امت کا بطل جلیل، حسن البناء

غازی عثمان

محفلین
Hassan_Al_Bana.jpg


حسن البنا مصر کے ممتاز مذہبی رہنما اور عظیم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے بانی تھے۔

وہ 1906ء میں مصر کی بستی محمودیہ کے ایک علم دوست اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی قرآن حفظ کرلیا اور ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی۔ سولہ سال کی عمر میں وہ قاہرہ کے دارالعلوم میں داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے 1927ء میں سند حاصل کی۔

دیہاتی علاقوں کی نسبت شہروں میں اخلاقی انحطاط زیادہ ہوتا ہے، قاہرہ کی بھی یہی صورت تھی۔ حسن البنا جب اپنے قصبہ سے قاہرہ پہنچے تو ان کی حساس طبیعت پر شہر کے غیر اسلامی رحجانات نے گہرا اثر کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مصر کو یورپ کا حصہ بنایا جارہا ہے اور فرعون کے دور کی طرف پلٹنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ علماء اگرچہ غیر اسلامی نظریات کے خلاف وعظ و نصیحت تو کرتے رہتے ہیں لیکن ان برائیوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی تحریک موجود نہیں تو انہوں نے 1928ء میں شہر اسماعیلیہ میں، جہاں وہ تعلیمی سند حاصل کرنے کے بعد استاد مقرر ہوگئے تھے، اخوان المسلمون کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ 1933ء میں اخوان کا صدر دفتر اسماعیلیہ سے قاہرہ منتقل کردیا گیا۔

حسن البنا نے اعلان کیا کہ اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اخوان المسلمون کی تنظیم کے ذریعے انہوں نے اپنے اسی نصب العین کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کردیا۔ جلد ہی مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمون کی شاخیں قائم کردی گئیں۔ طلبہ اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کی تنظیم کے لیے "اخوات المسلمین" کے نام سے علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اخوان نے مدرسے بھی قائم کیے اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے ایک ایسا نظام تربیت قائم کیا جس کے تحت اخوان کے کارکن بہترین قسم کے مسلمان بن سکیں۔

حسن البنا نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 50 سال سے مصر میں غیر اسلامی آئین آزمائے جارہے ہیں اور وہ سخت ناکام ہوئے ہیں لہٰذا اب اسلامی شریعت کا تجربہ کیا جانا چاہیے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مصر کے موجودہ دستور اور قانون کے ماخذ کتاب و سنت نہیں بلکہ یورپ کے ممالک کے دستور اور قوانین ہیں جو اسلام سے متصادم ہیں۔ حسن البنا نے مصریوں میں جہاد کی روح بھی پھونکی اور اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا اور بتایا کہ مصر ہی کے ایک عالم امام بدر الدین عینی شارح بخاری ایک سال جہاد کرتے تھے اور ایک سال تعلیم و تدریس میں مصروف رہتے تھے اور ایک سال حج کرتے تھے۔

اخوان نے اخبار اور رسالوں کی طرف بھی توجہ دی۔ 1935ء میں رشید رضا کے انتقال کے بعد حسن البنا نے ان کے رسالے "المنار" کی ادارت سنبھال۔ اخوان نے خود بھی ایک روزنامہ، ایک ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ جاری کیا۔ روزنامہ اخوان المسلمون مصر کے صف اول کے اخبارات میں شمار ہوتا تھا۔ ان مطبوعات اور چھوٹے چھوٹے کتابوں کے ذریعے اخوان نے اپنے اغراض و مقاصد کی پر زور تبلیغ کی اور بتایا کہ اسلام کس طرح زندگی کے مختلف شعبہ جات میں دنیا کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ علمی لحاظ سے اخوان کا کام اگرچہ اتنی بلند علمی سطح پر نہیں تھا جس پر پاکستان میں اس کی ہم خیال جماعت اسلامی نے انجام دیا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جماعت اسلامی کے علاوہ اسلامی دنیا کی کسی اور تنظیم نے فکری میدان میں اخوان کے برابر کام نہیں کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک اخوان کی دعوت مشرق کے بیشتر عرب ممالک میں جڑ پکڑ چکی تھی لیکن اخوان کا سب سے مضبوط مرکز مصر ہی تھا۔ جنگ کے بعد اخوان نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 1948ء میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے سرکاری افواج کے مقابلے میں زیادہ شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ دوران جنگ انگریزوں نے آزادی مصر کا جو اعلان کیا تھا اسے اخوان نے فوری طور پر پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا، اور دو سال کے اندر اندر اخوان کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ ہمدردوں کی تعداد اس سے دو گنی تھی۔ اخوان کی روز بروز مقبولیت سے اگر ایک طرف شاہ فاروق کو خطرہ محسوس کرنے لگا تو دوسری طرف برطانیہ نے مصر پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اخوان پر پابندی لگائی جائے چنانچہ 9 دسمبر 1948ء کو مصری حکومت نے اخوان المسلمون کو خلاف قانون قرار دے دیا اور کئی ہزار اخوان کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ تین ہفتے بعد وزیراعظم نقراشی پاشا کو ایک نوجوان نے قتل کردیا۔ حسن البنا کو آخر تک گرفتار نہیں کیا گیا اور 12 فروری 1949ء کی شب قاہرہ میں اس عظیم رہنما کو ایک سازش کے تحت رات کی تاریکی میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 43 سال تھی۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ مضمون ویکیپیڈیا سے لیا گیا ہے،،
اس عنوان پر انشاء اللہ مزید مضامیں پوسٹ کروں گا
آپ تمام لوگوں سے درخواست ہے کے آپ بھی رائے دیں کے آپ حسن البناء کو اور ان کی فکر کو کیسا پاتے ہیں ۔
 

ابوشامل

محفلین
برادر آپ نے امام حسن البنا کے بارے میں قلم اٹھا کر یقین جانیے میرا دل جیت لیا ہے۔ امام حسن البنا ماضی قریب کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے فکری محاذ پر اس وقت اسلام کے دفاع کا بیڑا اٹھایا جب دنیا اشتراکیت و سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان ٹکراؤ کے باعث ان دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر چکی تھی اور مسلم ممالک کی اکثریت کو قومیت پرستی کا سانپ جکڑ چکا تھا۔ امام کی سب سے بڑی خصوصیت اسلام کے بارے میں ان کا استقامت سے بھرپور نظریہ تھا جس میں شہادت تک کوئی لغزش نہ آئی۔ آپ 20 ویں صدی کی ان عظیم شخصیات کے بلا شک و شبہ امام ہیں جنہوں نے اپنا لہو دین محمدی پر نچھاور کیا اور نشاۃ ثانیہ کی جانب رواں اسلام کے اس پودے کی آبیاری کی۔ اللہ آپ کی روح پر رحم فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اخوان کے ان تمام شہیدوں کے درجات کو بھی بلند کرے جنہوں نے اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

برادر! (کس نام سے پکاروں؟) اللہ آپ کو اس موضوع پر لکھنے اور کوشش کرنے پر جزائے خیر دے۔ کیونکہ ہماری نوجوان نسل کے لیے ان عظیم شخصیات کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے جن کے لہو سے اسلام کا چراغ آج بھی آندھیوں میں جل رہا ہے۔ میں نے بھی اسی سلسلے کو اردو وکیپیڈیا پر شروع کرنے کا کام کیا تھا اور اب تک امام حسن البنا سمیت دیگر کئی شخصیات پر مضامین لکھ چکا ہوں۔ ساتھ ساتھ ان کے دور کی دیگر اہم شخصیات (بشمول مخالفین) مثلاً جمال عبدالناصر وغیرہ پر بھی مضامین لکھے ہیں۔ میرا ہدف طلوع اسلام سے موجودہ دور تک کی تمام اہم اسلامی شخصیات، امیر تیمور سے لے کر صلاح الدین ایوبی اور یحییٰ خان سے لے کر شاہ عبداللہ تک، پر مضامین لکھے جائیں۔ اس سلسلے میں اگر آپ کچھ میری مدد کرنا چاہیں تو مجھے خوشی ہوگی۔
میرے تمام مضامین آپ اس صفحے پر دیکھ سکتے ہیں: وکیپیڈیا پر میرا صفحہ
 

غازی عثمان

محفلین
اس ڈورے پر بھی کوئی آیا یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ورنہ میں نے تو مایوس ہو کر پوسٹ کرنا بند کر دیں تھیں،،

قسیم آپ نے اچھا کیا کہ شمارے کا لنک دے دیا ، میں نے بھی مندرجہ بالا مضامین ترجمان القران سے ہے لئے تھے، اخوان نمبر کے علاوہ بھی ترجمان نہایت جاندار رسالہ ہے میں تو سوچ رہا تھا کے اس کا مستقل سلسلہ " اشارات " محفل پر پوسٹ کیا کروں، بہرحال تمام احباب اسے ضرور وزٹ کریں انشاء اللہ بہترین پائیں گے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کالا پانی، کیا آپ تصویر کی جگہ تحریری اُردو میں پوسٹ کر سکتے ہیں؟ میں یہ پڑھنا چاہ رہی ہوں لیکن یہ اوپن نہیں ہورہا
 
جزاک اللہ برادر۔

آپ نے بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے اور میرے خیال میں اسے تاریخ میں منتقل کر دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
 
Top