استاد کاشف عمران کامل (ویلڈنگ، ترکھانی، ماسٹری اور اب شاعری)

ن

نامعلوم اول

مہمان
کچھ ہی دیر قبل "اساتذہ شعراء" والے دھاگے میں، مہربان و مربّی محمد بلال اعظم صاحب نے میرا نام بھی شامل کر دیا۔ پہلے تو ایک "شاک" لگا۔ پھر جب اوسان بحال ہوئے تو جی میں عجیب عجیب خیال اور یادیں آنے لگیں۔ پہلے تو سوچا سب وہیں لکھ دوں۔ مگر وہاں موجود اساتذہ کے دبدبے نے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اس لیے "استادی" ملنے کے بعد ذہن میں آنے والے عظیم الشّان خیالات کو اس دھاگے میں لکھ رہا ہوں۔

زندگی میں سب سے پہلے مجھے "استاد" کا خطاب اس وقت ملا تھا، جب ویلڈنگ میں ہاتھ صاف کرنے کے بعد، میں نے تنِ تنہا ایک کھڑکی کا جنگلا بنایا تھا۔ کیا عظیم دن تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا اب عمر بھر روزگار کے معاملے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ مگر برا ہو آنکھوں کی الرجی کا۔ سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ اور مجھے نئے سرے سےایک ترکھان کی شاگردی کر کے پھر سے "چھوٹو" بننا پڑا۔

کچھ طبیعت کی تیزی، کچھ میری محنت چند دنوں میں یہاں بھی کام میں ہاتھ بیٹھ گیا۔ استادی مگر اب بھی دور تھی۔ پھر نصیبوں نے یاوری کی۔ ایک دن لیا قت "استاد" ایک پرانی لکڑی سے کیل نکال رہے تھے۔ ہاتھ پھسلا، اور کیل نکل کر سیدھا ان کی دائیں آنکھ میں جا گھسی۔ ذبح ہوتے بکرے جیسی آواز ان کے حلق سے نکلی۔ اوزار پھینک کر وہیں زمین پر لیٹ گئے۔ اور آنکھ پر ہاتھ رکھے کیل کے شجرہءِ نسب پر شکوک کا اظہار کرنے لگے۔ قصہ مختصر، کانی آنکھ کی وجہ سے وہ اب مزید "استادی" کے قابل نہ رہے۔ اور مجھے مجبورا "چھوٹو" سے "استاد" بنانا پڑا کہ کارخانہ بھی چلانا تھا!

تیسری مرتبہ مجھے استادی کا شرف ایک پرائیویٹ اسکول میں عربی کا معلّم بن کر ملا تھا۔ اس کا قصہ میں پہلے لکھ چکا۔ دہرانے کا فائدہ نہیں۔ جس نے نہ پڑھا ہو، میرے مکرر تعارف، المعروف بہ "ٹارزن کی واپسی" میں جا کر پڑھ لے۔

آج یہ زندگی میں چوتھا موقع ہے کہ میرے نام کے ساتھ "استاد" کا لفظ جڑا ہے۔ جو احباب مجھے جان چکے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ میں بہت سی اہم باتیں شعر کی شکل میں کرتا ہوں۔ تو پھر آج استادی کی خوشی میں شعر کیوں نہ ہوں۔ اور چونکہ خوشی استادی کی ہے، تو فارسی لازم ٹھہری:

من کہ استادم، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
قافیہ گر در نمی یابم، تو پھر گُڑگُڑ کنم
شب نمی خوابم اگر تو پھر بہ ہنگامِ صبوح
چائے می نوشم، اگر ہو گرم تو سُڑ سُڑ کنم
جب گلی میں سگ قریب آجائے، دھتکاروں اسے
اور وہ نہ بھاگے تو پھر میں چیخ کر ہُڑہُڑ کنم
صبر سے بیٹھا ہوا ہوں میں وَ اِن آذَیتَنِی
پھر مثالِ صیدِ بسمل بسکہ من پھُڑپھُڑ کنم
سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد
چھوڑ دوں اردو، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
-----------------​
 

فاتح

لائبریرین
ن

نامعلوم اول

مہمان
ن

نامعلوم اول

مہمان
من کہ استادم، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم​
قافیہ گر در نمی یابم، تو پھر گُڑگُڑ کنم​
شب نمی خوابم اگر تو پھر بہ ہنگامِ صبوح​
چائے می نوشم، اگر ہو گرم تو سُڑ سُڑ کنم​
جب گلی میں سگ قریب آجائے، دھتکاروں اسے​
اور وہ نہ بھاگے تو پھر میں چیخ کر ہُڑہُڑ کنم​
-----------------​

بہت خوب۔ ماشا اللہ
صرف تین اشعار سے کام نہیں چلنے کا جناب۔غزل مکمل کیجیے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب۔ ماشا اللہ
صرف تین اشعار سے کام نہیں چلنے کا جناب۔غزل مکمل کیجیے
میں رک گیا کہ خواہ مخواہ نئی نئی "استادی" ضائع ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمائش کی تو یہ لیجے غزل مکمل۔ استادی کے نشے میں اب کی بار کچھ عر بی بھی۔ اب مان گئے "استاد"؟​
صبر سے بیٹھا ہوا ہوں میں وَ اِن آذَیتَنِی​
پھر مثالِ صیدِ بسمل بسکہ من پھُڑپھُڑ کنم​
سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد​
چھوڑ دوں اردو، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم​
 
Top