اینا بیل ، کہ میری محبوب نظر اب اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی ، ہماری سواری رک چکی تھی اور میں بدنصیب کہ جسے ابھی چند لمحے قبل تک اپنی نازنین گل اندام عزیز جاں محبوبہ کی معیت میں سفر پرلطف کا اعزاز حاصل تھا اب کچھ ہی وقت کے بعد اس منحوس سواری سے باہر سرک چکا تھا ۔ نکلتے ہی جو دیکھا کہ چاروں طرف سے مجھ پر نشانہ لگائے کوتوال کے اہلکار کھڑے ہیں اور میرے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہ تھا کہ اپنے ہاتھ کھڑے کردوں اور اپنی گرفتاری پیش کردوں ۔
ان کا صوبیدار میرے پاس آیا اور یوں گویا ہوا ، ناہنجار بدبخت بھاگنے کی بجائے اگر پہلے ہی رک جاتے تو یہ نازنیں اپنی جان سے نہ جاتی ، کیا تم نہیں جانتے کہ سرکاری مسلح اہلکاروں سے فرار کی کوشش جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔میں کہ سر نیہوڑائے اپنے دونوں ہاتھ گردن پر رکھے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہوا کچھ نہ بول پایا کہ میرے تو حواس کے پرندے اینابیل کی موت کے ساتھ ہی پرواز کر چکے تھے ۔
المختصر مجھے کاروائی کے لیئے تھانے لے جایا گیا اور اینا بیل جو اب اس دنیا کے جھنجھٹوں سے بے پروا ہو چکی تھی کے بے جان پتلے کو طبی ہرکاروں کے ساتھ شفا خانے کی طرف روانہ کیا گیا ۔ تھانے میں میرے پرانے تعلقات کام آگئے اور مجھے کچھ روپوں کے عوض نکال باہر کیا گیا ۔ میری دنیا اندھیر ہوچکی تھی ، میں دن رات گلیوں راستوں میں چلتا تھا اور اپنی اینا بیل کی یاد میں آہیں بھرتا تھا ۔ اینابیل کی رہائش گاہ میرے تصرف میں تھی اور میرا دل وہاں سے اچاٹ ایسے میں سکون ملے تو کہاں ملے ۔ آخرش مے خانہ مسکن بنا اور میں دن رات مے کے خمار مین ڈوبا رہنے لگا ۔ آہستہ آہستہ تمام جمع پونجی میری ختم ہوئی اور کچھ ہی عرصے میں میں پھر سے چیتھڑوں کا ملبوس ہوا۔
وائے قسمت زندگی میں چاہتیں مل نہ سکیں
ہم جہاں سے تھے چلے واپس وہیں پر آگئے
پھر سے میں اسی حال احوال میں آن پہنچا جہاں سے چلا تھا ۔ راہ میں بیٹھا لوگوں کو تکتا اور اپنی اینابیل کی صورت ان کی صورتوں میں دریافت کرتا ۔ پھر ایک دن ایک نازنین کی نظر مجھ پر پڑی اور اس کے دل میں نجانے کیا آیا ، وہ کھانا لے کر میرے پاس آن بیٹھی اور مجھے کھلانے کی سعی میں مشغول ہوئی ۔ میں کہ جو اینابیل کے دکھ اور اپنی قسمت کا مارا ہوا تھا میری آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ گئی ۔ ہچکیاں تھیں کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں ۔ دکھ سے بھرا سینہ میری آہ و فغاں کاسبب ہوا اور وہ نازنین قلب سلیم کی مالک مجھ نادار و بدنصیب کو اٹھا کر اپنے گھر لے گئی ۔ اور میں کہ جیسے کسی عامل کا معمول ہوتا ہے بے خودی کے عالم میں اس نازنین کے ساتھ اس کے گھر جان پہونچا۔
زندگی رکتی نہیں ہے جان لو
زندگی کے مشوروں کو مان لو
جو بھی دن کل بیت جائے سیکھ لو
آئیندہ روشن کرو پہچان لو
اینا بیل کا متبادل مجھے مئے میسر ہوئی ، مئے ایک دفتر میں کام کرتی تھی اور صوبہ باسیلان کے شہر منڈاناؤ کی رہنے والی تھی ۔ یہ منیلا میں کام کے سلسلے میں مقیم تھی اور کسی دفتر کے رابطہ مرکز میں کام کرتی تھی ۔ رات بھر اس کو اپنے کام کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنا پڑتا اور میں گھر میں پڑا تفریحی آلات سے دل بہلاتا ۔ کبھی برتن بھانڈے دھو دیتا ، کبھی کپڑے دھو سکھا لیتا، کچھ اپنا دکھ میں سی لیتا، کچھ کام کرن میں سمو دیتا۔ یوں ہی وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور میں مئے کے ساتھ رہتے رہتے کچھ کمزور لمحوں میں اینابیل سے بے وفا ہوا اور پھر میرا دل نئے محبوب کے ساتھ جڑتا چلا گیا اور یوں میں اینا بیل کا دکھ بھلانے میں کامیاب ہوا۔ اب مئے جب سے میرے وجود کی عادی ہوئی تو کمزور پڑتی گئی اور آہستہ آہستہ میری حکومت اس پر قائم ہوتی گئی ۔ اب میں اسے اپنی مرضی پر چلانے لگا ، جو غصہ غضب میں اینا بیل پر کرنے سے قاصر تھا مئے پر کرنے میں میرا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اور میں جو کل تک ایک مظلومی حالات کی تصویر بنا پھرتا تھا ایک حاکم خانہ کے رویوں کا مظہر بن گیا۔
کس قدر رنگوں میں ہے نا پائیدار
رنگ انسانی میں اب رنگ وفا
ایک دن جب مئے گھر میں نہ تھی ایک سفری سوداگر لڑکی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے جب دیکھا کہ ایک لڑکی نوجوان عمر کوئی مجھ سے دوچار برس ہی چھٹکی میرے دروازے پر ہے تو میرے اندر کے شیطان نے کروٹ لی اور میں نے اسے اندر آنے کا کہا ، لڑکی کے پاس انگریزی لباس ، فرانسیسی عطورات ، زیب و زینت کا سامان و سامان تفریح خانگی سب موجود تھا۔ نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ماریا ہے اور دن میں فارغ اوقات میں یہ تجارت کر کے اپنے اضافی اخراجات پورے کرتی ہے جبکہ رات کو اپنے کار ہائے نمایاں میں اس کا بڑا کام زن بازاری کا تھا جس میں یہ منیلا میں گھر گھر حرص کی شکار زن ہائے بازاری کو ہوس کے شکار مرد ہائے وحشیان کے حضور پیش کرکے اپنا کماتی تھی اور اس کمائی پر بہت نازاں تھی ۔ اور میں کہ مئے کی کمائی میں بقدر ضرورت ہی سامان زیست کر رہا تھا ماریا کو دیکھ کر بے ایمان ہوا اور اس سے دوستی گانٹھنی چاہی۔ حرام خور میں شروع سے ہی تھا اب جب حرام سامنے آیا تو خود پر ضبط نہ کر پایا اور لڑھک گیا اور مئے کی غیر موجودگی میں اپنا یارانہ ماریا سے لگا لیا۔ اسے خوش کرنے کو رات کو جب مئے گھر نہوتی تھی میں ماریا کے سامان معصیت کو بازار میں بیچنے میں اس کی مدد کرنے لگا
یہ ضروری تو نہیں ہر شخص کو
عزتوں کی روٹیاں درکار ہوں