اسلام آباد اور مارگلہ

زیک

مسافر
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ راقم کو اسلام آباد جانے کا شوق رچایا۔ چونکہ زندگی میں پہلی بار اکیلا اسلام آباد کا سفر کر رہا تھا لہذا پروگرام صرف چند دن کا تھا۔

بہرحال کچھ دوستوں سے رابطہ کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔کچھ وجوہات کی بنا پر زیادہ لوگوں سے ملنے کا ارادہ نہ تھا۔

سفر کی تاریخ طے کرنا بھی ایک اہم مسئلہ تھا۔ گرمیوں میں جانا تو بعید از قیاس تھا اور وہاں اپریل سے اکتوبر تک گرمی ہی ہوتی ہے۔ رمضان یا عیدین پر بھی پاکستان نہیں جایا جا سکتا۔ مارچ میں اسلام آباد پولن کی زد میں ہوتا ہے۔

یہاں سے نکلا اور استنبول ائرپورٹ لینڈ کیا۔ وہاں ایک آرٹ انسٹالیشن لگی تھی۔

 

زیک

مسافر
استنبول ائرپورٹ پر ہی ایک مسافر میرے ساتھ بیٹھا خبریں دیکھ رہا تھا۔ سرخی تھی پاکستان اٹیک۔ یقیناً کوئی دہشتگردانہ حملہ ہوا تھا پاکستان میں لیکن یہ اتنے عام ہیں کہ یاد بھی نہیں کہ کیا تھا۔

اسلام آباد ائرپورٹ فلائٹ رات گئے لینڈ کرتی ہے۔وہاں امیگریشن والوں کو پرنٹ کیا ویزا دکھایا۔ اس نے سائیڈ پر بھیجا کہ ویریفائی کراؤ۔ دوسرے صاحب نے ایک موٹا رجسٹر سنبھالا ہوا تھا۔ ایک نگاہ میرے ویزے پر ڈالی اور دوسری رجسٹر پر اور اشارہ کیا کہ جاؤ۔ دل تو تھا کہ پوچھوں ای ویزہ کا کیا فائدہ اگر موٹا رجسٹر ہی رکھنا ہے لیکن امیگریشن والوں سے کبھی بحث نہیں کرنی چاہیئے اس لئے اپنے راستے پر ہو لیا۔

بیگیج کلیم پر کافی دیر انتظار کرنا پڑا کہ سامان آ ہی نہ رہا تھا۔ میرا چھوٹا سا بیگ تھا جو میں جہاز میں بھی لے جا سکتا تھا صرف آسانی کی خاطر چیک ان کیا تھا۔ خیر آخر آ ہی گیا۔ اتنی دیر پیپل واچنگ کرتا رہا۔

جانے سے پہلے پاکستانیوں نے خوب ڈرایا تھا کہ ائرپورٹ پر ٹیکسی نہ لینا۔ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی۔ لیکن ایک دوست نے کہا تھا کہ وہ پک کر لے گا۔ میں سامان کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے میسج آنے لگے۔ ائرپورٹ کے اس حصے میں سیل سگنل خراب تھا اس لئے اس سے بات چیت میں کچھ مشکل ہوئی۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لیکن امیگریشن والوں سے کبھی بحث نہیں کرنی چاہیئے اس لئے اپنے راستے پر ہو لیا۔
یہ بات بالکل درست ہے ۔۔لیکن دبئی ایک مرتبہ شور کرنا پڑا تھا ۔۔ خاتون بیٹھئ تھیں اس زمانے میں 1999 یا 1997 کی بات ہے آفیشل وزٹ تھا ویزا اسپنسر ڈ تھا بینک سے کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون کہتی ہیں۔۔Ask your Sponsor, your visa is not here
اب کاٹو تو لہو نہیں کیا کریں درخواست کی خاتون نامدار سے چیک کرلیں ۔۔وہ ادائے بے نیازی سےمصروف گگتکو ہوئیں کسئ اور سے ۔۔۔رات کے دو بجے تھے ۔۔خیر غصہ ایسے موقعوں پر کم ہی آتا ہے۔۔مگر بقول ہمارے اباجان کے اماں کی طرف سے پٹھانی دماغ وراثت میں ملا ہے گھوم گیا تو گھوم گیا غصے میں چئک کریں آپکے پاس ہی اسپنسر سے بات ہوئی ۔۔اب جو غصہ دیکھ کے الٹ پلٹ کاغذکئے توانہی کے ہاس ویزہ تھا اسقدر گھبرائیں کے اورنجنل ہمارے حوالے کیا ہمارے چیف مینجر کورنش برانچ ائیر پورٹ پر موجود تھے ہنس ہنس کے برا حال پہلے سے ہمیں جانتے تھے لاہور سے تعلق تھا ۔۔۔کہنے تسی تو چھا گئے ہو ڈر کر اس نے کاپی کے بجائے آپکو اپنی کاپی دے دی ہے ۔۔۔تو کبھی کبھی غصہ یا شور مجبوری بن جاتا ہے ۔۔۔پہلی مرتبہ جب سنگاپور گئے تو آن اراویل ویزہ تھا اب اسپنسر کے بعد بھی گھنٹوں ائر پورٹ پر انتظار کرنا پڑتا ہے ۔۔۔
 

زیک

مسافر
سامان کے ملنے پر باہر نکلا تو دوست موجود تھا۔ صبح سویرے بھی موسم خوشگوار تھا۔ جب دوست نے والدین کے گھر ڈراپ کیا تو صبح کے چھ ساڑھے بج رہے تھے۔ والدین سے گپ شپ لگائی اور ناشتہ کیا۔

پھر میں واک کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اسلام آباد میں پرانے وقتوں سے جو سائیڈ واکس تھے ان کی حالت خراب تھی۔ کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ مزید یہ کہ لوگوں نے اپنے ڈرائیو وے ایسے اونچے نیچے بنا رکھے تھے کہ سائیڈ واک کا کوئی تسلسل نہ تھا۔ بڑی سڑکیں ٹھیک حالت میں تھیں لیکن چھوٹی سڑکیں یا گلیاں کافی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ پھر ہر سڑک پر کئی مکان گرا کر دوبارہ تعمیر ہو رہے تھے اور ان کی بجری اور دیگر سامان باہر ہی موجود تھا۔

چار کلومیٹر سے کچھ اوپر واک کر کے واپس پہنچا تو چچا لان میں ٹہل رہے تھے۔ ان سے کچھ دیر گپ شپ رہی۔

لنچ کے بعد والدین نے قیلولہ کا ارادہ کیا۔ میرا پلان تھا کہ رات تک جاگتا رہوں گا تاکہ جیٹ لیگ سے کچھ چھٹکارا ہو۔ لیکن سہ پہر کو نیند غالب آ گئی اور میں سو گیا۔ رات کو دیر سے آنکھ کھلی تو سب سو چکے تھے۔
 

زیک

مسافر
دبئی ایک مرتبہ شور کرنا پڑا تھا ۔۔ خاتون بیٹھئ تھیں اس زمانے میں 1999 یا 1997 کی بات ہے آفیشل وزٹ تھا ویزا اسپنسر ڈ تھا بینک سے کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون کہتی ہیں۔۔Ask your Sponsor, your visa is not here
دبئی امیگریشن واحد ہے جہاں کچھ کچھ نسلی امتیاز دیکھا۔
 

زیک

مسافر
مارگلہ میں ہائیکنگ کرنے کے بارے میں کچھ سال سے سوچ رہا تھا۔ آخری بار وہاں ہائیکنگ 90 کی دہائی میں کی تھی۔ محمد سعد کو میسج کیا کہ وہ اگر فارغ ہوں تو اکٹھے چلیں۔ ٹریل 3 کے آغاز پر ملاقات طے پائی۔ وہاں پہنچ کر سعد کا انتظار کر رہا تھا تو دیکھا کہ ویک ڈے پر بھی نوجوان پھرتے پائے جاتے ہیں اور اسلام آباد میں ہائیکنگ اور ڈیٹنگ کافی مکس ہو چکی ہیں۔

سعد آئے تو ہم ٹریل 3 پر اوپر چلے۔

 

زیک

مسافر
فضا کافی hazy تھی۔ ایسی بری visibility یا تو بادلوں اور دھند کی وجہ سے دیکھی ہے یا جنگلوں میں آگ کی وجہ سے لیکن یہاں آلودگی کا سا سماں تھا

 
Top