اسکے نام پے بیٹھی ہے

غزل

اسکے نام پے بیٹھی ہے
کتنی پاگل ناری ہے


ارمانوں کا خون ہے یا
کپڑوں پر گلکاری ہے

تنہائی ، یادوں کا بوجھ
دل پر کتنا بھاری ہے


جان ۔! تمہیں ہم کہتے ہیں
جان ہی تم پر واری ہے


تیری جدائی کا دل پر
وار بہت ہی کاری ہے


ہونٹوں پر آتی مسکان
دیکھو کتنی پیاری ہے


موسم بدلا ہے یا پھر
اس نے زلف سنواری ہے


کل شب بادل برسا تھا
آج ہماری باری ہے


آنکھوں سے اسکی تصویر
دل پے آج اتاری ہے


آگ بجھانے والے کے
دامن میں چنگاری ہے


موسم سے ڈرنا کیسا
طوفانوں سے یاری ہے


دریا میں موجوں کا حسیب
کھیل ابھی تک جاری ہے


حسیب احمد حسیب​
 
Top