اللہ والی چورنگی غائب کردی گئی

یوسف-2

محفلین
Allah_Wali_Chowrangy_Karach_xvlql_Pak101(dot)com.jpg

myphoto.jpeg

45298407.jpg

شاہراہ قائدین کی نشانیاں دو تھیں۔ایک قدیم اور ایک جدید ۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کی جدت میں قدامت اور قدامت میں جدت تھی۔قدیم نشانی تو شاہراہ قائدین کو سمجھ لیجئے جو قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان میں ان کے رفقاء کے قدموں سے برآمد ہوتی ہوئی شاہراہ فیصل سے جا ملتی۔ گویا یہ شاہراہ فقط عام سی شاہراہ نہ تھی پاکستان کے نظریاتی راستے بلکہ خارجہ پالیسی کے بارے میں علامتی طور پر رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے ۔ اس شاہراہ کی دوسری نشانی آرٹ کا ایک شاہ کار ہے جسے اللہ والی چورنگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آج میں دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا اور مزار قائد کے پہلو کشمیر روڈ سے نکلتا ہوا شاہراہ قائدین پر آیا تو دل دھک سے رہا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ والی چورنگی غائب ہے۔دل کو سمجھایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چورنگی یعنی زمین کا ایک ٹکڑا ہی غائب ہو جائے لیکن جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا میرا یقین بڑھتا گیا کہ چورنگی تو غائب ہو گئی۔اس چورنگی کی کہانی بڑی دلچسپ اور ایک اعتبار سے روحانی قسم کی ہے۔یہ ایک آرٹسٹ کے فن کی یوں سمجھئے داستان ہے جس نے ایک ایساخواب دیکھا تھا جس کی تعبیر ممکن نہ تھی ۔بس اسی خواب کی دھن تھی جس نے اس سے ایک ایسا شاہ کار بنوادیا جس کے چرچے صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ہوئے اور اس کے ماڈل فقط کراچی میں نہیں شہر شہر بنے بلکہ گھر گھر پہنچے۔
کراچی ایک جدید اور خوبصورت شہر ہے۔شہر کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران کافی کام ہوا ہے ۔شہری اداروں نے شہر کی اہم اور بڑی شاہراہوں پر بڑے بڑے خوبصورت مونومنٹ بنوائے۔بعض مونومنٹ تو ایسے تھے جنھیں لوگوں سے دیکھا اور گزر گئے۔دل پر کوئی اثر ہوا اور نہ کوئی درد جاگا لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتے تھے۔ان میں اس چورنگی کا مونو منٹ بھی تھاجس نے یوں سمجھئے کہ طارق روڈ چورنگی کو جہاں سے کراچی کی انارکلی کا راستہ پھوٹتا ہے،اللہ والی چورنگی کا نام دے دیا اور کیوں نہ ہوتا ۔ یہ مونومنٹ پاکستان کے ایک مایۂ ناز آرٹسٹ کا بنایا ہوا تھا۔ایک بار ہم لوگ کرنل اشفاق کے ساتھ صحرائے تھر کے دورے پر گئے ۔کراچی سے سیکڑوں میل دورجہاں پکی سڑک ملتی ہے اور نہ پانی ۔فوج نے چھور کے مقام پر ایک گلشن آباد کردیا ہے۔کہنے کو تو یہ ایک حساس سرحدی مقام ہے جہاں ایک فوجی چھاونی ضروری تھی اور وہ چھاونی بن بھی گئی۔ہم لوگ جب وہاں پہنچے تو ایک بریگیڈئر صاحب نے ہمارا خیر مقدم کیا اورہمیں چھاونی کی یوں سیر کرائی جیسے کوئی برسوں سے بچھڑے ہوئے رشتے دار کو گھر کا کونہ کونہ دکھاتا ہے۔چھاونی میں گھومتے گھومتے ہم لوگ ایک چوراہے پر پہنچے تو حیرت سے ٹھٹک گئے ۔بریگیڈئر صاحب مسکرائے اور کہا کہ دیکھئے ہم آپ کی کراچی کی چورنگی اٹھا کر یہاں لے آئے ہیں۔کراچی کی اللہ والی یہ چورنگی ہم نے پہلے چھور میں دیکھی پھر اس کے بعد ملک کا کونسا حصہ تھا جہاں یہ دکھائی نہ دی۔ایک روز تو حیرت ہوگئی۔شاید میری کسی سالگرہ کا موقع تھا یا کوئی اور کہ مجھے تحفے میں ایک بکس ملا۔ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پیتل سے بنا اللہ والی چورنگی کا ریپلیکا جگمگا رہا ہے لیجئے اللہ والی چورنگی میرے گھر میں بھی چلی آئی اور یہ چورنگی فقط میرے گھر میں ہی تو نہ تھی ۔گھر گھر میں اس کا ایک سے ایک خوبصورت ماڈل موجود تھا بلکہ بعض اداروں نے تو اسے تحائف دینے کے لیے تیار کراکے تقسیم کیا تھا۔یوں یہ چورنگی ملک کے ایک شہر کی چورنگی نہ رہی تھی بلکہ آرٹ کے ایک شاہ کار کے طور پر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکی تھی۔
آئیے! اب میں آپ کو اس کے آرٹسٹ بلکہ اس شاہ کار کی کچھ کہانی بھی بتادوں۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں ایک روز جب وہ کراچی میں رہتے تھے، گھر سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آزر زوبی سیڑھیوں میں بے کل سا بیٹھا ہے۔ مفتی صاحب کو دیکھا تو کہا کہ چلو میں تمھیں لینے اور کچھ دکھانے آیا ہوں۔اچھا چلو، مفتی صاحب نے کہا اور پوچھا کہ تم مجھے کہا ں لے جانا چاہتے ہو؟آزر زوبی نے کہا کہ بات بتانے کی نہیں دکھانے کی ہے۔دونوں دوست چلتے چلتے منوڑے کے قریب جا پہنچے ۔ آزر زوبی نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ سامنے کی پہاڑیاں دیکھتے ہو؟ ایک سمندر کے دائیں جانب اور ایک سمندر کے بائیں جانب؟ مفتی صاحب نے اثبات میں جواب دیا کہ ان دنوں پہاڑیوں کے اوپر تمھیں قائد اعظمؒ بھی نظرآتے ہیں؟ مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں۔ وہاں قائد اعظمؒ تھے بھی نہیں۔زوبی کہنے لگے کہ دیکھو،ایک پہاڑی کی چوٹی پر قائد کا ایک قدم ہے اور دوسری پر دوسرا پھر وہ بلند ہوتے جاتے ہیں اور یوں ان کا سر آسمانوں تک بلند نظر آتا ہے۔مفتی صاحب حیرت سے زوبی کو تکنے لگے تو زوبی نے کہا قائد کا مجسمہ تو یہاں موجود ہے ۔بس، تراش کراسے دنیا کے سامنے لانا ہے اور وہ کام میں کروں گا۔مفتی صاحب نے کہا کہ زوبی پاگل ہوئے ہو، بھلا کوئی اتنا بڑا مجسمہ بھی کوئی بنا سکتا ہے؟ آذر زوبی نے مفتی صاحب کی بات سنی اور کہا، ’’میں بناؤں گا مفتی میں بناؤں گا‘‘بات آئی گئی ہو گئی لیکن آزر زوبی کی بے کلی اور فنی سفر جاری رہا۔ قائد اعظم ؒ کا مجسمہ بننا تو ایک خواب یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک فن کار کے دل میں پیدا ہونے والے کسک اور نامعلوم کو پالینے کی خواہش تھی جوایک روز لفظ اللہ کی شکل میں ظہور میں آئی اورآنکھوں کے راستے دل میں اترتی چلی گئی۔کوئی اگر برا نہ مانے تو میں یہ کہ دوں کہ یہ فن کا ایک ایسا شاہ کار ہے جو صدیوں میں ظہور میں آتا ہے ۔آذر ذوبی نے اس چورنگی پر فقط اللہ ہی نہیں لکھا تھا بلکہ اس ایک لفظ میں اسلام کا پورا عقیدہ ، اس کی تمام تر تعلیمات کو مجسم کردیا تھا۔اس فن پارے کو آرٹ کی دنیا کااس اعتبار سے بھی شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ مجسمہ سازی کے فن میں ایک ایسا انحراف تھا جو مجسمہ ہوتے ہوئے بھی مجسمہ نہیں تھایا مجسمہ نہ ہوتے ہوئے بھی مجسمہ تھا۔افسوس کہ آرٹ کا یہ شاہ کار اب نہیں رہا۔ یہاں کی مقامی حکومت نے سڑک کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اسے ملیا میٹ کردیا۔حالا نکہ جب اس طرح کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان کی زد میں ایسے شاہ کار آتے ہیں توسیعی منصوبے برقرار رکھنے کے باوجود ایسے فن پاروں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر یہ سبق کراچی کی مقامی حکومت کو کون سمجھائے؟مجھے دکھ ہے کہ اس شہر کے کسی والی وارث نے بھی تو اس کھٹور پن بلکہ بھیانک جرم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ (فاروق عادل کا کالم، روزنامہ نئی دنیا 23 دسمبر 2012 )
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ اور معلوماتی اور جذباتی تآثر کا حامل اور معلوماتی کالم ہے جسے آپ نےیہاں پر شئیر کرکے ہمارے لئے پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ جزاک اللہ!!
 

رانا

محفلین
بہت معلوماتی تحریر ہے۔ میں تو صبح آفس جانے کے لئے اترتا ہی میکڈونلڈ پر تھا اور پھر یہ چورنگی پار کرکے سامنے والی سڑک سے سندھی مسلم کا رخ کرتا حالانکہ میں اگر ایف ٹی سی پر اتروں تو آفس زیادہ قریب ہے۔ ایک دن دیکھا کہ چورنگی کے دونوں طرف کھدائی ہوچکی ہے اور ایسی ہے اب دوسری طرف جانے کا راستہ ہی مسدود ہے لیکن پھر بھی میں تو سڑک کراس کرکے چورنگی پر پہنچ جاتا اور بہت احتیاط سے سمٹ سمٹا کر چورنگی کے ساتھ لگ لگ کر دوسری طرف پہنچ جاتا۔ اور ہر بار یہی سوچتا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ والی چورنگی بھی کھدائی کی زد میں آئے۔ میرا خیال تھا کہ شائد اسے نہیں چھیڑیں گے اور یہ ایسے ہی رہے گی۔ لیکن ایک دن میرے ساتھ بھی وہی ہوا کہ اسٹاپ پر اترا تو دیکھا کہ بالکل سپاٹ سڑک ہے۔ اب دیکھنے میں تو سڑک اچھی بھی لگ رہی تھی کہ ٹریفک کے معاملات میں بہت آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن بہرحال پرانی یادیں تو رہتی ہی ہیں نا۔
 

باباجی

محفلین
میں 2008 میں کراچی سے لاہور شفٹ ہوا تھا
اس وقت میرا خیال ہے اللہ والی چورنگی کو مسمار نہیں کیا گیا تھا
سندھی مسلم والی روڈ کو کھودا جا چکا تھا
 

یوسف-2

محفلین
رانا بھائی
نہ میں اخبار پڑھتا ہوں نہ ٹی وی دیکھتا ہوں
یہ تو آپ جیسے بھائی لوگ ہیں جن سے خبریں ملتی رہتی ہیں
باباجی، آپ کے تو پھر مزے ہی مزے ہیں :)
لیکن ”ریگولر میڈیا“ سے دوررہ کر بھی آپ ”سوشیل میڈیا“ سے تو جڑے ہوئے ہیں۔
اگر مکمل شانتی درکار ہو تو
نیٹ اور موبائل پر بھی تین حرف بھیج دیں :)
 

باباجی

محفلین
باباجی، آپ کے تو پھر مزے ہی مزے ہیں :)
لیکن ”ریگولر میڈیا“ سے دوررہ کر بھی آپ ”سوشیل میڈیا“ سے تو جڑے ہوئے ہیں۔
اگر مکمل شانتی درکار ہو تو
نیٹ اور موبائل پر بھی تین حرف بھیج دیں :)
سر جی
نیٹ اور موبائل میری نوکری کی مجبوری ہے
ورنہ یقین کریں ان کو بھی چھوڑ چکا ہوتا
اور اب بھی آفس سے گھر آکر میں موبائل کو دور رکھ دیتا ہوں
صرف کتابیں پڑھتا ہوں اور گھر والوں سے بات چیت کرتا ہوں
 

میر انیس

لائبریرین
تقریباِِ ایک مہینے سے تو میں بھی وہاں سے نہیں گذرا ۔ اور اس بات کا مجھ کو بے حد افسوس ہوا ۔ ٹھیک ہے ٹریفک کی روانی کو بہتر کرنے کیلئے بہت سی چورنگیاں ختم کرنا ناگذیر تھا لیکن جسطرح ہماری طرف کی کے ڈی اے کی چورنگی جو حیدری بازار سے پہلے آتی ہے اور اللہ کے ننانوے ناموں سے مزین بہت خوبصورت نظارا پیش کرتی ہے ۔ کو اب تک اسکی اسی اہمیت کی وجہ سے بچایا ہوا ہے اللہ والی چورنگی کو بھی بچایا جاسکتا تھا۔ اب دوسری جگہ یہ شاہکار بنا تو دیا جائے گا مگر جو اصل کی اہمیت ہوتی ہے وہ کسی اور میں نہیں ہوتی۔ خیر اب تو ہوگیا جو ہونا تھا۔ اسی طرح ایک زمانے میں حسن اسکوائر اور سوک سینٹر کے بیچ میں بھی بہت خوبصورت مونومنٹ لا ہوا تھا جو مجھ کو بہت پسند تھا اور اسکو وہاں سے ہٹانے پر بھی مجھ کو بہت افسوس ہوا تھا۔اگر کسی کے پاس اسکی کوئی پرانی تصویر ہے تو وہ بھی یہاں تک شیئر کردے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
نہ رہے اردشیر کاؤس جی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو حکام کےاس انتہائی غیر معقول اقدام پر ان کے چھکے چھڑا دیتے۔ (اللہ آنجہانی کی روح کو سکون بخشے)۔

خیر، کراچی میں اب بھی فن و ثقافت سے پیار کرنے والے افراد ، ادارےاور تنظیمیں ضرور موجود ہوں گی، جو اس سلسلے میں کوئی اجتماعی مہم چلا سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکام کا ارادہ اس مانومنٹ کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کرنے کا ہو۔
 

یوسف-2

محفلین
نہ رہے اردشیر کاؤس جی، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو حکام کےاس انتہائی غیر معقول اقدام پر ان کے چھکے چھڑا دیتے۔ (اللہ آنجہانی کی روح کو سکون بخشے
ایک جملہ معترضہ :D عرض کرنے کی اجزات چاہتا ہوں۔:)
جس اللہ سے آپ دعا کر رہے ہیں، اُس اللہ کو تو آنجہانی اپنی زندگی میں ”مانتے“ ہی نہیں تھے۔:) آنجہانی کے جملہ ”نیکیوں“ کا بدلہ اللہ نے اُنہیں ان کی زندگی ہی میں عزت، دولت، شہرت کی صورت میں عطا کردیا تھا۔ اللہ کی یہ ”سنت“ نہیں ہے کہ جو اپنی زندگی میں اللہ پر ایمان ہی نہ لائے، مرنے کے بعد بھی اس کی روح کو سکون بخشے۔ اللہ نے صرف اپنے اوپر ایمان لا کر عمل صالح کرنے والوں کے لئے بعد از مرگ سکون کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف عمل نہیں کیا کرتا۔:)
 

تلمیذ

لائبریرین
جس اللہ سے آپ دعا کر رہے ہیں، اُس اللہ کو تو آنجہانی اپنی زندگی میں ”مانتے“ ہی نہیں تھے۔

اللہ کی یہ ”سنت“ نہیں ہے کہ جو اپنی زندگی میں اللہ پر ایمان ہی نہ لائے، مرنے کے بعد بھی اس کی روح کو سکون بخشے۔

محترم یوسف صاحب، ہو سکتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہوں ۔

میں نے تو باری تعالےٰ کا ایک عاصی بندہ ہونےاور رحمۃ للعلمین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ، جنہوں نےبد ترین مظالم پر بھی اللہ سےکفارکو سیدھا راستہ دکھانے کی دعا ہی کی، کا ایک عاجز ترین امتی ہونےکی حیثیت سے ان کی سنت مطہرہ پر عمل کرتے ہوئےایک نیک انسان کے لئے بلا تعصب ایک کلمۂ خیر کہنے کی جسارت کی تھی یہ سمجھ کرکہ وہ ذات باری سبحانہ و تعالےٰ اپنی ساری مخلوق کے لئے بے پناہ رحیم و کریم ہے۔

لیکن غلطی ہو گئی حضور!! شاید یہ میرایہ عمل درست نہیں تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
محترم یوسف صاحب، ہو سکتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہوں ۔

میں نے تو باری تعالےٰ کا ایک عاصی بندہ ہونےاور رحمۃ للعلمین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ، جنہوں نےبد ترین مظالم پر بھی اللہ سےکفارکو سیدھا راستہ دکھانے کی دعا ہی کی، کا ایک عاجز ترین امتی ہونےکی حیثیت سے ان کی سنت مطہرہ پر عمل کرتے ہوئےایک نیک انسان کے لئے بلا تعصب ایک کلمۂ خیر کہنے کی جسارت کی تھی یہ سمجھ کرکہ وہ ذات باری سبحانہ و تعالےٰ اپنی ساری مخلوق کے لئے بے پناہ رحیم و کریم ہے۔
لیکن غلطی ہو گئی حضور!! شاید یہ میرایہ عمل درست نہیں تھا۔
آپ کے دوستانہ جواب کا شکریہ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا شبہ کفار کی ہدایت کے لئے بھی دعا کی ہے اور آج ہم بھی کفار کی ہدایت کے لئے اللہ سے دعا کرسکتے ہیں، بشرطیکہ جس کافر کے لئے دعا کی جارہی ہو، وہ حیات ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کبھی بھی ثابت نہیں کہ آپ نے کسی ایسے کافر کے لئے دعا کی ہو جو حالت کفر میں آنجہانی ہوگیا ہو۔ اگر میں ”غلطی“ پر ہوں تو میری تصحیح فرمادیجئے، مستند حوالہ کے ساتھ۔ آپ کا پیشگی شکریہ۔
مجھے آپ کی ”نیک نیتی“ نہ پہلے شبہ تھا اور نہ اب ہے۔ لیکن یہ ایک اوپن فورم ہے، جس میں مکالموں مین حصہ لینے والے کم اور ”خاموش ریڈر“ زیادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ انجانے میں لکھے گئے کسی بھی غلط بات سے ”گمراہ“ ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کی ایسی ”غلطیوں“ کی بروقت ”تصحیح“ کرتے رہنا چاہئے۔ اگر میرے کسی مراسلہ میں بھی آپ کو کوئی خلاف حقیقت بات نظر آئے تو آپ یا کوئی اور اس کی تصحیح ضرور کرے۔ شکریہ
 
Top