اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا حالیہ سکینڈل

جاسمن

لائبریرین

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منشیات اور غیر اخلاقی ویڈیوز کا اسکینڈل؛ معاملہ ہے کیا؟​

جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منشیات اور غیر اخلاقی ویڈیوز کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔اس کیس میں پولیس یونیورسٹی کے طلبہ کے منشیات استعمال کرنے سے متعلق مزید تفصیلات سامنے لائی ہے۔

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد یونیورسٹی کے دو اعلیٰ افسران کو معطل کر دیا گیا ہے جن میں چیف سیکیورٹی افسر میجر (ریٹائرڈ) سید اعجاز حسین شاہ اور ڈائریکٹر فنانس پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر شامل ہیں۔

ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ساؤتھ پنجاب نے یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کرکے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے سربراہ ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنز کالجز ساؤتھ پنجاب ڈاکٹر فرید شریف ہیں جب کہ تین ممبران کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کمیٹی سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ساؤتھ پنجاب کو اگلے تین روز میں سفارشات پیش کرے گی۔

دوسری کمیٹی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر نے قائم کی ہے ۔

یونیورسٹی ترجمان کے مطابق دو افسران کے منشیات کے استعمال اور فروخت کے الزام میں گرفتاری کے بعد ایک اعلی اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر راؤ سعید احمد ہوں گے جب کہ کمیٹی میں پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد ، پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار اور محمد بلال ارشاد شامل ہیں۔

یہ کمیٹی دونوں افسران کے خلاف الزامات کی جامع تحقیق کرائے گی اور تمام ڈیجیٹل ، فزیکل اور دیگر گواہیوں پر مبنی مواد کا جائزہ لے کر تفصیلی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی تحقیقات میں الزامات ثابت ہونے پر افسران کے خلاف انضباطی کارروائی کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔

اسکینڈل کب سامنے آیا؟

رواں برس 28 اور 29 جون کی درمیانی شب تھانہ بغداد الجدید پولیس نے یونیورسٹی کے شعبہ اکائونٹس اینڈ فنانس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر کو سڑک سے حراست میں لیا۔

پولیس نے ان کے قبضے سے چھ گرام آئس اور جنسی ادویات برآمد کرنے کے الزام مقدمہ درج کرکے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا جنہیں بعد ازاں عدالت سے ضمانت پر رہائی مل گئی۔

ایسا ہی دوسرا واقعہ 20 جولائی کی رات 9 بج کر 10 منٹ پر پیش آیا جب بہاولپور کے تھانہ بغداد الجدید کی پولیس معمول کی گشت پر تھی کہ شبہ ہونے پر سفید کار کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن کار چلانے والے نے تیزی سے واپس مڑنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے کچھ ہی فاصلے پر اسے روک لیا۔
سب انسپکٹر افضل نواز کی مدعیت میں درج مقدمہ کے مطابق پولیس نے اس گاڑی اور کار ڈرائیور کی تلاشی لی جس نے اپنا نام سید اعجاز حسین شاہ بتایا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق اعجاز حسین شاہ کی جیب سے ایک عدد سیاہ پرس اور جنسی ادویات برآمد ہوئیں۔ پرس کی تلاشی کے دوران ٹرانسپیرنٹ مومی کاغذ میں لپٹی ہوئی 10 گرام کرسٹل آئس بھی بر آمد ہوئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزم کی بائیں جیب سے دو عدد موبائل فون بھی برآمد ہوئے جن کے پاس ورڈ کھلوائے گئے اور جائزہ لیا گیا تو دونوں میں مبینہ طور پر متعدد فحش ویڈیوز اور خواتین کی تصاویر موجود تھیں۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم نے بتایا کہ وہ اسلامیہ یونیورسٹی میں چیف سیکیورٹی افسر ہے اور مبینہ طور پر اس کے فون میں موجود فحش مواد اسلامیہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے عہدے داران اور طالبات کا ہے۔

ایف آئی آر میں ملزم کے حوالے سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ کرسٹل آئس اور جنسی ادویات کا ذاتی استعمال بھی کرتا ہے اور اس کی فروخت میں بھی ملوث ہے۔

’معاملے کی تحقیقاتی ٹیم کو حقائق بتا دیے‘

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکیورٹی افسر کو گرفتار کرنے والے بہاولپور پولیس کے سب انسپکٹر محمد افضل نواز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو اپنا بیان قلم بند کرا چکے ہیں۔

پولیس افسر نے بتایا کہ زیرحراست ملزم اعجاز حسین شاہ تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے جسے آج پیر کے روز دوبارہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ کے دوران یونیورسٹی کے دو اعلیٰ افسران کی گرفتاری سے پہلے یونیورسٹی کے ٹرانسپورٹ انچارج الطاف کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے جس کے قبضے سے آٹھ گرام آئس برآمد ہوئی تھی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ افسران پر درج مقدمات پروپیگنڈا اور جامعہ کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش ہے اور پرائیویٹ سیکٹر مافیا پولیس کو اپنے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کر رہا ہے۔
یونیورسٹی افسران کے خلاف مقدمات سازش ہیں: قانونی مشیر کا دعویٰ

ایڈووکیٹ فاروق بشیر ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے قانونی مشیر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی افسران کو جعلی مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔


ان کے بقول" عین داخلوں کے موقع پر یونیورسٹی میں منشیات اور جنسی ہراسانی کا پروپیگنڈا کرکے والدین اور طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ "

یونیورسٹی کے 113 طلبہ پر منشیات رکھنے کے مقدمات ہیں؛ ڈی پی او کا دعویٰ

بہاولپور کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سید محمد عباس یونیورسٹی کے قانونی مشیر کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرانزک رپورٹ آنے پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

ضلعی پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم کسی ادارے سے تعصب نہیں رکھتے ۔ اس معاملے کی اگر عدالتی تحقیقات کرائی جائیں یا صوبائی سطح پر تحقیقات ہوں تو ہم پورا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اور تمام حقائق مجاز فورم پر پیش کریں گے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جامعہ میں منشیات کے ریکارڈ یافتہ 113 زیرِ تعلیم طلبہ کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے خلاف منشیات ایکٹ 9 سی کے تحت مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ پولیس ان طلبہ اور مقدمات کی فہرست فراہم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

ان کے مطابق منشیات میں ملوث طلبہ کے جامعہ میں پڑھنے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا قصور نہیں بلکہ اسکریننگ کا مسئلہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر سطح پر اسکریننگ ہونی چاہیے تاکہ جب ہماری بچیاں وہاں پڑھنے جائیں تو ہمیں ان سے متعلق کوئی خوف نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹارگٹ منشیات فروش اور اس کا استعمال کرنے والے ہیں، یونیورسٹی انتظامیہ نہیں۔ ایسی چیزوں کے تدارک کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو خود برے لوگوں کو ایکسپوز کرنا چاہیے اور ہر سطح پر اسکریننگ ہونی چاہیے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے کہا کہ ادارے میں طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس نے جن افراد کو حراست میں لیا ہے ان کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ان پر پولیس نے کوئی جعلی کیس بنایا ہے۔

ڈی پی او سید محمد عباس کا کہنا ہے کہ پولیس ملزم سے برآمد شدہ اشیا کی بنیاد پر کارروائی کرتی ہے۔ پولیس موبائل فونز کے ڈیٹا سے برآمد ہونے والے کلپس کی روشنی میں خود سے جنسی ہراسانی کیس پر تاحال کارروائی نہیں کرنا چاہتی کہ اس سے کسی بچی کا مستقبل تباہ ہو سکتا ہے تاہم اگر کوئی متاثرہ خاتون شکایت لے کر آئے گی تو ہم ضرور کارروائی کریں گے ۔

سید محمد عباس نے کہا کہ پولیس کی ٹیمیں شواہد اکٹھے کر رہی ہیں۔ اگر اس اسکینڈل میں مزید نام سامنے آئے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

’تمام شعبوں کے سربراہان کے خون کا ٹیسٹ کیا جائے گا‘

یونیورسٹی کے ترجمان شہزاد احمد خالد نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کے مطابق انسدادِ منشیات اور انسداد ہراسانی پر زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہےاور ان میں ملوث کسی بھی افسر یا تدریسی عملے کے رکن کا محاسبہ کیا جائے گا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ تدریسی اور غیر تدریسی شعبوں کے سربراہان کے خون کے نمونوں کا ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ ملوث افراد کو سامنے لاکر سزا دی جاسکے۔

ترجمان نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پانچ ہزار ملازمین ہیں اور 65 ہزار طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ چند واقعات کی بنا پر سارے ادارے کے خلاف منفی مہم درست نہیں ہے۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر محمود اشرفی نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے معاملے پر کہا ہے کہ یونیورسٹی کی طالبات اور ان کے والدین سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم سے سخت پریشان ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص قصور وار ہے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پروپیگنڈا مہم بند کی جائے اور تعلیم کے لیے جانے والی طالبات اور ان کے والدین کو پریشان نہ کیا جائے۔
 
Top