الفت میں تری ہم نے زمانے کو بھلایا

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
--------------
الفت میں تری ہم نے زمانے کو بھلایا
جو عہد کیا تم سے اسے کر کے دکھایا
---------
دنیا تو سدا پیار کی دشمن ہی رہی ہے
بے رحم زمانے کو کبھی رحم نہ آیا
--------
آنے کی ترے ہم نے خبر جب سے سنی ہے
رستے پہ ترے ہم نے ہے نظروں کو لگایا
-----------
رستے میں ملا آج تو منہ پھیر لیا تھا
کیا بات ہوئی اس نے نگاہوں کو چرایا
--------
کیوں پیار سے انکار کیا تم نے مسلسل
سو بار محب}ت سے تمہیں ہم نے بلایا
---------
ہم تیری جفاؤں کی شکایت نہ کریں گے
جب پیار ترا دل میں ہمارے ہے سمایا
--------
کرتے ہیں تجھے یاد بھلایا تو نہیں ہے
اشکوں کو تری یاد میں سو بار بہایا
----------
جھرمٹ سا حسینوں کا تو ارشد کو میسّر
پھر چھوڑ دیا ان کو تمہیں دل میں بسایا
---------
 

عظیم

محفلین
الفت میں تری ہم نے زمانے کو بھلایا
جو عہد کیا تم سے اسے کر کے دکھایا
عہد کیسے کر کے دکھا سکتے ہیں؟
جو کچھ بھی کہا تم سے اسے کر کے دکھایا
کیا جا سکتا ہے

دنیا تو سدا پیار کی دشمن ہی رہی ہے
بے رحم زمانے کو کبھی رحم نہ آیا
--------
ٹھیک لگتا ہے مجھے

آنے کی ترے ہم نے خبر جب سے سنی ہے
رستے پہ ترے ہم نے ہے نظروں کو لگایا
-----------
نظروں کو بچھایا میرے خیال میں محاورے کے مطابق ہو گا، مزید یہ کہ دوسرا مصرع کچھ مجہول سا لگتا ہے 'ہم نے ہے' کی وجہ سے
رستے پہ ترے ہم نے نگاہوں۔۔۔۔
بھی کیا جا سکتا ہے، ورنہ کسی اور انداز سے کہنے کی کوشش کریں، چوکھٹ وغیرہ لا کر، اگلے شعر میں بھی رستے سے ہی مصرع شروع ہو رہا ہے اس لیے چوکھٹ وغیرہ کا مشورہ دے رہا ہوں، اگر آپ ان دونوں اشعار میں فاصلہ پیدا کر لیں تو رستہ بھی ٹھیک ہی رہے گا


رستے میں ملا آج تو منہ پھیر لیا تھا
کیا بات ہوئی اس نے نگاہوں کو چرایا
--------
دوسرے کا پہلے سے ربط کمزور لگتا ہے، نگاہوں کو پھیرنے کا محل ہے یہاں، چرانا سوٹ نہیں کر رہا


کیوں پیار سے انکار کیا تم نے مسلسل
سو بار محب}ت سے تمہیں ہم نے بلایا
---------
مسلسل کی جگہ ہمیشہ لائیں تو بہتر لگتا ہے مجھے۔ باقی قابل قبول ہے میرے خیال میں


ہم تیری جفاؤں کی شکایت نہ کریں گے
جب پیار ترا دل میں ہمارے ہے سمایا
--------
ٹھیک لگتا ہے یہ بھی مجھے

کرتے ہیں تجھے یاد بھلایا تو نہیں ہے
اشکوں کو تری یاد میں سو بار بہایا
----------
دو لختی محسوس ہو رہی ہے اس شعر میں، دوسرا مصرع خاص طور پر ادھورا سا لگتا ہے


جھرمٹ سا حسینوں کا تو ارشد کو میسّر
پھر چھوڑ دیا ان کو تمہیں دل میں بسایا
---------
ٹائپو ہے شاید پہلے مصرع میں، 'تو' کی جگہ 'تھا' ہونا چاہیے تھا۔
دوسرے میں "چھوڑا" اچھا نہیں لگ رہا
دیکھا نہ کسی کو بھی...
وغیرہ کہیں تو کچھ بات بنے
 
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
-----------
(اصلاح)
-------------
الفت میں تری ہم نے زمانے کو بھلایا
جو کچھ بھی کہا تم سے اسے کر کے دکھایا
---------
دنیا تو سدا پیار کی دشمن ہی رہی ہے
بے رحم زمانے کو کبھی رحم نہ آیا
--------
آنے کی ترے ہم نے خبر جب سے سنی ہے
رستے پہ ترے ہم نے نگاہوں کو بچھایا
-----------
تھا مجھ سے خفا آج ملاقات ہوئی تھی
ناراض ہوا کیوں ہے سبب کچھ نہ بتایا
--------
کیوں پیار سے انکار کیا تم نے ہمیشہ
سو بار محبّت سے تمہیں ہم نے بلایا
---------
ہم تیری جفاؤں کی شکایت نہ کریں گے
جب پیار ترا دل میں ہمارے ہے سمایا
--------
رہتے ہو مرے دل میں بھلایا تو نہیں ہے
اشکوں کو جدائی میں ہے سو بار بہایا
----------
ارشد کو میسّر تھی حسینوں کی محبّت
پھر چھوڑ دیا ان کو تمہیں دل میں بسایا
---------یا
کی تم سے محبّت تو انہیں دل سے بھلایا
0000000000000
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
-----------
(اصلاح)
-------------
الفت میں تری ہم نے زمانے کو بھلایا
جو کچھ بھی کہا تم سے اسے کر کے دکھایا
---------
تھیک ہو گیا
دنیا تو سدا پیار کی دشمن ہی رہی ہے
بے رحم زمانے کو کبھی رحم نہ آیا
--------
بے دردزمانہ پسند نہیں آیا!
آنے کی ترے ہم نے خبر جب سے سنی ہے
رستے پہ ترے ہم نے نگاہوں کو بچھایا
-----------
جب سے سنی... کے ساتھ جواباً یوں ہونا چاہیے تھا کہ تب سے ہی نگاہیں بچھا کے رکھ دی ہیں۔ یہ indefinite کاصیعہ نہیں

تھا مجھ سے خفا آج ملاقات ہوئی تھی
ناراض ہوا کیوں ہے سبب کچھ نہ بتایا
خفا تھا تو ملنا ہی نہیں تھا نا! یہ نیا شعر مجھے پسند نہیں آیا
--------
کیوں پیار سے انکار کیا تم نے ہمیشہ
سو بار محبّت سے تمہیں ہم نے بلایا
---------
ٹھیک
ہم تیری جفاؤں کی شکایت نہ کریں گے
جب پیار ترا دل میں ہمارے ہے سمایا
--------
درست
رہتے ہو مرے دل میں بھلایا تو نہیں ہے
اشکوں کو جدائی میں ہے سو بار بہایا
----------
یہ بھی دو لخت ہے
ارشد کو میسّر تھی حسینوں کی محبّت
پھر چھوڑ دیا ان کو تمہیں دل میں بسایا
---------یا
کی تم سے محبّت تو انہیں دل سے بھلایا
0000000000000
عظیم کا مشورہ بہتر تھا، اسے قبول کر لینا تھا، یعنی
دیکھا نہ کسی کو بھی،....
 
الف عین
------
اصلاح
----------
دنیا تو سدا پیار کی دشمن ہی رہی ہے
بے درد زمانے کو کبھی رحم نہ آیا
------
آنے کی ترے ہم نے خبر جب سے سنی ہے
رستے پہ ترے تب سے نگاہوں کو بچھایا
-----------
دل جس کی محبّت میں گرفتار ہے میرا
کیوں دور ہوا مجھ سے نہیں کچھ بھی بتایا
-----------
ارشد کو میسّر تھی حسینوں کی محبّت
دیکھا نہ کسی کو بھی تمہیں دل میں بسایا
-----------
 
Top