اشعارِ غالب - اردو ڈائجسٹ

ایک نثری یا شعری تصنیف کی تخلیق جس قدر مشکل ہے، اسی قدر اس کا عنوان تجویز کرنا بھی کٹھن مرحلہ ہے۔ اُردو ادب میں کئی اشعار اس قدر زبان زد عام ہوئے کہ شاعر اور نثرنگاروں کے لیے انھیں بطور اپنی کتابوں کے نام، مستعار لینا ضرورت بن گیا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں غالبؔ کے کمالات کا ایک جہان معترف ہے کہ انھوں نے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا جو پہلے دیوانے کی بڑ معلوم ہوتے تھے، وہیں یہ اعزاز غالب ہی کو گیا کہ سب سے زیادہ اُن ہی کے اشعار سے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کتابوں کے نام تجویز کیے۔ آئیے کچھ مشہور اشعار اور کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ دیوانِ غالب کا پہلا شعر ہے:​
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا​
نقش فریادی، فیض احمد فیض کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ۱۹۴۱ء میں منظرِعام پر آیا۔ فیض احمد فیضؔ بیسویں صدی کے بڑے شاعر تھے جن کے اثرات موجودہ صدی میں بھی چھائے ہوئے ہیں۔ اس مجموعۂ کلام میں فیض صاحب کی وہ شہرہ آفاق نظم بھی شامل ہے جس نے ملکہ ترنم نورجہاں کو اتنی شہرت بخشی کہ بالآخر فیض صاحب نے یہ نظم یہ کہہ کر نورجہاں کے نام منسوب کردی کہ یہ نظم اب میری کہاں یہ تو نورجہاں کی ہی ہے۔ ؎
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ​
دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر ہی کی ایک ترکیب، ’’شوخیٔ تحریر‘‘ سید محمد جعفری کے مجموعہ کلام کا نام ہے۔ سید محمد جعفری کی وجۂ شہرت شاعری اور مصوری ہے۔ وہ اکبر الٰہ آبادی کی طرز پر بڑے شاعر تھے۔ پیروڈی میں کمال حاصل تھا۔ اُن کی جس پیروڈی کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘ ہے۔ اُن کی وفات کے بعد مجموعۂ کلام ’’شوخیٔ تحریر‘‘ منظرِعام پر آیا ؎
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا​
نسخۂ ہائے وفا، فیض احمد فیضؔ کی کلیات کا مجموعہ ہے جس میں نقش فریادی، دستِ صبا، زنداں نامہ، دستِ تہ سنگ، سروادیٔ سینا، شامِ شہریاراں، مرے دل مرے مسافر اور غُبارِ ایام کی شاعری شامل ہے۔ اس میں تصاویر نامور مصور اسلم کمال کی بنائی ہوئی ہیں۔ یہ مکتبہ کارواں، لاہور کے تعاون سے شائع ہوا۔
٭٭
وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا​
چین جبیں کے درمیاں ’’بہ‘‘ لگانے سے یہ اُردو کا محاورہ بن جاتا ہے۔ اس نام سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے ایک سفرنامہ لکھا۔ یہ چین کے ۱۵ روزہ دورے کے دوران پیش آنے والے مشاہدات و تاثرات پر مشتمل ہے۔ اسے دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا۔
٭٭
دردِدل لکھوں کب لگ جائوں اِن کو دکھلائوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
دلاور فگار مزاحیہ شاعری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کے ایک شعری مجموعے کا نام مرزاغالبؔ کے اسی شعر سے مستعار لیا گیا جس کا نام ’’انگلیاں فگار اپنی‘‘ ہے۔ اس نام میں شاعر کے تخلص کی رعایت ہے اور غالبؔ کی تراکیب سے استفادہ بھی۔
٭٭
ہیں اور بھی دنیا میں سُخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِبیاں اور
’’سُخن ور‘‘ سلطانہ مہر کی چار جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔ یہ پاکستان کے اُردو شعرا کا تذکرہ ہے۔ اسی نام سے ایک ادبی ماہنامہ کراچی سے کوثرنقوی نکالتے ہیں۔
٭٭
وہ آئیں گھر میں ہمارے خُدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں​
’’وہ آئیں گھر میں ہمارے‘‘ عبدالقوی ضیا علیگ کی خاکوں پر مشتمل کتاب ہے۔ اس میں پروفیسر عزیزاحمد، فیض احمد فیض، پروفیسر ممتاز حسین، احمد ندیم قاسمی، علی سردار جعفری، رئیس امروہوی، صہبا لکھنوی، حمایت علی شاعر اور احمد فراز کے خاکے شامل ہیں۔ عبدالقوی ضیا علیگ طویل عرصے تک حیدرآباد سندھ میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔
٭٭
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاقِ نسیاں ہوگئیں​
’’بزم آرائیاں‘‘ معروف مزاح نگار، کرنل محمد خان کے طبع زاد مضامین کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے اپنے دوستوں کے نام معنون کیا۔ ۱۵ مضامین پر مشتمل اس کتاب میں بقول مصنف کے ۳ قسم کے مضامین شامل ہیں: عشقائے، انشائے اور مصنف بیتی۔ اس کتاب میں شامل اُن کی ایک تحریر قدرِایاز‘‘ کو اُردو کی شاہکار تحریروں میں شمار کیا گیا۔
٭٭
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو اُن کے جی میں کیا آئی کہ عُریاں ہوگئیں​
ڈپٹی نذیر احمد کو اُردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ’’بنات النعش‘‘ اُن کے ابتدائی ناولوں میں سے ایک ہے جن کے مشہور کردار ۲ بہنیں، اکبری اور اصغری ہیں۔ یہ گھریلو مسائل پر مبنی ناول اصلاحِ معاشرہ کے لیے لکھا گیا۔ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں میں محاورات اور کہاوتیں بہت ملتی ہیں۔ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو یہ علحٰدہ ضخیم کتاب بن سکتی ہے جو دلچسپ بھی ہوگی۔
٭٭
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہوگئیں​
عطا الحق قاسمی کا شمار اُن کالم نویسوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہر دور میں حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ لکھا۔ ’’روزنِ دیوار سے‘‘ اُن کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے جس کا ہر کالم پڑھنے کے لائق ہے۔​
اُردو ادب کا ایک اور بڑا نام آغا شورش کاشمیری کا ہے جو سیاست، خطابت، صحافت، تاریخ، خاکہ نگاری سمیت شاعری اور نثر کی اصناف ادب پر حاوی تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل کئی بار جیل گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر باغیانہ تقریر پر ۷ سال قید کی سزا پائی۔ ’’پسِ دیوارِ زنداں‘‘ اسی قید کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہے۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی اُردو ادب کے لیے بیش بہا ذخیرہ چھوڑا۔
٭٭
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے!​
’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے ہم عصروں کے خاکوں پر مشتمل کتاب ہے۔ ان خاکوں کا تعارف کراتے ہوئے لطیف الزماں رقم طراز ہیں: ’’رشید صاحب کے خاکے محض ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ اُن میں الفاظ کا دروبست دِل آویز، شگفتہ اندازِ تحریر اور منفرد و یکتا نثر کا اُسلوب ملتا ہے۔ انسانوں کے کرداروں کا مطالعہ شعور میں بالیدگی، وسعت و گہرائی پیدا کرتا ہے۔ اُردو خاکہ نگاری میں رشید صاحب پہلے ادیب ہیں جنھوں نے فرد اور فکر میں رشتہ تلاش کیا۔ جو خوبیاں انھوں نے کرداروں میں تلاش کی ہیں، اُن کا مطالعہ اور تجزیہ ہمارے ذہنی دریچوں کو کھولتا، آگے بڑھنے اور تازہ دم ہونے کا حوصلہ دیتا ہے۔ رشید صاحب نے کہیں بھی ان خاکوں میں اپنی شخصیت کو اُبھرنے نہیں دیا۔‘‘
٭٭
کیا بیاں کرکے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری​
’’آشفتہ بیانی میری‘‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی آپ بیتی ہے۔ پروفیسر صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں طویل عرصے تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ انھوں نے تعلیم و ادب کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں جس کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے اُنہیں متعدد اعزازات سے نوازا۔ علی گڑھ میں ہی اُن کی آخری آرام گاہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر احسان رشید اُن کے صاحبزادے تھے۔
٭٭
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے​
’’دنیا مرے آگے‘‘ اور ’’تماشا مرے آگے‘‘ اُردو کے معروف شاعر جمیل الدین عالیؔ کے سفرنامے ہیں۔ عالیؔ کے لکھے ہوئے کئی ملی نغمات زبان زدِ عام ہیں۔ وہ بینک کے شعبے سے منسلک رہے۔ آج کل روزنامہ جنگ میں ہفتہ وار اظہاریہ لکھ رہے ہیں۔ انجمنِ ترقی اردو، کراچی کے سربراہ ہیں۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے
جمیل الدین عالی کےؔ اظہاریوں کا انتخاب ۲ ضخیم مجموعوں ’’صدا کر چلے اور دُعا کر چلے‘‘کی صورت شائع ہوا ہے۔
٭٭
تیرا اندازِ سُخن شانہ زُلفِ الہام
تیری رفتار قلم جُنبش بال جبریل​
’’بالِ جبرئیل‘‘ علامہ اقبال کا اُردو مجموعہ کلام ہے جو جنوری ۱۹۳۵ء میں طبع ہوا۔ اس میں بعض غزلیں زبورِعجم کی طرز پر اور کچھ رُباعیات اور قطعات پیامِ مشرق کے انداز میں ہیں۔ اس مجموعے کے پہلے حصے میں غزلیات، پھر رباعیات اور قطعات، آخر میں مختلف عنوانات کے تحت نظمیں شامل ہیں۔ نظموں میں چند اُندلس کی مشہور عمارات اور مقامات کے متعلق ہیں۔ اُن کے لفظ لفظ سے دردمندی کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی مجموعے میں اُن کی شہرہ آفاق نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ بھی شامل ہے۔
٭٭
بخشے ہے جلوہ گُل ذوقِ تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا​
نابینائوں کے مسائل کے حل کے لیے سرگودھا میں ایک ادارہ ’’ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ‘‘ طویل عرصے سے پروفیسر شیخ محمد اقبال کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ انہی کی ایک تصنیف کا نام ’’ذوقِ تماشا‘‘ ہے۔ یہ نابینائوں کے انتالیس اہم مسائل پر مبنی ادبی مزاح کی حامل کتاب ہے۔ یہ مضامین اس سے قبل ماہنامہ ’’سفید چھڑی‘‘ سرگودھا میں شائع ہو چکے۔
٭٭
کہاں تک روئوں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی​
’’دیوار پتھر کی‘‘ اُردو کے افسانہ نگار اور کئی انسائیکلوپیڈیاز کے مرتّب سید قاسم محمود کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ۱۰ کہانیاں شامل ہیں۔ جب انھوں نے اشاعتی میدان میں قدم رکھا اور سردار عبدالرب نشتر سے کیے وعدے کے مطابق انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے لگے تو پھر ان کے اندر کا افسانہ نگار گُم ہوگیا۔ ’’دیوارپتھرکی‘‘ کا انتساب سید عابد علی عابد کے نام ہے جو اُن کے استاد تھے۔ کتاب کے آغاز میں میرتقی میر کا یہ شعر درج ہے:​
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
٭٭
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں​
لطف اللہ خان کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ اُن کے پاس برصغیر کی نایاب آوازوں کا خزانہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی کتابیں اور ایک سفرنامہ بھی لکھا۔ انہوں نے ’’تماشائے اہلِ کرم‘‘ کے عنوان سے ادیبوں اور شاعروں کے خاکے لکھے جن میں جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، ن م راشد، فیض احمد فیض، استادقمرجلالوی ، اخترحسین رائے پوری، عصمت چغتائی، حفیظ ہوشیارپوری اور زیڈ اے بُخاری شامل ہیں۔
٭٭
وحشت و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں​
’’غالب آشفتہ نوا‘‘ ڈاکٹر آفتاب احمد خان کے مضامین کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ مضامین کلامِ غالب زندگی کے حادثات، اُس ز مانے کے تاریخی حالات اور سماجی فضا سے متعلق ہیں۔ یہ مضامین مختلف رسائل میں شائع ہو چکے۔ ان مضامین کے خاص خاص عنوانات ہیں: غالب کی عشقیہ شاعری، غالب کا غم، غالب کے اُردو خطوط اور غالب کی بزمِ خیال وغیرہ۔ اس کا پیش لفظ
پروفیسرکرّارحسین نے لکھا ہے۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احمد ندیم قاسمی کے مجموعۂ کلام "محیط" کا نام بھی شاید غالب کے اس شعر سے لیا گیا ہے

محیط افگندہ بیروں گوہرم را
چو گرد افشاندہ آہن جوہرم را
 

مہ جبین

محفلین
اردو ادب میں غالب ، واقعی اب بھی غالب ہیں

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
 
احمد ندیم قاسمی کے مجموعۂ کلام "محیط" کا نام بھی شاید غالب کے اس شعر سے لیا گیا ہے

محیط افگندہ بیروں گوہرم را
چو گرد افشاندہ آہن جوہرم را
ایک اور شعر بھی ہے
موج نفس محیط بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
 

شوکت پرویز

محفلین
اس معلوماتی تحریر کے لئے تہہ دل سے شکریہ جناب سید شہزاد صاحب۔
-------
فقیرانہ آئے صدا کر چلے​
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے​
جمیل الدین عالی کےؔ اظہاریوں کا انتخاب ۲ ضخیم مجموعوں ’’صدا کر چلے اور دُعا کر چلے‘‘کی صورت شائع ہوا ہے۔​

یہ استاد میر تقی میر کا شعر ہے۔ اس کا مقطع ہے:
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے!

مکمل غزل یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی تحریر ہے، مزید تحقیق کی جاتی تو اور بہت سے نام مل جاتے۔ مثلاً انداز بیاں اور راجہ مہدی علی خاں کے مجموعے کا نام بھی ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
سید شہزاد ناصر صاحب
بہت معلوماتی مضمون شریک محفل کیا ہے ، بہت شکریہ
اللہ اجر عظیم عطا فرمائے (آمین)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اچھی تحریر ہے، مزید تحقیق کی جاتی تو اور بہت سے نام مل جاتے۔ مثلاً انداز بیاں اور راجہ مہدی علی خاں کے مجموعے کا نام بھی ہے۔
بابا جانی اور محترم سید شہزاد ناصر صاحب

احمد فراز کی ایک کتاب کا نام بھی

غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم
باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے
 
Top