"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صحابہ میں جو لوگ کم روایت کرتے تھے

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے احادیث کے متعلق احتیاط و تشدد کا جو خیال پیدا کیا وہ اگرچہ رواج عام نہ پا سکا۔ لیکن محققین صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں یہ خیال بے اثر نہ رہا۔ عبد اللہ بن مسعود کی نسبت عام شہرت ہے اور مسند داری وغیرہ میں جابجا تصریح ہے کہ احادیث کی روایت کے وقت ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا اور جب آنحضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے الفاظ بیان کرتے تھے تو کہتے جاتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ فرمایا یا شاید اس کے مشابہ یا ان کے قریب یا اس کی مثل، ابو درداء اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بہت بڑے صحابی تھے، ان کا بھی یہی حال تھا۔ امام شعبی کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ سال بھر رہا۔ اس مدت میں ان سے صرف ایک حدیث سنی۔ ثابت بن قطبہ الانصاری کی رویت ہے کہ عبد اللہ بن رضی اللہ تعالٰی عنہ مہینہ بھر میں دو تین حدیث روایت کرتے تھے۔ سائب بن یزید رحمۃ اللہ علی کا قول ہے کہ میں سعد وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک گیا اور آیا، لیکن انہوں نے اس مدت میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی۔ چنانچہ یہ تمام واقعات اور روایتیں صحیح دارمی میں بسند متصل منقول ہیں۔ (مسند داری مطبوعہ مطیع نظامی کانپور صفحہ 45 تا 48)۔

سند اور روایت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو مقدم اصول قائم کئے ان کو اجمالاً بیان کیا جاتا ہے :

1 – روایت کا باللفظ ہونا ضروری ہے۔

2 – خبر واحد میں تائیدی شہادت کی حاجت ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں تابع اور شاہد کہتے ہیں۔

3 – محض راسی کا ثقہ ہونا روایت کے لئے کافی نہیں۔

4 – خبر واحد ہمیشہ قابل حجت نہیں ہوتی۔

5 – روایت کے اعتبار میں موقع اور محل کی خصوصیت کا لحاظ شرط ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علم فقہ

فقہ کا فن تمام تر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ساختہ و پرواختہ ہے۔ اس فن کے متعلق ان کی قابلیت اور افضلیت کا تمام صحابہ کو اعتراف تھا۔ مسند دارمی میں ہے کہ حذیفہ بن الیمان نے کہا کہ فتویٰ دینا اس شخص کا کام ہے جو امام ہو یا قرآن کے ناسخ و منسوخ جانتا ہو۔

لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کون شخص ہے۔ حذیفہ نے کہا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پلہ بھاری رہے گا۔ (استیعاب قاضی بن عبد البر و ازالۃ الخفاء صفحہ 185 حصہ دوم)۔ علامہ ابو اسحٰق شیرازی نے جو مدرسہ نظامیہ کے مدرس اعظم تھے فقہا کے حالات میں ایک کتاب لکھی ہے اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تذکرے میں صحابہ و تابعین کے اس قسم کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں اور آخر میں لکھا ہے :

ولو لا خوف الاطالۃ لذکرت من فقھہ مایتحیر فیہ کل فاضل

یعنی " اگر طوالت کا کوف نہ ہوتا تو میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتوے اور ان میں جو فقہ کے اصول پائے جاتے ہیں اس قدر لکھتا ہے کہ بڑے بڑے عالم و فاضل حیران رہ جاتے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں

علامہ موصوف نے جس چیز کو قلم انداز کیا ہے ہم اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے چل کر لکھیں گے لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ فقہ کے جس قدر سلسلے آج اسلام میں قائم ہیں سب کا مرجع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذات بابرکات ہے۔ بلاد اسلام میں جو مقامات فقہ کے مرکز مانے جاتے ہیں۔ وہ یہ ہیں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، بصرہ، کوفہ اور شام۔ اس انتساب کی وجہ یہ ہے کہ فقہ کے بڑے بڑے شیوخ اور بانی فن انہی مقامات کے رہنے والے تھے۔ مثلاً مکہ معظمہ کے شیخ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ مدینہ منورہ کے زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، کوفہ کے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ و ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ، شام کے ابو درداء و معاذ بن جبل، ان میں (حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا) اکثر بزرگ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ایک ساعت بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں۔ (استیعاب قاضی بن عبد الطر و ازالۃ اخفاء صفحہ 319 حصہ اول)۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گویا اپنے دامن تربیت میں پالا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا۔ صحیح بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بند عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔ اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نو عمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں اور ہمارے لڑکوں کو جو ان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہین دیتے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا " یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔"

محدث ابن عبد البر نے استیعات میں لکھا ہے کان عمر یحب ابن عباس و یقربہ " یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا ، عبد اللہ بن عباس اس کا جواب دینا چاہتے لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے علم سن (عمر) کی کمی اور زیادتی پر موقوف نہیں۔ کوئی شخص اگر عبد اللہ بن عباس کے مجتہدات کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسائل سے ملائے تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں میں استاد اور شاگرد کا تناسب ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرزند ہی تھے۔ زید بن ثابت برسوں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت میں تحریر کا کام کرتے رہے تھے۔ امام شعبی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہم باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔ (فتح المغیث صفحہ 371)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صحابہ میں چھ شخص فقہ کے امام تھے

محدثین کا عام بیا ن ہے کہ رسول اللہ کے اصحاب میں یہ چھ اشخاص تھے جن پر علم فقہ کا مدار تھا۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ امام محمد رحمتہ اللہ نےکتاب الآثار میں ایک روایت نقل کی ہے۔ سنۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتذا کرون الفقہ بینھم علی ابن ابی طالب و ابی و ابو موسیٰ علیٰحدہ و عمر و زید ابن مسعود علیٰحدہ یعنی اصحاب رسول میں چھ شخص تھے جو باہم مسائل فقہیہ میں بحث و مذاکرہ کرتے تھے۔ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابی اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ، ایک ساتھ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، زید رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک ساتھ، صفوان ابن سلیم کا قول ہے لم یکن یفتی فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم گیر عمر و علی و معاذ ابی موسیٰ (تذکرہتہ الحفاظ علامہ ذہبی ذکر ابی موسیٰ اشعری) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف چار شخص فتویٰ دیتے تھے۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ امام شعبی کا مقولہ ہے کان العلم یوخذ عن ستۃ من الصحابتہ (فتح المغیث صفحہ 381) یعنی علم چھ صحابہ سے سیکھا جاتا تھا۔

اگرچہ یہ تحدید بظاہر مستبعد معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہزاروں صحابہ میں صرف 4 یا 6 مفتیوں کی تعداد خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں حدیث صحیح، صاف اور مصرح موجود ہے اور کوئی حدیث اس کے معارض بھی نہیں۔ ان مسائل کے لئے فقط احادیث کا جاننا کافی ہے۔ اس کے برخلاف بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کی نسبت حدیث میں کوئی حکم بتصریح موجود نہیں بلکہ قواعد استنباط کے ذریعے سے حکم مستخرج ہوتا ہے یا حکم کی تصریح ہے لیکن اور حدیثیں اس کی معارض ہیں۔ ایسی صورتوں میں اجتہاد اور استنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور فقہ دراصل اسی کا نام ہے۔ صحابہ میں ایسے بہت سے بزرگ تھے جو پہلی قسم کے مسائل کے متعلق فتویٰ دیتے اور مفتی کہلاتے تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 تک پہنچتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کے مسائل کا فیصلہ کرنا انہی لوگوں کا کام تھا جو فن کے بانی اور امام تھے اور اس درجہ کے لوگ وہی چھ بزرگ تھے جن کا اوپر ذکر گزرا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب چار صاحبوں یعنی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابن عباس کا نام لکھ کر لکھتے ہیں۔

و اما غیر ھٰولآء الاربعۃ فکانو یرون دلالۃً ولکن ما کان یمیزون الرکن الشرط من الاداب والسنن ولم یکن لھم قول عند تعارض الاخبار و تقابل الدلائل الاقلیلاً کابن عمر و عائشۃ و زید بن ثابت (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 7)۔

یعنی " ان چاروں کے سوا باقی جو لوگ تھے وہ مطالب سمجھتے تھے۔ لیکن آداب و سنن اور ارکان و شرائط میں امتیاز و تفریق نہیں کرتے تھے اور جہاں حدیثیں متعارض ہوتیں تھیں اور دلائل میں تقابل ہوتا تھا وہاں وہ بجز بعض موقعوں کے دخل نہیں دیتے تھے۔ مثلاً ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ۔"

بہر حال مجتہدین صحابہ 6 سے زیادہ نہ تھے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہم صحبت اکثر وہ لوگ تھے جو فن حدیث و روایت میں بلند پایہ نہ تھے۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھیوں کے سوا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن لوگوں نے روایتیں کیں، ان پر اعتبار کیا جاتا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعلیم روایت کے لئے شام بھیجا تھا لیکن ان کا 18 ہجری میں انتقال ہو گیا۔ اس لئے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے، حدیث او چنداں باقی نماند۔ (ازالتہ اخفاء صفحہ 81 حصہ دوم)۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاص شاگردوں میں تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اکثر تحریر کے ذریعے سے حدیث و فقہ کے مسائل تعلیم کرتے رہتے تھے۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دراصل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقلد تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں، و زید بن ثابت نیز در اکثر متبع او ست۔ ان واقعات سے معلوم ہو گا کہ صحابہ میں جن جن لوگوں کی فقہ کی رواج ہو، وہ سب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان مسائل فقہیہ میں جس قدر فکر اور خوض کیا تھا۔ صحابہ میں سے کسی نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے آغاز اسلام ہی سے فقہ کو مطمع نظر بنا لیا تھا۔ قرآن مجید میں جو مسائل فقہ مذکور ہیں ان میں جب ابہام ہوتا تھا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتے تھے اور جب تک پوری تسلی نہیں ہوتی تھی بس نہیں کرتے تھے۔ یہ بات اور اصحاب کو حاصل نہ تھی کیونکہ ان کے برابر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہنے سننے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔ کلالہ کے مسئلہ کو جو ایک دقیق اور نہایت مختلف فیہ مسئلہ ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر بار بار دریافت کیا کہ آپ دق آ گئے اور فرمایا کہ سورہ نساء کی آخری آیت تیرے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ (مسند امام احمد بن حنبل)۔
 

شمشاد

لائبریرین
مشکل مسائل قلمبند کرنا

جو مسائل زیادہ مشکل ہوتے ان کو یادداشت کے طور پر لکھ لیتے اور ہمیشہ ان پر غور کیا کرتے۔ وقتاً فوقتاً ان کے متعلق جو رائے قائم ہوتی اس کو قلمبند اور زیادہ غور و فکر سے اس میں محو و اثبات کیا کرتے۔ پھوپھی کی میراث کی نسبت جو یادداشت لکھی تھی اور آخر میں اس کو محو کر دیا اس کا حال امام محمد نے مؤطا میں لکھا ہے (مؤطا امام محمد صفحہ 314)۔ قسطلانی نے شرح بخاری میں معتمد حوالہ سے نقل کیا ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سو مختلف رائے قائم کیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
دقیق مسائل میں وقتاً فوقتاً خوض کرتے رہنا

بعض مسائل کے متعلق ان کو مرتے دم تک کاوش رہی اور کوئی قطعی رائے نہ قائم کر سکے۔ مسند دارمی میں ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق انہوں نے ایک تحریر لکھی تھی۔ لیکن مرنے سے قبل اس کو منگوا کر مٹا دیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اس کا فیصلہ کیجیئے گا۔ اسی کتاب میں یہ روایت بھی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ زخمی ہوئے تو صحابہ کو بلا کر کہا کہ میں نے دادا کی میراث کے متعلق رائے قائم کی تھی۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو اس کو قبول کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ آپ کی رائے ہم قبول کر لیں تب بھی بہتر ہے لیکن ابو بکر کی رائے مانیں تو وہ بڑے صائب الرائے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش رسول اللہ تین مسئلوں کے متعلق کوئی تحریر قلمبند فرما جاتے۔ کلالہ، دادا کی میراث، ربط کی بعض اقسام مسائل فقہیہ کے متعلق ان کو جو کد و کاوش رہتی تھی اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کی مثالیں کافی ہوں گی۔

ورثا کے بیان میں خدا نے ایک قسم کے وارث کا کلالہ سے تعبیر کیا ہے لیکن چونکہ قرآن مجید میں اس کی تعریف مفصل مذکور نہیں اس لئے صحابہ میں اختلاف تھا کلالہ میں کون کوں ورثا میں داخل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند بار دریافت کیا، اس پر تسلی نہیں ہوئی تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ایک یادداشت لکھ کر دی کہ رسول اللہ سے دریافت کرنا پھر اپنی خلافت کے زمانے میں تمام صحابہ کو جمع کر کے اس مسئلہ کو پیش کیا۔ لیکن ان تمام باتوں پر بھی ان کو کافی تسلی نہیں ہوئی اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین چیزوں کی حقیقت بتا جاتے تو مجھ کو دنیا اور مافیہا سے زیادہ عزیز ہوتی۔ خلافت، کلالہ، ربط، چنانچہ ان تمام واقعات کو محدث عماد الدین ابن کثیر نے صحیح حدیثوں کے حوالے سے اپنی تفسیر قرآن میں نقل کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات کی وسعت کی وجہ سے نئے نئے مسئلوں کا پیدا ہونا

چونکہ ان کے زمانے میں فتوحات نہایت تیزی سے بڑھتی جاتی تھیں اور تمدن روز بروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس لئے نہایت کثرت سے معاملات کی نئی نئی شکلیں پیش آتی جاتی تھیں۔ اگرچہ ہر جگہ قاضی اور مفتی مقرر تھے اور یہ لوگ اکثر اکابر صحابہ میں سے تھے تاہم بہت سے مسائل میں وہ لوگ عاجز آتے اور بارگاہ خلافت کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بہت سے پیچیدہ اور غیر منصوص مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان کے فتوے جو نہایت کثرت سے تمام کتابوں میں منقول ہیں زیادہ تر انہی مسائل کے متعلق ہیں جو ممالک مختلفہ سے ان کے پاس جواب کےل ئے آئے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں فتوؤں کے ساتھ فتویٰ پوچھنے والوں کے نام بھی موجود ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے استفسار کرنا

مثلاً عبد اللہ بن مسعود، عمار بن یاسر، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بن جرح، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صحابہ کے مشورہ سے مسائل طے کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ خوب بہت بڑے فقیہ تھے ۔ ان کی رائے بھی فتویٰ کے لئے کافی ہو سکتی تھی۔ تاہم احتیاط کے لئے وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان پر نہایت آزادی اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا، بغیر صحابہ کے مشورہ کے فیصلہ نہیں کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔

کان من سیرۃ عمر انہ کان یشاور الصحابۃ و یناظر ھم حتی تنکشف الغمۃ و یاتیہ الثلج فصار غالب قضایاہ و فتاواہ متبعۃً مشارق الارض و مغاربھا۔

"حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عادت تھی کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مشورہ اور مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتوؤں کی تمام مشرق و مغرب میں پیروی کی گئی ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مسائل اجماعیہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جن مسائل کو صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مجمع میں پیش کر کے طے کیا ان کی تعداد کچھ کم نہیں۔ اور کتب احادیث و آثار میں ان کی پوری تفصیل ملتی ہے۔ مثلاً بیہقی نے روایت نقل کی ہے کہ غسل جنابت کی ایک صورت خاص میں (بیہقی نے اس کی تصریح کی ہے) صحابہ میں اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا کہ مہاجرین اور انصار جمع کئے جائیں۔ چنانچہ متفقہ مجلس میں وہ مسئلہ پیش ہوا۔ تمام صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے ایک رائے پر اتفاق کیا۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ مخالف رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ جب آپ لوگ اصحاب بدر ہو کر مختلف الرائے ہیں تو آگے چل کر کیا حال ہو گا؟ غرض ازواج مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنھن کے فیصلے پر معاملہ اٹھا رکھا گیا اور انہوں نے جو فیصلہ کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی کو نافذ و جاری کر دیا۔ اسی طرح جنازے کی تکبیر کی نسبت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں بہت اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی مجلس منعقد کی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر معمول کا پتہ لگایا جائے۔ چنانچہ دریافت ہوا کہ جنازہ کی اخیر نماز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اس میں چار تکبیر کہی تھیں۔ اسی طرح بہت سے مسائل ہیں لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسائل فقہیہ کی تعداد

فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بروایت صحیحہ منقول ہیں ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے تقریباً ہزار مسئلے ایسے ہیں جو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل میں آئمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں " وہم چنیں مجتہدین در رؤس مسائل فقہ تابع مذہب فاروق اعظم انداویں قریب ہزار مسئلہ باشد تخمناً" (ازالتہ الخفاء حصہ دوئم 84)۔ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں منقول ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی مدد سے فقہ فاروقی پر مشتمل رسالہ لکھ کر ازالتہ الخفاء میں شامل کر دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصول فقہ

یہ تمام بحث تدوین مسائل کی حیثیت سے تھی لیکن فن فقہ کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصلی کارنامہ اور چیز ہے۔ انہوں نے صرف یہ نہیں کیا کہ جزئیات کی تدوین کی بلکہ مسائل کی تفریع و استنباط کے اصول اور ضوابط بھی وضع کیے۔ جن کو آج کل اصول فقہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اقوال و افعال منقول ہیں وہ کلیتہً مسائل کا ماخذ ہو سکتے ہیں۔ یا ان میں کوئی تفریق ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس بحث پر حجتہ اللہ البالغہ میں ایک نہایت مفید مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو افعال و اقوال مروی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نسبت خدا کا شکر ہے کہ ما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا۔ یعنی پیغمبر تم کو جو دے وہ لو۔ اور جس چیز سے روکے اس سے باز رہو۔ دوسری وہ جن کو منصب رسالت سے تعلق نہیں۔ چنانچہ ان کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

انما انا بشرا اذا امرتکم بشی من دینکم فخذوہ بہ و اذا امرتکم بشی من رائی فانما انا بشر۔

یعنی " میں آدمی ہوں، اس لئے جب میں دین کی بابت کچھ حکم کروں تو اس کو لو۔ اور جب اپنی رائے سے كچھ کہوں تو میں ایک آدمی ہوں۔

اس کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طب کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا، یا جو افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عادۃً صادر ہوئے نہ عبارۃً یا اتفاقاً واقع ہوئے، نہ قصداً یا جو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزعومات عرب کے موافق اختیار کیں۔ مثلاً لشکر کشی اور اس قسم کے بہت سے احکام، یہ سب دوسری قسم میں داخل ہیں۔ (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 133)۔

شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے احادیث کے مراتب میں جو فرق بتایا اور جس سے کوئی صاحب نظر انکار نہیں کر سکتا اس تفریق مراتب کے موجد دراصل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ کتب سیرت اور احادیث میں تم نے پڑھا ہو گا کہ بہت سے ایسے موقع پیش آئے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کرنا چاہا یا کوئی بات ارشاد فرمائی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے خلاف رائے ظاہر کی۔ مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کے جنازے پر نماز پڑھنی چاہی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا، آپ منافق کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں۔

قیدیان بدر کے معاملے میں ان کی رائے بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز سے الگ تھی۔ صلح حدیبیہ میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ ان تمام مثالوں سے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان تمام باتوں کو منصب نبوت سے الگ سمجھتے تھے ورنہ اگر باوجود اس امر کے کہ وہ باتیں منصب رسالت سے تعلق رکھتی تھیں ان میں دخل دیتے تو بزرگ ماننا تو درکنار ہم ان کو اسلام کے دائرئے سے بھی باہر سمجھتے۔ اسی فرق مراتب کے اصول پر بہت سی باتوں میں جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں اپنی رایوں پر عمل کیا۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ تبوک میں جزیہ کی تعداد فی کس ایک دینار مقرر کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف شرحیں مقرر کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شراب کی کوئی خاص حد مقرر نہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی کوڑے مقرر کئے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اگر تشریعی حیثیت سے ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کیا مجال تھی کہ ان میں کمی بیشی کر سکتے۔ اور خدا نخواستہ وہ کرنا چاہتے۔ تو صحابہ کا گروہ ایک لحظہ کے لئے بھی ان کا مسند خلافت پر بیٹھنا کب گوارا کر سکتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امتیاز مراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد احکام میں جب انہوں نے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی نہیں ظاہر کی۔ بلکہ متعدد معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کی تائید کی۔ قیدیان بدر، حجاب ازواج مطہرات، نماز بر جنازہ منافق، ان تمام معاملات میں وحی جو آئی اس تفریق اور امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا۔ کیونکہ جن چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا۔ کہ زمانے اور حالات موجودہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیں۔ چنانچہ اس معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے نئے قاعدے وضع کئے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں، برخلاف اس کے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو یہاں تک کد ہے کہ ترتیب فوج تعین شعار تشخیص محاصل وغیرہ کے متعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو تشریعی قرار دیتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے افعال کی نسبت لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کے قول و فعل کی کچھ اصل نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خبر آحاد کے قابل جوٹ ہونے کی بحث

اس بحث کے بعد دوسرا مرحلہ خبر آحاد (یعنی وہ حدیث جس کا راوی ایک سے زیادہ نہ ہو۔ اصول حدیث کی رو سے جس حدیث کے راوی ایک سے زیادہ ہوں لیکن شہرت یا تواتر کی حد سے کم ہوں وہ بھی خبر آحاد میں داخل ہے۔ لیکن یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ایک کا وجود نہ تھا۔) کی حیثیت حجت کا تھا۔ بہت سے اکابر اس قسم کی حدیثوں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان سے قرآن مجید کی منصوصات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ یعنی قرآن مجید کا کوئی حکم عام ہو تو خبر آحاد سے اس کی تخصیص ہو سکتی ہے بلکہ اس کے ذریعے سے قرآن مجید کا حکم بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک خبر آحاد ہر موقع پر قابل حجت نہیں ہو سکتی۔ اسی بناء پر اذن ملاقات، اسقاط، جنین، خریداری عباس بن عبد المطلب، تیمم جنابت کے مسئلوں میں انہوں نے عباس ابن عبد المطلب عمار بن یاسر، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ، مغیرہ بن شعبہ، ابی بن کعب کی روایتوں کو اس وقت تک قابل حجت نہیں قرار دیا جب تک اور تائیدی شہادتیں نہیں گزریں۔ چنانچہ تذکرہ الحطاظ میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ اسی بناء پر خبر آحاد سے قرآن مجید کی تنسیخ یا تخصیص کو جائز نہیں قرار دیتے تھے۔ فاطمہ بنت قیس نے جب زن مطلقہ کی سکونت اور نفقہ کے متعلق اپنی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک وہ حکم، قرآن مجید کی نص کی مخالف تھا، فرمایا کہ ایک عورت کی روایت سے قرآن مجید کا حکم نہیں بدل سکتا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیالوں کا یہ استدلال ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہت سے واقعات میں اخبار آحاد کو قبول کیا لیکن امام صاحب نے یہ خیال نہ کیا کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اصول میں فرق نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ مذہب ہے کہ ہر خبر آحاد قابل احتجاج نہیں، نہ یہ کہ کوئی خبر آحاد قابل احتجاج نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تنہا ایک شخص کی شہادت کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ روزمرہ کے کاموں میں ہر شخص اسی پر عمل کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے اہم اور نازک مسائل ہوتے ہیں کہ جن کی نسبت ایک دو اشخاص کی شہادت کافی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ احتمال رہتا ہے کہ انہوں نے الفاظ روایت، یا واقعہ کی کیفیت سمجھنے میں غلطی کی ہو۔ غرض ہر واقعہ اور ہر راوی کی حالت اور حیثیت مختلف ہوتی ہے اور اس وجہ سے کوئی عام قاعدہ قرار نہیں پا سکتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے شبہ بہت سے موقعوں پر اخبار آحاد سے استدلال کیا۔ لیکن متعدد موقعوں پر اس کے خلاف بھی کیا۔ اس طریقہ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اخبار آحاد میں خصوصیت حالات کو ملحوظ رکھتے تھے۔ اخبار آحاد کے متعلق فقہاء و محدثین میں سخت اختلاف آراء ہے۔ اور بڑی بڑی طویل بحثیں پیدا ہو گئی ہیں۔ لیکن جہاں تک ہم نے ان تمام بحثوں کو دیکھا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مذہب میں جو نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی پائی جاتی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ لیکن اس موقع پر یہ تنبیہ کر دینی ضروری ہے کہ اخبار آحاد کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا جو اصول تھا اس کی بناء صرف تحقیق حق تھی۔ اس شمانے کے آزاد خیال کی طرح نفس کی پیروی مقصود نہ تھی کہ جس حدیث کو چاہا صحیح مان لیا۔ اور جس کو چاہا غلط کہہ دیا۔

کار کاں کار اقیاس از خود مگیر
گرچہ مانند در نو شیتن شیر و شیر​
 

شمشاد

لائبریرین
قیاس

فقہ کی توسیع اور تمام ضرورت کے لئے اس کا کافی ہونا قیاس پر موقوف ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام چیزیں مذکور نہیں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان جزئیات کے فیصلہ کرنے کے لئے قیاس شرعی سے کام لیا جائے۔ اسی ضرورت سے آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سب قیاس کے قائل ہوئے ہیں۔ اور ان کے مسائل کا ایک بڑا ماخذ قیاس ہے۔ لیکن قیاس کی بنیاد جس نے ڈالی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔

عام لوگوں کا خیال ہے کہ قیاس کے موجد معاذ بن جبل ہیں، ان لوگوں کا استدلال یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا تو ان سے استفسار فرمایا کہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو کیا کرو گے، انہوں نے کہا کہ قرآن مجید سے جواب دوں گا۔ اور اگر قرآن و حدیث میں وہ صورت مذکورہ نہ ہوئی تو اجتہاد کروں گا۔ (یہ حدیث مسند دارمی مطبوعہ نظامی صفحہ ۴۳ میں مذکور ہے)۔

لیکن اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ ان کی مراد قیاس سے بھی۔ اجتہاد قیاس پر منحصر نہیں۔ ابن حزم، داؤد ظاہری وغیرہ سرے سے قیاس کے قائل نہ تھے۔ حالانکہ اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے اور مسائل شرعیہ میں اجتہاد کرتے تھے۔ مسند دارمی میں بہ سند مذکور ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہوتی تو حدیث سے جواب دیتے۔ حدیث بھی نہ ہوتی تو اکابر صحابہ کو جمع کرتے اور ان کے اتفاق رائے سے جو امر قرار پاتا اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے تک مسائل کے جواب میں قرآن مجید، حدیث اور اجماع سے کام لیا جاتا تھا۔ قیاس کا وجود نہ تھا۔ (مسند عارمی صفحہ 32)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابو موسیٰ اشعری کو قضاء کے متعلق جو تحریر بھیجی، اس میں قیاس کی صاف ہدایت کی۔ چنانچہ اس کے یہ الفاظ ہیں۔

الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک ممالم یبلغک فی الکتاب والسنۃ و اعرف الامثال والا شباہ ثم قس الامور عند ذلک۔
(یہ روایت دار قطنی میں مذکور ہے۔ دیکھو ازالتہ اخفاء صفحہ 84)۔

"جو چیز تم کو قرآن و حدیث میں نہ ملے اور تم کو اس کی نسبت شبہ ہو اس پر غور کرو اور خوب غور کرو۔ اس کے ہم صورت اور ہم شکل واقعات کو دریافت کرو پھر ان سے قیاس کرو۔"

اصول فقہ کی کتابوں میں قیاس کی یہ تعریف لکھی ہے۔

تعدیۃ الحکم من الاصل الی الفرع لعلۃ متحدۃ۔

اس کے حکم کو فروغ تک پہنچانا کسی ایسی علت کی وجہ سے جو دونوں میں مشترک ہو مثلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیہوں، جوار وغیرہ کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو برابر پہ دو۔ برابر سے زیادہ لو گے تو سود ہو جائے گا۔ اس مسئلہ میں قیاس اس طرح جاری ہو گا۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گو چند خاص اشیاء کے نام لئے، لیکن یہ حکم ان تمام اشیاء میں جاری ہو گا جو مقدار اور نوعیت رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو سیر بھر چونہ دے اور اس سے اسی قسم کا چونہ سوا سیر لے یا عمدہ قسم کا لے تو سود ہو جائے گا۔

اصوسیین کے نزدیک قیاس کے لئے مقدم دو شرطیں ہیں۔

1 – جو مسئلہ قیاس سے ثابت کیا جائے وہ منصوص نہ ہو۔ یعنی اس کے بارے میں کوئی خاص حکم موجود نہ ہو۔

2 - مقیس اور مقیس علیہ میں علت مشترک ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحریر میں ان دونوں شرطوں کی طرف اشارہ بلکہ تصریح موجود ہے۔

پہلی شرط کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ممالم یبلغک فی الکتاب

دوسری شرط کو ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ واعرف الامثال والاشباہ ثم قس الامور۔

ان مہمات اصول کے سوا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے استنباط احکام اور تفریح مسائل کے اور بہت سے قاعدے مقرر کئے جو آج ہمارے علم اصول فقہ کی بنیاد ہیں۔ لیکن ان کی تفصیل سے پہلے ایک نکتہ سمجھ لینا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
استنباط احکام کے اصول

یہ امر مسلم ہے کہ امام ابو حنیفہ و امام مالک وغیرہ مسائل فقہیہ میں نہایت مختلف الرائے ہیں۔ اس اختلاف رائے کی وجہ کہیں کہیں تو یہ ہے کہ بعض مسائل میں ایک صاحب کو حدیث ملی اور دوسرے کو نہیں، لیکن عموماً اختلاف کا یہ سبب ہے کہ ان صاحبوں کے اصول استنباط و اجتہاد مختلف تھے۔ چنانچہ اصول فقہ کی کتابوں میں ان مختلف فیہ اصولوں کو بتفصیل لکھا گیا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان آئمہ نے وہ اصول بیان کیئے تھے۔ امام شافعی نے بے شبہ ایک رسالہ لکھا ہے جس میں اپنے چند اصول منضبط کئے ہیں۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک وغیرہ سے ایک قائد بھی صراحتہً منقول نہیں۔ بلکہ ان بزرگوں نے مسائل کو جس طرح استنباط کیا یا مسائل کے متعلق جو تقریر کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا استنباط خواہ مخواہ ان اصول کے بنأ پر ہے۔ مثلاً ایک امام نے قرآن کی اس آیت سے و اذا قریٔ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا سے استدلال کیا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قرأت فاتحہ نہ کرنا چاہیے۔ کسی نے ان سے کہا کہ یہ آیت تو خطبہ کے بارے میں اتری تھی، انہوں نے کہا کہ آیت کسی بارے میں اتری ہو لیکن حکم عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس اصول کے قائل تھے۔ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں کرتا۔

اصول فقہ میں امام ابو حنیفہ وغیرہ کے جو اصول مذکور ہیں، وہ اسی قسم کی صورتوں سے مستنبظ کئے گئے ہیں، ورنہ ان بزرگوں سے صراحتہً یہ قاعدے کہیں منقول نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت ہمارا یہ دعویٰ کہ انہوں نے استنباط مسائل کے اصول قائم کئے۔ اسی بنأ پر ہے، اکثر مسائل جو انہوں نے طے کئے۔ صحابہ کے مجمع میں بحث و مناظرہ کے بعد طے کئے، ان موقعوں پر انہوں نے جو تقریریں کیں، ان کے استقصأ سے بہت سے اصول قائم ہوتے ہیں۔ اکثر مسائل میں متناقض روایتیں یا ماخذ استدلال موجود ہوتے تھے اس لئے ان کو فیصلہ کرنا پڑتا تھا۔ کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دی جائے۔ کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے، کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے، کس کو منسوخ، کس کو عام ٹھہرایا جائے، کس کو خاص، کس کو موقت مانا جائے، کس کو موبد، اس طرح نسخ، تخصیص، تطبیق وغیرہ کے متعلق بہت سے اصول قائم ہو گئے۔ مثلاً ایک شخص نے ان سے کہا کہ میرے غلام کے ہاتھ کاٹنے کا حکم کیجئے کیونکہ اس نے میری بیوی کا آئینہ چرایا ہے جس کی قیمت 60 درہم تھی۔ فرمایا کہ تمہارا غلام تھا اور تمہاری چیز چرائی۔ اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ (مؤطا امام مالک)۔

ایسی اور بہت سے مثالیں ہیں۔ کوئی شخص چاہے تو ان سے اصول فقہ کے بہت سے کلیات منضبط کر سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسائل فقہیہ کی تعداد

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فقہ کے جو مسائل بیان کئے ان میں اکثر ایسے ہیں جن میں اور صحابہ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا اور آئمہ مجتہدین نے ان کی تقلید کی۔ شاہ ولی اللہ صاحب اپنے استقرأ سے اس قسم کے مسائل کی تعداد کم و بیش ایک ہزار بتاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں جن میں دیگر صحابہ نے اختلاف کیا اور وہی حق پر ہیں مثلاً تیمم، جنابت، تمتع، حج، طلقات ثلث وغیرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اجتہاد سے دیگر صحابہ کا اجتہاد زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن اکثر مسائل اور خصوصاً ان مسائل سے جو معرکۃ الآرأ رہے ہیں اور جن کو تمدن اور امور ملکی میں دخل ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کمال اجتہاد کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان میں سے بعض مسائل کا ذکر ہم اس موقع پر کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خمس کا مسئلہ

ایک بڑا معرکۃ الآرأ مسئلہ خمس کا ہے۔ قرآن مجید میں ایک آیت ہے۔ واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ ولیتمی والمسکین وابن السبیل۔

" جو کچھ تم کو جہاد کی لوٹ میں ہاتھ آئے، اس کا پانچواں حصہ خدا کے لئے ہے اور پیغمبر کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں کے لئے اور غریبوں کے لئے اور مسافروں کے لئے ہے۔"

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خمس میں رسول اللہ کے رشتہ داروں کا بھی حصہ ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی یہی رائے تھی اور حضرت علی نے اگرچہ مصلحتہً بنو ہاشم کو خمس میں سے حصہ نہیں دیا لیکن رائے ان کی بھی یہی تھی کہ بنو ہاشم واقعی حقدار ہیں۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۱، روایت محمد ابن اسحاق)۔

یہ صرف حضرت علی و عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کی رائے نہ تھی بلکہ تمام اہل بیت کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا۔ آئمہ مجتہدین میں سے امام شافعی اسی کے قائل تھےا ور انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑے زور شور کے ساتھ اس پر استدلال کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت لوگوں کا بیان ہے کہ وہ قرابت داران پیغمبر کو مطلقاً خمس کا حقدار نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اہل بیت کو کبھی خمس میں سے حصہ نہیں دیا۔ آئمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ بھی ذوی القربی کے خمس کے قائل نہ تھے۔ ان کی رائے تھی کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنحضرت کا حصہ جاتا رہا اسی طرح آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ بھی جاتا رہا۔

اب ہم کو غور کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید سے کیا حکم نکلتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق عمل کیا تھا۔ قرآن مجید کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر پانچ گروہ خمس کے مصرف ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ فرداً فرداً ہر گروہ میں تقسیم کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں جہاں زکوٰۃ کے مصارف بیان کئے ہیں وہاں بھی بعینہ اسی قسم کے الفاظ ہیں۔

انما الصدقت للفقرآٔ والمسکین ولعاملین علیھا والمؤلفۃ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل۔

اس میں زکوٰۃ کے مصارف آٹھ گروہ قرار دیئے ہیں۔ فقیر، مسکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے مؤلفتہ القلوب، قیدی، قرضدار، مجاہدین، مسافر، ان میں سے جس کو زکوٰۃ دی جائے ادا ہو جائے گی۔ یہ ضروری نہیں کہ خواہ مخواہ آٹھ گروہ پیدا کئے جائیں۔ آٹھوں گروۃ موجود بھی ہوں تب بھی یہ لحاظ کیا جائے گا کہ کون سے فریق اس وقت زیادہ مدد کا محتاج ہے۔ کون کم اور کون بالکل نہیں۔ یہ التزام مالا یلزم صرف امام شافعی نے اختراع کیا ہے کہ آٹھ برابر حصے کئے جائیں۔ اور آٹھوں گروہ کو ضرورت بے ضرورت کم بیش تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح خمس کے مصارف جو خدا نے بتائے ہیں اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس ان لوگوں کے سوا اور کسی کو نہ دیا جائے۔ یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اس کے پانچ برابر حصے کئے جائیں۔ اور پانچوں فریقوں کو برابر دیا جائے۔ اب دیکھو رسول اللہ کا طریقہ عمل کیا تھا؟ احادیث و روایات کے استقرأ سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے۔

۱ – ذوی القربی میں سے آپ صرف بنو ہاشم و بنو مطلب کو حصہ دیتے تھے۔ بنو نوفل اور بنو عبد شمس حالانکہ ذوی القربی میں داخل تھے، لیکن آپ نے ان کو باوجود طلب کرنے کے بھی کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ اس واقعہ کو علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں کتب حدیث سے بتفصیل نقل کیا ہے۔ (زاد المعاد جلد دوم صفحہ ۱۶۱)

۲ – بنو ہاشم و بنو عبد المطلب کو جو حصہ دیتے تھے وہ سب کو مساویانہ نہیں دیتے تھے۔ علامہ ابن القیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے۔

ولکن لم یکن یقسمہ بینھم علی السوأ بین الغنیائھم و فقرائھم ولا کان یقسمہ قسمۃ المیراث بل کان یصرفہ فیھم بحسب المصلحۃ والحاجۃ فیزوج منھم اغربھم و یقضی منہ عن غار مھم و یعطی منہ فقیرھم کفایۃ۔ (زاد المعاد جلد ثانی صفحہ 142)۔

"لیکن دولت مندوں اور غریبوں کو برابر نہیں تقسیم کرتے تھے۔ نہ میراث کے قاعدے سے تقسیم کرتے تھے۔ بلکہ مصلحت اور ضرورت کے موافق عطا فرماتے تھے۔ یعنی کنواری کی شادی کرتے تھے، مقروضوں کا قرض ادا فرماتے تھے، غریبوں کو بقدر حاجت دیتے تھے۔"

ان واقعات سے اولاً یہ ثابت ہوا کہ ذوی القربی کے لفظ میں تعمیم نہیں ہے ورنہ بنو نوفل اور بنو عبد الشمس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حصہ دیتے۔ کیونکہ وہ لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار تھے۔ دوسرے یہ کہ بنو ہاشم اور بن عبد المطلب کے تمام افراد کو مساوی طور سے حصہ نہیں ملتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جہاں تک صحیح روایتوں سے ثابت کیا ہے بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق بحال رکھا۔ وہ دو باتوں میں اس نے مخالف تھے ایک یہ کہ وہ مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے کم و بیش تقسیم کرنا خلیفہ وقت کا حق سمجھتے تھے۔ برخلاف اس کے عبد اللہ بن عباس وغیرہ کا یہ دعویٰ تھا کہ پانچواں حصہ پورے کا پورا خاص ذوی القربی کا حق ہے اور کسی کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں۔ قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ صاحب نے کتاب الخراج میں نسائی نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عباس کو قول نقل کیا ہے۔

عرض علینا عمر بن الخطاب ان نزوج من الخمس ایمنا و نقضی منہ عن مغر منا فابینا الا ان یسلمہ لنا و ابی فلک علینا۔ (کتاب الخراج صفحہ 11)۔

"عمر بن الخطاب نے یہ بات ہم لوگوں کے سامنے پیش کی تھی کہ ہم لوگ خمس کے مال سے اپنی بیواؤں کے نکاح اور مقروضوں کے ادائے قرض کے مصارف لے لیا کریں لیکن ہم بجز اس کے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ سب ہمارے ہاتھ دے دیا جائے۔ عمر نے اس کو منظور نہ کیا۔"

اور روایتیں بھی اسی کے موافق ہیں صرف کلبی کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذوی القربی کا حق ساقط کر دیا۔ کلبی نہایت ضعیف الروایۃ ہے۔ اس لئے اس کی روایت کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔

قرآن مجید کے فحویٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل کو منطبق کر کے دیکھو تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو کچھ کیا وہ بالکل قرآن و حدیث کے مطابق تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ وغیرہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پورا پانچواں حصہ دیتے تھے، قرآن مجید سے یہ تعین و تجدید بالکل ثابت نہیں ہو سکتی۔ باقی رہا ذوی القربی کا غیر معین حق تو اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہرگز انکار نہ تھا۔ اب اصول عقلی کے لحاظ سے اس مسئلہ کو دیکھو یعنی خمس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ قرار پانا کس اصول کی بنأ پر تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ احکام اور مہمات رسالت کے انجام دینے کی وجہ سے معاش کی تدبیر میں مشغول نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ملک کی آمدنی میں سےکوئی حصہ آپ کے لئے مخصوص کر دیا جائے اس وقت مال غنیمت " فے " و " انفال " بس یہی آمدنیاں تھیں۔ چنانچہ ان سب میں سے خدا نے آپ کا حصہ مقرر کیا تھا۔ جس کا ذکر قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہےجیسے بادشاہ کے ذاتی مصارف کے لئے خالصہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔ ذوی القربی کا حق اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ ان لوگوں نے ابتدائے اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ کفار مکہ نے زیادہ مجبور کیا تو تمام بنو ہاشم نے جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل کر ایک پہاڑ کے درے میں پناہ گزین ہوئے تو سب بنی ہاشم بھی ساتھ گئے۔

اس بنأ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ذوی القربی کے لئے جو کچھ مقرر تھا، وقتی ضرورت اور مصلحت کے لحاظ سے تھا۔ لیکن یہ قرار دینا کہ قیامت تک آپ کے قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ مقرر کر دیا گیا۔ اور گو ان کی نسل میں کسی قدر ترقی ہوئی ہو اور گو وہ کتنے ہی دولت مند اور غنی ہو جائیں یہ رقم ہمیشہ ملتی رہے گی۔ یہ ایسا قاعدہ ہے جو اصول تمدن کے بالکل خلاف ہے اور کون یقین کر سکتا ہے کہ ایک سچا بانی شریعت یہ قاعدہ بنائے گا کہ اس کی تمام اولاد کے لئے قیامت تک ایک معین رقم ملتی رہے۔ اگر کوئی بانی شریعت ایسا کرے تو اس میں اور خود غرض برہمنوں میں کیا فرق ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و عبد اللہ بن عبار رضی اللہ تعالٰی عنہ جو خمس کے مدعی تھے ان کا بھی یہ مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ حق قیامت تک کے لئے ہے بلکہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے باقی رہ گئے تھے انہی کی نسبت ان کو ایسا دعویٰ ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فے کا مسئلہ

ایک اور مہتم بالشان مسئلہ فئی کا ہے یعنی وہ زمین یا جائیداد جس کو مسلمانوں نے فتح کیا ہو۔ یہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الآراٗ ہے کہ صحابہ کے عہد سے آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا۔ باغ فدک کی عظیم الشان بحث بھی اسی مسئلے کی ایک فرع ہے۔

بڑا خلط مبحث اس میں اس وجہ سے ہوا کہ فے کے قریب المعنی اور جو الفاظ تھے یعنی نفل، غنیمت، سلب ان میں لوگ تفرقہ نہ کر سکے۔ ہم اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، تمام لڑنے والوں کو برابر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ سردار کو البتہ سب سے زیادہ چوتھا حصہ ملتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ابتدأ میں جس طرح اور بہت سی قدیم رسمیں قائم رہیں، یہ قاعدہ بھی کسی قدر تغیر صورت کے ساتھ قائم رہا۔ چنانچہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، غازیوں پر تقسیم ہو جاتا تھا۔ چونکہ قدیم سے یہی طریقہ جاری تھا۔ اور جناب رسول اللہ کے عہد میں بھی قائم رہا۔ اس لئے لوگوں کو خیال ہو گیا کہ مال غنیمت غازیوں کا ذاتی حق ہے اور وہ اس کے پانے کا ہر حالت میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اس پر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ جنگ بدر میں جب فتح حاصل ہو چکی ہے۔ تو کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرتے ہوئے دور تک چلے گئے۔ کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے۔ تعاقب کرنے والے واپس آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ غنیمت ہمارا حق ہے کیونکہ ہم دشمن سے لڑ کر لائے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ تھے۔ اس لئے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ ولرسول۔

"تجھ سے لوگ مال غنیمت کی نسبت پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ وہ خدا اور رسول کی ملک ہے۔"

اس آیت نے اس اصول کو مٹا دیا کہ تمام مال غنیمت لڑنے والوں کا حق ہے اور افسر کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں لیکن اس آیت میں غنیمت کے مسارف نہیں بیان کئے گئے پھر یہ آیت اتری۔

[ayah]واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ والیتمی والمسکین وابن السبیل۔[/ayah]

"جان لو کہ کوئی چیز جو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ خدا کے لئے اور پیغمبر کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں کے لئے اور مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے ہے۔"

اس آیت سے یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ مال غنیمت کے پانچ حصے کئے جائیں، چار حصے مجاہدین کو تقسیم کئے جائیں۔ اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ذوی القربی اور مساکین وغیرہ کے مصارف میں آئیں لیکن یہ تمام احکام نقد و اسباب سے متعلق تھے۔ زمین اور جائیداد کے لئے کوئی قاعدہ نہیں قرار پایا تھا۔ غزوہ بنی نضیر میں جو 5 ہجری میں واقع ہوا۔ سورۂ حشر کی یہ آیت اتری۔

[ayah]ما افاٗ اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ و للرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل الیٰ قولہ للفقرآٔ المھاجرین الزین اخر جو امن دیارھم الی قولہ والزین جاؤا من بعدھم۔[/ayah]

"یعنی جو زمین یا جائیداد ہاتھ آئے وہ خدا اور پیغمبر اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور فقرأ مہاجرین اور ان سب لوگوں کی ہے جو آئندہ دنیا میں آئیں۔"

اس سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جو زمین فتح ہو وہ تقسیم نہیں کی جائے گی بلکہ بطور وقف کے محفوظ رہے گی اور اس کے منافع سے تمام موجودہ اور آئندہ مسلمان متمتع ہوں۔ یہ ہے حقیقیت نفل غنیمت اور فے کی۔

ان احکام میں لوگوں کو چند مغالطے پیش آئے۔ سب سےپہلے یہ کہ لوگوں نے غنیمت اور فے کو ایک سمجھا، آئمہ مجتہدین میں سے امام شافعی رحمتہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اور ان کے مذہب کے موافق زمین مفتوحہ اسی وقت مجاہدین کو تقسیم کر دینی چاہیے۔ شام و عراق جب فتح ہوئے تو لوگوں نے اسی بنأ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی کہ ممالک مفتوحہ تقسیم کر دیئے جائیں۔ چنانچہ عبد الرحمٰن بن عوف، زبیر بن العوام، بلا ل بن رباح رضی اللہ تعالٰی عنہم نے سخت اصرار کیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ مانے۔ اس پر (جیسا کہ ہم صیغہ محاصل میں لکھ ائے ہیں) بہت بڑا مجمع ہوا اور کئی دن تک بحثیں ہوتی رہیں۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آیت مذکورہ بالا سے استدلال کیا اور آیت کے یہ الفاظ الذین جأ و امن بعد ھم پڑھ کر فرمایا کہ :

فکانت ھذہ عامۃ لمن جاٗ من بعدھم فقد صار ھذا الفئی بین ھؤلأ جمیعاً فکیف نقسمہ لھؤلأ و ندع من یخلف بعدھم۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۵۔ اس معرکہ کا پورا حال کتاب الخراج کے صفحہ ۱۴-۱۵ میں مذکرہ ہے)۔

"تو یہ تمام آئندہ آنے والوں کے لئے ہے اور اس بنأ پر یہ تمام لوگوں کا حق ٹھہرے پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کر دوں۔ اور ان لوگوں کو محروم کر دوں جو آئندہ پیدا ہوں گے۔"

امام شافعی رحمتہ اللہ اور ان کےہم خیال کا بڑا استدلال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ خیبر کے بعد اور مقامات بھی تو فتح ہوئے، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے پہلے تمام عرب پر قبضہ ہو چکا تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں چپہ بھر بھی زمین تقسیم کی؟
 

شمشاد

لائبریرین
فدک کا مسئلہ

اسی سلسلے میں باغ فدک کا معاملہ بھی ہے جو مدت تک معرکتہ الآرأ رہا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے کہ باغ خالص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تھی۔ کیونکہ اس پر چڑھائی نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا تھا اور اس وجہ سے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔

وما افآٔ اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ، علی من یشأ واللہ علی کل شئی قدیر۔

یعنی " جو کچھ خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے دلوایا تو تم لوگ اس پر اونٹ یا گھوڑے دوڑا کر نہیں گئے تھے۔ لیکن خدا اپنے پیغمبر کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔"

اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مملوکہ خاص ٹھہری تو اس میں وراثت کا عام قاعدہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جاری ہو گا۔ اور آنحضرت کے ورثہ اس کے مستحق ہوں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طلب و تقاضا کے آل نبی کو اس سے محروم رکھا۔

یہ بحث اگرچہ طرفین کی طبع آزمائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات نہایت مختصر تھی اور اب جبکہ سیاست مدن کے اصول زیادہ صاف اور عام فہم ہو گئے ہیں، یہ مسئلہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ بحث کے دائرہ میں لایا جائے۔ اصل یہ ہے کہ نبی یا امام، یا بادشاہ کے قبضے میں جو مال یا جائیداد ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک مملوکہ خاص جس کے حاصل ہونے میں نبوت اور امامت و بادشاہت کے منصب کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بنا کر معاش حاصل کرتے تھے یا عالمگیر قرآن لکھ کر بسر کرتا تھا۔ یہ آمدنی ان کی ذاتی آمدنی تھی۔ اور اس پر ہر طرح کا ان کو اختیار تھا۔ دوسری مملوکہ حکومت مثلاً داؤد علیہ السلام کے مقبوضہ ممالک جو حضرت حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں آئے۔

اس دوسری قسم میں وراثت نہیں جاری ہوتی۔ جو شخص پیغمبری یا امامت یا بادشاہت کی حیثیت سے جانشین ہوتا ہے وہی اس کا مالک ہوتا ہے، یہ مسئلہ آج کل کے مذاق کے موافق بالکل ایک بدیہی بات ہے۔ مثلاً سلطان عبد الحمید خان کے بعد ان کے ممالک مقبوضہ یا ان کی جاگیر خالصتہً ان کے بیٹے بھائی، ماں، بہن وغیرہ میں تقسیم نہیں ہو گی بلکہ جو تخت نشین ہو گا اس پر قابض ہو گا۔ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے ہر فرقہ میں یہ قاعدہ ہمیشہ مسلم رہا۔ مثلاً جو لوگ فدک کو درجہ بدرجہ آئمہ اثنا عشر کا حق سمجھتے ہیں وہ بھی اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری کرتے۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے زمانے میں اس کے مالک ہوئے تو یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد وراثت کا قاعدہ جاری ہوتا اور حسین و عباس و محمد بن حنیفیہ و زینت کو جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وارث تھے اس کا کچھ کچھ حصہ اس کے پڑتہ سے ملتا۔ بلکہ صرف حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبضہ میں آیا کیونکہ امامت کی حیثیت سے وہی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جانشین تھے۔

غرض یہ عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جو جائیداد نبوت یا امامت یا بادشاہت کے منصب سے حاصل ہوتی ہے، وہ مملوکہ خاص نہیں ہوتی۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ باغ فدک کیونکر حاصل ہوا تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کی فتح سے پھرے، تو محیصہ بن مسعود انصاری کو فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا، فدک یہودیوں کے قبضہ میں تھا اور ان کا سردار یوشع بن نون ایک یہودی تھا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضہ صلح میں آدھی زمین دینی منظور کی (فتوح البلدان۔ بلاذری، ذکر فدک)۔ اس وقت سے یہ باغ اسلام کے قبضہ میں آیا۔

اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی جائیداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مملوکہ خاص کیونکر ہو سکتی ہے۔ فدک کی ملکیت خاص کا دعویٰ اس بنأ پر کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کے ذریعے فتح نہیں ہوا۔ بلکہ اس آیت کے مصداق ہے فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب لیکن کیا جو ممالک صلح کے ذریعے سے قبضے میں آتے ہیں اور امام یا بادشاہ کی ملکیت خاص قرار پاتے ہیں؟ عرب کے اور مقامات بھی اس طرح قبضہ میں آئے کہ ان پر چڑھائی نہیں کرنی پڑی۔ کیا ان کو کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت سمجھا؟ البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ جب اور مقامات مفتوحہ کی نسبت کسی نے اس قسم کا خیال نہیں کیا تو فدک میں کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مفتوحہ زمینیں علانیہ وقف عام رہیں، لیکن فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مصارف کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ اس سے اس خیال کا موقع ملا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد خاص ہے۔ اس خیال کی تائید اس سے ہوئی کہ فدک پر لشکر کشی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس پر لوگوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن یہ خیال دراصل صحیح نہیں۔ فدک کو بے شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی مصارف کے لیے خاص کر لیا تھا۔ لیکن کیونکر؟ اس کے متعلق تفصیلی روایتیں موجود ہیں۔

فکان نصف فدک خالصاً لرسول اللہ و کان یصرف مایاتیۃ منھا الی ابنأ السبیل۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 29)

یعنی " آدھا فدک خاص رسول اللہ کا تھا۔ آنحضرت اس میں سے مسافروں پر صرف کرتے تھے۔"

ایک اور روایت میں ہے۔

ان فدک کانت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فکان ینفق منھا و یاکل و یعود علیٰ فقرآٔ بنی ھاشم و یزوج ایمھم۔ (فتوح البلدان صفحہ 31)۔

یعنی "فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے تھے اور فقرآئے بنی ہاشم کو دیتے تھے۔ اور ان کی بیواؤں کی شادی کرتے تھے۔"

بخاری وغیرہ میں تصریح مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کا اپنا خرچ اس میں سے لیتے تھے۔ باقی عام مسلمین کے مصالح میں دیتے تھے۔

ان روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فدک کا مملوکہ نبوت ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ سلاطین کے لئے کوئی جائیداد خالص کر دی جاتی ہے۔ اس بنأ پر باوجود مخصوص ہونے کے وقف کی حیثیت اس سے زائل نہیں ہوتی۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ان اصولوں سے واقف تھے؟ اور اسی بنأ پر انہوں نے فدک میں وراثت نہیں جاری کی یا نکات بعد الوقوع ہیں؟

عراق و شام کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کے مجمع میں تقریر کی تھی۔ اس میں قرآن مجید کی اس آیت سے ما افآٔ اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ الخ سے استدلال کر کے صاف کہہ دیا تھا کہ مقامات مفتوحہ کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہیں، بلکہ عام ہیں چنانچہ فے کے ذکر میں یہ بحث گزر چکی ہے، البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے، اس سے فدک وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص جائیداد ہونا ثابت ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے یہی معنی قرار دیتے تھے۔ آیت یہ ہے۔

[ayah]وما افآٔ اللہ علیٰ رسولہ منھم فما او جفتم من خیل ولا رکاب و ککن اللہ یسلط رسلہ علیٰ من یشأ۔[/ayah]

"اور جو ان لوگوں سے (یعنی یہود بنی نضیر سے) خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا تو تم لوگ اس پر چڑھ کر نہیں گئے تھے بلکہ خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔"

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس آیت کو پڑھ کر کہا تھا کہ فکانت خالصہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ واقعہ صحیح بخاری، باب الخمس اور باب المغازی اور باب المیراث میں بتفصیل مذکور ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی بنأ پر فدک وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خالصہ سمجھتے تھے لیکن اس قسم کا خالصہ جو ذاتی ملکیت نہیں ہوتا جس طرح سلاطین کے مصارف کے لئے کوئی زمین خاص کر دی جاتی ہے کہ اس میں میراث کا عام قاعدہ نہیں جاری ہوتا بلکہ جو شخص جانشین سلطنت ہوتا ہے، تنہا وہی اس سے متمتع ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس خیال کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جب آیت مذکورہ بالا کی بنأ پر فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خالصہ کہا تو ساتھ ہی یہ الفاظ فرمائے جیسا کہ صحیح بخاری باب الخمس و باب المغاذی وغیرہ میں مذکور ہے۔

فکان رسول اللہ ینفق علیٰ اھلہ نفقۃ سنتھم من ھذہ المال ثم یاخذ مابقی فیجعلہ کجعل مال اللہ فعمل رسول اللہ بذلک حیاتہ چم توفی اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ابو بکر انا ولی رسول اللہ فقبضھا ابو بکر فعمل فیھا بما عمل رسول اللہ ثم توفی اللہ ابابکر فکنت انا ولی ابی بکر فقبضتھا سنتین من امارتی اعمل فیھا ما عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و بما عمل فیھا ابو بکر۔

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ لیتے تھے۔ باقی کو خدا کے مال کے طور پر خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اسی پر عمل فرمایا ۔ پھر وفات پائی تو ابو بکر نے کہا کہ میں ان کا جانشین ہوں۔ پس اس پر قبضہ کیا اور اسی طرح کاروائی کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر انہوں نے وفات پائی تو میں ابو بکر کا جانشین ہوا پس میں نے اس پر دو برس قبضہ رکھا اور وہی کاروائی کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر کرتے تھے۔"

اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ باوجود اس کے کہ فدک وغیرہ کو خالصہ سمجھتے تھے تاہم آنحضرت کی ذاتی جائیداد نہیں سمجھتے تھے (جس میں وراثت جاری ہو) اور اس وجہ سے اس کے قبضہ کا مستحق صرف اس کو قرار دیتے تھے۔ جو رسول اللہ کا جانشین ہو۔ چنانچہ حضرت ابو بکر اور خود اپنے قبضہ کی یہی وجہ بتائی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ تقریر اس وقت فرمائی تھی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم ان کے پاس فدک کے دعویدار ہو کر آئے تھے اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری ہو سکتا۔

حاصل یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک فدک وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خالصہ بھی تھے اور وقف بھی تھے۔ چنانچہ عراق کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی آیت کو جس سے آنحضرت کا خالصہ ہونا پایا جاتا ہے، پڑھ کر یہ الفاظ کہے فھذہ عامۃ فی القربی کلھا یعنی جو حکم اس آیت میں ہے وہ انہی مواضع (فدک وغیرہ) پر محدود نہیں بلکہ تمام آبادیوں کو شامل ہے۔

اصل یہ ہے کہ فدک کا ذو جہتیں ہونا ہی تمام غلط فہمی کی اصل وجہ تھا۔ چنانچہ حافظ بن القیم نے زاد المعاد میں نہایت لطیف پیرایہ میں اس بات کو ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

فھوملک یخالف حکم غیرہ من المالکین و ھذا النوع من الاھوال ھو القسم الذی وقع بعدہ فیہ من النزاع ما وقع الی الیوم ولولا اشکال امرہ علیھم لما طلبت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میراثھا من ترکتہ و ظنت انہ یورث عنہ ما کان مالکالہ کسائر المالکین و خفی علیھا رضی اللہ عنھا حقیقۃ الملک لیس مما یورث عنہ۔ (زاد المعاد صفحہ 143 جلد دوم)۔

ان واقعات سے تم اندازہ کر سکتے ہو کہ ان مسائل کو جو ابتدأ سے آج تک معرکہ آرأ رہے ہیں۔ اور جن میں بڑے بڑے اکابر صحابہ کو اشتباہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کس خوبی سے طے کیا کہ ایک طرف قرآن و حدیث کا صحیح محل وہی ہو سکتا ہے اور دوسری طرف اصول سلطنت و نظام تمدن سے بھی بالکل مطابقت رکھتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ذاتی حالات اور اخلاق و عادات

عرب میں روحانی تربیت کا آغاز اگرچہ اسلام سے ہوا لیکن اسلام سے پہلے بھی اہل عرب میں بہت سے ایسے اوصاف پائے جاتے تھے جو تمغائے شرافت تھے اور جن پر ہر قوم ہر زمانہ میں ناز کر سکتی ہے۔ یہ اوصاف اگرچہ کم و بیش تمام قوم میں پائے جاتے تھے لیکن بعض بعض اشخاص زیادہ ممتاز ہوتے تھے۔ اور یہی لوگ قوم سے ریاست و حکومت کا منصب حاصل کرتے تھے۔ ان اوصاف میں فصاحت و بلاغت تقریر، شاعری، نسابی، سپہ گری، بہادری آزادی مقدم چیزیں تھیں اور ریاست و افسری میں ان ہی اوصاف کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قدرت نے ان سب میں سے کافی حصہ دیا تھا۔

تقریر کا ملکہ خداداد تھا اور عکاظ کے معرکوں نے اس کو اور زیادہ جلا دے دی تھی۔ یہی قابلیت تھی جس کی وجہ سے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دیا تھا جو ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جو سب سے زیادہ زبان آور ہوتے تھے۔ ان کے معمولی جملوں میں آرٹیری کا اثر اور بر محفل فقرے جو ان کے منہ سے نکل جاتے تھے ان میں بلاغت کی روح پائی جاتی تھی۔ عمرو بن معدی کرب کو جب پہلے پہل دیکھا تو چونکہ وہ غیر معمولی تن و توش کے آدمی تھے اس لئے متحیر ہو کر کہا " اللہ اس کا اور ہمارا خالق ایک ہی ہے۔ " مطلب یہ کہ ہمارے جسم میں اور اس کے جسم میں اس قدر تفاوت ہے کہ دونوں ایک کاریگر کے کام نہیں معلوم ہوتے۔

وبأ کے واقعہ میں ابو عبیدہ نے ان پر اعتراض کیا آپ قضائے الہٰی سے بھاگتے ہیں تو کس قدر بلیغ لفظوں میں جواب دیا کہ "ہاں قضائے الہٰی کی طرف بھاگتا ہوں۔"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top