اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟

خاور بلال

محفلین
دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم، کہ جلاؤں

شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان

قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن

جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن

شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے ، مجاہد کی اذاں ہے

مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟

کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن

سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدتی نہیں تقدیر

توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقین سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر

دیکھو تو ذرا، محلوں کے پردوں کو اٹھاکر
شمشیر و سِناں رکھی ہیں، طاقوں میں سجا کر

آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سوگئی، طاؤس پہ آکر

مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے

کہنے کوہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے

محمودوں کی صف، آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے

تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
اس بندہِ مومن کو اب میں لاؤں کہاں سے

(امیرالاسلام ہاشمی)
ارشاد احمد عارف کے کالم سے لی گئی نظم(روزنامہ نوائے وقت)
 
Top