درد ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے - میر درد

حسان خان

لائبریرین
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
یا رب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے
گو بحث کر کے بات بٹھائی پہ کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے
اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
مستِ شرابِ عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے
(میر درد)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اسے ہم اپنی دو سالہ ٹیچرس ٹریننگ کے دوران حمد و ثنا کے پروگرام میں اکثر پڑھا کرتے تھے۔
حسان صاحب ! جوانی کی اُن عبادتوں کی یا د دِلانے کے لیے شکریہ
 
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
إِنَّا عَرضْنَا الاَمانَةَ عَلی السَّمَ۔اواتِ والأرْضِ وَالْجِبَالِ فَأبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَها واشْفَقْنَ مِنْهَا وحَملهَا الإِنْسَ۔انُ إِنَّهُ کَانَ ظَلُوماً جَهُولاً۔
 
اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
میں نے ایک جگہ آٹھویں شعر کا مصرعِ اول یوں پڑھا ہے:
اخفائے نارِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے
کافی عرصہ پہلے ناشناس کی آواز میں ایک غزل سنی تھی اس میں یہ عنوان کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
رازے آتش کدہ اے دل بہ کسے نتوان گفت
خبرے صاحبے در گوش کسے نتوان گفت
گو ترجمہ اس شعر کا حق ادا نہیں کرسکتا ہے لیکن بہرحال کوشش کرتا ہوں
دل میں بڑھکتی آگ اور محبوب کا حال ہر کسی کو نہیں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی ہر کس و ناکس کو محرم راز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 
بہت خوب
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
امامِ اہلسنت نے اپنے ایک کلام کا مقطع یوں کہا،
تنگ ٹھہری ہے رضؔا جس کے لئے وسعتِ عرش
بس جگہ دل میں ہے اُس جلوہءِ ہر جائی1 کی
1ہر جائی بمعنی ہر جگہ
 
Top