اصلاح درکار ہے

رباب واسطی

محفلین
جو خواہشوں کے اسیر ہوتے ہیں
اکثر وہی بےضمیر ہوتے ہیں
بلند ایوانوں پہ نظر ہوتی ہے
ارادے ان کے گھمبھیر ہیں
غربت ان کی نظر میں لعنت ہے
زباں پہ طعنے نہیں ، تیر ہوتے ہیں
لکیر فرقوں کی ایجاد ہے ان ہی کی
انہی لکیروں کے فقیر ہوتے ہیں
تعوذ ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے
یہی شیطان کے سفیر ہوتے ہیں
ربابؔ دامن بچاتہمتوں سے ان کی
یہ تہمت گروں کے وزیر ہوتے ہیں
 
Top