تیسرا باب
اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوق
اس باب میں ہم معاشرتی اور سماجی حوالوں سے عورت کو دیے گئے حقوق کا تجزیہ کریں گے۔ ان حقوق کی تقسیم اس طرح بھی کی جا سکتی ہے :
- اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بیٹی
- اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت بیوی
- اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت ماں
- اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت بہن
سب سے پہلے ہم دین اسلام میں بیٹی کو دیے گئے معاشرتی حقوق کا ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے بیٹی کو جان کی حفاظت فراہم کی اور بیٹیوں کو قتل کرنے کی قبیح روایت کا خاتمہ کیا۔ اسلام یہ حفاظت بیٹے اور بیٹی دونوں کے لیے فراہم کرتا ہے۔ اور قتل اولاد کو حرام قرار دیتا ہے۔ سورۃ التکویر میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ۔ بِاَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ۔(سورۃ 81، آیات 8، 9)
" اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔"
اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :
قُلْ تَعَالَوْاْ اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلاَّ تُشْرِكُواْ بِہِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ اَوْلاَدَكُم مِّنْ امْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاھُم ط۔ سورۃ الانعام (6)، آیہ 151)
"فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)،"
اسی طرح حکم ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں بھی ملتا ہے، جہاں ارشاد ہوتا ہے :
وَلاَ تَقْتُلُواْ اَوْلاَدَكُمْ خَشْيَۃَ اِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِيَّاكُم انَّ قَتْلَھُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًا۔ (سورۃ 17، آیہ 31)
"اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔"
ظہور اسلام سے قبل، دور جاہلیت کے عرب معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اسلام نے آ کر اس مکروہ اور ظالمانہ رسم کا خاتمہ کر دیا۔ عرب تہذیب میں تو اسلام نے یہ رسم ختم کر دی لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی بیٹیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس پروگرام کا عنوان تھا "اُسے مرنے دو" (Let Her Die)۔ بی بی سی ایک خاتون رپورٹر Emily Beckenen نے بریطانیہ سے ہندوستان آ کر اس موضوع پر تحقیقات کیں اور یہ رپورٹ تیار کی۔ یہ پروگرام کافی عرصہ قبل سٹار ٹی وی پر بھی دکھایا گیا اور شکر ہے کہ بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ کچھ ہی دن قبل بھی یہ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوا ہے۔
اس پروگرام میں جو اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ روزانہ تقریباً تین ہزار حمل ضائع کیے جا رہے ہیں۔ والدین بچے کی جنس معلوم کرتے ہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ بچی پیدا ہونے والی ہے تو حمل ضائع کروا دیا جاتا ہے۔
اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ بیٹیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
تامل ناڈو اور راجھستان وغیرہ جیسی ریاستوں میں ایسے بورڈ اور پوسٹر نظر آ رہے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے :
"پانچ سو روپے خرچ کریں اور پانچ لاکھ روپے بچائیں۔"
کیا آپ جانتے ہیں اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ کہ پانچ سو روپے طبی معاینے پر خرچ کریں اور یہ معلوم کریں کہ بچہ پیدا ہونے والا ہے یا بچی۔ یعنی پیدائش سے قبل ہی بچے کی جنس معلوم کر لیں۔ اگر ماں کے پیٹ میں بچی پرورش پا رہی ہو تو حمل ضائع کروا دیں اور یوں بچی کی پرورش اور بعد ازاں جہیز کی صورت میں خرچ ہونے والے لاکھوں روپے بچا لیں۔
تامل ناڈو کے سرکاری ہسپتال کی رپورٹ یہ ہے کہ ہر دس میں سے پانچ بیٹیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ لہذا شاید ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔
بچیوں کے قتل کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ صدیوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر آپ ہندوستان میں 1901ء میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس وقت بھی ہندوستان میں 1000 مردوں کے مقابلے میں 972 عورتیں تھیں۔
اس کے بعد اگر آپ 1981ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ تناسب مزید بگڑ چکا ہے۔ کیونکہ 1981 میں 1000 مردوں کے مقابلے میں 934 عورتیں تھیں۔
عورتوں کی آبادی کا تناسب مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ 1991ء کی مردم شماری میں یہ 1000 کے مقابلے میں 927 تک جا پہنچا ہے اور سب سے افسوس تو اس بات کا ہے کہ سائنس کی ترقی نے بجائے اس عمل کو روکنے کے اس میں مزید سہولت پیدا کر دی ہے۔
وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَاِن كَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَى اَن تَكْرَھُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّہُ فِيہِ خَيْرًا كَثِيرًا۔ (سورۃ 4، آیہ 19)
"ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔"
نکاح کے لیے فریقین کی رضا مندی ایک لازمی شرط ہے یعنی مرد اور عورت دونوں کو اس رشتے کے لیے راضی ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ۔۔۔ خواہ وہ لڑکی کا والد ہی کیوں نہ ہو، اپنی بیٹی کی شادی زبردستی نہیں کر سکتا۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق ایک عورت کا نکاح اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف کر دیا تھا۔ یہ عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور فریاد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ قرار دیا۔
احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کی روایت کردہ ایک حدیث کا مفہوم بھی اس سے ملتا جلتا ہے، جس کے مطابق ایک عورت بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ وہ اگر چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے۔
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نکاح کے لیے فریقین کی رضامندی ضروری قرار دیتا ہے۔
اسلام میں عورت کا تصور خاندان تشکیل دینے والی شخصیت کا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے وہ مکان کو گھر بناتی ہے۔ مغربی دنیا میں بیوی کے لیے House Wife کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جو غلط ہے کیونکہ اس کی شادی گھر کے ساتھ نہیں ہوئی۔ لوگ اصطلاحات بناتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے۔ "ہاؤس وائف" کا مطلب ہے "مکان کی بیوی۔"
میں امید رکھتا ہوں کہ میری بہنیں آئندہ خود کو ہاؤس وائف (House Wife) کہلوانے کی بجائے ہوم میکر (Home Maker) کہلوانا پسند کریں گی۔
اسلام میں بیوی کی حیثیت باندی کی نہیں ہوتی بلکہ اسے شوہر کے ساتھ بالکل مساوی حیثیت ملتی ہے۔
ابن حنبل رحمۃ اللہ کی روایت کردہ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے :
"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا سلوک اپنے گھر والوں سے اچھا ہے۔"
اسلام نے مرد اور عورت کی سماجی حیثیت میں کوئی بھی فرق نہیں رکھا سوائے ایک پہلو کے، اور وہ پہلو قیادت کا ہے۔ جسٹس قاضی صاحب نے بھی بالکل درست نشاندہی کی کہ قرآن شوہر اور بیوی کو مکمل برابری کی حیثیت دیتا ہے لیکن اس نے گھر یا خاندان کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔
سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْھِنَّ دَرَجَۃٌ وَاللّہُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ ۔ (سورۃ 2، آیہ 228 )
"عورتوں کے لیے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔"
یہاں میں جسٹس ایم ایم قاضی سے پورا اتفاق کرتا ہوں۔یہ بات بالکل درست ہے کہ بیشتر مسلمان اس آیت کا مفہوم غلط اخذ کرتے ہیں۔ خصوصاً مرد کو ایک درجہ حاصل ہونے کی بات کو بالعموم غلط سمجھا گیا۔ حالانکہ جس طرح کہ میں نے پہلے عرض کیا کسی بھی حکم کو سمجھنے کے لیے پورے قرآن میں متعلقہ بیانات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
سورۃ نساء میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ط (سورۃ 4، آیہ 34)
"مرد عورتوں پر قوام ہیں۔"
لوگ بالعموم "قوام" کا ترجمہ "ایک درجہ برتر" کرتے ہیں۔ یا یہ کہ مرد ایک درجہ افضل ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قوام کا لفظ اقامہ سے نکلا ہے۔ مثال کے طور پر نماز سے پہلے اقامت ہوتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ گویا اقامہ کے معنی ہوئے کھڑے ہو جانا۔ اور جہاں تک قوام کے معنی کا تعلق ہے تو اس لفظ کے معانی یہ نہیں ہیں کہ مرد کو عورت پر ایک درجہ برتری یا فضیلت حاصل ہے، بلکہ یہ ہیں کہ مرد کی ذمہ داریاں ایک درجہ زیادہ ہیں۔
اگر آپ تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کریں تو آپ یہی لکھا پائیں گے کہ مرد کی ذمہ داری ایک درجہ زیادہ ہے نہ کہ بلحاظ فضیلت کوئی برتری ہے۔ اور یہ ذمہ داری فریقین کو باہمی رضا مندی سے برضا و رغبت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ط (سورۃ 2، آیہ 187)
"وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔"
لباس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ لباس کا مقصد پردہ بھی ہوتا ہے اور زینت بھی۔ اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا اور ایک دوسرے کے لیے باعث زینت ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
سورۃ نساء میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَاِن كَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَى اَن تَكْرَھُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّہُ فِيہِ خَيْرًا كَثِيرًا۔ (سورۃ 4، آیہ 19)
"اور ان کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔"
گویا حکم قرآنی کے مطابق اگر آپ کو اپنی بیوی ناپسند ہو پھر بھی آپ کو اس کے ساتھ خوش اخلاقی ہی سے پیش آنا چاہیے۔ اور برابری کی سطح پر ہی رہنا چاہیے۔
ہماری اب تک کی گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسلام عورت کو بحیثیت بیوی کے کیا حقوق عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ کی کیا رائے ہے؟
یہ حقوق جدید ہیں یا فرسودہ؟