اس قدر ضبط مجھے مار نہ ڈالے آ خر

میں نے جب درد ترے شعر میں ڈھالے آخر
پڑ گئے شعر کو بھی جان کے لالے آ خر

شدتِ کرب سے کھنچتی ہیں رگیں ، ٹوٹتی ہیں
اس قدر ضبط مجھے مار نہ ڈالے آخر

مشورہ ہے کہ مرے درد کا درماں سوچو
اس سے پہلے کہ مجھے موت منا لے آ خر

خوکشی عین مناسب ہے مرے چارہ گر
موت آئے تو کہاں تک کوئی ٹالے آ خر

میں تجھے ڈھانپ کے ٹھہرا رہا میدان میں اور
میرے حلقوم تلک آ گئے بھالے آ خر

میں لہو کو بھی ترے ہاتھ کی مہندی سمجھوں
اور تو ہاتھ بھی ہاتھوں سے چھُڑا لے آ خر

کو ئی تو جیہہ، نہیں تیری جفا کی ملتی
پڑ گئے سوچ کے پاوں میں بھی چھالے آ خر

قید کہتا ہے مری جان ، پناہوں کو ، تو سُن
کر دیا میں نے تجھے تیرے حوالے آ خر

تو کہ آزاد ہے اب شہرِ ہوس میں نا صرؔ
مر گئے آج ترے چاہنے والے آ خر

ناصر محمود خالد​
 
Top