں ہوئی بلکہ ’’دنیا‘‘ (پیسے )سے پیار ہوگیا :moneyeyes::moneyeyes: :biggrin:
نذیر ناجی ، ہارون رشید ، اوریا مقبول جان بھی ’’دنیا‘‘ چلے گئے ہیں
یہ سب تو بڑے منجھے ہوئے صحافی ہیں۔اوریا مقبول جان اور حسن نثار، ان دو کے حوالے سے میرا دل تو نہیں مانتا کہ یہ دونوں صرف پیسے کی خاطر گئے ہوں گے۔ حسن نثار کے دل جلے انداز کا سبب اگر غور کریں تو صرف اور صرف مایوسیاں ہیں۔ جب بندہ اپنی قوم سے ایسا مایوس ہوچکا ہو کہ تبدیلی کی امید ہی نہ ہو تو پھر ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔ جیسے ایک باپ اپنی کسی اولاد سے بالکل ہی مایوس ہوجائے تو اسے ہر وقت کوسنے ہی دیتا رہتا ہے۔ باقی ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن باتیں تو وہ حقیقت پسند کرتا ہے اور اسی لئے بہت سوں کو کڑوی لگتی ہیں کہ سچ سننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
 

رانا

محفلین
ہر شخص کا اپنا ایک نظریہ ہے اور حسن نثار کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے اختلاف رکھے۔ یہی حقیقی جمہوریت اور آزادی اظہار کی نشانی ہے۔
یہ میرے لئے نئی خبر ہے کہ وہ دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے اختلاف رکھتا ہے۔ اس کی کوئی ویڈیو مل جائے گی۔
ہوسکتا ہے اس نے صرف شرم دلانے کے لئے کوئی سخت بات کردی ہو۔:)
 

عثمان

محفلین
یہ سب تو بڑے منجھے ہوئے صحافی ہیں۔اوریا مقبول جان اور حسن نثار، ان دو کے حوالے سے میرا دل تو نہیں مانتا کہ یہ دونوں صرف پیسے کی خاطر گئے ہوں گے۔ حسن نثار کے دل جلے انداز کا سبب اگر غور کریں تو صرف اور صرف مایوسیاں ہیں۔ جب بندہ اپنی قوم سے ایسا مایوس ہوچکا ہو کہ تبدیلی کی امید ہی نہ ہو تو پھر ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔ جیسے ایک باپ اپنی کسی اولاد سے بالکل ہی مایوس ہوجائے تو اسے ہر وقت کوسنے ہی دیتا رہتا ہے۔ باقی ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن باتیں تو وہ حقیقت پسند کرتا ہے اور اسی لئے بہت سوں کو کڑوی لگتی ہیں کہ سچ سننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
حسن نثار پہلے بھی کئی ادارے بدل چکا ہے اور اس بات کا برملا اظہار بھی کر چکا ہے کہ ہر بندے کو اچھے مواقع کی طرف بڑھنے کا حق ہے۔ کسی زمانے میں یہ شائد مساوات اخبار میں تھا۔ پھر غالباً روزنامہ جنگ میں نموادار ہوا پھر روزنامہ ایکسپریس میں چلا گیا۔ پھر دوبارہ جنگ کی طرف پلٹا کھایا۔ اور اب یہ نئی نوکری۔ :)
اوریا مقبول جان بھی کوئی ایسا صوفی منش نہیں۔ ;)

ویسے اصولی طور پر یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات بھی نہیں۔ ہر شخص کی طرح صحافیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ نوکری کے لئے بہتر سے بہتر پیشکش کا انتخاب کریں۔
 

رانا

محفلین
ویسے اصولی طور پر یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات بھی نہیں۔ ہر شخص کی طرح صحافیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ نوکری کے لئے بہتر سے بہتر پیشکش کا انتخاب کریں۔
لیکن یہاں جب اتنے صحافی ایک جگہ اچانک اکٹھے ہوں تو بات بہتر نوکری سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ ورنہ خوچ سوچیں ہر ادارہ اپنی کریم کو پرکشش پیکج دے کر جانے سے روک لیتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں جنگ نذیر ناجی یا حسن نثار کو 'دنیا' سے بہتر پیکج کی آفر نہ کرسکتا تھا بلکہ نہ کی ہوگی؟
 

عثمان

محفلین
لیکن یہاں جب اتنے صحافی ایک جگہ اچانک اکٹھے ہوں تو بات بہتر نوکری سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ ورنہ خوچ سوچیں ہر ادارہ اپنی کریم کو پرکشش پیکج دے کر جانے سے روک لیتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں جنگ نذیر ناجی یا حسن نثار کو 'دنیا' سے بہتر پیکج کی آفر نہ کرسکتا تھا بلکہ نہ کی ہوگی؟
آپ کے خیال میں نذیر ناجی کی قبیل کے لوگ کسی مقدس صحافتی جہاد میں مصروف ہیں جو ایک کم پر کشش پیشکش کی طرف ہجرت کر گئے ؟ :)
چھ ماہ بعد یہ لوگ پھر ادارہ بدل لیں گے۔
 

یوسف-2

محفلین
بہت شکریہ یوسف ثانی صاحب اس عمدہ شئیرنگ کا۔
مجھے تو Oceans 11 یاد آگئی۔ آپ نے یہ کالم شئیر کیا تو پتہ لگا کہ بلاجیو سچ مچ کا کیسینو ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ شائد صرف فلم کے لئے گھڑا گیا تھا۔
یہ حسن نثار دنیا پر کیوں چلئے گئے؟ کسی کو پتہ ہے تو شئیر کریں۔ کوئی جھگڑا وگڑا تو نہیں ہوگیا جنگ سے۔:)
جب جنگ کے مقابلہ پر ”دوسرا بڑا اخبار روزنامہ ایکسپریس“ نکلا تو حسن نثار صاحب جنگ چھوڑ کر محض پیسوں کی خاطر اپنے سابقہ ماتحت اطہر عباس (گروپ ایڈیٹر، ایکسپریس) کی ماتحتی میں کام کرنے خوشی خوشی چلے گئے۔ واضح رہے کے ”سوہنا منڈا“ اب ایسا منڈا بھی نہیں ہے، جیسا کہ اس کی اسمارٹنس سے ظاہرہے۔ وہ آج سے کوئی چالیس برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کے چیف ایڈیٹر تھے، تب یہ اطہر عباس ان کے ماتحتی میں کام کیا کرتے تھے۔ ایکسپریس غالباً پاکستان کا وہ واحد اخبار ہے جو ایک ساتھ چار پانچ شہروں سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کا ”شاندار آغاز“ دیکھ کر جنگ بھی گھبرا گیا تھا اور ”مقابلہ“ پر اتر آیا۔ ایکسپریس نے ادارتی صفحہ کو دو صفحات پر پھیلا کر بڑے بڑے کالم نویس کو ”خریدا“ تو جنگ نے بھی یہی کام کیا۔ اس نے نوائے وقت سے عطا ء الحق قاسمی کو ”خریدا“۔ اسی ”نیلامی“ میں حسن نثار نے پھر خود کو جنگ کے ہاتھوں بیچا اور جنگ کو ”ری جوائن“ کرلیا اور اب روزنامہ دنیا کے ہاتھوں بک گئے۔ ویسے آجکل بیشتر صحافی اور اینکر پرسن ”بکنے“ پر تلے ہوئے ہیں۔ جسے دیکھو اپنے دام کھرے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس حمام میں صرف حسن نثاراکیلا ”ننگا“ نہیں ہے۔ تیزی سے صحافت میں ”مقبولیت“ حاصل کرتے والے ”ڈاکٹر شاہد مسعود“ اس لسٹ میں سر فہرست ہیں۔ جو اے آر وائی = جنگ، جیو = اے آر وائی = جنگ جیو = پی ٹی وی = جنگ جیو = رمضان نشریات (غالباً آج) = اور پھر جیو ۔۔۔۔ انہوں نے تیزی سے مقبولیت اور اسی تیزی سے ” صحافتی وفاداریاں“ بیچنے کا گالباً ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔
واضح رہے کہ دیگر ادارون کی طرح صحافت یا میڈیا میں بھی ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں جانا اور ترقی کرنا کوئی ”معیوب بات“ نہین ہے۔ لیکن اس ”منتقلی“ میں اگر کوئی قلمکار صحافی یا اینکر پرسن اپنے نظریات اور وفاداریاں بھی ”بیچنے“ لگے تو یقیناً اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
لیکن یہاں جب اتنے صحافی ایک جگہ اچانک اکٹھے ہوں تو بات بہتر نوکری سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ ورنہ خوچ سوچیں ہر ادارہ اپنی کریم کو پرکشش پیکج دے کر جانے سے روک لیتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں جنگ نذیر ناجی یا حسن نثار کو 'دنیا' سے بہتر پیکج کی آفر نہ کرسکتا تھا بلکہ نہ کی ہوگی؟
عثمان بھائی ! پاکستانی میڈیا میں ایسا نہیں ہے۔ آپ ایک ادارے میں رہتے ہوئے اپنی ”ڈیمانڈ“ پیش نہیں کرسکتے تاوقتیکہ کہ آپ کسی دوسرے ادارے کو جوائن کرکے اپنی ”مارکیٹ ویلیو“ ظاہر نہ کر دیں۔ خریدنے والا ادارہ بھی اب تو معروف شخصیات کے ساتھ ”بانڈ“ بھرواتا ہے کہ آپ اس پیکج کے ساتھ آئیں گے تو کم از کم اتنے سال تک کہیں اور نہیں جاسکتے۔ عموماً بانڈ پیریڈ کے بعد ہی اسے دوبارہ خریدا جاسکتا ہے، الا یہ کہ کوئی خریدار بانڈ توڑنے کے جرمانے کو بھی ادا کرنے کو تیار ہوجائے۔
نذیر ناجی روزنامہ دنیا میں ”گروپ ایڈیٹر“ بن کر گیا ہے جو مالکان کے بعد والا ”نمبر ٹو عہدہ“ ہے۔ جنگ اسے یہ آفر بیٹھے بیٹھے کیسے کرسکتا تھا۔ اور جنگ کے پاس بہت سے ”نذیر ناجی“ ہیں۔ نذیر ناجی، حسن نثار، ڈاکٹر شاہد مسعود، جاوید چوہدری، اوریا مقبول جان، وغیرہ وغیرہ کی طرح کا ”ہاٹ کیک“ نہیں ہے۔ اسے نہ تو لکھنا آتا ہے، نہ بولنا۔ یہ ایک بہترین اور پرانا ورکنگ اور ایڈمنسٹریٹیو جرنلسٹ ہے۔ جو ہر صورتحال میں ہر صبح اخبار وقت پر نکال سکتا ہے۔ ایک نئے اخبار کو ایسا ایڈمنسٹریٹر تو چاہئے تھا نا
 

یوسف-2

محفلین
ہر شخص کا اپنا ایک نظریہ ہے اور حسن نثار کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے اختلاف رکھے۔ یہی حقیقی جمہوریت اور آزادی اظہار کی نشانی ہے۔
یہ اچھا لطیفہ ہے۔ غالباً پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں حسن نثار جیسے ”شہریوں“ کو یہ ”سہولت“ حاصل ہے کہ وہ نظریہ پاکستان اور پاکستانی آئین کی کھلم کھلا مخالفت کرے، اس کا مذاق اڑائے اور اسے ”ریاست سے بغاوت“ کے جرم میں سزائے موت نہ دی جائے۔ یہی کام آپ اپنے پسندیدہ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں می کرکے تو دیکھیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت رکھتے ہوئے اس ملک کے اندر سرے عام، آن ریکارڈ اور پبلک پلیٹ فارم پر اس ملک کے آئین کی مخالفت اور اس کا مذاق اڑا کر تو دیکھیں۔ لگ پتہ جائے گا۔
کسی ملک کے آئین اور قانون پر عمل نہ کرنا یا خلاف ورزی کرنا صرف اور صرف قابل سزا جرم ہے۔ لیکن کسی بھی مملکت کی اساس، بنیاد اور اس کے آئین کی مخالفت کرتے رہنا اور اس کا مذاق اڑاتے رہنا اس مملکت سے ”بغاوت“ ہے۔ اور دنیا کے ہر ملک میں مملکت سے بغاوت کی سزا موت ہے۔ واضح رہے کہ مملکت اور حکومت میں فرق ہوتا ہے۔ حکومت اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت، بغاوت کے زمرے میں نہیں آتی۔
 

رانا

محفلین
آپ کے خیال میں نذیر ناجی کی قبیل کے لوگ کسی مقدس صحافتی جہاد میں مصروف ہیں جو ایک کم پر کشش پیشکش کی طرف ہجرت کر گئے ؟ :)
چھ ماہ بعد یہ لوگ پھر ادارہ بدل لیں گے۔
لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان کی الیکشن کیمپین کے لئے پلیٹ فارم تیار ہورہا ہے۔:) سارے تبدیلی کے حمائتی ایک جگہ جمع ہورہے ہیں۔;)
 

رانا

محفلین
جب جنگ کے مقابلہ پر ”دوسرا بڑا اخبار روزنامہ ایکسپریس“ نکلا تو حسن نثار صاحب جنگ چھوڑ کر محض پیسوں کی خاطر اپنے سابقہ ماتحت اطہر عباس (گروپ ایڈیٹر، ایکسپریس) کی ماتحتی میں کام کرنے خوشی خوشی چلے گئے۔ واضح رہے کے ”سوہنا منڈا“ اب ایسا منڈا بھی نہیں ہے، جیسا کہ اس کی اسمارٹنس سے ظاہرہے۔ وہ آج سے کوئی چالیس برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کے چیف ایڈیٹر تھے، تب یہ اطہر عباس ان کے ماتحتی میں کام کیا کرتے تھے۔ ایکسپریس غالباً پاکستان کا وہ واحد اخبار ہے جو ایک ساتھ چار پانچ شہروں سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کا ”شاندار آغاز“ دیکھ کر جنگ بھی گھبرا گیا تھا اور ”مقابلہ“ پر اتر آیا۔ ایکسپریس نے ادارتی صفحہ کو دو صفحات پر پھیلا کر بڑے بڑے کالم نویس کو ”خریدا“ تو جنگ نے بھی یہی کام کیا۔ اس نے نوائے وقت سے عطا ء الحق قاسمی کو ”خریدا“۔ اسی ”نیلامی“ میں حسن نثار نے پھر خود کو جنگ کے ہاتھوں بیچا اور جنگ کو ”ری جوائن“ کرلیا اور اب روزنامہ دنیا کے ہاتھوں بک گئے۔ ویسے آجکل بیشتر صحافی اور اینکر پرسن ”بکنے“ پر تلے ہوئے ہیں۔ جسے دیکھو اپنے دام کھرے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس حمام میں صرف حسن نثاراکیلا ”ننگا“ نہیں ہے۔ تیزی سے صحافت میں ”مقبولیت“ حاصل کرتے والے ”ڈاکٹر شاہد مسعود“ اس لسٹ میں سر فہرست ہیں۔ جو اے آر وائی = جنگ، جیو = اے آر وائی = جنگ جیو = پی ٹی وی = جنگ جیو = رمضان نشریات (غالباً آج) = اور پھر جیو ۔۔۔ ۔ انہوں نے تیزی سے مقبولیت اور اسی تیزی سے ” صحافتی وفاداریاں“ بیچنے کا گالباً ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔
واضح رہے کہ دیگر ادارون کی طرح صحافت یا میڈیا میں بھی ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں جانا اور ترقی کرنا کوئی ”معیوب بات“ نہین ہے۔ لیکن اس ”منتقلی“ میں اگر کوئی قلمکار صحافی یا اینکر پرسن اپنے نظریات اور وفاداریاں بھی ”بیچنے“ لگے تو یقیناً اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
یقین مانیں آپ کے پہلے پیراگراف کو پڑھتے ہوئے میں آپ سے شدید اختلاف کے لئے پر تول رہا تھا۔ لیکن آخری پیراگراف پڑھ کے پروں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔:) آپ کے آخری پیراگراف سے سو فیصد متفق ہوں۔
لیکن آپ کے پہلے پیراگراف میں جو بکنے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ مناسب نہیں۔ بکنا صرف اسی صورت میں کہا جائے گا اگر وہ اپنے نظریات ایک طرف رکھ کر نئے باس کے نظریات کا پرچار شروع کردے۔ ورنہ ہم جیسے ملازمت پیشہ افراد پر تو آئے دن "بکاؤ مال" کا لیبل لگتا رہے گا۔:)
 

یوسف-2

محفلین
یقین مانیں آپ کے پہلے پیراگراف کو پڑھتے ہوئے میں آپ سے شدید اختلاف کے لئے پر تول رہا تھا۔ لیکن آخری پیراگراف پڑھ کے پروں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔:) آپ کے آخری پیراگراف سے سو فیصد متفق ہوں۔
لیکن آپ کے پہلے پیراگراف میں جو بکنے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ مناسب نہیں۔ بکنا صرف اسی صورت میں کہا جائے گا اگر وہ اپنے نظریات ایک طرف رکھ کر نئے باس کے نظریات کا پرچار شروع کردے۔ ورنہ ہم جیسے ملازمت پیشہ افراد پر تو آئے دن "بکاؤ مال" کا لیبل لگتا رہے گا۔:)
سو فیصد متفق۔ گزشتہ 32 برسوں سے ہم خود ”بکتے“ چلے آرہے ہیں :) ہمارے انشائیوں کے پہلے مجموعہ کا نام ہی ”یوسف کا بِکا جانا“ ہے۔ :) واضح رہے کہ ”صحافی“ ہونے کے باوجود، ہمارے کچن کا خرچہ ”صحافت“ سے نہیں چلتا۔ :)

میڈیا پرسنز دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک گروپ وہ ہوتا ہے جو پس پردہ رہتے ہوئے نیز رپورٹنگ اور دیگر صحافتی فرائض انجام دیتا ہے۔ یہ لوگ ایک طرح سے ”ٹیکنیکل صحافی“ ہوتے ہیں۔ جو اپنے کام و ہنر کے ماہر ہوتے ہیں اور ان کا ہنر صرف اور صرف اپنے اداروں کی پالیسی کے مطابق اپنے فرائض انجام دینا ہوتا ہے۔ ان کے اپنے ذاتی نظریات، ان کے فرائض منصبی میں حائل نہیں ہوتے۔ اور یہ کہیں بھی ”نوکری“ کرسکتے ہیں۔ مثلاً میرے ایک سینئر صحافی دوست جو مرزا کی طرح کے ایک کٹر شیعہ ہیں، مسلسل آٹھ برس تک جماعت اسلامی کی ترجمان اخبار جسارت مین خوش اسلوبی سے نوکری کرتے رہے۔ نہ جسارت کو کوئی پریشانی ہوئی نہ ہمارے دوست کو۔ کیونکہ یہ ’صاحب قلم صحافی“ نہ تھے کہ ان کے ذاتی نظریات و خیالات جسارت کی پالیسی سے ٹکرائیں۔
دوسرے قسم کے صاحب ”قلم و بیان“ میڈیا پرسن، ریگولر کالم اور مضامین لکھتے ہیں یا چینل اسکرین پر پروگرام کرتے ہیں اور اپنی تحریر و بیان کے ذریعہ اپنے نظریات و خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر فرد کو یہ ”آزادی حاصل ہے کہ وہ مملکت کی آئینی حدود اور اپنے میڈیا ادارے کی پالیسی کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی نظریہ کا پرچار کرے اور کسی بھی سیاسی گروہ کی حمایت یا مخالفت کرے۔ اور عموماً ایسے ہر میڈیا پرسن کی اپنی ایک ذاتی شخصیت کی پہچان بن جاتی ہے کہ یہ فرد دائیں بازو والا ہے، بائیں بازو والا ہے، اسلام پسند ہے، سیکیولر ہے۔ جماعتی ہے، مسلم لیگی ہے، جیالا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اپنی شناخت بناتے بناتے یہ لوگ اپنے آپ کو میڈیا کے لئے ناگزیر بھی بنا لیتے ہیں۔ اب اگر ایسے افراد ادارہ بدلتے ہی اپنا ”قبلہ“ تبدیل کردیں۔ حسین حقانی کی طرح جمیعت، جماعت سے چھلانگ لگا کر بی بی بینظیر کے قدموں میں بیٹھ جائیں تو ایسے افراد ہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ”بِک“ گئے۔ یعنی سیاسی لوٹے کی طرح صحافتی لوٹے بھی ہوتے ہیں۔ ”اپنی اپنی جماعت“ کی ”حمایت“ کرتے ہوئے، ان جماعتوں سے فائدہ اٹھانا، گو کہ بہت زیادہ “مستحسن“ بات نہیں ہے، لیکن صاحب کردار اور صاحب تقویٰ صحافی ایسا کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
کسی ملک کے آئین اور قانون پر عمل نہ کرنا یا خلاف ورزی کرنا صرف اور صرف قابل سزا جرم ہے۔ لیکن کسی بھی مملکت کی اساس، بنیاد اور اس کے آئین کی مخالفت کرتے رہنا اور اس کا مذاق اڑاتے رہنا اس مملکت سے ”بغاوت“ ہے۔ اور دنیا کے ہر ملک میں مملکت سے بغاوت کی سزا موت ہے۔۔
بالکل فضول بات۔ صیہونی ریاست اسرائیل میں آج بھی بعض یہود اور عرب اس ریاست کی بنیاد اور پالیسیوں کی کھلم کھلم مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہاں مکمل آزادی اظہار اور جمہوری نظام نافظ ہے۔ شلومو سینڈ نامی ایک اسرائیلی پروفیسر اور تاریخ دان نے سنہ 2009 میں ایک کتاب Invention of the Jewish People جاری کی جو 19 ہفتوں تک متواتر اسرائیل میں مقبول ترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کتاب رہی۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ اسمیں تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک یہود "قوم" کا تصور دور جدید کی یورپی صیہونی تحریک کا کارنامہ ہے۔ اس تحریک سے پہلے دنیا بھر کے تمام یہود اپنے آپ کو ایک الگ مذہبی کمیونیٹی مانتے تھے نہ کہ ایک بالکل الگ تھلگ نایاب قوم جسکو ایک خودمختار وطن کی ضرورت ہو۔ یوں اسنے سیدھا نظریہ صیہونیت اور تخلیق ریاست اسرائیل پر ایک تیر سے دو شکار کر ڈالے۔ اسکے باوجود نہ تو یہ کتاب وہاں بین ہوئی اور نہ اسکے مصنف پر قاتلانہ حملے کی دھمکیاں دے کر ملک بدر کیا گیا۔ بلکہ اسکے دلائل کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ بعض حلقوں نے تنقید کا مظاہرہ کرکے اسکی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا:
علم تنقید سے آگے بڑھتا اور پھیلتا ہے۔ بغیر تنقید کے کوئی بھی نظریہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سنسرشپ کسی بھی چیز کا حل نہیں۔​
 

یوسف-2

محفلین
بالکل فضول بات۔ صیہونی ریاست اسرائیل میں آج بھی بعض یہود اور عرب اس ریاست کی بنیاد اور پالیسیوں کی کھلم کھلم مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہاں مکمل آزادی اظہار اور جمہوری نظام نافظ ہے۔ شلومو سینڈ نامی ایک اسرائیلی پروفیسر اور تاریخ دان نے سنہ 2009 میں ایک کتاب Invention of the Jewish People جاری کی جو 19 ہفتوں تک متواتر اسرائیل میں مقبول ترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کتاب رہی۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ اسمیں تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک یہود "قوم" کا تصور دور جدید کی یورپی صیہونی تحریک کا کارنامہ ہے۔ اس تحریک سے پہلے دنیا بھر کے تمام یہود اپنے آپ کو ایک الگ مذہبی کمیونیٹی مانتے تھے نہ کہ ایک بالکل الگ تھلگ نایاب قوم جسکو ایک خودمختار وطن کی ضرورت ہو۔ یوں اسنے سیدھا نظریہ صیہونیت اور تخلیق ریاست اسرائیل پر ایک تیر سے دو شکار کر ڈالے۔ اسکے باوجود نہ تو یہ کتاب وہاں بین ہوئی اور نہ اسکے مصنف پر قاتلانہ حملے کی دھمکیاں دے کر ملک بدر کیا گیا۔ بلکہ اسکے دلائل کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ بعض حلقوں نے تنقید کا مظاہرہ کرکے اسکی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا:
علم تنقید سے آگے بڑھتا اور پھیلتا ہے۔ بغیر تنقید کے کوئی بھی نظریہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سنسرشپ کسی بھی چیز کا حل نہیں۔​
آپ کو معلوم ہے کہ اسرائیل میں ہولو کاسٹ کے خلاف بات کرنے اور اس پر تنقید کرنے کی سزا کیا ہے؟؟؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
نو اوفینس لیکن حسن نثار سمیت جتنے لوگوں کو یہاں ذکر کیا گیا ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو یا جس کا صحافتی کردار غیرمتنازعہ رہا ہو۔ ایک سے بڑھ کر ایک اداکار موجود ہے ہمارے پاس۔ حسن نثار صاحب کی تلخی مایوسی کے باعث نہیں بلکہ ان کی انسانی نفسیات کے گہرے مشاہدے کی وجہ سے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اس دور میں خود کو 'سیل' کیسے کرنا ہے اور اپنے کالم اور پروگرام کی ریٹنگ کس طرح بڑھانی ہے۔

یہ انتہاؤں کا ملک ہے۔ امیر بے حد امیر، غریب، بہت غریب ۔ جو ذہین ہے، وہ ارسطو سے کم نہیں۔ اور جو بے وقوف ہے، اس کا بھی کوئی بارڈر نہیں۔ محنتی، بہت ہی محنتی اور سست انتہائی سست۔ عام امریکن، بھولا بھالا، بالکل بے خبر اور بونگا ہے جس کی زندگی کافی کے مگ، بیف برگر اورہاٹ ڈاگ کے گرد گھومتے گھومتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس اقتباس میں اگر 'عام امریکن' کی جگہ یہاں 'عام پاکستانی' اور 'کافی کے مگ، بیف برگر اورہاٹ ڈاگ' کی جگہ 'نوکری کی تلاش، بل کی ادائیگی ، حکومت کو الزام دینے اور میڈیا کے ہاتھوں بے وقوف بنتے بنتے' لکھ دیا جائے تو یہی بات ہم لوگوں پر بھی پوری بیٹھتی ہے۔

یہ انتہاؤں کا ملک ہے۔ امیر بے حد امیر، غریب، بہت غریب ۔ جو ذہین ہے، وہ ارسطو سے کم نہیں۔ اور جو بے وقوف ہے، اس کا بھی کوئی بارڈر نہیں۔ محنتی، بہت ہی محنتی اور سست انتہائی سست۔ عام پاکستانی، بھولا بھالا، بالکل بے خبر اور بونگا ہے جس کی زندگی نوکری کی تلاش، بل کی ادائیگی ، حکومت کو الزام دینے اور میڈیا کے ہاتھوں بے وقوف بنتے بنتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔
 
Top