اضافت کی زیر اور ہمزہ کا دردِسر

متلاشی

محفلین
السلام علیکم !
معززینِ شعرا و ادیبانِ محفل سے ایک مسئلہ کے بارے میں آراء درکار ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک جگہ اقبال نے غالب کے بارے میں کہا شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے ۔۔۔ اس کی درست املا کیا ہو گی ؟؟؟ سودائیِ دلسوزیِ یا سودائی دلسوزیٔ، یا سودائیِ دلسوزیِٔ، یا کچھ اور ؟؟؟؟یعنی سودائی کی یا کے نیچے زیر اور دلسوزی کی ی پر ہمزہ آئے گا زیر۔۔۔ یہ زیر اور ہمزہ کا چکر بہت کنفیوز کر رہا ہے ۔۔۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی کریں کہ کہاں اضافت کی زیر لگتی ہے اور کہاں ہمزہ آتا ہے ۔۔۔ اور کیا ان دونوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟؟؟؟؟

اسی طرح بے تابیِ الفت ۔۔۔ زیر آئے گی یا ہمزہ ؟؟؟

یا دونوں بھی آ سکتے ہیں یعنی بے تابیِٔ الفت

اسی طرح زندگیٔ جاوداں درست ہو گا یا زندگیِ جاوداں

اسی طرح سلسلۂ کوہسار ؟؟؟؟ یا سلسلہِ کوہسار؟؟

ہمدردی ٔ انساں ، لیلیٔ ذوق ، قمریِ شمشاد؟؟؟ تنگیٔ دریا، سرخیٔ افسانہ وغیرہ

ہمسائیگیٔ شمس و قمر؟؟؟

مہدیِ مجروح؟؟؟ خاموشیٔ ازل ۔۔۔ وغیرہ ان کے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔۔۔ کہ ہمزہ اور اضافت کا اصول کیا ہے ؟؟؟؟؟
 

  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمزہ کیسے لکھیں اور کہاں لکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • اصول و قواعد کی بحث تو خیر خاصی طویل ہے، میں نے اس پر کچھ لکھا بھی ہے۔ کسی وقت میرے بلاگ کا چکر لگائیے۔ ایک مضمون تو ہے ’’ہمزاتِ ہمزہ‘‘ اس کے علاوہ ایک مقام پر میں نے ’’یائے مستور‘‘ پر بھی بحث کی ہے، اور ہمزہ مستور پر بھی (اس وقت یاد نہیں کہاں کی ہے)۔
  • فی الحال الفاظ زیرِ بحث کے بارے میں عرض کئے دیتا ہوں۔ شمع یہ سوداءئِ دل سوزئِ پروانہ ہے (چھوٹے ہمزہ کے ساتھ، زیر چھوٹے ہمزہ پر واقع ہو گی)۔ جہاں خط کی شکل درست نہیں بن رہی وہاں جان لیجئے کہ:۔ ترتیبِ حروف یہ ہے: سو دا ئیءِ دل سوزیءِ پروانہ (ی کے اوپر چھوٹا ہمزہ اور اس ہمزہ پر زیر)۔
  • واضح رہے کہ اصولی طور پر زیرِ اضافت یہاں ی پر واقع ہوتی ہے، یعنی: ’’سودائیِ دل سوزیِ پروانہ‘‘ یہ املاء درست ہے۔ تاہم ایک قدیم روایت چلی آتی ہے کہ ایسی ی پر جہاں زیر واقع ہو ہمزہ اضافی لکھتے ہیں اور زیر کی علامت ہمزہ پر منتقل ہو جاتی ہے، سو یہاں چھوٹا ہمزہ بناتے ہیں۔ سوداءئِ دل سوزئِ پروانہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ فرق ان میں صرف خطاطی کا ہے، اور کوئی فرق نہیں۔
  • ایسا ہی معاملہ ’’بے تابئِ الفت‘‘ کا ہے۔ ترتیب: بے تابیءِ الفت ( ترجیحاً چھوٹا ہمزہ زیر کے ساتھ) اور اگر پڑھنے میں دقت کا خدشہ ہو تو بڑا ہمزہ ی کے بعد لکھ کر اس پر زیر لگائیں گے۔ یا پھر ہمزہ لکھیں گے ہی نہیں: بے تابیِ الفت (تاہم ایسے میں غلط گمان یہ ممکن ہے کہ لکھی ہوئی زیر حرف ماقبل ی کی ہے، اس لئے ہمزہ لکھنا اولیٰ۔
  • زندگئِ جاوداں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مجموعی طور پر میں سفارش کروں گا کہ آپ ایسی ی پر چھوٹا ہمزہ لگائیں اور زیر کی علامت نہ لکھیں، پڑھنے والا از خود سمجھ جائے گا کہ یہاں ہمزہ پر زیر واقع ہو رہا ہے: سودائئ دل سوزئ پروانہ (سودائی کی شکل خطاطی میں ٹھیک کر لیجئے: سودائئ ) ، زندگئ جاوداں، بے تابئ الفت، گرمئ محفل، شوخئ تحریر؛ وغیرہ۔
  • یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہمزہ ی کے بعد لکھا جائے گا: گرمئی محفل یا شوخئی تحریر لکھنا قطعی طور پر غلط ہے۔ بقیہ الفاظ کو اسی پر قیاس کر لیں۔
  • ایک بات یاد رہے کہ الف مقصورہ (لیلیٰ، دعویٰ) اور الف کو اس حوالے سے مماثل قیاس کریں گے اور ترکیب کی صورت میں املاء یوں ہو گی: لیلائے شب، دعوائے حق، دنیائے دنی، بالائے لب، نوائے سروش؛ وغیرہ۔
  • سلسلۂ کوہسار، قصۂ غم، فسانۂ آزاد؛ وغیرہ۔ ان میں ہ کے بعد چھوٹا ہمزہ ہے اور زیر اس ہمزہ پر ہے۔ تاہم جیسے پہلے کہا گیا: ہ، ی پر چھوٹا ہمزہ عام طور پر لکھا ہی تب جاتا ہے جب وہاں زیرِ اضافت یا زیرِ توصیف واقع ہو رہا ہو، لہٰذا زیر کی علامت حذف بھی کر دیں تو پڑھنے میں مسئلہ نہیں بنتا۔
  • مہدی مجروح دو الگ الگ لفظ ہیں۔ مراد ہے : میر مہدی مجروح (مرزا غالب کے قریبی ساتھی تھے)... میر مہدی (نام) مجروح (تخلص)... اس پر اضافت نہیں ہے۔ ترکیب کی صورت یہ ہو گی: مہدئ موعود، وادئ فاران، بازئ دِل؛ وغیرہ
  • فارسی اور عربی میں ی کو گول (ی) یا لمبی (ے) کسی بھی طرح لکھ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چھوٹی ی، بڑی ے کا فرق اردو اور پنجابی وغیرہ سے خاص ہے۔
  • مے (شراب) کو بہت سارے دوست مئے لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ میکدہ، میخانہ وغیرہ سے بھی عیاں ہے کہ ’’مے‘‘ ایک دو حرفی لفظ ہے۔ اس کو مَے لکھیں یا مَی ایک ہی بات ہے، مئے کا کوئی جواز نہیں۔ اسی نہج پر درست املا ہے: مۓ شبانہ، مئ شبانہ (رات کی بچی ہوئی شراب)۔ اس کو مئے شبانہ یا مئی شبانہ لکھنا کسی طور بھی درست نہیں۔ ایسا ہی معاملہ شے، طے، کے، قے، درپے (سب یائے لین)؛ کا ہے۔ درست املا: مے، شے، طے، کے (مراد ہے کیخسرو)، قے، درپے؛ مۓ ناب، شۓ نایاب، درپۓ آزار؛ ترکیب میں ہمزہ ایسی ے کے بعد واقع ہوتا ہے، حسبِ خط اس کو چھوٹا ہمزہ لکھیں، بڑا ہمزہ لکھیں وہ ضرورت کی بات ہے۔
  • لہٰذا ۔۔ غلط املاء: مئے، شئے، طئے، کئے، قئے، درپئے؛ وغیرہ۔
  • ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
اس طرح کے دردِ سر کا واحد علاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہ اور مطالعہ اور مطالعہ مکرر ۔۔۔
املاء نامہ کے تحت سفارشات موجود ہیں، یہیں کہیں تلاش کر لیجئے، مل جانی چاہئیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہاں ایک اختلافی نوٹ دے دوں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اوپر لگنے والی چھوٹی ہمزہ نہ کوئی حرف ہے نہ اعراب۔ اس سے بچنا میری ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ اس لئے میں ذاتی طور پر محض زیر ِ اضافت پسند کرتا ہوں۔ بے تابیِ دل یا مہدیِ موعود۔ حالانکہ دیوانِ غالب کی تدوین کے زمانے میں میرا نظریہ بھی آسی بھائی والا تھا!!
 
یہاں ایک اختلافی نوٹ دے دوں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اوپر لگنے والی چھوٹی ہمزہ نہ کوئی حرف ہے نہ اعراب۔ اس سے بچنا میری ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ اس لئے میں ذاتی طور پر محض زیر ِ اضافت پسند کرتا ہوں۔ بے تابیِ دل یا مہدیِ موعود۔ حالانکہ دیوانِ غالب کی تدوین کے زمانے میں میرا نظریہ بھی آسی بھائی والا تھا!!

آپ کا یہ نوٹ اختلافی تو بالکل نہیں ہے، محترمی اعجاز عبید صاحب۔ میں تو پہلے ہی عرض کر چکا کہ:
واضح رہے کہ اصولی طور پر زیرِ اضافت یہاں ی پر واقع ہوتی ہے، یعنی: ’’سودائیِ دل سوزیِ پروانہ‘‘ یہ املاء درست ہے۔
اور یہ بھی کہ:
تاہم ایک قدیم روایت چلی آتی ہے کہ ایسی ی پر جہاں زیر واقع ہو ہمزہ اضافی لکھتے ہیں اور زیر کی علامت ہمزہ پر منتقل ہو جاتی ہے، سو یہاں چھوٹا ہمزہ بناتے ہیں۔
اور جب لوگ عادی ہو جائیں تو پھر کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے والی بات ہوتی ہے، مثلاً چھوٹا ہمزہ۔

آداب بجا لاتا ہوں، اور آپ جانتے ہیں کہ ہمیشہ دعاؤں کا طالب رہتا ہوں۔
 
اگرچہ "املائے درست" ایک "شۓ عجیب" ہے ، تاہم "قابلِ احترم" "اساتذۂ کرام" کے "جواباتِ مفیدہ" سے بڑی حد تک "تشفیِ دل" ہوگئی ہے ، "خدائے پاک" انھیں "جزائے خیر" عطا فرمائے۔ :)
 
میں نے آجکل دادا مرحوم کے تمام غیر مطبوعہ کلام کو برقیانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، مکمل کر کے پروف ریڈنگ کے لیے ابو کے حوالے کر دیا ہے۔
میں نے ئ کا استعمال زیادہ رکھا اور جہاں تلفظ تبدیل ہونے کا خدشہ ہوا، وہاں یِ استعمال کی۔
مگر اب اس لڑی کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد تمام ئ کو یِ سے تبدیل کر دیا ہے۔
جزاک اللہ محترم متلاشی محمد یعقوب آسی الف عین صاحبان
 

الف عین

لائبریرین
میں نے آجکل دادا مرحوم کے تمام غیر مطبوعہ کلام کو برقیانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، مکمل کر کے پروف ریڈنگ کے لیے ابو کے حوالے کر دیا ہے۔
میں نے ئ کا استعمال زیادہ رکھا اور جہاں تلفظ تبدیل ہونے کا خدشہ ہوا، وہاں یِ استعمال کی۔
مگر اب اس لڑی کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد تمام ئ کو یِ سے تبدیل کر دیا ہے۔
جزاک اللہ محترم متلاشی محمد یعقوب آسی الف عین صاحبان
اس ہیچمدان کو پروف ریڈنگ کے لئے بھی مواد بھیج دینا تھا، تاکہ بعد میں بزم اردو میں بھی شامل کی جا سکے
 

الف عین

لائبریرین
محمد اسامہ سَرسَری نے ایک اور مرکب حرف یاد دلا دیا یعنی ہ کے اوپر ہمزہ۔ اب اسے لکھنے کے لئے اپنے ونڈوز اردو کی بورڈ پر منتقل ہوتا ہوں۔
حالانکہ میں اس کو قبول کرتا ہوں کہ ۂ کا واحد کیریکٹر اردو کا کوئی حرف نہیں ہوتا۔ اور اس کا استعمال محض اعراب کی طرح کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ جب یونی کوڈ میں یہ کیریکٹر دے ہی دیا گیا ہے تو اس کو آسانی کے لئے ضرور استعمال کیا جائے۔ چنانچہ ’نالۂ دل‘ اور ’دیدۂ تر‘ کو ہی ترجیح دیتا ہوں، بجائے نالہءدل، دیدہء تر، یا نالہءِ دل، دیدہءِ تر، یا نالۂ دل اور دیدۂ تر۔ آخر الذکر میں ’ہ‘ اور اوپر والی ہمزہ’۔ ٔ ۔‘ کا استعمال کیا گیا ہے
 
اگرچہ "املائے درست" ایک "شۓ عجیب" ہے ، تاہم "قابلِ احترم" "اساتذۂ کرام" کے "جواباتِ مفیدہ" سے بڑی حد تک "تشفیِ دل" ہوگئی ہے ، "خدائے پاک" انھیں "جزائے خیر" عطا فرمائے۔ :)
املاء درست ہے یا املائے
علماء کرام ہے یا علمائے
شعراء کرام ہے یا شعرائے
جزاء خیر ہے یا جزائے
اسی طرح دیگر الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ آتا ہے عموماً ان کے آخر میں اضافت کی صورت میں ےلگادی جاتی ہے
ایسا کرنا درست ہے یا صرف زیر اضافت ہی کافی ہے یا دونوں طرح درست ہے؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اردو میں علمائے، جزائے لکھنےکو ترجیح دی جائے، بلکہ اردو میں جزا ہی لکھنا بہتر ہے، آخر میں ہمزہ کا اضافہ عربی کے لئے مخصوص سمجھا جائے
 
Top