امامت کیا ہے ؟‌ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا خطبہ

امامت کیا ہے
خطبہ مولا کائنات امیرالمومنین حضرت علیؑ

امام کلمۃ اللہ، حجتہ اللہ، وجہہ اللہ، نور اللہ، احجاب اللہ، اور آیت اللہ ہوتا ہے۔ اس کو خدا منتخب کرتا ہے۔ اور جو کچھ (اوصاف و کمالات) چاہتا ہے اس کو عطا کرتا ہے۔ اور تمام مخلوق پر اس کی اطاعت کو واجب کرتا ہے۔ پس وہ تمام آسمانوں اور زمین پر اس کا ولی ہے۔ خدا نے اس بات پر اپنے تمام بندوں سے عہد لیا ہے۔ پس جس نے امام پر سبقت کرنے کی کوشش کی اس نے خدائے عرش سے کفر کیا۔ پس امام جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ جب ہی کرتا ہے جب کہ خدا کسی بات کو چاہے۔ اس کے بازو پر "وتمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا" یعنی مکمل ہوا کلمہ، رب جو صدق اور عدل ہے، " لکھا رہتا ہے۔ بس وہی صدق اور عدل ہے۔ اس کے لئے زمین سے آسمان تک ایک نور کا ستون نصب کیا جاتا ہے۔ جس میں وہ بندوں کے اعمال کو دیکھتا ہے۔

وہ لباس ہیبت و جلال سے ملبوس رہتا ہے وہ دل کی بات جانتا ہےاور غیب پر مطلع رہتا ہے۔ وہ متصرف علی الاطلاق ہوتا ہے۔ وہ مشرق تا مغرب تمام اشیا کو دیکھتا ہے۔ عالم ملک اور ملکوت کی کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں اور اس کی ولایت میں اس کو جانوروں کی بولی عطا کی جاتی ہے۔ پس یہی وہ امام ہے جس کو اللہ نے اپنی وحی کے لئے منتخب کیا اور امور غیب کے لئے پسند فرمایا اور اپنے کلام سے اس کی تائید کی اور اس کو اپنی حکمت تلقین کی اور اس کے قلب کو اپنی مشیت کی جگہ قرار دیا۔ اس کے لئے سلطنت کی منادی کر دی۔ اور اس کو اولی الامر بنا کر اس کی اطاعت کا حکم دیا۔ کیونکہ امامت میراث انبیا اور درجہ اوصیا، خلافت خدا اور خلافت رسولان خدا ہے۔

پس یہی صاحب عصمت و ولایت اور سلطنت و ہدایت ہے۔ کیونکہ وہ ضرور بہ ضرور دین کی تکمیل کرنے والا ہے۔ اور بندوں کی اعمال کی کسوٹی ہے۔ امام خدا کا قصد رکھنے والوں کے لئے دلیل راہ ہے۔ اور ہدایت پانے والوں کے لئے مینارہ نور اور سائلین کے لئے سبیل راہ ہے۔ اور عارفین کے قلوب میں چمکنے والا آفتاب ہے۔ اس کی ولایت سببِ نجات ہے۔ اس کی اطاعت زندگی میں فرض گردانی گئی ہے اور مرنے کے بعد وہی توشہ آخرت ہے۔ وہ مومنین کے لئے باعث عزت اور گناگاروں کے لئے باعث شفاعت اور دوستوں کے لئے باعث نجات ہے۔ اور تابعین کیلئے فوز عظیم ہے۔ کیونکہ وہی راس اسلام اور کمال ایمان اور معرفت حدود و احکام اور حلال و حرام کا بیان کرنے والا ہے۔ پس یہ وہ مرتبہ ہے جس پر سوائے اس کے جس کو اللہ خود منتخب کرے اور سب پر مقدم و حاکم و والی بنائے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔

پس ولایت حفظ تغور تدبیر امور اور ایام و شہور کی تعدید کرنے والی ہے۔ امام تشنگان علوم و معارف کے لئے اب شیریں اور طالبان ہدایت کے لئے ہادی ہے۔ امام وہ ہے جو ہر گناہ سے پاک و مطہر ہو اور امور غیب سے مطلع ہو۔ پس امام وہ ہے جو انوار کے ساتھ بندگان خدا پر طلوع ہوتا ہے پس وہ ایسی شے نہیں جس کو ہاتھ اور آنکھ پا سکے اور اسی کی طرف قول خدا کا اشارہ ہے کہ عزت بس اللہ اور اس کے رسولؐ مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) اور مومنین کے لئے ہے۔ اور وہ مومنین علیؑ اور ان کی عترت ہیں۔ بس عزت نبیؐ اور عترت نبی کے لئے ہے۔ نبی اور ان کی عترت زمانہ کے ختم ہونے تک جدا نہیں ہو سکتے۔ پس وہ ایمان کے دائرہ کے مرکز اور قطب وجود ، آسمان جود و سخا اور شرف موجود ہیں۔ یہی ضیائے آفتاب شرافت اور اس کے ماہتاب کے نور ہیں اور اصل معدن عزت و بزرگی اور اس کے مبدا و مبنا ہیں۔

پس امام ٖضلالت کی تاریکیوں میں درخشاں چراغ ہے۔ اور اللہ تک پہنچنے کا راستہ اور سیراب کرنے والا پانی اور موجزن سمندر ہے۔ وہی روشن چاند اور علوم معارف سے بھرا ہوا تالاب ہے۔ وہی صراط الہٰی ہے جس کے راستے واضع ہیں اور وہ دلیل و رہنما ہے۔ ضلالت کے مہلک راستوں میں وہ رحمت الہی کا برسنے والا بادل اور باران کثیر ہے۔ وہ ہدایت کا بدر کامل ، رہنمائے فاضل ، سب پر سایہ رکھنے والا آسمان اور اس کی نعمت جلیل ہے۔ وہ ایک سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا اور وہ ایک ایسا شرف ہے جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ وہ ایک چشمہ فیض اور نعمات الہی اک سر سبز باغ اور مہکتا ہوا چمن رسالت کا پھول اور امامت کا درخشاں آفتاب ہوتا ہے۔ وہ ایک پاکیزہ خوشبودار مجسم عمل صالح ہے۔ وہ فائدہ بخش مال تجارت اور سبیل واضع ہے۔ جس سے کوئی نہیں بھٹک سکتا۔

وہ ایک رفیق طبیب، پدر شفیق اور بندوں کی ہر مشکل میں مدد کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی جانب سے خلائق کا نگہبان اور حقائق پر اس کا امین ہے۔ اس کے بندوں پر اللہ کی حجت اس کی زمین اور ملکوں پر اللہ کی راہ روشن ہے۔ وہ تمام گناہوں سے جملہ عیوب سے مبرا اور غیب کی باتوں سے مطلع رہتا ہے۔ اس کا ظاہر ایک ایسا امر ہےجس پر کوئی محیط نہیں ہو سکتا۔ اس کا باطن ایسا غائب ہے جس کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا۔ وہ واحد روزگار اور خدا کے امر و نہی میں اس کا خلیفہ ہوتا ہے۔ نہ اس کا کوئی مثل ہے و نظیر ہے نہ اس کا کوئی بدل۔

پس کون ہے جو ہماری معرفت حاصل کر سکے یا ہمارے درجے پر پہنچ سکے یا ہماری کرامات کا مشاہدہ کرسکے یا ہماری منزلت کا ادراک کر سکے۔ اس امر میں عقلیں حیران اور افہام سرگزشتہ ہیں۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس کے سامنے بڑے بڑے لوگ حقیر ہیں۔ اس کے ادراک سے علما قاصر، شعرا ماندے، خطیب گونگے، اور بہرے، فصحا عاجز اور زمین اور آسمان شان اولیا میں ایک وصف بھی بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ کون ان کو پہچان سکتا ہے یا اس کا وصف بیان کرسکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے۔ یا ادراک کر سکتا ہے۔ جو کہ نقطہ کائنات، دائروں کا مرکز ممکنات کا راز اور جلال کبریائی کی شعاع اور ارض و سما کا شرف ہے۔

آل مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) کا مقام اس سے برتر ہے کہ کوئی وصف کنندہ اس کی توصیف کر سکے اور اس کی نعت و تعریف لکھ سکے۔ اور تمام عوالم میں کسی کو ان کے ساتھ قیاس کر سکے۔ وہ نور اول اور کلمہ علیا و اسمائے نورانی اور وحدانیت کبریٰ ہیں۔ جس نے ان سے منہ موڑا وہ وحدانیت سے مڑ گیا اور یہی خدا کے حجاب اعظم و اعلٰی ہیں۔ پس ایسے امام کو کون منتخب کر سکتا ہے اور عقلیں اس کو کہاں پہچان سکتی ہیں اور کون ایسا ہے جس نے اس کا پہچانا یا اس کا وصف بیان کر سکا۔

لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ امامت ، آل مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) کے علاوہ غیروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ جھوٹے ہیں ان کے قدم راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔ انہوں نے گوسالہ موسیٰ کو اپنا رب اور شیاطین کو اپنی جماعت بنا لی ہے۔ یہ سب بیت صفوۃ اور خانہ عصمت سے بغض کی وجہ اور معدن حکمت و رسالت سے حسد کی وجہ ہے۔ شیطان نے ان کے لئے اعمال کو مزین کر دیا ہے۔ خدا ان کو ہلاک کرے کہ کس طرح انہوں نے اس کو امام بنا لیا جو جاہل بت پرست اور یوم جنگ بزدلی دکھانے والا تھا۔ حالانکہ یہ واجت ہے کہ امام ایسا عالم ہو کہ اس میں کسی قسم کا جہل نہ ہو۔ اور ایسا شجاع ہو کہ کسی معرکے میں منہ نہ موڑے۔ نہ حسب میں کوئی اس سے اعلیٰ ہو اور نہ نسب میں اس کے برابر ہو۔ پس امام ذریت قریش اور اشراف بنی ہاشم اور بقیۃ ذریت ابراھیمی سے ہوتا ہے۔ اور وہ نبی کریم مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) کی شاخ سے ہوتا ہے۔ وہ نفس رسول ہوتا ہے۔ اور رضائے خدا سے مقرر ہوتا ہے۔ اور یہ انتخاب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔

پس وہ شرف ہے اشراف کا اور فرع ہے عبد مناف کی اور وہ عالم سیاست ہوتا ہے۔ اور اہل زمین پر ریاست عامہ رکھتا ہے۔ اس کی اطاعت قیامت تک فرض کی گئی ہے۔ خدا اس کے قلب میں اپنے اسرار ودیعت کرتا ہے اور اس میں اپنی زبان کو گویا کرتا ہے پس وہ معصوم اور مومن من اللہ ہوتا ہے۔ وہ جاہل یا بزدل نہیں ہوتا۔ پس لوگوں نے ایسے امام کو چھوڑ دیا اور حرص و ہوس کے تابع ہوگئے۔ اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو بغیر ہدایت خدا اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ امام فرشتہ بصورت بشر، جسد سماوی میں ایک امر الہٰی اور روح قدس ہوتا ہے۔ اس کا مقام بلند وہ نور جلی اور سر خفی الہٰی ہوتا ہے۔ پس وہ ملکی الذات اور الہٰی صفات و زاید الحسنت اور عالم الغیبات ہوتا ہے۔

وہ رب العالمین سے مخصوص اور صادق الامین یعنی جناب مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) سے منصوص ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں صرف آل رسولؐ ہی میں ہیں۔ اور کوئی دوسرا ان میں ان کا شریک نہیں کیونکہ یہی معدن تنزیل اور کلام خدا کی تاویل ، خاصان رب جلیل اور جبرئیل امین کے نازل ہونے کے مقام ہیں۔ یہی برگزیدہ خدا، راز خدا ، اور اس کا کلمہ شجرہ نبوت و معدن شجاعت ، اس کا عین کلام ، اور منتہائے دلالت، محکم رسالت، نور جلال الہٰی، جنب اللہ اور اس کی امانت موضع کلمہ خدا ، مفتاح حکمت، چراغ رحمت اور اس کی نعمت کے چشمے ہیں۔

یہی خدا کی معرفت کا راستہ اور سلسبیل ہیں اور یہی میزان مستقیم ، صراط مستقیم اور خدائے حکیم کے ذکر مجسم اور وجہہ رب کریم ، اور نور قدیم ہیں۔ یہی صاحبان عزت و بزرگی و تقویم و تفصیل و تعظیم ، جانشینیان نبی کریمؐ اور فرزندان رسولؐ روف و رحیم ہیں۔ یہ امانتداران خدائے علی و عظیم ہیں۔ یہ بعضھا من بعض کی ذریت ہیں۔ اللہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے۔ یہی ہدایت کے بلند نشان اور طریق مستقیم ہیں۔ جس نے انہیں پہچان لیا اور ان سے معارف کو حاصل کیا پس وہ ان سے ہے۔ رسولؐ خدا مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) کے قول من تبعنی فانہ منی میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جس نے میری پیروی کی وہ مجھ سے ہے۔ اللہ نے ان کو اپنے نور عظمت سے خلق کیا ہے اور ان کو اپنی مملکت کے امور کا والی بنایا ہے۔

پس وہی اللہ کے پوشیدہ راز ہیں اور اس کے اولیا مقرب ہیں اور کاف اور نون کے درمیان اس کے امر ہیں بلکہ وہی کاف و نون ہیں۔ وہ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسی کی طرف سے بات کرتے ہیں۔ اور اسی کے امر پر عمل کرتے ہیں۔ تمام انبیا کا علم ان کے علم کے مقابلے میں اور تمام اوصیا کا راز ان کے راز کے مقابل اور تمام اولیا کی عزت ان کی عزت کے مقابل ایسی ہی ہے جیسے سمندر کے مقابل قطرہ اور صحرا کے مقابل ایک ذرہ۔ تمام زمین و آسمان امام کے نزدیک اس کے ہاتھ اور ہتھیلی کے مانند ہیں۔ وہ ان کے ظاہر و باطن کو پہچانتا ہے اور نیک و بد کو جانتا ہے۔ اور وہ ہر رطب دیابس کا عالم ہے۔ چونکہ اللہ نے اپنی نبیؐ کو تمام گزشتہ اور آئندہ کا علم دیا تھا اس کے اوصیائے منتخبون اس محفوظ راز کے وارث ہوئے۔

جو اس بات سے انکار کرے وہ بدبخت اور ملعون ہے۔ اس پر خدا لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ خدا کس طرح اپنے بندوں پر ایسے شخص کی اطاعت فرض کر سکتا ہے جس سے آسمان و زمین کے ملکوت پوشیدہ ہوں اور بہ تحقیق کہ آل محمدؐ کی شان میں ایک ایک لفظ ستر ستر توجہیں رکھتا ہے اور سب کے لئے ذکر حکیم و کتاب کریم اور کلام قدیم میں ایک آیت ضرور موجود ہے۔ جس میں صورت آنکھ ہاتھ اور پہلو کا ذکر ہے۔ پس ان سب سے مراد یہی ولی ہے کیونکہ وہ جنب اللہ، وجہہ اللہ یعنی حق اللہ و علم اللہ ، عین اللہ اور ید اللہ ہے۔ گویا کہ ان کا ظاہر صفات ظاہرہ کا باطن اور ان کا باطن بطنی صفات کا ظاہر ہے۔ پس وہ باطن کے ظاہر اور ظاہر کے باطن ہیں۔ اور قول رسول خدا مُحمدؐ مُصَطَفیٰ (صَل اللہ عَلیہ و الہ وَسلم) کا اشارہ اسی طرف ہے کہ ان عین وایاری وانا انت یا علیؑ منھا ، بہ تحقیق کہ اللہ کے لئے ہاتھ اور آنکھیں ہیں یا علی میں اور تم اسی سے ہیں۔

پس وہی جنب خدائے علی و عظیم اور وجہ مرضی اور سیراب کرنے والے چشمے اور خدا کی سیدھی راہ ہیں اور وہی خدا تک پہونچے گا اور اس کے عفو و رضا سے وصل ہونے کا وسیلہ ہیں۔ وہی خدائے واحد اور احد کے راز ہیں۔ پس ان کے ساتھ کسی مخلوق کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہی مخصوصین خدا اور مخلص بندے ہیں۔ یہی اس کے دین و حکمت کے راز ہیں اور باب الایمان کعبہ، حجت خدا اور صراط مستقیم ہیں۔ اور علم ہدایت اور اس کے نشان ہیں۔ اور فضل خدا اور اس کی رحمت ہیں۔ یہی عین الیقین و حقیقت اور صرط حق و عصمت اور مبدا و منتہائے وجود اور غاریت و قدرت پروردگار اور اس کی مشیت ہیں۔ اور یہی ام الکتاب اور خاتمۃ الکتاب (یعنی سورۃ فاتحہ ) ہیں یہی کتاب تکوین اور خاتمہ محصف تددین ہیں ۔ یہی فضل الخطاب اور اس کی دللالت اور وحی کے حزانہ دار و محافظ ہیں۔ اور اس کے ذکر کے امین و مترجم اور معدن تنزیل ہیں۔

یہی وہ کواکب علویہ ہیں جو آفتاب عصمت فاطمہؑ سے آسمان عظمت محمدیہؐ میں چمکے اور روشن ہوئے۔ یہی وہ شاخ ہائے نبوی ہیں جو شجر احمدیہ میں آگے۔ یہی وہ اسرار الہٰی ہیں جو صورت بشر میں ودیعت کئے گئے۔ یہی ذریت ذکیہ اور عترت ہاشمیہ ہیں جو ہادی اور مہدی ہیں۔ یہی بہترین مخلوقات ہیں۔ بس یہی آئمہ طاہرین ، عترت معصومہ ، ذریت مکرمہ ، خلفائے راشدین ، صدیقین اکبر، اوصیائے منتخبین ، اسباط مضیین اور مہدیوں کے ہادی ، مبارک اشخاص کے مشاہیر ، آل طٰہ و یسٰین سے ہیں۔ اور وہ جملہ اولین و آخرین پر حجت خدا ہیں۔ ان کے نام پر حجروں پر درختوں کے پتوں پر پرندوں کے پروں پر ، جنت و جہنم کے دروازوں پر ، عرش اور آسمانوں پر ، فرشتوں کے بازووں پر اور حجاب ہائے عظمت و جلال الہٰی پر اور عز و جمال خداوندی کے پردوں پر لکھے ہوئے ہیں۔ انہیں کے نام سے پرندے تسبیح کرتے ہیں اور ان کے شیعوں کے لئے مچھلیاں سمندر میں استغفار کرتی ہیں۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جب تک کہ اس سے اپنی واحدانیت اور اس ذریت ذکیہ کی ولایت اور ان کے دشمنوں سے برات کا عہد نہیں لے لیا۔ اور عرش قائم نہیں ہوا جب تک کہ اس پر نور سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ نہ لکھا گیا۔


الہم صلی اللہ محمد و آل محمد

یہ خطبہ نہچ الاسرار سے لیا گیا۔
 
Top