کتاب وسنت پر عمل
س۱:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو کیوں نازل فرمایا؟
ج۱:- تاکہ اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- اتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ ۔ (اعراف:۳)
لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طر ف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔ ودلیل :
حدیث نبوی:- اقرأوٴا القراٰن واعملوا بہ ولا تأکلوا بہ۔ (صحیح ،احمد)
قرآن پڑھواور اس پر عمل کرو ،اور اسے ذریعہ معاش نہ بناوٴ۔
س۲:- لوگوں کے لیے قرآن نے سب سے اہم کون سی چیز کو بیان کیا ہے ؟
ج۲:- قرآن کی بیان کروہ سب سے اہم چیز خالقِ کائنات کی معرفت ہے ،(جو نعمتوں سے نوازتا ہے ،تن تنہا عبادت کا مستحق ہے) نیز ان مشرکین کی تردید ہے ،جو اپنے اولیاء کے بت بناکر انہیں پکارتے تھے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوا رَبِّی وَلَا اُشْرِکُ بِہ أَحَدًا ۔ (جن:۲۰)
اے نبی: کہو کہ ”میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا“۔
س۳:- تلاوت قرآن کی غرض وغایت کیا ہے؟
ج۳:- ہم قرآن کی تلاوت اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسے سمجھیں ،اس میں غور وفکر کریں ،اور اس پر عمل کریں ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- کِتَٰبٌ أَنْزَلْنَٰہُ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا ءَ ایَٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَٰبِ ۔ (سورةص:۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں حضرت علی رضی الله عنہ سے مرفوعا وموقوفا ضعیف سند سے مروی ہے لیکن معنی صحیح ہے اور وہ درج ذیل فرمان نبوی ہے ۔
ألا انہا ستکون فتن قلت وما المخرج منھا؟ قال کتاب الله ، فیہ نبأما قبلکم وخبر بعدکم وحکم ما بینکم ھو الفصل لیس بالہزل ، وھوالذی من ترکہ من جبار قصمہ الله ومن ابتغی الھدی بغیرہ أضلہ الله ، فھو حبل الله المتین وھوالذکر الحکیم وھوالصراط الستقیم وھوالذی لاتزیغ بہ الأھواء ولا تلبس بہ الألسن ، ولا یشبع منہ العلماء ، ولا یخلق عن کثرة الرد ولا تنقضی عجائبہ وھوالذی لم ینتہ الجن اذ سمعتہ أن قالوا : اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)
(آپ نے فرمایا ) خبردار! آگے چل کر بہت سے فتنے کھڑے ہونگے میں نے کہا ،ان سے ذریعہ نجات کیا ہوگا ،آپ نے فرمایا ،الله کی کتاب اس میں متقدمین ومتاخرین کی خبریں ہیں ،تمہارے معاملات کے فیصلے ہیں،وہ فیصلہ کن ہے ،خلاف حقیقت نہیں ،جس جابر وظالم نے اسے چھوڑا ،اسے الله نے برباد کردیا ،جس نے غیر قرآن سے ہدایت چاہی ،اسے الله تعالیٰ نے گمراہ کردیا،وہ الله کی مضبوط رسی ہے ،حکمتوں سے پرنصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے ،اسی کے ذریعہ خواہشات بہکتیں نہیں ،زبانیں بآسانی اسے پڑھ لیتی ہیں ،علماء اس سے بیزا ر نہیں ہوتے ،باربار دہرانے سے پرانی نہیں ہوتی ،اس کے عجائبات نہیں ختم ہونگے ‘وہی ہے جسے سن کرجنات یہ کہنے سے باز نہیں رہے اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)“ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ،جس نے قرآن کی روشنی میں کوئی بات کہی ،سچ کہا ،جس نے اس کے ذریعہ فیصلہ کیا ،انصاف کیا جس نے اس پر عمل کیا مستحق اجر ہوا جس نے اس کی جانب دعوت دی ،صراط مستقیم کو پالیا۔
س۴:- قرآن مجید زندوں کے لیے ہے یا مُردوں کے لیے ؟
ج۴:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو مُردوں کے بجائے زندوں کے لیے نازل فرمایا ہے تاکہ اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں ،اس لیے کہ مُردوں کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں وہ اسے پڑھ نہیں سکتے ،نہ عمل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ،تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا ،ہاں اگر پڑھنے والا مُردے کا لڑکا ہو تو دوسری بات ہے ،اس لیے کہ لڑکا باپ کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
لِّیَنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَ یَحِقَّ القَوْلُ عَلَی الکَٰفِرِیْنَ ۔ (یٰسٓ)
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پرحجت قائم ہوجائے َ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَأَنَّ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَیٰ ۔ (نجم :۳۹)
اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں ہے ،مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے امام شافعی رحمہ الله نے اس آیات سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مردوں کو قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملے گا ، اس لیے کہ وہ نہ تو ان کا عمل ہے اور نہ ہی ان کی کمائی۔ دلیل:
حدیث نبوی:- اِذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ ۔
جب انسان مرجاتاہے تو تین چیزوں کو چھوڑ کر اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ۔صدقہ جاریہ یا نفع بخش علم یا نیک لڑکا جو باپ کیلئے دعاء کرے۔ (مسلم)
رہی میت کیلئے دعاء اور صدقہ کرنے کی بات، تو ان کا ثواب میّت کو پہونچے گا،جیسا کہ صاحب شریعت نے آیات واحادیث کے ذریعہ اس کی صراحت کردی ہے۔
س۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا ۔ (حشر:۷)
اور جو چیز رسول تمہیں دے دیں اُسے لے لو ، اور جس چیز سے روک دیں اُس سے رک جاوٴ۔
حدیث نبوی:- علیکم بسنّتی وسنّة الخلفاء الراشدین المہدین تمسکوا بھا ۔ (احمد)
میرے طریقے کو لازم پکڑلو ،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریق کار کو مضبوطی سے تھام لو ،(بشرطیکہ سنت نبوی کے خلاف نہ ہو
س:- کیا قرآن کریم کو کافی سمجھتے ہوئے حدیث پاک کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟
ج:- ہرگز نہیں، اس لیے کہ حدیث نبوی قرآن کریم کی شارح ہے۔
فرمان الٰہی:- وَأَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ (سورة النحل)
اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاوٴ،جوان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ خود بھی غوروفکر کریں۔
حدیث نبوی:- ألا وانّی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ۔ (صحیح ابوداوٴد)
خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے ،ا ور اس کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی (حدیث پاک)۔
س۷:- کیا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اقوال پر کسی قول کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
ج۷:- ہرگز نہیں!
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّہَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُولہِ ۔ (حجرات:۱)
ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔
جب الله کی نافرمانی ہورہی ہو تو کسی دوسرے کی بات نہ مانی جائے عبدالله ا بن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے:
أخشی أن تنزل علیکم حجارة من السماء أقول لکم قال رسول الله ﷺ وتقولون قال أبوبکر وعمر۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پر پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ،کیونکہ میں تمہیں احادیث نبوی کا حوالہ دیتاہوں ،اور تم ابوبکر وعمر رضی الله عنہم کی باتیں پیش کرتے ہو۔ (دارمی)
س۸:- زندگی میں کتاب وسنت کو فیصل بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- کتاب وسنت کو فیصل بنانا واجب ہے ۔
فرمان الٰہی:- فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوٴمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِیٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا ۔ (النساء)
(اے محمد) تمہارے رب کی قسم ،یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے ،جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیروا مما أنزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔(ابن ماجة،حسن)
حُکام کاکتاب الله کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ، اور الله کے نازل کردہ قوانین میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنا باہمی اختلاف ونزاع کا باعث ہے ۔
س۹:- باہمی اختلاف ونزاع کاکیاحل ہے ؟
ج۹:- ان حالات میں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
فرمان الٰہی:- فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیٴٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الآَخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلًا ۔ (نساء:۵۹)
اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے الله اور رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے۔اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
حدیث نبوی:- ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب الله وسنة رسولہ۔ (رواہ مالک وصححہ البانی فی الجامع الصحیح)۔
میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جن پر عمل کرتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،وہ الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہیں ․
س۱۰:- جو اپنے لیے شرعی امر ونواہی کو لازم نہ سمجھے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۰:- ایسا سمجھنے والا کافر ومرتد اور خارج ازاسلام ہوگا۔ اس لیے کہ بندگی صرف الله کے لیے ہے ۔شہادتین کے اقرار کا یہ مفہوم فی الواقع پایا ہی نہیں جاسکتا ہے ،جب تک کہ الله کی ہمہ جہتی عبادت نہ کی جائے ،اس عباد ت میں بنیادی عقائد ،مراسم عبادت ،زندگی کے ہر معاملے میں شریعت الٰہیہ کو حَکَم ماننا اورمنہج الٰہی کی تطبیق وغیرہ سب کی سب داخل ہے ۔شریعت الٰہیہ کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کوحلت وحرمت کا معیار بنانا ،شرک ہے ،جو کسی صورت میں عبادت سے متعلق شرک سے مختلف نہیں۔ (دوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدہ “سے ماخوذ)
س۱۱:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے ؟
ج۱۱:- محبت کا معیار ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ (آل عمران)
اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ اگرتم حقیقت میں الله سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی اختیار کرو ،الله تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاوٴں سے درگذر فرمائے گا ،وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔
حدیث نبوی:- لا یوٴمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔ (بخاری ومسلم)
اس وقت تک کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔جب تک میں اسے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔
س۱۲:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے کیا شرائط ہیں؟
ج۱۲:- ان کی محبت کے بہت سارے شرائط ہیں،جیسے:
۱۔ محبوب کی پسندیدہ چیزوں سے موافقت ۔
۲۔ اس کی ناپسندیدہ چیزوں کا انکار۔
۳۔ اس کے محبوبوں سے محبت ،اس کے دشمنوں سے بغض رکھنا۔
۴۔ اس کے دوستوں سے دوستی ، اس کے دشمنوں سے دشمنی۔
۵۔ اس کا تعاون کرنا ، اس کے طریق کار پر عمل پیرا ہونا۔
جو بھی ان امور کا پابند نہ ہوگا ،وہ اپنی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا اس پر شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا #
لو حبک صادقًا لأطعتہ انّ المحب لمن یحب مطیع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم محبوب کی اطاعت کرتے اس لیے کہ محبت کرنے والا محبوب کا مطیع ہوتا ہے
س۱۳:- خشوع وخضوع پر مشتمل محبت کس کے لیے ہونی چاہئے؟
ج۱۳:- ایسی محبت صرف الله کے لیے ہونی چاہئے۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (بقرہ:۱۶۵)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کومحبوب رکھتے ہیں۔
س۱:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو کیوں نازل فرمایا؟
ج۱:- تاکہ اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- اتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ ۔ (اعراف:۳)
لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طر ف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔ ودلیل :
حدیث نبوی:- اقرأوٴا القراٰن واعملوا بہ ولا تأکلوا بہ۔ (صحیح ،احمد)
قرآن پڑھواور اس پر عمل کرو ،اور اسے ذریعہ معاش نہ بناوٴ۔
س۲:- لوگوں کے لیے قرآن نے سب سے اہم کون سی چیز کو بیان کیا ہے ؟
ج۲:- قرآن کی بیان کروہ سب سے اہم چیز خالقِ کائنات کی معرفت ہے ،(جو نعمتوں سے نوازتا ہے ،تن تنہا عبادت کا مستحق ہے) نیز ان مشرکین کی تردید ہے ،جو اپنے اولیاء کے بت بناکر انہیں پکارتے تھے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوا رَبِّی وَلَا اُشْرِکُ بِہ أَحَدًا ۔ (جن:۲۰)
اے نبی: کہو کہ ”میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا“۔
س۳:- تلاوت قرآن کی غرض وغایت کیا ہے؟
ج۳:- ہم قرآن کی تلاوت اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسے سمجھیں ،اس میں غور وفکر کریں ،اور اس پر عمل کریں ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- کِتَٰبٌ أَنْزَلْنَٰہُ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا ءَ ایَٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَٰبِ ۔ (سورةص:۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں حضرت علی رضی الله عنہ سے مرفوعا وموقوفا ضعیف سند سے مروی ہے لیکن معنی صحیح ہے اور وہ درج ذیل فرمان نبوی ہے ۔
ألا انہا ستکون فتن قلت وما المخرج منھا؟ قال کتاب الله ، فیہ نبأما قبلکم وخبر بعدکم وحکم ما بینکم ھو الفصل لیس بالہزل ، وھوالذی من ترکہ من جبار قصمہ الله ومن ابتغی الھدی بغیرہ أضلہ الله ، فھو حبل الله المتین وھوالذکر الحکیم وھوالصراط الستقیم وھوالذی لاتزیغ بہ الأھواء ولا تلبس بہ الألسن ، ولا یشبع منہ العلماء ، ولا یخلق عن کثرة الرد ولا تنقضی عجائبہ وھوالذی لم ینتہ الجن اذ سمعتہ أن قالوا : اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)
(آپ نے فرمایا ) خبردار! آگے چل کر بہت سے فتنے کھڑے ہونگے میں نے کہا ،ان سے ذریعہ نجات کیا ہوگا ،آپ نے فرمایا ،الله کی کتاب اس میں متقدمین ومتاخرین کی خبریں ہیں ،تمہارے معاملات کے فیصلے ہیں،وہ فیصلہ کن ہے ،خلاف حقیقت نہیں ،جس جابر وظالم نے اسے چھوڑا ،اسے الله نے برباد کردیا ،جس نے غیر قرآن سے ہدایت چاہی ،اسے الله تعالیٰ نے گمراہ کردیا،وہ الله کی مضبوط رسی ہے ،حکمتوں سے پرنصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے ،اسی کے ذریعہ خواہشات بہکتیں نہیں ،زبانیں بآسانی اسے پڑھ لیتی ہیں ،علماء اس سے بیزا ر نہیں ہوتے ،باربار دہرانے سے پرانی نہیں ہوتی ،اس کے عجائبات نہیں ختم ہونگے ‘وہی ہے جسے سن کرجنات یہ کہنے سے باز نہیں رہے اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)“ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ،جس نے قرآن کی روشنی میں کوئی بات کہی ،سچ کہا ،جس نے اس کے ذریعہ فیصلہ کیا ،انصاف کیا جس نے اس پر عمل کیا مستحق اجر ہوا جس نے اس کی جانب دعوت دی ،صراط مستقیم کو پالیا۔
س۴:- قرآن مجید زندوں کے لیے ہے یا مُردوں کے لیے ؟
ج۴:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو مُردوں کے بجائے زندوں کے لیے نازل فرمایا ہے تاکہ اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں ،اس لیے کہ مُردوں کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں وہ اسے پڑھ نہیں سکتے ،نہ عمل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ،تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا ،ہاں اگر پڑھنے والا مُردے کا لڑکا ہو تو دوسری بات ہے ،اس لیے کہ لڑکا باپ کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
لِّیَنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَ یَحِقَّ القَوْلُ عَلَی الکَٰفِرِیْنَ ۔ (یٰسٓ)
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پرحجت قائم ہوجائے َ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَأَنَّ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَیٰ ۔ (نجم :۳۹)
اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں ہے ،مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے امام شافعی رحمہ الله نے اس آیات سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مردوں کو قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملے گا ، اس لیے کہ وہ نہ تو ان کا عمل ہے اور نہ ہی ان کی کمائی۔ دلیل:
حدیث نبوی:- اِذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ ۔
جب انسان مرجاتاہے تو تین چیزوں کو چھوڑ کر اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ۔صدقہ جاریہ یا نفع بخش علم یا نیک لڑکا جو باپ کیلئے دعاء کرے۔ (مسلم)
رہی میت کیلئے دعاء اور صدقہ کرنے کی بات، تو ان کا ثواب میّت کو پہونچے گا،جیسا کہ صاحب شریعت نے آیات واحادیث کے ذریعہ اس کی صراحت کردی ہے۔
س۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا ۔ (حشر:۷)
اور جو چیز رسول تمہیں دے دیں اُسے لے لو ، اور جس چیز سے روک دیں اُس سے رک جاوٴ۔
حدیث نبوی:- علیکم بسنّتی وسنّة الخلفاء الراشدین المہدین تمسکوا بھا ۔ (احمد)
میرے طریقے کو لازم پکڑلو ،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریق کار کو مضبوطی سے تھام لو ،(بشرطیکہ سنت نبوی کے خلاف نہ ہو
س:- کیا قرآن کریم کو کافی سمجھتے ہوئے حدیث پاک کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟
ج:- ہرگز نہیں، اس لیے کہ حدیث نبوی قرآن کریم کی شارح ہے۔
فرمان الٰہی:- وَأَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ (سورة النحل)
اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاوٴ،جوان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ خود بھی غوروفکر کریں۔
حدیث نبوی:- ألا وانّی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ۔ (صحیح ابوداوٴد)
خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے ،ا ور اس کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی (حدیث پاک)۔
س۷:- کیا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اقوال پر کسی قول کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
ج۷:- ہرگز نہیں!
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّہَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُولہِ ۔ (حجرات:۱)
ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔
جب الله کی نافرمانی ہورہی ہو تو کسی دوسرے کی بات نہ مانی جائے عبدالله ا بن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے:
أخشی أن تنزل علیکم حجارة من السماء أقول لکم قال رسول الله ﷺ وتقولون قال أبوبکر وعمر۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پر پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ،کیونکہ میں تمہیں احادیث نبوی کا حوالہ دیتاہوں ،اور تم ابوبکر وعمر رضی الله عنہم کی باتیں پیش کرتے ہو۔ (دارمی)
س۸:- زندگی میں کتاب وسنت کو فیصل بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- کتاب وسنت کو فیصل بنانا واجب ہے ۔
فرمان الٰہی:- فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوٴمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِیٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا ۔ (النساء)
(اے محمد) تمہارے رب کی قسم ،یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے ،جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیروا مما أنزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔(ابن ماجة،حسن)
حُکام کاکتاب الله کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ، اور الله کے نازل کردہ قوانین میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنا باہمی اختلاف ونزاع کا باعث ہے ۔
س۹:- باہمی اختلاف ونزاع کاکیاحل ہے ؟
ج۹:- ان حالات میں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
فرمان الٰہی:- فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیٴٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الآَخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلًا ۔ (نساء:۵۹)
اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے الله اور رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے۔اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
حدیث نبوی:- ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب الله وسنة رسولہ۔ (رواہ مالک وصححہ البانی فی الجامع الصحیح)۔
میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جن پر عمل کرتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،وہ الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہیں ․
س۱۰:- جو اپنے لیے شرعی امر ونواہی کو لازم نہ سمجھے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۰:- ایسا سمجھنے والا کافر ومرتد اور خارج ازاسلام ہوگا۔ اس لیے کہ بندگی صرف الله کے لیے ہے ۔شہادتین کے اقرار کا یہ مفہوم فی الواقع پایا ہی نہیں جاسکتا ہے ،جب تک کہ الله کی ہمہ جہتی عبادت نہ کی جائے ،اس عباد ت میں بنیادی عقائد ،مراسم عبادت ،زندگی کے ہر معاملے میں شریعت الٰہیہ کو حَکَم ماننا اورمنہج الٰہی کی تطبیق وغیرہ سب کی سب داخل ہے ۔شریعت الٰہیہ کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کوحلت وحرمت کا معیار بنانا ،شرک ہے ،جو کسی صورت میں عبادت سے متعلق شرک سے مختلف نہیں۔ (دوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدہ “سے ماخوذ)
س۱۱:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے ؟
ج۱۱:- محبت کا معیار ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ (آل عمران)
اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ اگرتم حقیقت میں الله سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی اختیار کرو ،الله تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاوٴں سے درگذر فرمائے گا ،وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔
حدیث نبوی:- لا یوٴمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔ (بخاری ومسلم)
اس وقت تک کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔جب تک میں اسے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔
س۱۲:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے کیا شرائط ہیں؟
ج۱۲:- ان کی محبت کے بہت سارے شرائط ہیں،جیسے:
۱۔ محبوب کی پسندیدہ چیزوں سے موافقت ۔
۲۔ اس کی ناپسندیدہ چیزوں کا انکار۔
۳۔ اس کے محبوبوں سے محبت ،اس کے دشمنوں سے بغض رکھنا۔
۴۔ اس کے دوستوں سے دوستی ، اس کے دشمنوں سے دشمنی۔
۵۔ اس کا تعاون کرنا ، اس کے طریق کار پر عمل پیرا ہونا۔
جو بھی ان امور کا پابند نہ ہوگا ،وہ اپنی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا اس پر شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا #
لو حبک صادقًا لأطعتہ انّ المحب لمن یحب مطیع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم محبوب کی اطاعت کرتے اس لیے کہ محبت کرنے والا محبوب کا مطیع ہوتا ہے
س۱۳:- خشوع وخضوع پر مشتمل محبت کس کے لیے ہونی چاہئے؟
ج۱۳:- ایسی محبت صرف الله کے لیے ہونی چاہئے۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (بقرہ:۱۶۵)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کومحبوب رکھتے ہیں۔