جون ایلیا اس دوران میں - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کر دیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا تو پھر جو لوگ اختیار پا کر بولنے کے بجائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں، ان کی کچھ سزا بھی ہونا چاہیے۔

گزشتہ دنوں بہت اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں پر انہیں بڑے معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا ہے۔ بہت سے نیک جذبے بھی معرضِ اظہار میں آئے ہیں پر اُن کے باب میں بڑی بدنیتی اور بدطینتی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ اور بیداری پیدا ہو گئی ہے اور اپنے حق کا شعور پہلے سے کچھ زیادہ ہے پر ایسے لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے دردمندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے حق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا ہدف بناتے ہیں۔

سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروشی کا بازار گرم ہے۔ اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوام کے حق کی بات کرتا ہو۔ جماعتیں اور جمیعتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔ دلوں میں نفرتیں بٹھائی جا رہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا دیا گیا ہے۔

اس طرح ایک عجیب بددلی اور دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئی ہیں کہ سننے والوں نے تنگ آ کر سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اس سیاست کی دین جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ قوم اپنے حق ناشناس رہنماؤں سے عاجز آ چکی ہے۔

مقاماتِ ہدایت و ارشاد میں یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے زمانے کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں وہ نابکار اور گناہ گار ہیں۔ حال کو ماضی کی صلیب پر چڑھانے کا یہ شوق بڑے گہرے معنی رکھتا ہے۔

ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی زمانے میں سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے۔ جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہیں وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظامِ قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملتوں کو کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخرگی ہے جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔

اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں، اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہو کہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ اس نسل کے بعض آسمان نژاد رہنما اس کی موجودگی ہی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ محلِ خطاب میں اس ہجوم کی طرف سے منہ موڑے کھڑے ہیں جو اُن کے سامنے موجود اور اس کارواں کی گرد سے مخاطب ہیں، جو کبھی کا گزر چکا ہے۔

پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے۔ یہی نہیں بلکہ انہیں وہ بات بھی سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشابہت رکھتی ہو۔ لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کے حقیقی مسئلوں سے بے خبر رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور نہ جانے کیا چاہا جا رہا ہے۔

اس قوم کو ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں حقیقتوں کو حقیقتوں کے طور پر برتا جائے۔ یہ فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب حق طلبی کے ساتھ سوچا جائے، چلّایا نہ جائے اور لوگوں کی نیتوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنے آپ کو سند قرار دے کر دوسروں کی ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کلیسائی انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔

(عالمی ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۶۹)
(یہی انشائیہ سسپنس، جون ۲۰۰۸ میں 'تباہ کن فتنہ' کے عنوان سے شائع ہوا۔)
 
Top