الماس !! ---- ( از فصیح احمد )

سید فصیح احمد

لائبریرین
" اس لڑکی میں تو جیسے کوئی جِن گھُسا ہے۔ کسی کی ایک نہیں سنتی ۔۔۔ "
اماں نے الماس کو ایک چپت لگائی۔ الماس نے کاندھے اُچکے اور جھاڑو کا تِنکا سنبھالے پھِرسے مٹِّھو کو ستانے لگی۔
" ماں جی کیا بات ہوئی ؟ "
محسن نے صحن سے اخبار پر ہی مرکوز رہتے ہوئے اماں سے سوال کیا۔ آج جمعہ کا دِن تھا اورمحسن جمعہ کی نماز سے واپسی پر صحن میں دھوپ سستانے کو پلنگ پر نیم دراز ہو گیا۔ اخبار کے ورق یونہی بے دھیانی میں پلٹنے لگا۔ سردیوں میں دھوپ بھی کمال کی نعمت ہے۔قدرت نے اِسے دائرہِ حیات کا ایک بڑا رُکن بنایا ہے ۔۔۔۔۔۔محسن اس نعمت پر مزید غور کر ہی رہا تھا کہ اِس نیم خوابی سے اماں کی کرخت آواز محسن کو یک دم ہوش میں لے آئی۔
" یہ اپنی لاڈلی کو سمجھا جیون کو تنگ نہ کرے۔ چھُٹیاں کیا ہوئیں میری تو جان پہ عزاب بن گیا۔ توُ جب اِس کی عُمر کا تھا تو ایسا تو نہ تھا! یہ شیطان کس پر چلی گئی ؟ ۔۔۔ "
اِس سے پہلے کہ اماں کُچھ اور کہتیں محسن نے لیٹے ہی آواز دی،
" اچھا نا اماں آ رہا ہوں، تھوڑا صبر کریں "
" مُجھ سے جو اکھڑ رہا ہے تو اپنی لاڈلی کو کیوں نہیں ٹوکتا ؟ "
اماں مسلسل خفگی میں سر کھُجائے جا رہی تھیں۔ محسِن کو محسوس ہو گیا کہ اُس کے اُٹھے بِنا اب بات نہیں بننے والی۔ نِڈھال سا پیروں سے چپل کو فرش پر گھسیٹتا ہوا اندر برآمدے کو آیا ،، برآمدے میں سامنے دو کمروں کی کھڑکیاں جھانکتی تھیں، ایک کمرہ تو سامان رکھ کر بند کر رکھا تھا جبکہ دوسرے میں اماں کا بستر لگا تھا۔ اماں نے بڑے شوق سے دوُر کسی پہاڑی علاقہ سے بڑا نسلی طوطا منگوایا تھا۔ نام رکھا جیون میاں!! جیون میاں کا پنجرہ اماں نے کھڑکی ہی میں کھونٹی سے لٹکا رکھا تھا۔محسن جونہی برآمدے سے اندر ہوا اس کی نظر الماس پر پڑی جو ابھی تک جیون کو ستا رہی تھی۔
" الماس! "
محسن نے دھیرے مگر رعب دا ر لہجے میں الماس کو مُخاطب کیا۔
" جی بابا جانی ! "
الماس نے رُک کر محسن کو بڑی بڑی معصوم آنکھوں سے دیکھا مگر تِنکا ابھی تک پنجرے میں جیون کی چونچ تک پہنچا ہوا تھا۔
" آپ کو کتنی بار منع کیا کہ جیون کو تنگ نہیں کرنا۔ بابا کی بات کیوں نہیں سُنتے آپ؟ "
محسن نے شدید ترین غصے کی حالت میں بھی کبھی الماس پہ ہاتھ نہ اُٹھایا تھا۔ اس کی وجہ بے جا لاڈ نہیں بلکہ شائدارواح کا وہ تبادلہ تھا جو پانچ سال قبل الماس کی پیدائش پر ہوا۔ محسن کو الماس تو ملی لیکن الماس کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ محسن بہت مضبوط اعصاب کا مالِک تھا، اُس نے اس حادثے کو اللہ کی رضا سمجھ کر چُپ تو سادھ لی مگر ذرا لا پروا ہو گیا۔ کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ الماس کی ماں زندہ ہوتی تو محسن شائد سختی بھی کر لیتا مگر اب تو وہی الماس کی ماں بھی تھا اور ماں سخت کیسے ہو سکتی ہے بھلا ،،، !! اماں یہی سمجھتی تھیں کہ محسن کے اِس لاڈ نےالماس کو بِگاڑ دیا ہے اور اسی واسطے اب وہ ضِدی ہوتی جا رہی ہے۔ محسن نے کئی بار اس پہلو پرغور کیا مگر اُسے الماس کی آنکھوں میں حیرت اور سکوں کے علاوہ دور دور تک کُچھ نہیں دِکھتا تھا۔ محسن چہرہ شناس تو نہ تھا مگر الماس کی آنکھیں اس حد تک شفاف تھیں کہ کوئی بھی انہیں پڑھ لیتا۔
" بابا جانی! "
الماس تِنکا جیون کی چونچ میں ہی چھوڑ کر کمرے کے دروازے کی جانب لپکی۔
" جی کروں میرا بیٹا "
الماس تھوڑا لڑکھڑا کر دروازے سے اٹکتی اپنے باپ کی ٹانگوں سے چِپک گئی۔ محسن نے جھُک کر اُسے بازوؤں میں بھر لیا۔
" بابا جانی باہر چلیں ؟ "
الماس نے باپ کے تنبیہی الفاظ کو ذرا محسوس نہ کیا۔وہ طوطے اور تِنکے کا کھیل بھول چُکی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ الماس کو کوئی کچھ بھی کہے بھلا یا بُرا اسے پرواہ نہ ہوتی تھی مگر محسن کی ذات جیسےاس کی ہر بات پے حاوی تھی۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ وہ جانتی ہو ، محسن اس کا باپ اور ماں دونوں ہے۔ شائد اسی واسطے دونوں کا پیار عموماً سے دوہرا تھا!
" کہاں جانا ہے میری زندگی؟ "
" ہممم ۔۔۔۔۔۔۔۔ "
الماس ہونٹوں پر انگشت دھرے یوں کہیں کھو گئی جیسے جگہوں کی نہ ختم ہونے والی فہرِست سے چُننا ایسا آسان نا ہو۔
محسن مُسکرا دیا۔
" تنور والی خالہ کے پاس؟ "
" نہیں! "
" گُڑیا والے انکل؟ " ( نیلام گھر )
" نہیں! " ( اِس جواب پر محسن حیران ضرور ہوا، مگر وہ کیا، کوئی بھی نہ جانتا تھا کہ الماس کِس وقت کیا مانگے گی )
" بڑے باغ میں؟ "
( الماس سے باغِ جِناح کبھی یاد نا ہوا تو اپنی آسانی کو اُس کا نام بڑا باغ رکھ دیا )
" ہاں اُدھر چلیں ، جلدی جلدی چلیں نا! "
الماس نے بڑے باغ کا سُنتے ہی محسن کی گرِفت میں ہی دروازے کی جانب زور لگانا شروع کر دیا ، جیسے بہت دیر سے وہ یہی چاہ رہی ہو۔
" اچھا بابا جوتے تو بدلنے دو نا! "
" نہیں! ، مُجھے دیر ہو رہی ہے۔ "
محسن نے گھر والی چپل ہی میں باہر کو رُخ کیا۔ محسن کا گھر باغِ جِناح سے تقریباً دو تہائی کوس دوُر تھا۔ راستے میں ایسے بہت سے ٹھِکانے آتے جو الماس کو محبوب تھے۔ مثلاً تنور والی خالہ ، گُڑیا والے انکل (نیلام گھر) ، کُلفی گھر ( الماس نے شائد کُلفی کبھی نا کھائی تھی بس اُسے اُس پر لگا نارئیل کا رنگدار بھورا بہت پسند تھا وہ سب کھانے کے بعد کُلفی محسن کے حوالے ہو جاتی ) اور گلی کی نُکر پر سموسہ گاڑی (ٹھیلے والے کے قیمہ بھرے سموسے) وغیرہ۔
" اماں، دروازے کو چٹخنی لگا لیں "
دروازے سے نِکلتے وقت محسن نےاماں کو آواز دے کر دونوں کواڑ دبا دیئے۔
" الماس! آپ کو دیر کیوں ہو رہی، کسی سے مِلنا ہے ؟ "
محسن نے جاننا چاہا، بچوں کا فلسفہِ زندگی بہت افسانوی ہوتا ہےمحسن کو الماس اکثر بہت سے گوہر دیتی تھی۔
" مُجھے چِڑیا سے مِلنا ہے "
" آپ کو بلایا چِڑیا نے؟ "
" جی! صُبح صُبح چِڑیا آئی تھی، کُچھ کہ کے اُڑ گئی، مُجھے سمجھ ہی نہیں آئی تو میں نے جیون سے پوچھا ، وہ بھی تو نہیں بول رہا تھا۔ میں نے کِتنی بار تِنکے سے اُس کی چونچ کھولی نا ۔۔۔ "
الماس یک دم کسی عُمر رسیدہ شخص سا دِکھنےلگی۔
" کیا سوچ رہی ہو؟ "
محسن غور سے اس کا شفاف چہرا پڑھنے میں مصروف تھا۔
" اگر چِڑیا نہیں مِلی تو میں اُسے کیسے ڈھونڈوں گی؟ "
" ہم کسی اور چِڑیا سے پوچھ لیں گے نا! "
محسن نے تسلی دلائی تو الماس کی فِکر قدرے کم ہو گئی۔ باقی کا راستہ خاموشی ہی رہی۔ کُچھ ہی دیر میں باپ بیٹی باغِ جِناح میں داخِل ہو چُکے تھے۔ ابھی محسن نے چند قدم ہی طے کیئے ہوں گے کہ الماس چِلائی،
" وہ رہی چِڑیا ! "
یہ کہتے ہی الماس محسن کے بازوؤں سے چھوٹ کر درختوں کے جھُنڈ کی جانب دوڑ پڑی۔ محسن اُسے آواز ہی دیتا رہ گیا مگر الماس نے چِڑیا دیکھ لی تھی اور اُسے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ محسن بھی تقریباً دوڑتا ہوا اس کے پیچھے ہوا۔ مگر الماس جب تک درخت کے پاس پہنچی چِڑیا زمیں سے اُڑ کر پیڑ پر جا بیٹھی۔
" چِڑیا ، پیاری چِڑیا سُنو نا میری بات۔ تُم نے صُبح کیا کہا تھا مُجھ سے؟ "
الماس بے چین سی پتوں میں چھُپی چِڑیا کو تلاش رہی تھی۔ اِتنے میں محسن بھی قریب پہنچ گیا۔ اُسے اب الماس کا یہ نیا روپ پریشان کر رہا تھا۔ اُس نے الماس کوکبھی اِتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا نہ ہی اِتنا فِکرمند! محسن نے اوپر دیکھا تو اُسے شاخوں کے بیچ اُلجھا ہوا ایک گھونسلہ دِکھائی دیا۔ جِس پر سے کُچھ تِنکے بھی نیچے کو لٹک رہے تھے۔ معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ گھونسلہ ٹوٹ کر بِکھرا ہے یا پھِر جمع شدہ زائد تِنکےایک طرف کو سِرک گئے۔
" بابا جانی چِڑیا دِکھائی دی؟؟ "
اب الماس نے چِڑیا کے بجائے محسن پر ٹِکٹِکی باندھ رکھی تھی۔
" نہیں بیٹا جانی ابھی ۔۔۔۔۔ "
محسن اپنی بات مکمل کرنے ہی والا تھا کہ اسی درخت کے بڑے تنے کی پُشت سے چوں چوں کی ضعیف سی آواز دونوں کے کان میں پڑی۔ اِس سے پہلے کہ محسن کوئی قدم اُٹھاتا ، الماس فوراً ہی ایک ننھی جست میں آواز کی سمت جا پہنچی۔ محسن کے لیئے الماس کی ایسی پھُرتی بالکل نئی تھی بلکہ آج تو اُسے بہت سی نئی باتوں سے واسطہ پڑ رہا تھا۔
" بابا جانی ایک اور چِڑیا ۔۔۔۔ !! "
الماس تقریباً چِلائی۔ محسن الماس کے پاس پہنچا تو اس کی نظر ایک ننھی چِڑیا پر پڑی جو ایک طرف کو لڑھکی ہوئی مسلسل بول رہی تھی، شائد پیاس سے یا شائد خوف سے !! محسن ہاتھ بڑھا ہی رہا تھا کہ الماس نے اس کے ہاتھ پکڑ لیئے۔
" نہیں بابا جانی! ،،، یوں آرام سے اُٹھانا ہے۔ "
الماس نے یہ کہ کر ننھی چِڑیا کو اپنے ننھے ہاتھوں کی پیالی بنا کر یوں اُٹھایا اور سینے سے لگا لیا کہ وہ ننھی چِڑیا ایک لحظہ میں چُپ کر گئی اور کچھ ہی لمحوں میں اس نے آنکھیں موند لیں۔
" بابا جانی دیکھیں اِسے پیاس لگ رہی ہے "
الماس نے محسن کی توجہ چِڑیا کی باہر نِکلی ہوئی زبان پر دِلائی۔ اب محسن کو بھی فِکر ہوئی کہ باقی کی گُتھی پے بعد میں غور کریں گے مگر پہلے اس کی پیاس کا کچھ سد باب کیا جائے۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑانے کے بعد محسن کو سپلائی کا نلکہ دِکھ گیا۔ محسن نے دھیرے سے الماس کا کندھا جھلا لر اس کا دھیان نلکے کی طرف دلایا ( شائد اب وہ بھی ننھی چِڑیا کی خاموشی توڑنا نہیں چاہتا تھا )۔ نلکہ دیکھ کر الماس کے چہرے پر رونق دوڑ گئی۔ دونوں ہلکے قدم اُٹھاتے نلکے تک پہنچے، محسن نے جیب سے رومال نِکالا اور اسے پانی سے بھِگویا پھِر الماس کو اشارہ کیا کہ چِڑیا کا منہ سیدھا کرے۔الماس نے چِڑیا کی چونچ کو سہارا دیا اور محسن نے ہلکے ہلکے رومال کو دبا کر چند قطرے چِڑیا کے حلق میں ڈالے، قطرے جونہی چِڑیا کے حلق سے نیچے اُترے اس کے بدن نے اِک جھرجھری لی اور آنکھیں کھول دیں محسن نے رومال پر دباؤ بڑھایا اور پانی کی دھار سی رواں ہو گئی، چِڑیا کی چونچ اب اُس دھار کا پیچھا کر رہی تھی۔ چِڑیا جب خوب سیر ہو گئی تو محسن نے رومال ہٹا لیا۔ چِڑیا کی چوں چوں اب قدرے زور آور تھی لیکن اُس میں ایسی انجانی خوشی تھی کہ محسن اور الماس بھی مسکرانے لگے۔ الماس نے اپنے باپ کی جانب دیکھا، محسن کو الماس کی گہری آنکھوں میں ایک نیا ہی احساس مِلا ، جیسے کوئی بہت بڑا مقصد پورا ہو گیا ہو !!

چِڑیا اب توانائی مِلنے کے بعد بھی اُڑی نہیں بلکہ الماس کے ہاتھوں میں پھُدک پھُدک کر جانے کیا کہے جا رہی تھی ۔۔۔ جیسے اُسے بھی زندگی بھر کی باتیں کرنا تھیں ،،، جیسے بہت اکیلی تھی وہ !!
" میں الماس ہوں ،، تُمہارا نام کیا ہے؟ "
" چوں چوں چوں ۔۔۔۔۔ چوں چوں چوں "
" یہ میرے بابا جانی ہیں !! "
" چوں چوں چوں ۔۔۔۔۔ چوں چوں چوں "
الماس اور چِڑیا کے بیچ ایک باقائدہ مکالمہ جاری تھا۔ الماس بھول چکی تھی کہ وہ چِڑیا بولی نہیں سمجھ سکتی ( شائد یہ احساسات کی وہ زباں تھی جِس سے سبھی واقِف نہیں ہوتے ۔۔ !! )۔ محسن اس وقت ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے، دو اُفق پار دیس کے پنچھی اپنی مقدس بولیاں بول رہے ہیں اور وہ ان کی بیک وقت ابہام بھری اور ذو معنی چہچہاہٹ سے محظوظ ہو رہا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے بعد دونوں پنچھی کیا کیا باتیں کرتے رہے محسن کو اس افسانوی لمحے میں یاد نہ رہا ( جیسے وہ سب منتر اُس کے لاشعور میں محفوظ ہو چُکے تھے ) مگر جب مغرب کی اذاں سے وہ سحر ٹوٹا تو اسے احساس ہوا کہ شام ہو چکی تھی، نارنجی اور نیلے آسماں پر بہتیرے غول اپنا معمول کا سفر مکمل کر رہے تھے۔ فِضا میں ہلکی ہلکی خنکی بھی در آئی تھی۔ اب الماس اور چِڑیا خاموش تھے۔ چِڑیا بھی شائد اپنے آشیانے کو لوٹنے کے لیئے پر تول رہی تھی۔محسن سوچ ہی رہا تھا کیسے مداخلت کرے کہ چِڑیا پھُر سے الماس کے ہاتھوں سے اُڑ گئی۔
" بابا جانی یہ اِتنے سارے پرِندے کہاں جا رہے ہیں؟ "
الماس نے سوال کیا۔
" سوہنا بیٹا یہ سب تھک گئے ہیں اِس لیئے گھر جا رہے ہیں "
محسن نے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا۔
" بابا جانی چِڑیا چلی گئی! اور میں بھی تھک گئی ہوں اب ہم بھی گھر چلیں؟ "
یہ کہ کر اُس نے قوسِ قزح جیسے بازو پھیلا دیے۔ اُس کی مسکان اِس وقت زندگی کے بہت سے رنگ بکھیر رہی تھی۔ محسن نے جھُک کر اپنی پری کو بازؤں میں سمیٹ کیا۔ واپسی پر محسن کے ذہن میں ایک تکرار سی تھی، نئے پہلوؤں کی، نئی سوچوں کی ۔۔۔۔ !!
جِن سب کا حاصِل چند سوال تھے کہ آخِر ،
اہم کیا ہے؟
اصل کیا ہے؟
خوشی کیا ہے؟
زندگی کیا ہے؟
معنی کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اور بہت کُچھ !!
محسن بہت بے چین تھا اِن سب کے جوابات جاننے کے لیئے، لیکن اُلجھن یہ تھی کہ کیسے؟
" بابا جانی کیا سوچ رہے ہیں؟ "
الماس کی میٹھی آواز محسن کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ الماس کو تکنے لگا، اس کی شفاف آنکھوں میں جھانکتے اچانک کوئی خیال لا شعور سے شعور کے کینوس پر منتقل ہوا اور وہ بے اختیار مسکرانے لگا! وہ سمجھ گیا تھا کہ اِن سوالات کے جوابات اُسے کیسے مِلیں گے !!
" الماس کے بارے سوچ رہا ہوں "
یہ کہ کر اُس نے الماس کو اور بھی بھینچ لیا اور پھِر گھر تک کا سارا رستہ محسن مسلسل مُسکراتا رہا ۔۔۔۔ جیسے اُسے کوئی خزانہ مِل گیا ہو !!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
راقم فصیح احمد
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
یہ تو بھائی کے لیئے چِڑیا کا پیار ہے ورنہ بچے تحریر تو کوئی بھی مکمل نہیں ہوتی ،،،، مُجھے سینیئرز کا انتظار ہے !! :) :)
دیکھ لیجئیے گا سینئیرز بھی آپکا دل رکھنے کو کوئی غلطی نکالیں گے ورنہ بہت ہی زبردست لکھا ہے آپ نے :)
 

نایاب

لائبریرین
سحرناک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ
بابا کی جان یہ ننھی چڑیا ں اپنی معصومیت بھری شوخی کی حامل چوں چوں سے بلاشک زندگی کے راز کھولتی ہیں ۔۔
بہت دعائیں محترم سید بھائی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
سحرناک ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ بلاشبہ
بابا کی جان یہ ننھی چڑیا ں اپنی معصومیت بھری شوخی کی حامل چوں چوں سے بلاشک زندگی کے راز کھولتی ہیں ۔۔
بہت دعائیں محترم سید بھائی
جزاک اللہ :) ،،،، نایاب بھائی آپ کے نایاب الفاظ ہمیشہ میرے لیئے ہِمت افزا ہوتے ہیں ،،، ممنون ہوں :)
 
Top