اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ​
اسلامی تصوف
میں
غیر اسلامی نظریات کی آمیزش
یہ نام ہے جناب یوسف سلیم چشتی کی کتاب کا جو دراصل ان کی کتاب "تاریخ تصوف" کا ایک مظلوم باب ہے ۔ ان کی کتاب تاریخ تصوف محکمہ اوقاف پاکستان کے زیراہتمام شائع کی گئی لیکن یہ باب اس میں شامل نہیں کیا گیا ۔ اس کا سبب کیا ہے یہ آپ اس کے مطالعے کے بعد بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ محکمہ اوقاف کی سرکاری چھتری تلے رائج الوقت تصوف کو علمی تحقیق و تنقید سے پرہیز ہی بہتر ہے ۔ تصوف کے مطالعے سے شغف رکھنے والوں کے لیے تاریخ تصوف سے جبرا علحدہ کر دئیے جانے والے اس باب میں بہت کچھ ہے ۔ اس موضوع میں اس کتاب کے اقتباسات پیش کیے جاتے رہیں گے ۔
 
فہرست
تقریظ از امین احسن اصلاحی
دیباچہ از مولف
مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف کی اشاعت کے اسباب
پہلی بحث
دوسری بحث
تیسری بحث
چوتھی بحث
بیکتاشی فرقہ
نوربخشی سلسلہ
اکابر اہل سنت کی تصانیف میں تدلیس و تدسیس
پروفیسر سعید نفیسی کی رائے
حدیقۃ الحقیقۃ تالیف حکیم سنائی غزنوی
فوائد الفوائد ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء
جامی پر دست درازی
رومی کے دیوان اور ملفوظات میں الحاق
شیخ محی الدین ابن عربی پر ظلم
بعض دوسری مثالیں
باطنیت
باطنیت کے اثرات تصوف پر
استدراک
 
باذن اللہ جلد۔ اس کتاب کے بعض حصوں کو اس بلاگ پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن اصل مصنف کا حوالہ نہیں دیا گیا ۔ نجانے کیوں ۔
اسلامی ذخائر کتب میں باطل نظریات کی ملاوٹ پر ایک تحقیق

مصنف: بنیاد پرست ۔
http://bunyadparast.blogspot.com/2011/11/blog-post_08.html
 
تیسری بحث :
حضرت جعفر شیعوں کے چھٹے امام نے سن ۱۴۸ھ میں وفات پائی ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے متبعین میں دو گروہ پیدا ہوگئے ۔​
۱- جس نے ان کے چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کر لیا وہ آگے چل کر امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔​
۲- جنہوں نے ان بڑے بیٹے حضرت اسمعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسمعیلیہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ہمیں اس وقت اسی دوسرے گروہ کی مختصر داستان لکھنی مقصود ہے ۔​
یہ فرقہ اگر چہ شیعیت ہی کی ایک شاخ ہے مگر جن لوگوں نے اس فرقے کی رہنمائی کی انہوں نے اسے ایک تخریبی تحریک بنا دیا اور آگے چل کر یہ تحریک اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے شیعیت سے بھی کوسوں دور ہو گئی ۔ تاریخ اسلام میں اس تحریک کو ملاحدہ ، باطنیہ، تعلیمیہ ، اور قرامطہ کے رسوائے عالم لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے ۔ ہم ذیل میں اس کی مختصر داستان قلمبند کرتے ہیں کیونکہ یہی فرقہ دنیائے اسلام میں غیر اسلامی تصوف کا بانی ہے۔​
ص ۲۷​
واضح ہو کہ اس فرقے نے شروع سے عبداللہ بن سبا کے غالی عقائد {عقیدہء الوہیت علی ، رجعت وتناسخ ارواح و حلول} ہی اختیار کر لئے تھے ۔ پروفیسر براون " ایران کی ادبی تاریخ " جلد اول ص ۳۱۱ پر لکھتا ہے ۔ : " جو عقائد غلاۃ شیعہ میں مشترک ہیں وہ حسب ذیل چار عقائد ہیں :​
۱- تشبیہ {خدا کاانسانی شکل میں ظہور }​
۲- مشیت ایزدی میں تبدیلی {بدا}​
۳-امام کی واپسی {رجعت}​
۴-تناسخ {ایک امام کی روح کا دوسرے یعنی جانشین کی شخصیت میں حلول کر جانا}​
ظاہر ہے کہ یہ سب عقائد قرآن کے سراسر خلاف ہیں ۔ اسی لیے مسٹر سٹینلی پول اپنی تصنیف "داستان قاہرہ "مطبوعہ لندن سنہ ۱۹۰۶ء میں ص ۱۱۳ پر لکھتا ہے : " اپنی باطنی روح کے اعتبار سے فاطمیین کا مذہب محمڈنزم نہیں ہے ۔"​
ڈاکٹر اولئیری نے بھی اپنی تصنیف تاریخ خلفائے بنی فاطمہ مصر میں ص ۱۲ پر لکھا ہے " اسمعیلیہ فرقے میں شروع ہی سے غلاۃ شیعہ کی خصوصیات پیدا ہوگئی تھیں یعنی ۱ تاویل ۲ تجسیم ۳ حلول ۴ تناسخ روح امام بقالب دیگر ۔"​
اب ہم براون کی تاریخ جلد اول سے اس تحریک کی داستان قلمبند کرتے ہیں ۔ مہدی کے عہد حکومت میں المقنع نے خروج کیا ۔ اب خلکان نے اپنی مشہور تالیف وفیات الاعیان میں لکھا ہے کہ المقنع کا اصلی نام عطاء تھا اس نے جادو اور طلسمات میں مہارت حاصل کی اور خدائی کا دعوی کر دیا۔ اس نے اپنے پیرووں سے کہا کہ سب سے پہلے خدا نے آدم میں حلول کیا یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے سجدہ کیا الغرض خدا اسی طرح تمام انبیاء میں حلول کرتا کرتا ابومسلم خراسانی کے جسم میں داخل ہوا اور اس کی وفات کے بعد اب خدا نے میرے اندر حلول کیا ہے ۔ " {اس کے دعوے سے ایرانی ذہنیت کا اندزہ بخوبی ہو سکتا ہے ۔:} چونکہ یہ شخص نہایت کریہہ المنظر اور کانا تھا ۔ قصیرالقامت اور ہکلا تھا اور اپنے بدنما چہرے پر سنہرانقاب ڈالے رہتا تھا ۔ اسی لیے اسے المقنع کہتے ہیں۔ یہ شخص ۱۶۹ء میں قتل کیا گیا۔​
۲- مامون کے عہد میں بابک خرمی نے خروج کیا ۔ یہ شخص بھی الوہیت کا مدعی تھا۔ بقول طبری اس شخص نے بیس سال تک ایران میں شدید ہنگامہ برپا رکھا۔ انجام کار افشین نے ۲۲۳ھ میں اسے قتل کیا۔ المقنع اور بابک نے خدائی کا دعوی کر کے ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو گمراہ کیا اور بقول مسعودی {کتاب التنبیہ} بابک نے پانچ لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا ۔ ان دونوں کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عبداللہ ابن میمون القداح کی تخریبی سرگرمیوں کے لیے زمین ہموار کی ۔​
۳- ہٹی اور براون دونوں نے لکھا ہے کہ فرقہء اسمعیلیہ کی سیاسی تنظیم اور مذہبی عقائد کی تدوین کا سہرا عبداللہ بن میمون القداح کے سر ہے ۔ الفہرست میں مرقوم ہے کہ یہ شخص اہواز کا باشندہ تھا ۔ اس نے پہلے بصرے میں قیام کیا ۔ پھر سلامیہ شام کو اپنا مرکز بنایا اور یہاں سے تمام دنیائے اسلام میں اپنے دعاۃ کو اسمعیلی مذہب کی تبلیغ کے لیے روانہ کیا ۔ اس نے ۲۶۱ھ /۸۷۵ء میں وفات پائی۔​
۴-حمدان قرمط : یہ شخص القداح کا بڑا حامی تھا ۔ اس کانام حمدان بن اشعث تھا ۔ یہ دراصل عراقی کاشت کار تھا۔ چونکہ اس کی ٹانگیں بہت چھوٹی تھیں اس لئے اسے قرمط کہتے تھے ۔ اس نے اسمعیلی مذہب کو باطنی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ اور اسی لیے اسمعیلی باطنی فرقہ اس کے نام سے موسوم ہو گیا یعنی قرامطہ ۔ ققرامطہ نے الجنابی کی سربراہی میں آزاد ریاست قائم کر لی اور اس کے بیٹے ابوطاہر نے سن ۱۹۳۰ء میں مکے پر حملہ کر کے حجر اسود اکھیڑ لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ براوں جلد اول ص ۳۹۶ و ہٹی س ۴۴۳ ۔ یہاں قرامطہ کے مظالم کی داستان بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بطور نمونہ صرف ایک کارنامہ درج کر دیا ہے ۔ بقول براون انہوں نے سو سال تک سلطنت عباسیہ کو خوف زدہ رکھا۔​
القداح کے عقائد: اس نے اپنی تحریک کو اسماعیلی فرقے کے ساتویں امام اسمعیل سے منسوب کیا اس لیے اس تحریک کا نام اسمعیلی تحریک ہوا۔ مگر اس تحریک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلا سبعی، باطنی، تعلیمی ، فاطمی، قرمطی اور حشیشی لیکن مورخوں نے اس کو تحریک ملاحدہ کے لقب سے یادکیا ہے ۔​
 
اس تیسری بحث میں پروفیسر براؤن، مسٹر سٹینلے پول، ڈاکٹر اولئیری ، ہٹی کی آراء دی گئی ہیں جو اسمٰعیلیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔۔۔انکا تصوف سے کیا تعلق ہے؟۔ دوسرے یہ کہ کیا تصوف کے بارے میںاب ان غیرمسلم مستشرقین کی آراء معتبر ٹھہریں گی؟
 
وفیات الاعیان لابن خلکان ، الفہرست لابن الندیم ، کتاب التنبیہ از مسعودی اور طبری کے حوالے بھی موجود ہیں :-P
 
ہاں ویسے کتاب اچھی ہے آج کل تصوف کے نام پر جو مال ریڑھی والے صدا لگا لگا کر بیچتے ہیں وہ درحقیقت تصوف کا مصالحہ دار بُھرتا ہے۔اس سلسلے میں ایک اور اچھی کتاب جو اسماعیلیوں اور ارباب تصوف کے درمیان لنک کو واضح کرتی ہے وہ پطرس کے استاد پروفیسر محمد سعید کی مسلمانوں کی خفیہ اور باطنی تحریکیں ہے۔
 
القداح کے عقائد: اس نے اپنی تحریک کو اسماعیلی فرقے کے ساتویں امام اسمعیل سے منسوب کیا اس لیے اس تحریک کا نام اسمعیلی تحریک ہوا۔ مگر اس تحریک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلا سبعی، باطنی، تعلیمی ، فاطمی، قرمطی اور حشیشی لیکن مورخوں نے اس کو تحریک ملاحدہ کے لقب سے یادکیا ہے ۔
القداح کے عقائد حسب ذیل ہیں :
‌أ. اس مذہب میں سات کا عدد بہت مقدس ہے اور اس کے بعد بارہ کا عدد مثلا سبعہ سیارہ اور دو از دہ بروج ۔ ہفتے کے سات دن اور سال کے بارہ مہینے ۔
‌ب. اصول ہفت گانہ : خدا ، عقل کلی ، نفس کلی، انسان، مادہ ،زمان، مکان
‌ج. سات صاحب شریعت نبی یا رسول : آدم، نوح ، ابراہیم، موسی ، عیسی، آں حضرت صلعم اور محمد التام {کامل} ابن اسمعیل ابن جعفر۔
‌د. ہر رسول کے ساتھ جس کا لقب ناطق ہے ایک معاون بھی ہے جس کا لقب صامت ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے ۔ آدم کے ساتھ شیث ۔ نوح کے ساتھ سام۔ ابراہیم کے ساتھ اسمعیل۔ موسی کے ساتھ ہارون۔ عیسی کے ساتھ پطرس۔ آں حضرت صلعم کے ساتھ علی اور محمد بن اسمعیل کے ساتھ القداح ۔
‌ه. القداح نے اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے مبلغین تیار کیے ان کا لقب داعی تھا ۔ دعاۃ کا طریق کاریہ تھا کہ وہ جس شہر میں جاتے وہاں کوئی پیشہ مثلا تجارت یا طبابت اختیار کر لیتے ۔ سب سے پہلے وہ اپنے لوگوں کے دلوں میں اپنے متقی ، مقدس اور متورع ہونے کا نقش جماتے تھے ۔ جب لوگ ان کی بزرگی کے قائل ہو جاتے تھے تو وہ ان کے قلوب میں فلسفیانہ سوالات کے ذریعے سے شکوک و وساوس اور اضطراب پیدا کرتے تھے مثلا:​
1. خدا نے یہ دنیا چھ دن میں کیوں پیدا کی جب کہ وہ ایک ساعت میں پیدا کر سکتا تھا؟
2. صراط مستقیم کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
3. عذاب دوزخ کی حقیقت کیا ہے ؟ دوزخیوں کی کھال کس طرح بدلی جائے گی؟
4. رمئ جمار کی حقیقت کیا ہے ؟
5. دوزخ کے دروازے سات کیوں ہیں ؟ جنت کے دروازے آٹھ کیوں ہیں؟
6. آسمان سات کیوں ہیں؟ سورۃ فاتحۃ کی آیات سات کیوں ہیں ؟
7. کراما کاتبین ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
8. حاملین عرش آٹھ کیوں ہیں؟ {القرآن ۱۷-۶۹}
9. ابلیس کی کیا حقیقت ہے؟
10. یاجوج و ماجوج اور ہاروت و ماروت سے کیا مراد ہے ؟
11. تمام حیوانات میں انسان ہی دو ٹانگوں پر کیوں کھڑے ہو کر چلتا ہے ؟
12. ہاتھوں میں دس انگلیاں کیوں ہیں؟
13. چار انگلیوں میں تین تین پورے کیوں ہیں ؟ انگوٹھے میں صرف دو کیوں ہیں؟
14. صرف چہرے میں سات مخارج کیوں ہیں ؟ آٹھ یا نو کیوں نہیں؟ جبکہ باقی جسم میں صرف دو ہیں؟​
یہ سوالات تبلیغ کی ابتدا میں کیے جاتے تھے ۔ جب سننے والا مضطرب ہو جاتا تھا تو اس کے دماغ میں فلسفیانہ قسم کے شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے تھے ۔ اور جب وہ مبہوت ہو جاتا تھا تو داعی اس سے کہتا تھا کہ تمہارے علماء کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ لیکن اگر تم میرا مذہب اختیار کر لو تو میں تمہیں اسلام کی حقیقت سے آگاہ کر دوں گا۔ اس کی شرط یہ ہے کہ تم اپنی دولت یا کمائی میں سے ہماری تحریک کی مالی مدد کے لیے ایک رقم معین کر دو اور وعدہ کرو کہ جو تعلیم ہم تمہیں دیں گے تم اسے مخفی رکھو گے۔ اگر سامع اس شرط پر راضی ہو گیا تو اسے اس خفیہ جماعت کے پہلے درجے میں داخل کر لیا جاتا تھا۔ القداح نے ۹ درجے مقرر کیے تھے آخری درجے میں پہنچ کر طالب حق کو اسلام سے بیگانہ کر دیا جاتا تھا۔ مقریزی اور نویری لکھتے ہیں کہ آخری درجے تک پہنچنے کے بعد طالب کے لیے اباحت مطلقہ کا دروازہ کھل جاتا تھا اور عقائد کے لحاظ سے وہ شخص فلسفہء مشائین کا پیرو بن جاتا تھا۔ {دیکھو: تاریخ خلافت بنی فاطمہ مولفہ اولئیری ص ۲۸،۲۹} براون لکھتا ہے {جلد اول ص ۴۱۵}کہ آخری درجے پر پہنچ کر مرید مذہب سے بیگانہ ہو جاتا تھا اور فلسفی بن جاتا تھا ۔ بقول نویری وہ مانوی یا مجوسی یا فسلفیانہ عقائد اختیار کر لیتا تھا بلکہ اس کا مذہب مختلف عقائد و افکار کا مجموعہ بن جاتا تھا ۔

القداح اور قرمط دونوں نے اپنے متبعین کو جنہیں دعاۃ کا منصب دیا یہ نصیحت تھی کہ جس شخص کو تبلیغ کرو پہلے اس کے عقائد سے واقفیت حاصل کرو ۔ پھر اپنے آپ کو اس کا ہم خیال ظاہر کرو تا کہ وہ تم سے بدظن نہ ہو جائے ۔ جب وہ تم پر اعتماد کرے تو اس کے عقائد کو آہستہ آہستہ متزلزل کرنا شروع کرو۔ اس لیے ان دعاۃ نے ہر جگہ اسی حربے کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی ۔ [دیکھو:اولئیری کی تاریخ خلافت بنی فاطمہ س ۳۰، ۳۱]
چوتھی بحث:
جس زمانے میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں مسلمانوں میں تصف کا آغاز ہو چکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہو چکے تھے ۔ قرامطہ نے صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا ۔ یعنی تصوف کے لباس میں صوفیوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش کر کے ایران میں اس غیر اسلامی تصوف کی بنیاد رکھ دی ۔ جو رفتہ رفتہ تمام مسلمانوں میں شائع ہو گیا اور اسلامی تصوف کے ساتھ اس طرح مخلوط ہو گیا کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز کرنا عوام کے لیے ناممکن ہو گیا۔ کیوں کہ جاہل عوام ہر زمانے میں اور ہر ملک میں دین اسلام کی حقیقت سے بیگانہ رہے ہیں۔ یعنی غیراللہ کو دستگیر ، مشکل کشا اور حاجت روا مانتے رہے ہیں اور آج بھی مانتے ہیں ۔ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ایران کے اکثر باشندوں نے اسلام کو صدق دل سے قبول نہیں کیا تھا ۔ قرامطہ نے جو غیر اسلامی عقائد – جن کی وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے – تصوف کے لبادے میں ایرانیوں کے سامنے پیش کیے مثلا حلول ، اتحاد، تجسیم، تناسخ، وغیرہ وہ سب ایسے تھے جو قبل اسلام ایران کے مختلف طبقوں میں مروج تھے اس لیے ان لوگوں نے ان عقائد کو بخوشی قبول کر لیا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون سے چند اقتباسات ہدیہء ناظرین کر دئیے جائیں جو ایک غیر مسلم اے ای کرمسکی نے تصوف کے ارتقاء پر لکھا تھا اور جسے حال ہی میں اسلامک کوارٹر لی کے مدیر نے مجلہء مذکور کی جلد ششم برائے سال ۱۹۶۱ء میں درج کیا ہے :
" صوفی جماعت کے افراد اپنے آپ کو سنت کا سچا محافظ کہتے تھے لیکن ایران میں یہ لقب ان لوگوں نے بھی اختیار کر لیا تھا جن کے عقائد اسلام سے اس قدر بعید تھے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جہنمی قرار دے دیتے ۔ "۔۔۔
"یہ بات قابل غور ہے کہ جب ۸۶۴ء میں عبداللہ بن میمون القداح نے اسمعیلی فرقے کی اصلاح کی اور ان کو منظم کیا تو اس جماعت کے پوشیدہ طریق پر تبلیغ کرنے والوں کو یہ نصیحت کی کہ جب وہ مسلمانوں سے ملیں تو اپنے آپ کو صوفی ظاہر کریں تا کہ کسی کو ان پر شبہ کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ان جدید اسماعیلیوں نے ایران اور دوسرے ملکوں میں تصوف کو عوام میں بڑی حد تک مقبول بنا دیا لیکن اس خدمت کے معاوضے کے میں " انہوں نے تصوف میں ایسے غیر اسلامی رجحانات اور عقائد داخل کر دئیے جن کا اظہار چوتھی صدی ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔"
یہی مصنف اس رسالے کے صف ۸۷ کے حاشیے میں لکھتا ہے :
" اسمعیلی دعاۃ نے جو پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان آئے صوفیوں کا طریقہ اختیار کیا اور ہندووں سے کہا کہ حضرت علی رض وشنو کے دسویں اوتار تھے ۔ چنانچہ پیر صدرالدین نے اسی حکمت عملی سے کام لے کر بہت سے ہندووں کو اپنے مذہب کا پیرو بنایا۔ "
بخوف طوالت نہ تو میں قرامطہ کی یہ تاریخ اس کتاب میں درج کر سکتا ہوں اور نہ اس فتنہ وفساد کی تفصیل بیان کر سکتا ہون جو اس فرقے کے مبلغین نےدنیائے اسلام میں پھیلایا ۔ میرا مطلب اس داستان سے صرف اس قدر ہے کہ میں ناظرین کو یہ بتادوں کہ مسلمانوں میں غیراسلامی تصوف جسے اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ہے کس طرح شائع ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایضاح مقصد کے لیے بالکل کافی ہے ۔ اس فرقے کے افراد نے تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی جس طرح تبلیغ کی اور جس حکمت عملی سے کام لے کر اس کو سراسر غیر اسلامی بنا دیا اس کی مثالیں بیکتاشی سلسلے اور نوربخشی سلسلے کے صوفیوں کے عقائد سے بخوبی مل سکتی ہیں۔
بیکتاشی فرقہ
صوفیوں کے اس فرقے کی تاریخ ڈاکٹر جے کے برج نے اپنی کتاب "درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ " میں مفصل طور پر لکھی ہے بخوف طوالت صرف چند اقتباسات پر اکتفا کرتا ہوں :
"اس سلسلے کا بانی حاجی بیکتاش ولی تھا جو ۶۸۰ ھ / ۱۲۸۱م میں خراسان {اسمعیلی دعاۃ کے مرکز} سے اناطولیا آیا تھا اس نے ۷۳۸ھ /۱۳۳۷م میں وفات پائی ۔ ترکوں میں اس سلسلے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ اس سلسلے کے عقائد حسب ذیل ہیں ۔
۱- اللہ حقیقت واحدہ ہے ۔
۲- محمد اور علی دونوں اللہ کے مظاہر خاص ہیں ۔
۳- اللہ ، محمد اور علی تینوں میں عینیت کا علاقہ ہے ۔
۴-محمد اور علی حقیقت میں ایک ہیں یا ایک شخص کے دو نام ہیں ۔
ان چار عقیدوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے کے صوفیوں کو اسلام سے کتنا تعلق تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سلسلے کے صوفیوں کے جو عقائد ہیں اس کا اندازہ خطبۃ البیان سے ہو سکتا ہے جو اس سلسلے میں بہت معتبر کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ حضرت علی رض فرماتے ہیں :
1) – میرے پاس مفاتیح الغیب ہیں جن کو محمد {صلی اللہ علیہ وسلم } کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نیز عزرائیل{ملک الموت} میرا تابع فرمان ہے ۔
2) – میں لوح محفوظ ہوں ، میں حجۃ اللہ ہوں، میں حجۃ الانبیاء ہوں۔
3) میں قسیم النار والجنۃ ہوں ، میں اللہ کا دل ہوں ، میں نوح اول ہوں۔
4) میں ذوالقرنین ہوں ، میں عالم کا ماکان وما یکون ہوں۔ میں منشئ السحاب ہوں ۔ میں مطرّ الانہار ہوں۔ میں قیوم السماء ہوں ۔
یہ کتاب ۱۹۳۷ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے ۔ مزید معلومات کے لیے ناظرین بطور خود اس کتاب کا مطالعہ فرما لیں ۔
 
غلط اور صحیح ہر چیز میں ہوتا ہے۔
توحید کے بھی دو پہلو ہیں، (ایک خوارج و وہابیت والا، دوسرا صحابہ و آئمہ والا۔)
نیکی کے بھی دو پہلو ہیں، (ایک دکھاوے والا اور دوسرا خلوص والا)
صالح اعمال کے بھی دو پہلو ہیں، (ایک سنت والا، ایک بدعت والا)
بدعت کے بھی دو پہلو ہیں، (ایک بدعت وہ جس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اور دوسرا وہ جس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے)
قران اور حدیث تک کے دو پہلو ہیں۔ (ایک ظاہر والا جس کے حوالے سے نبی ﷺ نے خوارج کو کہا تھا کہ یہ قران کا تلاوت کرنا ان کے نرخرے سے نیچی بھی نہیں اترے گا، اور دوسرا باطنی)
اسی طرح تصوف کے بھی دو پہلو ہیں، (ایک صریح کھلی بدعت اور شرک کا پہلو اور دوسرا توحید ہی توحید)

خیر غیر اسلامی تصوف کی بات تو ایک الگ ہی ہے۔ کچھ لوگ تو اسلام میں تصوف کا وجود ہی نہیں مانتے۔ سرے سے تصوف کے منکر ہیں، اولیاءاللہ کو مشرک اور کافر تک کہہ دیتے ہیں۔
افسوس کہ تصوف کے خلاف آج وہ لوگ زبان کھولتے ہیں جو خود اپنی ذات کو بھی نہیں جانتے، جو آئمہ، فقہائے کرام، بلکہ صحابہ کے اقوال کو بھی حجت نہیں مانتے۔
افسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو خوارج کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں، قران اور احادیث ان کے گلے سے آگے بھی نہیں بڑھ پاتے۔
جس طرح خوارج قران قران کرتے تھے اس طرح یہ لوگ بھی ظواہر کے اسیر ہوگئے۔
نہ ان میں کوئی تقوی رہا، نہ کسی بزرگ کا احترام، چاہے کوئی کتنا ہی بڑا اور عظیم فقیہ یا بزرگ کیوں نہ ہو اس پر تنقید بلکہ فحش گالیوں تک سے بھی گریزاں نہیں رہتے۔
مگر انہیں کون سمجھائے کہ دین ظواہر کا نہیں بلکہ بواطن کی وجہ سے آج تک چل رہا ہے۔
بیشک تصوفی اصطلاحات، اس کی پیچیدگیاں اور اس سے علاقہ رکھنے والے مسائل کے نام پہلے نہیں تھے، لیکن تصوف ہر دور میں موجود رہا ہے۔ تزکیۂ نفس ہر دور میں ہوا۔ تصوف کے منکرین اہل ظاہر اپنی نفسانی خواہشات میں اتنے غرق ہیں کہ انہیں امام کسی ولی کا چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر پڑھنا بھی ریا کاری لگتا ہے، ان کے بقول یہ بزرگان ایک دن میں 30 قران اس لئے ختم کرتے کہ دنیا میں ہماری شہرت ہو اور عالمی ریکارڈ بن جائے۔ (استغفر اللہ)
سوال یہ ہے کہ اگر تصوف موجود تھا تو اس کی اصطلاحات کیوں موجود نہیں تھیں؟
اس بات کا جواب بس اتنا سا ہے کہ تصوف ایک مکمل فن کی صورت میں بنتے بنتے بنا۔ اس کی اصطلاحات بھی اتنی ہی بدعت ہیں جتنی حدیث میں فنِ جرح و تعدیل کی اصطلاحات بدعت ہیں۔
جس طرح صحیح، ضعیف، مرسل، مرفوع، موضوع روایات کا نہ قران میں ذکر، نہ حدیث میں ذکر، نہ نبی نے کسی حدیث کو صحیح و ضعیف فرمایا نہ خدا نے، اسی طرح تصوف بھی ہمیشہ سے ہے۔ مگر پہلے کے لوگ اتنے عابد اور متقی تھے کہ انہیں اللہ کے قرب کے لئے کسی فن کے منظم طریقوں کی ضرورت نہ تھی۔ البتہ بیعت موجود تھی، اور یہی وہ لڑی ہے جو انسان کو نبیﷺ سے ملائے رکھتی ہے، اور نبی ﷺ انسان کو خدا سے ملانے کا ذریعہ۔
 

ظفری

لائبریرین
اس حوالے سے میری کچھ پرانی پوسٹیں ۔۔۔۔ نیا قاری ہمیشہ ایک ہی ٹاپک مختلف حوالوں سے لے آتا ہے ۔ اور ہر دفعہ نئی بحث بھی ممکن نہیں رہتی ۔

مسلمان جب زوال آشنا ہوئے تو ان کے علماؤں اور لیڈروں نے زوال پذیری کی جوتشخیص کی انتہائی غلط کی اور جو علاج تجویز کیا وہ بھی غلط کیا ہے ۔ دیکھیں۔۔۔ پچھلے دو تین سو سالوں سے کیا تشخیص کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی خلافت کا استحکام قائم نہیں رکھا اور جہاد کو ترک کردیا ہے ۔ اگر اب بھی وہ جہاد کرنے کے لیئے نکل کھڑے ہوں‌ تو اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ دنیا پر ان کا تسلط قائم کردے گا ۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے زوال کے اصل حقائق جاننے کے بجائے اس تشخیص کو صحیح جانتے ہوئے اس نسخہ کو آزمانا شروع کیا ۔ پچھلے دو تین سو سالوں میں مسلمانوں نے اس نوعیت کے جتنے بھی اقدامات کیئے ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوا ۔ اور یہ اقدامات آپ اور میرے جیسوں لوگوں نے ہی نہیں کیئے بلکہ بڑے صالحین ، بہت نیک لوگوں نے بھی کیئے ۔ مگر سب ناکامیابی سے ہمکنار ہوئے ایک بھی کامیاب نہیں‌ ہوا ۔ اور آج بھی مسلمانوں کی لیڈرشپ میں‌ کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ آج بھی ان کا درس یہی ہے کہ تم لوگوں پر کچھ لوگوں نے سازشیں کرکے غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ سارا قصور انہی لوگوں کا ہے اور تم لوگ باہر نکلو اور ان سے لڑنے مرنے لیئے تیار ہوجاؤ۔ اور آج اسی نسخے پر عمل کرتے ہوئے ہماری کیا حالت ہوگئی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔

اگر زوال پذیری کے عوامل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دوسری اور تیسری صدی کے بعد مسلمانوں کے علم و عمل کا محور قرآن نہیں رہا ۔ جو آدمی مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ رکھتا ہے اسے اس بات کا بخوبی علم ہوگا ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کو وسعت دی ۔ تو بجائے اس کہ وہ سائنسی اور طبعی علوم کی طرف بڑھتے ان کی دلچسپی کا مرکز فلسفہ اور تصوف بن گیا ۔ بڑے بڑے ذہین لوگ اسی طرف راغب رہے ۔ اور اب جن چند سائنسدانوں کا لوگ ذکر کرتے ہیں تو مغرب کی سائنسی ترقی سے متاثر ہوکر کرتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس دور میں ان کی کبھی بھی قدر نہیں کی ۔

جب سے تصوف کا مسلمانوں میں رواج ہوا ہے ہمیشہ دو آراء رہیں ہیں ۔ ایک نکتہِ نظر یہ رہا ہے کہ یہ دین کی تصحیح تعبیر ہے ۔ اس میں دین کی حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر جہدو جہد کی جاتی ہے ۔ اور تصوف آپ کو بتاتا ہے کہ ان احکامات کے پیچھے اصل چیز کیا ہے جسے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دوسرا نکتہِ نظر ان لوگوں کا رہا ہے ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں دین کے اصولوں کے برخلاف کچھ اور اصولوں پر اس سارے علم کی بنیاد رکھی گئی ہے اور عمل کے معاملے میں بھی کچھ ایسے حدود قائم کردیئے گئے ہیں جو دین کے حدود سے تجاویز ہوگئے ہیں ۔ یہ دوسری رائے بھی معمولی درجے کے لوگوں کی نہیں ‌رہی ہے بلکہ آئمہ اسلام میں بڑے بڑے بزرگوں کی ہیں ۔

ان دو آراء کے بعد مقدمے کی نوعیت کچھ اس طرح بنے گی کہ تصوف کا معاملہ وہ نہیں‌ جو دین کا ہے ۔ دین کے بارے میں آپ کچھ جاننا چاہیں گے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ مذہب کی مستند ترین چیز قرآن مجید ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں ۔ اگر اسلام سے پہلے الہامی مذاہب پر گفتگو کرنی مقصود ہو تو وہاں تورات ، انجیل اور زبور ہیں ۔ چنانچہ اگر میں کسی چیز کے بارے میں یہ کہوں کہ یہ " دین " ہے تو میرے پاس اس کے ماخذ کے ساتھ دلائل اور ثبوت بھی موجود ہونگے ۔ تصوف کے معاملے میں کچھ ایسا نہیں ہے ۔ تصوف کے بارے میں جن بڑے بڑے لوگوں نے تحقیق کرکے لکھا ہے ۔ اور ان کی تحقیق اور لکھنے کے نتیجے میں تصوف ، علم کی دنیا میں قابلِ اعتناء بنا ہے ۔ ان میں شیخ محب الدین ابن عربی ہیں، غزالی ہیں ، ابوطالب مکی ہیں ، ابنِ تیمیہ ہیں ، ابو اسماعیل ہیں ، شاہ ولی اللہ ہیں ،شیخ سرہندی ، شاہ اسمعیل اور بہت سے جلیل والقدر علماء شامل ہیں ۔

اگر اس درجے کے لوگ تصوف کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے تو پھر تصوف قابلِ اعتناء اور قابل ِ تبصرہ نہیں بنتا ۔ اور اگر اس درجے کے لوگوں نے تصوف کے بارے میں لکھا ہے تو پھر قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے کہ تصوف کا قرآن و سنت سے کیا تعلق بنتا ہے ۔ اور تعلق کو دیکھنے کے لیئے یہ بات بھی مدِ نظر رہنا چاہیئے کہ خود اربابِ تصوف کے ہاں یہ تفریق موجود ہے کہ جب وہ عوام کیساتھ گفتگو کرتے ہیں تو وہی باتیں بیان کرتے ہیں جو میں اور آپ بیان کرتے ہیں کہ وہی روزہ ، وہی نماز ، حج ، وغیرہ ۔ مگر جب وہ خواص کے لیئے دین کو بیان کرتے ہیں تو وہاں پھر وہ اپنا خاص نکتہ نظر بھی بیان کریں گے ۔ اگر خواص کے لیئے جو بات بیان کی جا رہی ہے ، وہ دین کی روح ہے اور دین کے دائرے میں ہے تو پھر کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ۔ لیکن اگر وہ دین سے ماوراء دوسری دنیا بنا دیتی ہے ( جو کہ بنا دیتی ہے ) تو پھر یہ ضرور غور کرنا چاہیئے کہ اس کی دین کے ساتھ کیا مناسبت پیدا ہوتی ہے ۔ دین دو چیزوں کا نام ہے ۔ ایمان اور عمل ۔ایمانیات کی بنیاد توحید ہے ۔ رسالت اور قیامت کا تصور ہے ۔ عمل میں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دین نے یہاں کیا حدود مقرر کردیئے ہیں کہ جس کے تحت ہم نجات پائیں گے ۔ اور وہ جگہ کیا ہے جہاں‌دین کا جمال و کمال ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ یہ ساری باتیں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی بیان ہوگئیں ہیں ۔ اس روشنی میں جب آپ جائزہ لیتے ہیں تصوف کی کوئی اور ہی شکل سامنے آتی ہے ۔ مگر یہاں سے اگر بات آگے بڑھے گی تو پھر اس کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا ۔

دین بذات خود دو مقاصد رکھتا ہے یعنی دین تزکیہ نفس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔اس حوالے سے دین کی حیثیت انقلاب کی سی ہے ۔ اور انقلاب کے لیئے ضروری ہے کہ اس میں ٹہراؤ نہ آئے ، جمود کا شکار نہ ہو ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی انقلابات دنیا میں آئے ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشی ، وہ انتشار کا شکار ہوئے ۔ ان پر جمود کا غلبہ ہوا ۔ اسی نتیجے میں فرقہ پیدا ہوئے ۔ مختلف مکتبِ فکر کا وجود پذیر ہوا ۔ اختلافِ رائے نظر آئے ، اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی بہت سی تبدیلوں نے جنم لیا ۔ حکومتوں نے بھی اپنے رنگ بدلے ۔ مثال کے طور پر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی ۔ جبر اور استبداد کا عمل شروع ہوگیا ۔اس دوران جتنے بھی عالم اور مبلغ تھے ۔ ان ایک بڑی صف ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر آگئی ۔ جس سے کئی قسم کے رویوں پیدا ہوئے ۔ جس میں اک رویہ صوفی ازم کا رویہ ہے ۔ اور میرا خیال ہے تاریخی طور پر صوفی ازم کو صوفی ازم بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی یونیفائید یا آرگنائزیڈ تحریک نہیں ہے ۔ اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے ۔ جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو ۔ دین کے راستے سے لوگ ہٹ رہے ہوں ۔ یعنی آپ اپنے مقصدِ اولیٰ سے ہٹ جاتے ہیں تو ذاتیات میں جو تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ۔ صوفیوں کے ہاں اجتماعیت کے مسائل کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آئے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ دورِ انحطاط میں تھا ۔ جبر و استبداد دین اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے ۔ اس وقت صوفیاء نے دین کی اشاعت و ترویح اور معاشرے کی اصلاح کا کام نہیں کیا ۔ صرف تزکیہ ِ نفس پر اکتفا کیا ۔ جو کہ سو فیصد انفرادی عمل تھا ۔ وہ دین کی ان توجہات اور تشریحات میں الجھے رہے جن میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا ۔ ان توجہات اور تشریحات پر تو جابر حکمران بھی اختلاف نہیں رکھتے تھے کہ ہم قرآن یا رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ لہذا جو کیا جارہا تھا وہ دین کے مقصدِ اولیٰ یا بنیادی مقاصد سے مکمل انحراف تھا ۔

خرم بھائی ۔۔۔ یہ آپ ہی کی پوسٹیں ہیں ۔ جنہیں میں‌نے کلرڈ کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ جو آپ کو "بتایا" اور " سمجھایا " گیا ہے وہ باتیں کہاں سے اخذ کیں گئیں ہیں ۔ اور اگر وہ باتیں ( عقائد) کہیں سے اخذ کی گئی ہیں تو ان کا ماخذ کیا ہے ۔ اور اگر آپ ان باتوں کو کا تعین کردیتے ہیں تو پھر آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتایئے کہ باتیں قرآن و سنت میں‌ کہاں بیان ہوئیں ہیں ۔ ایمانیات کے بارے میں میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تین چیزوں پر مشتمل ہے ۔ توحید ، رسالت اور قیامت کا یقین ۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس گفتگو کو جاری رکھنے سے پہلے صوفیاء کی کتابیں پڑھ لیں ۔ اور دیکھیں کہ انہوں نے کیا کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ سب سے پہلے " توحید " پر ان کے عقائد پڑھ لیں ۔ پھر اس کے بعد نبوت اور دیگر ایمانی عقائد پر بات ہوگی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ جیسا قابل شخص " ہمیں یہی بتایا گیا ہے " اور " یہی سمجھایا گیا ہے " کہہ کر بحث سے بری الذمہ ہوجائے ۔
خلیل بھٹو نے جو اقتباسات یہاں پوسٹ کیئے ہیں ۔ وہ کتاب کے مصنف کے اپنے تجزیئے اور خیالات نہیں ہے ۔ بلکہ انہی صوفیاء کے کتب سے اقتباسات پیش کیئے ہیں‌ ۔ اگر آپ کو کتاب کے مصنف سے کوئی اختلاف ہے تو مذکورہ کسی بھی صوفی کی کتاب خود پڑھ لیں اور پھر بتائیں کہ ان کے عقائد اور قرآن و سنت کے کی تعلیمات میں کیا مماثلت ہے ۔ ؟ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان جس شرط کو بیان کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ ان کی طریقت کس طرح شریعت کے احکامات سے مماثلت رکھتی ہے ۔ شہاب الدین سہروردی تو اپنے الہام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ " لاء یتی باطل البین یدھ خفلیہ " یہ ان کے الفاظ ہیں ۔ میرا خیال ہے صوفیاء کی کتابیں ہم نے نہیں پڑھیں ہیں ۔اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہے کہ انہوں‌نے کیا کچھ لکھا ہے ۔ میں جب پہلے بنیادی ایمان " توحید " پر بات کرتا ہوں ۔ تو آپ توحید کی پہلی ، دوسری اور تیسری قسموں کو بیان کرتے ہیں تو میں پوچھوں گا کہ اس توحید کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ یعنی میں یہ بات تو جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ اور مجھے اس کے سامنے ہی سربجود ہونا ہے ۔ وہ زمیں‌و آسماں‌کا خالق ہے ، کوئی ا سکا ثانی نہیں ہے ۔ یہ ساری توحید تو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ اس کی تفصیر صوفیاء آٹھ ، دس صفحات میں کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کے بعد یہ ساری توحید جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ یہ توحید " توحیدِ عامہ " ہے ۔ آؤ اب ہم بتاتے ہیں کہ " اخصا الاخواص " کی توحید کیا ہے ۔ اور اگر آپ اس توحید کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو آپ پر یہ بات واضع ہوجائے گی کہ صوفیاء کرام نے کس طرح دین کی حدود سے باہر قدم رکھا ہے
 
Top