اصلاح سخن ،اساتذہ کی خدمت میں، ناصر کاظمی کی زمین میں: رشک شاعری ہے تو !

سلام مسنون !
اساتذہ کی خدمت میں ایک غزل:

”رشک شاعری ہے تو
فن آذری ہے تو

جام تشنگی ہے تو
فخر دلبری ہے تو

لب سے پھوٹتے فسوں
فتنہ سامری ہے تو

میری غزل کی صدا
میری نغمگی ہے تو

دلبر اس جہان میں
”وجہ دوستی ہے تو“

میری شام کی شراب
روح زندگی ہے تو

"حافظ" کی زبان تو
جان فارسی ہے تو

تو بہار کی نوید
جوئے عاشقی ہے تو

زلف تیرے قافیہ
حسن ریختی ہے تو"
استعمال شدہ تراکیب کے معانی تو اساتذہ دیکھیں گے، فی الحال کچھ دیگر گزارشات؛

کسرۂ اضافت استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سمجھ نہیں آرہی کہ کہاں آپ نے استعمال کرنا چاہا ہے اور کہاں نہیں۔

یوں ہونا چاہیے

رشکِ شاعری ہے تو
فنِ آزری ہے تو

جامِ تشنگی ہے تو
فخرِ دلبری ہے تو

اگلے شعر میں فتنۂ سامری وزن میں نہ ہوگا اور فتنہ سامری بے معنی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس غزل می بہتر ہو گا گہ دو اشعار کو جوڑ کے ایک شعر بنا دیا جائے۔ اور فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن ۔ پر پوری کہی جائے۔
کہیں کہیں وزن اور نشست کمزور پڑ رہی ہے اس کو درست اور چست کرنا بھی آسان ہو جائے گا اور مجموعی شکل بہت بہتر ہو جائے گی۔
ویسے حیرت ہے کچھ مصرع وزن سے خارج ہیں الفاظ کی کمزور بندش سے ۔
 
Top