یوسفی اقتباسات یوسفی

نیلم

محفلین
ہمیں غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کونسا موسم ناپسند ہے۔یہ تو آپ تو جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظ روئی کے بھاوٰ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیلی آب وہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہل کراچی اس واللہ اعلم باالصواب قدسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قرب قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ہا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لُو لگنے کے سبب بالا ہئ بالا اسپتال میں داخل کرادیے گئے۔کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چٹکی ہوئی تھی کہ چاربائی کی چولوں کی کھٹمل گن لیجیے اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کی تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے بھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھوبل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم.
( مشاق احمد یوسفی کی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہیے
کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہو گی۔

(مشتاق احمد یوسفی - آب گم)
 

عبدالحسیب

محفلین
جب انسان کو ماضی ، حال سے زیادہ پُرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہوجائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بُڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں ، بالخصوص جوانی میں ہوسکتا ہے۔ اگر افیم یا ہیروئین دستیاب نہ ہو تو پھر اسے یادِ ماضی اور فینٹسی میں جو تھکے ہاروں کی آخری پناہ گاہ ہے، ایک گونہ سر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کچھ حوصلہ مند اور جفا کش لوگ اپنے زورِ بازو سے اپنا مستقبل بناتے ہیں،اسی طرح وہ زورِ تخیل سے اپنا ماضی آپ بنا لیتا ہے۔ یادوں کا سر شور دریا دشتِ اِمروز میں بہتے بہتے خواب سراب کے آبِ گُم میں اتر جاتا ہے۔ پھر اندر ہی اندر کہیں ابھرتی گُم ہوتی سوت ندیوں اور کہیں کاریزوں کی صورت ،خیال بگولوں میں بوئی ہوئی کھیتی کو سینچتا رہتا ہے اور کہیں اچانک کسی چٹان سے چشمہ آب زندگانی بن کر پھوٹ نکلتا ہے۔

-اقتباس 'آب گُم'
 

عبدالحسیب

محفلین
موسم کی تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے بھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھوبل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم.​
:rollingonthefloor:

جواب نہیں یوسفی صاحب کا۔ :ROFLMAO:
 

نیلم

محفلین
‫ابھی کچھ دن پہلے ہی ہمارے ایک معتبر ممبر جناب تنویر فاروقی صاحب نے بتایا کہ یوسفی صاحب آجکل کافی علیل ہیں ۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کیجیے ۔اس وقت ان کے مخصوص انداز میں لکھی گئی ان کی ایک دلچسپ تحریر حاضر ہے ۔:)
بعض اوقات احباب اس بات سے بُہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں اُن کےمشوروں پر عمل نہیں کرتا
حالاں کہ اُن پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ
میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو
اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں
( اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں
کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اُور غلط مشورہ ملتا رہے
اسی سے ذہنی توازُن قائم رہتا ھے ۔

(چراغ تلے از مشتاق احمد یوسفی صاحب)

(بشکریہ فیس بک )
 

قیصرانی

لائبریرین
‫ابھی کچھ دن پہلے ہی ہمارے ایک معتبر ممبر جناب تنویر فاروقی صاحب نے بتایا کہ یوسفی صاحب آجکل کافی علیل ہیں ۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کیجیے ۔اس وقت ان کے مخصوص انداز میں لکھی گئی ان کی ایک دلچسپ تحریر حاضر ہے ۔:)
بعض اوقات احباب اس بات سے بُہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں اُن کےمشوروں پر عمل نہیں کرتا
حالاں کہ اُن پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ
میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو
اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں
( اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں
کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اُور غلط مشورہ ملتا رہے
اسی سے ذہنی توازُن قائم رہتا ھے ۔

(چراغ تلے از مشتاق احمد یوسفی صاحب)

(بشکریہ فیس بک )
اللہ پاک یوسفی صاحب کو بھی شفائے کاملہ عطا فرمائیں
 

فرقان احمد

محفلین
اگلے دن علی الصبح بشارت اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگئے۔ مولوی مظفّر نے ان سے تحریری چارج رپورٹ لی کہ آج صبح فدوی نے باضابطہ چارج سنبھال لیا۔ ‘‘ چارج‘‘ بہت جامع اور دھوکے میں ڈالنے والا لفظ ہے، ورنہ حقیقت صرف اتنی تھی کہ جو چیزیں ان کے چارج میں دی گئیں وہ بغیر چارج کے بھی کچھ ایسی غیر محفوظ نہ تھیں:
کھادی کا ڈسٹر (ڈیڑھ عدد) مروحہ (دستی پنکھا۔ 1 عدد) رجسٹر حاضری (1عدد) سفالی مٹی کی دوات (2عدد)
مولوی مظفّر نے بلیک بورڈ کا ڈسٹر ان کی تحویل میں دیتے ہوئے تنبیہ کی تھی کہ دیکھا گیا ہے کہ ماسٹر صاحبان چاک کے معاملے میں بہت فضول خرچی کرتے ہیں۔ لہٰذا مجلسِ منتظمہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ماسٹر صاحبان چاک خود خرید کر لائیں گے۔ کھجور کے پنکھے کے بارے میں بھی انھوں نے مطلع کیا کہ گرمیوں میں ایک مہیّا جائے گا۔ ماسٹر بالکل لاپروا واقع ہوئے ہیں۔ دو ہفتے میں ہی ساری بنائی ادھڑ کے جھونترے نکل آتے ہیں۔ نیز، اکثر ماسٹر صاحبان چھٹی کے دن اسکول کا پنکھا گھر میں استعمال کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ بعضے کاہل الوجود بھی ہیں۔ اسی کی ڈنڈی سے لونڈوں کو مارتے ہیں۔ حالانکہ دو قدم پر نیم کا درخت بیکار کھڑا ہے۔

اقباس از "آبِ گم"
 
جس زمانے میں وزن کرنے کی مشین نہیں ہوئی تھی تو شائستہ عورتیں چوڑیوں کے تنگ ہونے سے اور مرد چارپائی کے بان کے دباؤ سے دوسروں کے وزن کا تخمینہ کرتے تھے.اس زمانے میں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیار اعمال بھی تھی.نتیجہ یہ کے جنازے کو کندھا دینے والے چارپائی کے وزن کی بنا پر مرحوم کے جنتی یا اس کے برعکس ہونےکا اعلان کرتے تھے.
 
Top