اساتذہ کرام غزل کی اصلاح فرما دیں

RAZIQ SHAD

محفلین
سرخ جوڑے میں بھلی لگتی ہو
پھول لگتی ہو کلی لگتی ہو
ہم نے سیکھی ہے عبادت تم سے
شہرِ عصیاں میں ولی لگتی ہو
حرف خستہ و شکستہ سارے
ایک تم ہو کہ جلی لگتی ہو
عرصہ زیست ہے شیریں تم سے
تم کہ مصری کی ڈلی لگتی ہو
صبحِ گلشن ہی کی تمثیل ہو تم
رات ہو بھی تو ڈھلی لگتی ہو
آگ پانی میں لگا دی تم نے
تان کی رام کلی لگتی ہو
شادؔ بھی چشم و چراغِ رنداں
تم بھی نازوں کی پلی لگتی ہو
مطلع کے بعد شعر کے مصرع ثانی میں شعری ضرورت کے تحت مؤنث کی بجائے مذ کر (ولی) باندھا جا سکتا ہے ؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شعری ضرورت یہاں نہیں ہے، ولی کا کوئی صیغہ نہیں ہوتا۔
حرف خستہ و شکستہ سارے
’خستاؤ‘ تقطیع ہوتا ہے۔ اس طرح غلط ہے۔ یہاں حروف کا محل ہے۔ اس لیے الفاظ بدل دیں۔ خستہ اور شکستہ میں سے ایک ہی کافی ہو گا۔
عرصہ زیست ہے شیریں تم سے
تم کہ مصری کی ڈلی لگتی ہو
۔۔عرصۂ زیست؟ اس کا شیریں ہونا تو ضروری نہیں۔ عرصہ بمعنی میدان۔ یہ کھٹا میٹھا نہیں ہوتا میاں؟ کچھ اور لفظ استعمال کریں۔

صبحِ گلشن ہی کی تمثیل ہو تم
رات ہو بھی تو ڈھلی لگتی ہو
۔۔دوسرا مصرع سے حسن کی خوبی کا پتہ نہیں چلتا، صرف یہی لگتا ہے کہ محبوبہ بوڑھی ہو چکی ہے!!!

آگ پانی میں لگا دی تم نے
تان کی رام کلی لگتی ہو
رام کلی خود ایک راگ راگنی کا نام ہے۔ ’تان کی‘ سمجھ میں نہیں آتا۔

شادؔ بھی چشم و چراغِ رنداں
تم بھی نازوں کی پلی لگتی ہو
رند اور نازوں کا پلا ہونا میں کوئی ربط نہیں۔ دونوں مصرعوں میں کچھ تو مناسبت یا قرینہ ہونا چاہیے۔
 
Top