افغان طالبان میں اختلافات اور دشمنی، دو نوں دھڑے ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل

Latif Usman

محفلین
جولائی میں طالبان کے سابق امیر ملّا محمد عمر کے انتقال کی خبر منظرعام پر آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی مزاحمتی تحریک کے دو دھڑے بن گئے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل ہیں۔ واضح رہے کہ ملا اختر منصور کے مخالف عسکریت پسندوں نے گزشتہ ہفتے ایک بڑے جرگے میں ملا محمد رسول کو طالبان تحریک سے الگ ہونے والے دھڑے کا امیر منتخب کیا تھا۔ گذشتہ روز اس دھڑے کے الگ ہونے کے بعد ان دونوں دھڑوں میں خونریزجھڑپوں میں ملا داداللہ گروپ کے ساٹھ اور اختر منصور گروپ کے بیس جنگجو مارے گئے ہیں۔

دہشتگرد طالبان کے نام سے پچھلے دس سال میں اتنے بے گناہوں کو قتل کر چکے ہیں کہ اب اُن کا شمار بھی آسان نہیں ہے۔ اُن کا اصرار ہے کہ یہ سب وہ خدا کے لیے اور خدا کے احکام کی پیروی میں کر رہے ہیں۔ کیا یہ جہاد ہے ؟ اسلام جس جہاد کا حکم دیتا ہے، وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے، اِس لیے اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن میں جہاد کا حکم جس آیت میں دیا گیا ہے، اُس کے الفاظ ہی یہ ہیں کہ ’’اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور اِس میں کوئی زیادتی نہ کرو، اِس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ یہ خدا کی شریعت ہے، مگر طالبان کیا کر رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ طالبان خود اِن جرائم کے مرتکب ہیں اور اپنے اعترافات کی گواہی شب و روز خود اپنے محضر پر ثبت کر رہے ہیں۔

اس نئے دھڑے کے ظہور سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ممکنہ امن مذاکرات کی بحالی میں نئی رکاوٹ حائل ہوگئی ہے جبکہ افغان حکومت پہلے ہی طالبان سے مذاکرات میں پس وپیش سے کام لے رہی ہے۔
 
Top