محمداحمد
لائبریرین
ویسے تو یہ بے کار کی بحث ہے لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ سندھ میں اردو بولنے والے لوگوں کی اپنی ایک شناخت ہے (چاہے اُن کا سیاسی قبلہ کچھ بھی ہو)۔ عرصہ دراز سے ان لوگوں کے لئے مہاجر کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔
شروع میں یہ لفظ اپنے اصل (لغوی) معنوں میں اُن لوگوں کے لئے استعمال ہوا جو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آئے۔ پھر یہ لفظ مہاجروں نے اپنے لئے کم اور دوسروں نے اُن کے لئے زیادہ استعمال کیا (تاکہ وہ خود میں اور نوواردان میں تفریق کر سکیں)۔ اور اس بنا پر سندھ میں دو مخلتف طبقات وجود میں آئے ایک پرانے رہائشی جو سندھی کہلاتے تھے اور دوسرے ہجرت کرکے آنے والے جو مہاجر کہلائے۔۔۔! پنجاب میں آنے والے اس ثقافت میں ضم ہو گئے کہ غالباً اُن کو دوستانہ ماحول ملا۔
سندھ میں ماحول بہت مختلف تھا۔۔۔! یہاں اردو بولنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُنہیں "پناہ گیر " ، "مکڑ" اور دیگر مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا۔ یہاں آج بھی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں جن کے وجود سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان جماعتوں سے وابستہ لوگ مہاجر دشمنی میں پیش پیش رہے اور ان لوگوں نے اردو بولنے والوں پر قیدِ حیات تنگ کرکے اُنہیں اس قدر مجبور کردیا کہ وہ ردِ عمل میں جنگ و جدل پر مجبور ہو گئے ( کیونکہ قانون اور حکومتیں کبھی مظلوم کو انصاف نہیں دے سکیں)۔ برسوں یہ سب معاملات ہوتے رہے یہاں تک کے اردو بولنے والے (چاہے وہ ہجرت کر کے آئے ہوں یا پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہوں) ذہنی طور پر یہ ماننے کو تیار ہوگئے کہ وہ کبھی سندھی قوم میں ضم نہیں ہوسکیں گے سو اُنہوں نے خود کو مہاجر سمجھنا اور کہنا شروع کردیا۔
میرا تعلق سندھ کے اردو بولنے والے گھرانے سے ہے۔ اب میرا شعر دیکھیے:
سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک شکوہ ہے اس کا پس منظر بھی فہمِ رسا رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔
آپ یقین کیجے آج بھی جب میں کسی سندھی بولنے والے شخص کی دریافت پر بتاتا ہوں کہ میں "سندھی" ہوں تو مجھے طرح طرح کے سوالات کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے تو گفتگو اردو سے سندھی زبان میں چلی جاتی ہے۔ پھر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ "کاتھے ویٹھا ہے" (یعنی میں سندھ میں کہاں کا ہوں)۔ پھر بھی اگر میں اپنے سندھی ہونے پر اصرار کروں تو مجھ سے سندھی کے مشکل مشکل لفظ پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً سندھی میں لفظ "بارات" اور "مینڈک" کے لئے جو لفظ ادا کیے جاتے ہیں (جن کی ادائیگی غیر سندھی لوگوں کے لئے دشوار ہوتی ہے) پوچھے جاتے ہیں۔ میں تھوڑی بہت سندھی جانتا ہوں تاہم اِن مشکل الفاظ کی ادائیگی میرے لئے دشوار ہے۔
اگر میں ان سے یہ کہوں کہ چونکہ میں سندھ میں رہتا ہوں، یہاں پیدا ہوا یہاں پلا بڑھا ہوں تو اس لئے "میں سندھی ہوں" تو میرا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
اب برسوں گزر جانے کے بعد لفظ "مہاجر" جو کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں اور اُن کی اولادوں کے لئے استعمال ہوتا آ رہا ہے اور اسے خود مہاجر اپنے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور دیگر زبان بولنے والے بھی ان کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اب یہ ایک روایت بن گئی ہے، سو اب اس بات پر معترض ہونا سمجھ نہیں آتا۔
ہر لفظ کے لغوی معنی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی لغوی معنی پیچھے بھی رہ جاتے ہیں جیسے ہم آج بھی "قیس" کا لفظ کاکلِ عشق کے اسیروں کے لئے اور "ہٹلر" کا لفظ "ہٹ دھرم" لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کبھی لفظ "مدینہ" صرف "شہر" کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن آج اس لفظ کی قسمت میں ایسی محبتیں اور عقیدتیں ہیں جو کبھی لفظ "شہر" کے لئے سوچی بھی نہیں جا سکتیں۔
محفلین سے سوال یہ ہے کہ اس قسم کی بحث سے حاصل کیا ہے؟
اور آخر میں ایک تجویز اور یہ کہ اگر تمام سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، مہاجر اور دیگر قومیں اپنے لئے "پاکستانی" کی اصطلاح استعمال کریں تو اس طرح کی غیر ضروری بحث و مباحثے سے جان چھوٹ جائے گی اور پاکستانیوں میں اتحاد اور یگانگت کی فضا ہموار ہو سکے گی۔
شروع میں یہ لفظ اپنے اصل (لغوی) معنوں میں اُن لوگوں کے لئے استعمال ہوا جو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آئے۔ پھر یہ لفظ مہاجروں نے اپنے لئے کم اور دوسروں نے اُن کے لئے زیادہ استعمال کیا (تاکہ وہ خود میں اور نوواردان میں تفریق کر سکیں)۔ اور اس بنا پر سندھ میں دو مخلتف طبقات وجود میں آئے ایک پرانے رہائشی جو سندھی کہلاتے تھے اور دوسرے ہجرت کرکے آنے والے جو مہاجر کہلائے۔۔۔! پنجاب میں آنے والے اس ثقافت میں ضم ہو گئے کہ غالباً اُن کو دوستانہ ماحول ملا۔
سندھ میں ماحول بہت مختلف تھا۔۔۔! یہاں اردو بولنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُنہیں "پناہ گیر " ، "مکڑ" اور دیگر مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا۔ یہاں آج بھی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں جن کے وجود سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان جماعتوں سے وابستہ لوگ مہاجر دشمنی میں پیش پیش رہے اور ان لوگوں نے اردو بولنے والوں پر قیدِ حیات تنگ کرکے اُنہیں اس قدر مجبور کردیا کہ وہ ردِ عمل میں جنگ و جدل پر مجبور ہو گئے ( کیونکہ قانون اور حکومتیں کبھی مظلوم کو انصاف نہیں دے سکیں)۔ برسوں یہ سب معاملات ہوتے رہے یہاں تک کے اردو بولنے والے (چاہے وہ ہجرت کر کے آئے ہوں یا پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہوں) ذہنی طور پر یہ ماننے کو تیار ہوگئے کہ وہ کبھی سندھی قوم میں ضم نہیں ہوسکیں گے سو اُنہوں نے خود کو مہاجر سمجھنا اور کہنا شروع کردیا۔
میرا تعلق سندھ کے اردو بولنے والے گھرانے سے ہے۔ اب میرا شعر دیکھیے:
رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کہ احمد بے وطن ہوں
سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک شکوہ ہے اس کا پس منظر بھی فہمِ رسا رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔
آپ یقین کیجے آج بھی جب میں کسی سندھی بولنے والے شخص کی دریافت پر بتاتا ہوں کہ میں "سندھی" ہوں تو مجھے طرح طرح کے سوالات کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے تو گفتگو اردو سے سندھی زبان میں چلی جاتی ہے۔ پھر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ "کاتھے ویٹھا ہے" (یعنی میں سندھ میں کہاں کا ہوں)۔ پھر بھی اگر میں اپنے سندھی ہونے پر اصرار کروں تو مجھ سے سندھی کے مشکل مشکل لفظ پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً سندھی میں لفظ "بارات" اور "مینڈک" کے لئے جو لفظ ادا کیے جاتے ہیں (جن کی ادائیگی غیر سندھی لوگوں کے لئے دشوار ہوتی ہے) پوچھے جاتے ہیں۔ میں تھوڑی بہت سندھی جانتا ہوں تاہم اِن مشکل الفاظ کی ادائیگی میرے لئے دشوار ہے۔
اگر میں ان سے یہ کہوں کہ چونکہ میں سندھ میں رہتا ہوں، یہاں پیدا ہوا یہاں پلا بڑھا ہوں تو اس لئے "میں سندھی ہوں" تو میرا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
اب برسوں گزر جانے کے بعد لفظ "مہاجر" جو کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں اور اُن کی اولادوں کے لئے استعمال ہوتا آ رہا ہے اور اسے خود مہاجر اپنے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور دیگر زبان بولنے والے بھی ان کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اب یہ ایک روایت بن گئی ہے، سو اب اس بات پر معترض ہونا سمجھ نہیں آتا۔
ہر لفظ کے لغوی معنی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی لغوی معنی پیچھے بھی رہ جاتے ہیں جیسے ہم آج بھی "قیس" کا لفظ کاکلِ عشق کے اسیروں کے لئے اور "ہٹلر" کا لفظ "ہٹ دھرم" لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کبھی لفظ "مدینہ" صرف "شہر" کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن آج اس لفظ کی قسمت میں ایسی محبتیں اور عقیدتیں ہیں جو کبھی لفظ "شہر" کے لئے سوچی بھی نہیں جا سکتیں۔
محفلین سے سوال یہ ہے کہ اس قسم کی بحث سے حاصل کیا ہے؟
اور آخر میں ایک تجویز اور یہ کہ اگر تمام سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، مہاجر اور دیگر قومیں اپنے لئے "پاکستانی" کی اصطلاح استعمال کریں تو اس طرح کی غیر ضروری بحث و مباحثے سے جان چھوٹ جائے گی اور پاکستانیوں میں اتحاد اور یگانگت کی فضا ہموار ہو سکے گی۔