اس قدر سادہ مزاجی بھی مصیبت ہےجہاں ۔ ناصر محمود خالد

اس قدر سادہ مزاجی بھی مُصیبت ہے، جہاں
لوگ طنزاََ بھی جو ہنستے ہیں، بھلے لگتے ہیں

سجدہ گاہانِ محبت کی زیارت کیسی
ہم تو پاپوشِ محبت کے تلے لگتے ہیں

جانے کس پُشت کا رشتہ ہے کہ پا کر ہم کو
درد بے ساختہ بڑھتے ہیں ، گلے لگتے ہیں

آوٗ اس وقفہ ِ کمیاب میں ڈھونڈو ہم کو
غم کے آثار سرِ دست ٹلے لگتے ہیں

ہم چلو سُرمہِ میدانِ مُسافت ٹھہرے
نقش تیرے بھی تمازت سے جلے لگتے ہیں

کس کو معلوم کہ کس موڑ پہ ساکت ہیں ابھی
تیرے ہمراہ ، بظاہر جو چلے لگتے ہیں

شام اُتری ہے سرِ نخلِ محبت آ خر
چند سائے تھے کھجوروں کے، ڈھلے لگتے ہیں

ایک لہجے کے بدلنے پہ ہی مر جاتے ہیں
عشق کے ناز ، بصد ناز پلے لگتے ہیں

ناصر محمود خالد​
 
Top