اقوالِ سیمیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ طویل عرصے تک ایک دنیا کو اپنی حکمت و دانائی سے مستفید کرنے کے بعد کل رات مِس زرّیں مقتضائے عمری سے ریٹائر ہوگئیں۔ وہ پسماندگان میں ساڑھے تین ہزار اقوال کو در بدر چھوڑ کر راہیِ ملکِ حشم ہوئیں یعنی امریکا انتقال کر گئی ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے قریبی حلقوں میں ان کی ذہنی صحت کے بارے میں مختلف قسم کی افواہیں گردش میں تھیں۔ لیکن انتقال سے پہلے انہوں نے ان خبروں کی کئی بار پُرزور تردید فرمائی اور بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ انہیں فاتر العقل کہنے والے پہلے خود اپنے گردے کا علاج کروائیں۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ سٹھیا گئی ہوتیں تو ہفتے کے آٹھوں دن محکمۂ تعلیم میں بلاناغہ اتنا عرصہ کس طرح کام کر سکتی تھیں۔

مس زرّیں نے عام دستور کے عین مطابق اپنے طویل دورِ حکمت میں اپنے جانشین کے انتخاب اور تربیت کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی کہ وہ تختِ حکمت کو اپنی ابدی جاگیر سمجھتی تھیں۔ لیکن عین ریٹائرمنٹ کے وقت جب انہیں اپنی کرسی کے خالی ہو جانے کا احساس ہوا تو انہوں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ان کی خوش قسمتی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ اُن کی اکلوتی صاحبزادی مِس سیمیں اُس وقت قریب ہی بیٹھی نازنین ڈائجسٹ میں شکیلہ کا غرارہ نامی دردناک افسانہ پڑھ رہی تھیں۔ مِس سیمیں کی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو گرتے دیکھ کر مِس زرّیں سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے مِس سیمیں کو ناصحانہ نظروں سے دیکھا اور فوراً ہی ان کی طرف ایک قولِ زرّیں لڑھکاتے ہوئے فرمایا۔ "پیاز کاٹتے وقت آنکھ سے گرنے والے آنسو کا ایک قطرہ ٹائی ٹینِک فلم دیکھ کر دو گھنٹے لگاتار رونے سے ہزار گنا بہتر ہے۔" لیکن مِس سیمیں پر اس ترچھے وار کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور یہ قولِ زرّیں بھی آنسوؤں کی طرح پھسلتا ہوا ان کی گود میں رکھے ٹشو پیپر کے ڈبے پر جاگرا۔ اپنے تین ہزار چار سو پچانویں قول کا یہ حشر دیکھ کر مس زرّیں فوراً اقوال کی زبان سے افعال کی زبان پر اتر آئیں۔ مس سیمیں کے ہاتھوں سے ڈائجسٹ چھین کر ان کی ناک کے آگے انگلی نچاتے ہوئے ایک مختصر سا تیز دھار قول داغا اور فرمایا ۔ "بیکار مباش کچھ کیا کر!" اور پھر مزید فرمایا ۔"تم آخر کب تک ربیہ جٹ کے افسانے اور ناول پڑھ پڑھ کر روتی رہو گی؟ کب سے کہہ رہی ہوں کہ اب شادی کرلو۔ خود رونے سے کسی کو رُلانا بہتر!" یہ سن کر مس سیمیں سراسیمہ ہوگئیں۔ انہیں ڈائجسٹ کا اس وقت ہاتھوں سے نکل جانا اچھا نہیں لگا۔ افسانے میں اس وقت انتہائی رنج و غم کا منظر چل رہا تھا۔شکیلہ کا شوہر اپنی اکلوتی اور چہیتی بیگم کی بے وقت جدائی کے غم میں دیوانہ ہو گیا تھا اور مرحومہ کا ریشمی غرارہ پہن کر من تو شدم ، تو من شدی والی قوالی پر جگہ جگہ بھنگڑا نما دھمال کرتا پھر رہا تھا۔ ریشمی غرارہ مستانہ وار رقص کی شدت سے تار تار ہوا جاتا تھا۔ تماشائی اس کے حال پر ٹھٹھے لگارہے تھے لیکن مس سیمیں کا نازک سا دل وفا اور محبت کے اس بے مثال مظاہرے پر اندر ہی اندر کسی میٹھی آگ میں جل رہا تھا۔ شادی کے بارے میں امّاں کا قول اس وقت انہیں کسی پتھر کی طرح لگا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں۔ " امّاں ، میں نہیں چاہتی کہ میرے بعد کوئی محبت کرنے والا میرے غرارے میں دھمال ڈالتا پھرے۔" مس سیمیں کے دہنِ صدف مثال سے اس آبدار موتی کا نکلنا تھا کہ مِس زرّیں وہیں کی وہیں ساکت ہوگئیں۔ اس قدر تہہ دار عمیق خیال اور اس کے حقیقت کشا بلیغ اظہار نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے منصب کا حقیقی جانشیں اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ مس سیمیں ہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں کو گلے لگاتے ہوئے نہ صرف نازنین ڈائجسٹ واپس کردیا بلکہ انہیں اقوال سازی کے منصب پر فائز کرنے کی خوشخبری بھی سنائی۔
اپنا تختِ حکمت مس سیمیں کو سونپنے کے بعد مس زرّیں کو خیال آیا کہ لگے ہاتھوں مخالفوں اور معترضوں کا منہ بند کرنے کے لیے مس سیمیں کی قابلیت اور اہلیت کا امتحان بھی لے لیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت معاملات کو پیچیدہ بنانے کے کام آئے۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں سے پوچھا۔ " ذرا یہ تو بتاؤ کہ آخر کس بات پر تمہیں اتنا رونا آرہا تھا؟" جواب میں مس سیمیں نے چند جملوں میں افسانے کا لبِ لباب بشمول شکیلہ کی مرگِ ناگہاں اور غرارہ پوش شوہر کا رقصِ گاہ بہ گاہ بیان کیا۔ یہ سن کر مس زرّیں نے اپنے ہونٹوں پر آتے ہوئے ایک بے ساختہ قول کا گلا بالجبر گھونٹ کر صبر کا ایک گھونٹ پیا اور کہا۔ " اس واقعے سے تم نے جو سبق سیکھا اسے مختصر الفاظ میں بصورتِ قول بیان کرو"۔ مس سیمیں کہ ماں کی طرف سے ملنے والی بینائی اور دانائی کے تحت بچپن ہی سے ہر چھوٹے بڑے واقعے سے سبق نکالتی آئی تھیں فوراً گویا ہوئیں۔" سوتی شلوار کی لچک ریشمی غرارے کی چمک سے لاکھ درجہ دیرپا ہوتی ہے۔" یہ سن کر مس زرّیں سناٹے میں آگئیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی جوابی قول داغتیں مس سیمیں نے ربیہ جٹ کے اس دردناک افسانے سے ایک اور سبق بونس کے طور پر نکالا اور اسے قول میں ڈھالتے ہوئے امّاں کی طرف روانہ کیا۔ "سچی محبت کرنے والے بھنگڑے اور دھمال میں فرق نہیں کرتے۔" بس یہ سننا تھا کہ مس زرّیں اُسی لمحے وہیں کھڑے کھڑے ریٹائر ہوگئیں۔ اپنی ڈائری اور قلم مس سیمیں کے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا اور اپنا آخری قولِ زرّیں جاری کیا ۔" قابلیت اور اہلیت موروثی ہوتی ہیں۔ حاکم کی اولاد حاکم اور عوام کی اولاد مزید عوام!"

تختِ حکمت سنبھالنے کے فوراً بعد مس سیمیں نے دفتر میں موجود امّاں کی بوستان و گلستانِ سعدی قسم کی فرسودہ کتب کو ربیہ جٹ کے ناولوں اور ابنِ خفی کی کہانیوں سے تبدیل کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد چائے کے کپ میں مسلسل چمچہ ہلاتے ہوئے اقوالِ سیمیں کے سلسلے کا پہلا قول اپنے چپراسی کے سامنے یوں جاری کیا۔ "چائے کے کپ میں خواہ کتنا ہی چمچہ ہلایا جائے ، چائے اس وقت تک میٹھی نہیں ہوتی جب تک کہ اُس میں شکر نہ ڈالی جائے۔" تجربہ کار چپراسی کی طرف سے اس قول کی پُرزور تصدیق کے بعد مس سیمیں نے اپنے اس پہلے سرکاری قول کی باقاعدہ اشاعت کی منظوری دی اور پھر آشوبِ نکاح نامی ناول کے مطالعے میں مصروف ہوگئیں۔ آخری خبریں آنے تک وہ اس ناول سے ایک درجن سبق نکال چکی ہیں لیکن مزید سبق ہیں کہ نکلتے ہی چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ اس سبق آموز مطالعہ کے دوران بالکل مخل نہ ہوا جائے۔ نیز یہ کہ آئندہ احکامات تک اقوال سازی کا کام قارئین کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں آیا امّی حضور کے اتنے سارے اقوال پڑھنے کے بعد قارئین کسی قابل بھی ہوئے ہیں یا ابھی تک نرے قارئین ہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پیارے خواتین و حضرات ، چونکہ مس سیمیں اقوال سازی کا اہم فریضہ قارئین کو سونپ چکی ہیں تو اب یہ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ اپنی بساط کے مطابق فرداً فرداً وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی قول گھڑ کر اس دھاگے میں لگاتے رہیں تاکہ بینش و دانش کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کیا ہے وہ چراپونجی میں برسات کی طرح جاری و ساری رہے۔ قول سازی کے سلسلے میں اگر وزارتِ گفتار کے ایک وزیرِ باتقدیر کی جاری کردہ اس مثال نما رہنما ہدایت کو مدِنظر رکھا جائے (جب بارش زیادہ ہوتا ہے تو پانی زیادہ آتا ہے) تو عین ممکن ہے کہ اقوال کی تعداد میں مس سیمیں جلد ہی اپنی امّاں سے دو جلدیں آگے نکل جائیں۔ تو اے ذہین و فطین قارئینِ باتمکین ، ہنسنے ہنسانے کی مشین! ہوجائیے کمپیوٹر نشین اور لکھ ڈالیے کچھ سخن ہائے نمکین کہ ہوجائیں یہ صفحات رنگین ، ملے جن سے دلِ غمگین کو تسکین۔پیارے حضرات و خواتین! نکالیے کہیں سے چند چلبلے مضامین ، اچھالیے کوئی سخن لحیم یا مہین ، ایک کر دیجیے آسمان و زمین ، آپ پر پیشگی ہزاروں گل ہائے تحسین! آئیے آئیے اور دیجیے اپنے قول و قرار ، اب میں ہوتا ہوں یہاں سے فرار!

لکھیے لکھیے کہ لوگ کہتے ہیں
قولِ سیمیں کوئی نیا نہ ہوا
 

سیما علی

لائبریرین
حضرات و خواتین! نکالیے کہیں سے چند چلبلے مضامین ، اچھالیے کوئی سخن لحیم یا مہین ، ایک کر دیجیے آسمان و زمین ، آپ پر پیشگی ہزاروں گل ہائے تحسین! آئیے آئیے اور دیجیے اپنے قول و قرار ، اب میں ہوتا ہوں یہاں سے فرار!
بہت خوب
انتہائی مزے دار تحریر ڈھیروں داد و تحسین قبول کیجیے۔۔اب بھلا آپکو اتنی مزے دار تحریر کے بعد کون راہ فرار اختیار کرنے دے گا ۔۔۔
جیتے رہیے ۔ ڈھیر ساری دعائیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہزاروں اقوال جن کا آغاز
جیسے خوبصورت جملے سے ہوتا تھا۔۔۔ یا پھر
کسی فلاسفر نے کہا ہے۔۔۔۔
یا پھر
ایک بزرگ نے فرمایا ہے۔۔۔
سے ہوتا تھا، مس زریں کے ایک قول نے رد بلکہ ردی کر دیے ہیں۔۔۔
" قابلیت اور اہلیت موروثی ہوتی ہیں۔ حاکم کی اولاد حاکم اور عوام کی اولاد مزید عوام!"
ایسے ملوکیت کو فروغ دیتے قول سے معاشرے سے نہ صرف جمہوری رجحان کا خاتمہ ہوگیا ہے، بلکہ اہل سیف کی پیروی پر ایمان کامل ہوگیا ہے۔

مس زریں نے اقوال کی مسند کو ملوکیت میں ڈھال کر اقوال کی چوپال میں ایک ہنگام کھڑا کر دیا ہے۔چھوٹے چھوٹے بصری اقوال کے اندر نہ صرف احساس کم مائیگی بڑھا ہے، بلکہ ایک دو رنجیدہ و سنجیدہ اقوال کے قارئین نے بھی احتجاجا کہا ہے کہ قول کسی کی ملکیت نہیں۔ اور تو اور راقم الحروف بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ موجودہ صدی اقوال کی صدی تھی، اس صدی کو کسی ایک کے نام کر دینا شیوہ فلک ہو تو ہو، شیوہ دیوانگان نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ جلد یا بدیر مس زریں اور مس سیمیں کے خلاف اقوال کی ایک باقاعدہ مہم شروع کی جائے گی۔۔۔۔ سردست اس مہم کے آغاز واسطے ایک قول ارسال کر رہا ہوں۔۔۔ بے شک اہل نظر کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
قول ہے۔ ۔۔۔۔ بلی کے قدموں کی چاپ نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں نا۔۔۔ کہ پانی پیا ہو تو پیاس نہیں لگتی۔۔۔۔۔ قول نہ پڑھا تو دال نہیں گلتی۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب
انتہائی مزے دار تحریر ڈھیروں داد و تحسین قبول کیجیے۔۔اب بھلا آپکو اتنی مزے دار تحریر کے بعد کون راہ فرار اختیار کرنے دے گا ۔۔۔
جیتے رہیے ۔ ڈھیر ساری دعائیں ۔
بہت شکریہ ، سیما علی آپا!
مزاح نگاری میرا میدان نہیں۔ بس یونہی کبھی کبھار قلم شوخیوں پر اتر آتا ہے ۔ اس کا سارا عذاب ثواب نیرنگ خیال کے سر پر۔ مشورہ یہ ہوا تھا کہ محفل کا رنگ کچھ پھیکا پڑگیا ہے اور فضا سونی سونی سی ہے سو اس کو پٹڑی پر لانے کے لیے کچھ کوششیں کی جائیں ۔ اب ذوالقر نین کے دوسرے مضمون کا انتظار ہے۔آپ بھی ذرا اپنا اثر و رسوخ استعمال کیجیے اور مضمون لکھوائیے ان صاحب سے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایسے ملوکیت کو فروغ دیتے قول سے معاشرے سے نہ صرف جمہوری رجحان کا خاتمہ ہوگیا ہے، بلکہ اہل سیف کی پیروی پر ایمان کامل ہوگیا ہے۔
آپ اپنا وائی فائی چیک کریں ۔ آپ تک شاید یہ اطلاع ابھی تک نہیں پہنچی کہ ملکِ عزیز میں تختِ حکمت کا الحاق تختِ حکومت سے کب کا ہوچکا۔ اب تمام عقلمندی اور دانائی کی باتیں صرف واں سے صادر ہوتی ہیں ۔ یاں سے کچھ کہنا منع ہے۔
بلی کے قدموں کی چاپ نہیں ہوتی۔
بیشک بل اور بلی دونوں گھر میں دبے پاؤں آتے ہیں ۔
پانی پیا ہو تو پیاس نہیں لگتی۔۔۔۔۔ قول نہ پڑھا تو دال نہیں گلتی۔
حق باہو ، بیشک باہو! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بحوالہ ڈبلیو سولہ)
بالکل سچ کہا ۔ گفتگو کی دال صرف اقوال کی میٹھی آنچ پر ہی گلتی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ اپنا وائی فائی چیک کریں ۔ آپ تک شاید یہ اطلاع ابھی تک نہیں پہنچی کہ ملکِ عزیز میں تختِ حکمت کا الحاق تختِ حکومت سے کب کا ہوچکا۔ اب تمام عقلمندی اور دانائی کی باتیں صرف واں سے صادر ہوتی ہیں ۔ یاں سے کچھ کہنا منع ہے۔
یعنی آپ کہہ رہے ہیں رام ریاض کی زبان میں کہ
ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ برا مانتے ہیں
بیشک بل اور بلی دونوں گھر میں دبے پاؤں آتے ہیں ۔
اول الذکر کے آنے پر تو بھونچال آتا ہے۔۔۔

حق باہو ، بیشک باہو! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بحوالہ ڈبلیو سولہ)
بالکل سچ کہا ۔ گفتگو کی دال صرف اقوال کی میٹھی آنچ پر ہی گلتی ہے۔
ہائے انشاء یاد آگئے۔۔۔۔ فرماتے تھے کہ مہنگائی اس قدر ہوگئی ہے کہ وہ لڑکیاں جو اسماعیل میرٹھی کے زمانے میں دال بگھارا کرتی تھیں، اب صرف شوخی بگھار کر رہ جاتی ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ع: اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
آپ تو ہر فن مولا ہیں۔ شاعری، نثر، سنجیدہ اور مزاحیہ۔۔۔ ہر میدان مار لیتے ہیں۔ ماشاءاللہ ۔ اوپر سے فرماتے ہیں کہ میرا میدان نہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زبردست ہے وہ شخص کہ ادب کی جس صنف میں قدم رنجا فرمایا، بیجا بیجا کر دی۔
حالانکہ میرے خیال میں قول یوں ہونا چاہیے تھا۔
زبردست ہے وہ شخص کہ ادب کی جس صنف میں قدم رنجا فرمایا، ہر رنج دور کر دیا۔
اور آپ اس قول پہ پورے کے پورے اترتے ہیں۔
ویسے ایک بندہ قول پہ کیسے اتر سکتا ہے؟
پرانے محاورے بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔
جہاں آپ اقوال کے سلسلے دراز کر رہے ہیں،بوسیدہ محاوروں کو جھاڑ پونچھ کر کے نئے، جدید تراش خراش کے ذرا فیشن ایبل قسم کے محاورے بھی لائیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ع: اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
آپ تو ہر فن مولا ہیں۔ شاعری، نثر، سنجیدہ اور مزاحیہ۔۔۔ ہر میدان مار لیتے ہیں۔ ماشاءاللہ ۔ اوپر سے فرماتے ہیں کہ میرا میدان نہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زبردست ہے وہ شخص کہ ادب کی جس صنف میں قدم رنجا فرمایا، بیجا بیجا کر دی۔
حالانکہ میرے خیال میں قول یوں ہونا چاہیے تھا۔
زبردست ہے وہ شخص کہ ادب کی جس صنف میں قدم رنجا فرمایا، ہر رنج دور کر دیا۔
اور آپ اس قول پہ پورے کے پورے اترتے ہیں۔
ارے ارے ارے! ذرا بریک لگائیے۔آپ کے حسنِ ظن اور فراخ دلی کا قائل ہوں ۔ من آنم کہ من دانم ۔ میں تو جیسا تیسا ٹوٹا پھوٹا لکھ دیتا ہوں ۔ اب یہ آپ قارئین کی نظر ہے کہ اس خرابے میں موتی ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے۔ دین و دنیا کی فلاح نصیب فرمائے۔ سلامت رہیں ۔

ویسے ایک بندہ قول پہ کیسے اتر سکتا ہے؟
پرانے محاورے بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔
جہاں آپ اقوال کے سلسلے دراز کر رہے ہیں،بوسیدہ محاوروں کو جھاڑ پونچھ کر کے نئے، جدید تراش خراش کے ذرا فیشن ایبل قسم کے محاورے بھی لائیں۔
:):):)
ذرا انتظار کیجیے۔ آپ کا تعارف ایک صاحب سے کرواؤں گا کہ جسے ہم حلقۂ یاراں میں محاورے خان کہا کرتے تھے۔ آج کل اپنی یاد داشتیں قلمبند کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ ان کے بارے میں بھی ایک تفصیلی باب اس میں آئے گا۔
 
آغاز:
’’کل رات مِس زرّیں مقتضائے عمری سے ریٹائر ہوگئیں۔‘‘یہ ہے اِس مضمون کا پہلا فقرہ اور قہقہوں کی بارش کا وہ پہلاقطرہ جس میں جمعرات کی جھڑی والی ضرب موجود ہے ۔جوشؔ نے ’’یادوں کی بارات لکھی تھی‘‘ اورہوش اُڑادئیے تھے ۔ایک ایک واقعہ جو اِس بارات میں شامل تھا کبھی حیرت کے سبب سے ، کبھی معلومات کے حوالے سے اورکبھی لطف و انبساط کے معاملے میں ایسا صاف ،صحیح اور صریح تھا کہ لگتا تھا کہ یہ ایک منفرد واقعہ نہیں بلکہ جؔوش کی پوری سوانح عمری ’’ یادوں کی بارات‘‘ ہے۔تو کچھ یہی رنگ ، طور اور ڈھنگ اِس مضمون کی ایک ایک سطر کا ہے گویاوہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں، دوسری واہ۔’’پس ماندگان میں ساڑھے تین ہزار اقوال‘‘،’’راہی ِ ملکِ حشم ہوئیں۔‘‘، ذہنی صحت کے بارے میں مختلف افواہوں کا گردش میں ہونا اور پھر انتقال کرجانا۔۔۔۔اگرشامیانے والے آکر قناطیں اور تنبولگانا شروع کریں اور بظاہر اہتمام لگ رہا ہو شادی بیاہ کی تقریبِ سعید کا مگر جب دریا ں بچھنے لگیں تو گمان ہومشاعرے کا یا پھر شاعرکے چالیسویں کا۔۔تو کچھ یہی رنگ ہے اِس پیرے کا ،تیسری واہ!’’انہیں فاتر العقل کہنے والے پہلے خود اپنے گردے کا علاج کروائیں۔‘‘القصہ یہ تمام جملے اِس فکاہیہ مضمون کے ابتدائی اور افتتاحی جملے ہیں ،ان کےلیےہی شکیل بدایونی کہہ گئے ہیں:​
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!​
وسط:
کہیں اُردُو ادب کی صنفِ افسانہ کے تعارف و تعریف اور اجزائے ترکیبی کے ضمن میں پڑھا تھا :’’ وہ کہانی جو ایک نشست میں پڑھ لی جائے ،اچھا یا برا تاثر چھوڑ ے اور اُس کا آغاز ہو درمیان ہواور انجام ہو، اُسے افسانہ کہیں گے۔‘‘اور پھر یہ کہ اُس کے کردار ایسی خوبی سے فطرت کے عین مطابق ڈھلے ہوں جن میں ماورائے انسان یا مافوق البشر ہونے کا شائبہ تک نہ ہواُسے افسانہ کہیں گے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ظہیر صاحب کے اِس مضمون کا ایک آغاز ہے جس میں وہ ہمیں بلارہے ہیں ۔ ہم نے اُن کی آواز پر لبیک کہا اورکہانی پڑھنے لگے ، پڑھتے پڑھتے وسط میں پہنچے تو مس زریں اور مس سیمیں کا کردار ہم پر واضح ہوچکا تھا ،ماشا ء اللہ انہی کے اوصافِ حمیدہ مسلط کرنے کے لیے ہمیں بلایا گیا تھاچنانچہ جب ہم نے جان لیا کہ یہ انسانی کردار ہی ہیں ، جن بھوت نہیں تو ہم نے اِن دونوں کو خود پر طاری اور پھر حاوی ہولینے دیا۔۔
دوری نہ رہے کوئی آج اتنے قریب آجاؤ
میں تم میں سماجاؤں
۔۔۔تم مجھ میں سما جاؤ

انجام:
موپاساں کے افسانے پڑھتے پڑھتے پڑھنے والا اتنا عالم فاضل ہوجاتا ہے کہ کہانی کاانجام پہلے سے بتادے لیکن جب اُس کا بتایا ہوا صحیح نہیں نکلتا تو اُسے ایک دھکا لگتا ہے ۔اکثر لوگ اِسی دھکے کے لیے موپاساں کے زبردست شیدائی تھے۔یہاں ظہیرصاحب نے کہانی کے انجام اور قصے کے اختتام میں قارئین کو کسی بھی جھٹکے سے محفوظ رکھنے کے لیے قلم سے بجائے قلم کے، کیمرے کا کام لیا ہے اور اُس مہ پارہ کی اداؤں سے اخذ و اکتساب کامعاملہ ناظرین کی صوابدیدپر چھوڑدیا ہے:
کہاں کہاں ہے تری جستجو میں آوارہ
مری نظر کہ ابھی، آشنائے راز نہیں
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
آغاز:
’’کل رات مِس زرّیں مقتضائے عمری سے ریٹائر ہوگئیں۔‘‘یہ ہے اِس مضمون کا پہلا فقرہ اور قہقہوں کی بارش کا وہ پہلاقطرہ جس میں جمعرات کی جھڑی والی ضرب موجود ہے ۔جوشؔ نے ’’یادوں کی بارات لکھی تھی‘‘ اورہوش اُڑادئیے تھے ۔ایک ایک واقعہ جو اِس بارات میں شامل تھا کبھی حیرت کے سبب سے ، کبھی معلومات کے حوالے سے اورکبھی لطف و انبساط کے معاملے میں ایسا صاف ،صحیح اور صریح تھا کہ لگتا تھا کہ یہ ایک منفرد واقعہ نہیں بلکہ جؔوش کی پوری سوانح عمری ’’ یادوں کی بارات‘‘ ہے۔تو کچھ یہی رنگ ، طور اور ڈھنگ اِس مضمون کی ایک ایک سطر کا ہے گویاوہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں، دوسری واہ۔’’پس ماندگان میں ساڑھے تین ہزار اقوال‘‘،’’راہی ِ ملکِ حشم ہوئیں۔‘‘، ذہنی صحت کے بارے میں مختلف افواہوں کا گردش میں ہونا اور پھر انتقال کرجانا۔۔۔۔اگرشامیانے والے آکر قناطیں اور تنبولگانا شروع کریں اور بظاہر اہتمام لگ رہا ہو شادی بیاہ کی تقریبِ سعید کا مگر جب دریا ں بچھنے لگیں تو گمان ہومشاعرے کا یا پھر شاعرکے چالیسویں کا۔۔تو کچھ یہی رنگ ہے اِس پیرے کا ،تیسری واہ!’’انہیں فاتر العقل کہنے والے پہلے خود اپنے گردے کا علاج کروائیں۔‘‘القصہ یہ تمام جملے اِس فکاہیہ مضمون کے ابتدائی اور افتتاحی جملے ہیں ،ان کےلیےہی شکیل بدایونی کہہ گئے ہیں:​
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!​
وسط:
کہیں اُردُو ادب کی صنفِ افسانہ کے اجزائے ترکیبی میں پڑھا تھا :’’ وہ کہانی جو ایک نشست میں پڑھ لی جائے ،اچھا یا برا تاثر چھوڑ ے اور اُس کا آغاز ہو درمیان ہواور انجام ہو، اُسے افسانہ کہیں گے۔‘‘اور پھر یہ کہ اُس کے کردار ایسی خوبی سے فطرت کے عین مطابق ڈھلے ہوں جن میں ماورائے انسان یا مافوق البشر ہونے کا شائبہ تک نہ ہواُسے افسانہ کہیں گے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ظہیر صاحب کے اِس مضمون کا ایک آغاز ہے جس میں وہ ہمیں بلارہے ہیں ۔ ہم نے اُن کی آواز پر لبیک کہا اورکہانی پڑھنے لگے ، پڑھتے پڑھتے وسط میں پہنچے تو مس زریں اور مس سیمیں کا کردار ہم پر واضح ہوچکا تھا ،ماشا ء اللہ انہی کے اوصافِ حمیدہ مسلط کرنے کے لیے ہمیں بلایا گیا تھاچنانچہ جب ہم نے جان لیا کہ یہ انسانی کردار ہی ہیں ، جن بھوت نہیں تو ہم نے اِن دونوں کو خود پر طاری اور پھر حاوی کرلیا ۔۔
دوری نہ رہے کوئی آج اتنے قریب آجاؤ
میں تم میں سماجاؤں
۔۔۔تم مجھ میں سما جاؤ

انجام:
موپاساں کے افسانے پڑھتے پڑھتے پڑھنے والا اتنا عالم فاضل ہوجاتا ہے کہ کہانی کاانجام پہلے سے بتادے لیکن جب اُس کا بتایا ہوا صحیح نہیں نکلتا تو اُسے ایک دھکا لگتا ہے ۔اکثر لوگ اِسی دھکے کے لیے موپاساں کے زبردست شیدائی تھے۔یہاں ظہیرصاحب نے کہانی کے انجام اور قصے کے اختتام میں قارئین کو کسی بھی جھٹکے سے محفوظ رکھنے کے لیے قلم سے بجائے قلم کے، کیمرے کا کام لیا ہے اور اُس مہ پارہ کی اداؤں سے اخذ و اکتساب کامعاملہ قارئین کی صوابدیدپر چھوڑدیا ہے:
کہاں کہاں ہے تری جستجو میں آوارہ
مری نظر کہ ابھی، آشنائے راز نہیں
آپ کے تبصرے کمال ہوتے ہیں ۔ آپ نے تو گویا ہمارے دل کی باتیں کر دیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
واہ واہ ، بہت لذیدار!!
بہت عمدہ مزاحیہ تحریر۔۔ شگفتگی سے بھرپور۔۔ امید ہے آپ لکھتے رہیں گے اور ہم پڑھتے رہیں گے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!! آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کے خیال میں کیا میں نیرنگ خیال کے کوچے سے بہت دور رہتا ہوں ؟! آپ مجھے ان کے پچھواڑے ہی میں سمجھیے۔ :):):)
ضرب الامثال بدلنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کچھ غور اس پہ بھی۔
سارے کام مجھی کو کرنے ہیں کیا؟ یہ نیرنگ خیال کا قلم اتنے دنوں سے پلنگ توڑ رہا ہے اسے کب اٹھا کر کسی دھندے سے لگایا جائے گا آخر؟

آپ خود بھی مستفید ہوسکتی ہیں ۔ قلم آپ کا بھی خوب چل رہا ہے آج کل۔ ماشاء اللہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آغاز:
’’کل رات مِس زرّیں مقتضائے عمری سے ریٹائر ہوگئیں۔‘‘یہ ہے اِس مضمون کا پہلا فقرہ اور قہقہوں کی بارش کا وہ پہلاقطرہ جس میں جمعرات کی جھڑی والی ضرب موجود ہے ۔جوشؔ نے ’’یادوں کی بارات لکھی تھی‘‘ اورہوش اُڑادئیے تھے ۔ایک ایک واقعہ جو اِس بارات میں شامل تھا کبھی حیرت کے سبب سے ، کبھی معلومات کے حوالے سے اورکبھی لطف و انبساط کے معاملے میں ایسا صاف ،صحیح اور صریح تھا کہ لگتا تھا کہ یہ ایک منفرد واقعہ نہیں بلکہ جؔوش کی پوری سوانح عمری ’’ یادوں کی بارات‘‘ ہے۔تو کچھ یہی رنگ ، طور اور ڈھنگ اِس مضمون کی ایک ایک سطر کا ہے گویاوہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں، دوسری واہ۔’’پس ماندگان میں ساڑھے تین ہزار اقوال‘‘،’’راہی ِ ملکِ حشم ہوئیں۔‘‘، ذہنی صحت کے بارے میں مختلف افواہوں کا گردش میں ہونا اور پھر انتقال کرجانا۔۔۔۔اگرشامیانے والے آکر قناطیں اور تنبولگانا شروع کریں اور بظاہر اہتمام لگ رہا ہو شادی بیاہ کی تقریبِ سعید کا مگر جب دریا ں بچھنے لگیں تو گمان ہومشاعرے کا یا پھر شاعرکے چالیسویں کا۔۔تو کچھ یہی رنگ ہے اِس پیرے کا ،تیسری واہ!’’انہیں فاتر العقل کہنے والے پہلے خود اپنے گردے کا علاج کروائیں۔‘‘القصہ یہ تمام جملے اِس فکاہیہ مضمون کے ابتدائی اور افتتاحی جملے ہیں ،ان کےلیےہی شکیل بدایونی کہہ گئے ہیں:​
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!​
وسط:
کہیں اُردُو ادب کی صنفِ افسانہ کے تعارف و تعریف اور اجزائے ترکیبی کے ضمن میں پڑھا تھا :’’ وہ کہانی جو ایک نشست میں پڑھ لی جائے ،اچھا یا برا تاثر چھوڑ ے اور اُس کا آغاز ہو درمیان ہواور انجام ہو، اُسے افسانہ کہیں گے۔‘‘اور پھر یہ کہ اُس کے کردار ایسی خوبی سے فطرت کے عین مطابق ڈھلے ہوں جن میں ماورائے انسان یا مافوق البشر ہونے کا شائبہ تک نہ ہواُسے افسانہ کہیں گے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ظہیر صاحب کے اِس مضمون کا ایک آغاز ہے جس میں وہ ہمیں بلارہے ہیں ۔ ہم نے اُن کی آواز پر لبیک کہا اورکہانی پڑھنے لگے ، پڑھتے پڑھتے وسط میں پہنچے تو مس زریں اور مس سیمیں کا کردار ہم پر واضح ہوچکا تھا ،ماشا ء اللہ انہی کے اوصافِ حمیدہ مسلط کرنے کے لیے ہمیں بلایا گیا تھاچنانچہ جب ہم نے جان لیا کہ یہ انسانی کردار ہی ہیں ، جن بھوت نہیں تو ہم نے اِن دونوں کو خود پر طاری اور پھر حاوی ہولینے دیا۔۔
دوری نہ رہے کوئی آج اتنے قریب آجاؤ
میں تم میں سماجاؤں
۔۔۔تم مجھ میں سما جاؤ

انجام:
موپاساں کے افسانے پڑھتے پڑھتے پڑھنے والا اتنا عالم فاضل ہوجاتا ہے کہ کہانی کاانجام پہلے سے بتادے لیکن جب اُس کا بتایا ہوا صحیح نہیں نکلتا تو اُسے ایک دھکا لگتا ہے ۔اکثر لوگ اِسی دھکے کے لیے موپاساں کے زبردست شیدائی تھے۔یہاں ظہیرصاحب نے کہانی کے انجام اور قصے کے اختتام میں قارئین کو کسی بھی جھٹکے سے محفوظ رکھنے کے لیے قلم سے بجائے قلم کے، کیمرے کا کام لیا ہے اور اُس مہ پارہ کی اداؤں سے اخذ و اکتساب کامعاملہ ناظرین کی صوابدیدپر چھوڑدیا ہے:
کہاں کہاں ہے تری جستجو میں آوارہ
مری نظر کہ ابھی، آشنائے راز نہیں
بہت بہت شکریہ ، شکیل احمد!
آپ کا تبصرہ نظر نواز ہوا اور وجہِ مسرت بنا۔ ماشاء اللہ ، آپ خوب لکھتے ہیں! حسنِ ظن ہے ، ذرہ نوازی ہے آپ کی ۔ شگفتہ بیانی کی اس چھوٹی سی کوشش کو اس قدر فراخدلی سے سراہنے پر ممنون ہوں۔
گزارش یہ ہے کہ آپ اچھا لکھ سکتے ہیں سو اپنے شہوارِ قلم کو مراسلات کی جولان گاہ تک محدود نہ رکھیے۔ آپ اگر اپنی پسند کے موضوعات پر کوئی باقاعدہ تحریر لکھیں اور کسی دھاگے کا آغاز کریں تو بہت اچھا ہوگا۔میری درخواست ہے کہ آپ اپنے قلم کی توانائی سے دیگر قارئین کو مستفید کیجیے۔
 
Top