اصلاح سخن میں ہم نے کیا سیکھا

فلسفی

محفلین
السلام علیکم،
ہم سب مبتدیوں نے (جو اپنا کلام یہاں اصلاح کے لیے پیش کرتے ہیں) اصلاح کے حوالے سے ایک یا ایک سے زائد اصول سخن آرائی کے لازمی سیکھے ہوں گے۔ یہ سب یہاں کے منتظمین، اساتذہ اکرام بالخصوص الف عین اور سینئیر ارکان کی وجہ سے ممکن ہوا جس کے لیے میں (سب مبتدیوں کی طرف سے) دل کی گہرائیوں سے ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

تمہید کے بعد گذارش ہے کہ یہ لڑی بنانے کا مقصد کہ ہم متبدی اپنا اپنا تجربہ سخن آرائی کے حوالے سے یہاں پیش کریں۔ تفصیل کے بجائے صرف ایک اصول، جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے کلام میں نکھار لانے کی وجہ بنا ہے۔ یقینا سب کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوگا لیکن تفصیل سے بچنے کے لیے گذارش ہے کہ ایک یا زائد جملوں میں کوشش کر کے صرف ایک اصول بیان کریں۔ امید کرتا ہوں ہم سب کو ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھنے کا موقع ملے گا اور اساتذہ کے لیے بھی اطمینان بخش ہوگا کہ ان کے ای-شاگرد کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں۔

"میں نے سر الف عین کی اصلاح کردہ لڑیوں سے یہ سیکھا کہ شعر جتنا نثر کے قریب ہو گا اتنا ہی اچھا لگے گا۔ یعنی الفاظ کی ترتیب مصرعے میں عام بول چال کے مطابق ہونی چاہیے۔ جبکہ اس سے پہلے میری غلطی فہمی یہ تھی کہ گنگنا کر الفاظ کی ترتیب کو زبردستی کسی دھن کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا تھا۔"
 
اصلاح سخن کے زمرے میں تمام اساتذہ اکرام بہت شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک ہیں ۔ اردو محفل فورم کی وابستگی سے پہلے ہم نے صرف اردو ادب کا نام سنا تھا ۔اصل میں اردو ادب کی تعریف اور تفصیل تو محفل سے وابستگی کے بعد معلوم ہوئی ۔زمرہ اصلاح سخن میں مبتدیوں کی جانب سے پیش کلام کو دیکھ دیکھ کر ہمیں بھی اشعار کہنے کا شوق ہوا ۔ابتداء میں بے تکے کی تک بندی کی ،استاد محترم اور محفلین کی جانب سے حوصلہ افزائی نے ہمت بڑھائی تو اب بھر پور طریقے سے شعر سخن پر توجہ دے رہے ہیں ۔
استاد محترم سے مجھ جیسے نالائق مبتدی نے جو سیکھا وہ یہ ہے کہ کبھی ہمت نا ہارو ، اشعار کہنے میں جلدی بازی مت کرو وقت کے ساتھ ساتھ اشعار میں بہتری کا خیال آتے رہتا ہے۔استاد محترم کے مفید اور کارآمد مشورہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ۔استاد محترم جس مخلصی سے مبتدیوں پر توجہ فرماتے ہیں وہ میرے لیے قابل تعظیم ہے ۔
اللہ کریم سے دعا ہے جناب محترم الف عین سر کی صحت اور عمر میں خیر و برکت عطا فرمائیں ، آمین ۔
 
آخری تدوین:

منذر رضا

محفلین
falsafi
السلام علیکم۔۔۔۔میں بھی ایک چھوٹا سا نکتہ جو میں نے سیکھا آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔۔۔۔محترم الف عین صاحب نے یہ لطیف نکتہ سکھایا کہ اسقاطِ حروف جس قدر زیادہ ہو گا ، اسی قدر کلام معیوب ہو گا۔۔۔
یاسر شاہ صاحب نے مجھ حقیر کے کلام کی ہمیشہ اصلاح دی اور زیادہ رواں الفاظ بتائے۔۔۔
محمد تابش صدیقی صاحب نے بھی میرے کلام پر اصلاح عنایت کی اور اسے مزید رواں کیا۔۔۔
شکریہ
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اصلاح سخن میں آئے تھے کہ ہمارے کلام کی اصلاح ہو، شروع شروع میں محترم الف عین کی آراء ایسے لگتا تھا کہ یونہی لکھ دیا ہے، شاید یہ شاعری کو غور سے پڑھتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ یہ بات میں زیادہ سے زیادہ صاف گوئی کے اعتبار سے لکھ رہا ہوں تاکہ ہم نے کیا سیکھا ، یہ بھی معلوم ہوسکے۔

تو بات یہ ہو رہی تھی کہ اصلاح کرنے والے اگر شاعری کو غور سے پڑھتے ہی نہیں تو اصلاح کیسے کرتے ہیں؟ ۔۔۔ پھر ہم نے کچھ صبر کیا اور رفتہ رفتہ باتیں سمجھ میں آنا شروع ہو گئیں۔۔۔

بات یہ ہے کہ ہم لوگ شعر لکھ کر بھیجتے ہیں اور اصلاح کرنے والے اس کا جواب نثر میں لکھ دیتے ہیں۔۔۔ شعر میں لکھا کریں، یہ بھی نہیں ہوسکتا ۔۔۔

میری ذاتی رائے شاعری کے بارے میں یہ ہے کہ اگر نثر زمین پر بہنے والا پانی ہے تو شاعری کو وہ ہوا سمجھئے جو آسمان بھی چھو سکتی ہے۔۔۔ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔

لیکن محترم الف عین نے میری رائے بدل دی۔ آسمان تو چھونا ہے ، لیکن زمین سے بھی ربط رکھنا ہے۔۔۔ یعنی شاعری مکمل طور پر ہوا میں نہیں ہونی چاہئے۔

تصور اور تخیل کی پرواز کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے۔۔۔ صرف یہی بات ہم نے سیکھی ہے اور یہی آج تک عمل میں لانے کی کوشش میں ہیں ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حضرت تفصیل تو آپ نے لکھ دی۔ میرا بھی پہلے یہ خیال تھا کہ اچھا شعر کہنے کے لیے اس میں کسی ایسی انوکھی بات کا ذکر ہونا ضروری ہوتا ہے جو تقریبا ناممکن ہو۔
انوکھی بات کا ذکر ضروری نہیں اور یہ تو بالکل ضروری نہیں کہ وہ ناممکن ہو۔۔
ہم نے کہا تھا:
تصور اور تخیل کی پرواز کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے۔۔۔
تصور اور تخیل یہ ہے کہ جو ہوا نہیں اس کی مثال دی جائے، حقیقت پسندی یہ کہ مثال سمجھ میں آنے والی ہو ۔۔۔ بے شک زمین اور آسمان کو جوڑ دیا جائے لیکن اس طرح کہ ناممکن نہ لگے ۔۔
 

فلسفی

محفلین
انوکھی بات کا ذکر ضروری نہیں اور یہ تو بالکل ضروری نہیں کہ وہ ناممکن ہو۔۔
ہم نے کہا تھا:
تصور اور تخیل کی پرواز کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے۔۔۔
تصور اور تخیل یہ ہے کہ جو ہوا نہیں اس کی مثال دی جائے، حقیقت پسندی یہ کہ مثال سمجھ میں آنے والی ہو ۔۔۔ بے شک زمین اور آسمان کو جوڑ دیا جائے لیکن اس طرح کہ ناممکن نہ لگے ۔۔
درست فرمایا آپ نے۔ یہ نکتہ محفل میں آ کر ہی کچھ کچھ سمجھ آیا ہے۔
 
Top