ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

سنتے تو ہیں بہار کا احساس بھی تو ہو!
جنگل کے گل کدوں میں وہ بُو باس بھی تو ہو!

نکھری ہوئی ہیں سرخ چناروں کی چوٹیاں!
سیرابیوں سے سیر کبھی گھاس بھی تو ہو!

اے خضر تیری راہ شناسی میں شک نہیں
پر رہروانِ شوق کو وشواس بھی تو ہو!

کب تک جئیں گے کشمکشِ بیم و جور میں
لوگوں کی زندگی میں کوئی آس بھی تو ہو

اختر ہزار خلد نشاں ہے دیارِ غیر
لیکن ہمیں یہ آب و ہوا راس بھی تو ہو!​
 

شیزان

لائبریرین

الجھے الجھے رستوں سے جو ڈر جاتے ہیں
صبح کے بھولے شام کو اکثر گھر جاتے ہیں

جیسے شبنم سے نکھرے پھولوں کا جوبن
وصل کے بعد تو چہرے اور نکھر جاتے ہیں

یار سے ملنے کی دُھن میں پاگل پروانے
آگ کے دریاؤں کے پار اتر جاتے ہیں

آس کی ڈوری کو ہر حال میں تھامے رکھنا
غم کے موسم بھی اک روز گزر جاتے ہیں

من موجی رندوں کا شوق نرالا دیکھا
شام ڈھلے سب مل کر چاند نگر جاتے ہیں

رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو کے سپنے
کبھی کبھی کانٹوں سے دامن بھر جاتے ہیں

حیرت ہے کچھ لوگ بہار سے بھی ڈرتے ہیں
اس کے آنے سے تو کام سنور جاتے ہیں

جانے کیا جادو ہے اس کوچے میں اختر
توبہ کرتے ہیں سو بار، مگر جاتے ہیں​
 

شیزان

لائبریرین

ابتدا ہے نہ انتہا میری
یعنی منزل ہے نارسا میری

دشمنوں کو خبر نہیں شائد
زہر بن جائے گی دوا میری

زندگی کی نئی مسافت ہے
جس کو سمجھے ہیں وہ فنا میری

تیرے جلوے کی تاب ناممکن
اور یہی شرطِ خوں بہا میری

قافلہ کھو گیا سرابوں میں
گونجتی رہ گئی صدا میری

غرق ہونے سے ناؤ بچ جاتی
بات سنتا جو ناخدا میری

دار پر مجھ کو کھینچنے والو!
کچھ بتاؤ ہے کیا خطا میری؟

کوئے جاناں کی بےرخی اختر
کاش ہو جائے ہمنوا میری​
 

شیزان

لائبریرین
تاجر دھن دولت کا رسیا، فاقہ کش مزدور وہی
حرص و طلب کی منڈی میں مختار وہی ، مجبور وہی

عہدِ جفا کے دشتِ زیاں میں کب سے یہی منظر ٹھہرا!
ظالم بھوت نگر کا راجہ، خلقت بےمقدور وہی

جیون پتھ پر گرتے پڑتے کتنے ہی یگ بیت گئے
آس کی منزل آج بھی، جتنی صدیوں سے تھی دور، وہی

کوئی نہیں جو اس کو سنبھالے، ڈھارس دے، فریاد سنے
جینے کی پاداش میں تنہا دل زخموں سے چُور وہی

لوٹ کھسوٹ کی خاطر مل کر شور مچائیں، نام دھریں
اندگے بہرے بےدردوں کا برسوں سے دستور وہی

دولت ہی قانون ِ مشیت، جرم و سزا تقدیرِ بشر
طاقت والوں کی جو مرضی، دنیا کو منظور وہی

چھوڑیئے یہ بیکار کہانی، اختر کی عادت ہے پرانی
اوپر سے خوش باش ہمیشہ، بھیتر سے رنجور وہی​
 

شیزان

لائبریرین

آنکھوں میں سما جانا، یادوں میں مکیں رہنا
اس شوخ کی عادت ہے، بس پردہ نشیں رہنا

خلوت کو سجا دینا، خوابوں کو بسا دینا
جس رنگ میں بھی رہنا، کچھ اور حسیں رہنا

اس جانِ صباحت کی تقدیر میں لکھا ہے
محبوبِ نظر ہونا، فرخندہ جبیں رہنا

پہلے تری فرقت میں بےچین سے رہتے تھے
پھر سیکھ لیا ہم نے ہر وقت حزیں رہنا

یہ بھی تو کرشمہ ہے اس رشکِ مسیحا کا!
جس دل پہ ستم کرنا، اس دل کے قریں رہنا

یک رنگئ دوراں سے اکتا گیا جی اختر
اس شہر سے اب رخصت، چل اور کہیں رہنا​
 

شیزان

لائبریرین

خار دے دو کہ چند پھول ہمیں
جو بھی بخشو گے وہ قبول ہمیں

بےطلب، بےغرض، طریقِ وفا
دل نے بخشا ہے یہ اصول ہمیں

جسم و جاں آپ کی امانت ہے
کوئی حاصل نہ کچھ وصول ہمیں

سوچتے ہیں کہ راس آ جاتی
کاش تیری گلی کی دھول ہمیں

بےوضاحت کہیں، پسند نہیں
دوستوں کے سخن میں طول ہمیں

اک بتِ رمز آشنا کے بغیر
ساری محفل لگے فضول ہمیں

ان کا چہرہ نصابِ فطرت کی
معرفت کے لئے رسول ہمیں

حسن کی بارگاہ میں اختر
یاد ہے ایک ایک بھول ہمیں​
 

شیزان

لائبریرین
خواب لے ڈوبے ہیں تعبیروں کا بوجھ
بن گیا تخریب تعمیروں کا بوجھ

پاؤں پر اپنے کھڑا ہونے نہ دے
تیسری دنیا کو زنجیروں کا بوجھ

اپنی کج بنیاد دیواروں کو دیکھ!
کیا اٹھا لیں گی یہ شہتیروں کا بوجھ

دے رہا ہے جرم کو اب تو فروغ
ناروا سفاک تعزیروں کا بوجھ

کام تدبیروں سے لے سکتے نہ تھے
زیست پر جن کی تھا تقدیروں کا بوجھ

سطوتِ اجداد میں محبوس تھے
جن کے کندھوں پر تھا جاگیروں کا بوجھ

بن گیا بڑھ کر ندامت کا سبب
بےہنر، بےسود تشہیروں کا بوجھ

حیف! اختر دیدہء ظلمت سرشت
کب اٹھا سکتا تھا تنویروں کا بوجھ​
 

شیزان

لائبریرین

گزر چکی ہیں جنُوں کی حکایتیں کیا کیا
سنا رہا ہے زمانہ روایتیں کیا کیا

ہجوم عرض طلب پیش حسن خاموشی
رکی ہوئی ہیں زباں پر شکایتیں کیا کیا

وہ جن کا آج یہاں نام تک نہیں باقی
فلک کی آنکھ نے دیکھی ہیں صورتیں کیا کیا

بچھڑ کے تم سے دلِ نامراد بجھ سا گیا
وگرنہ اس میں فروزاں تھیں حسرتیں کیا کیا

الم نصیب پریشان حال کیا جانیں
کہ زندگی کو میسر ہیں راحتیں کیا کیا

نبرد عشق میں اختر بصد خلوص ملیں
وبالِ جان و جگر سوز ساعتیں کیا کیا​
 

شیزان

لائبریرین
جب تک کفِ میزان میں تعدیل نہ ہو گی
جو صورتِ حالات ہے تبدیل نہ ہو گی

سچ ہے کہ عزائم بھی بڑی چیز ہیں ، لیکن
بے جہد و عمل ان کی بھی تکمیل نہ ہو گی

وہ قادر و عادل ہے جھٹک دے گا یقینآ!
اور ظلم کی رسی کو سدا ڈھیل نہ ہو گی

نافذ ہے اگر حکم تو پھر روزِ مکافات
کوتاہئ کردار کی تاویل نہ ہو گی

ڈس لے جو کڑے وقت سیہ ناگ کی صورت
کچھ بھی ہو تری زلف کی تمثیل نہ ہو گی

میں پردہء ظلمات میں چھپ جاؤں گا اس دن
جب دل میں تیرے پیار کی قندیل نہ ہو گی

جس میں نہ غمِ زیست کے پہلو ہوں نمایاں
اختر وہ میرے شعر کی تشکیل نہ ہو گی​
 

شیزان

لائبریرین
غم میں ڈوبے، خوشی کو بھول گئے
ایسے روئے ہنسی کو بھول گئے

زندہ رہنا ہی بس غنیمت تھا
لوگ زندہ دلی کو بھول گئے

چشمِ شبنم نے اشک برسائے
پھول خندہ لبی کو بھول گئے

مرگ سامانیوں میں گم ہو کر
بےبصر زندگی کو بھول گئے

رونقِ کائنات تھی جس سے
حیف! ہم آدمی کو بھول گئے


داغِ بےمائیگی تو مٹ نہ سکا
اہلِ دل سرکشی کو بھول گئے

کتنی دلچسپ بھول تھی اختر
ہم یہ سمجھے کسی کو بھول گئے​
 

شیزان

لائبریرین
سرِ آفاق جو رختِ سفر تھا
گرا خاشاک پر تو مشتِ پر تھا

نشاطِ خلد میں کب تک بہلتا!
تلوّن کیش اندازِ بشر تھا

در و دیوار بھی کچھ اجنبی تھے
جو دیکھا غور سے تو اپنا گھر تھا

جگر کے خون سے دیکھا کئے ہم
تمنا کا شجر جو بےثمر تھا

وفورِ تیرگی میں برق تڑپی
کھلا کہ چاکِ دامانِ سحر تھا

تجھے ملنے سے پہلے جانِ الفت
میں خود اس کیفیت سے بےخبر تھا!

وہ کل شب بام پر بےپردہ نکلے
فرازِ چرخ پر حیراں قمر تھا

کرم کی آرزو میں جس کو پوجا
بتِ نامہرباں بے دادگر تھا

کسی کے حسن میں رنگِ غافل
ہماری ہی وفاؤں کا اثر تھا

عدم آباد ہی منزل تھی اختر
قیام زیست کتنا مختصر تھا!​
 

شیزان

لائبریرین
ہم سفر بےکنار ویرانے
بن گئے غمگسار ویرانے

منزلوں کے سراب رخشندہ
اور سب رہگذار ویرانے

ہے مقفل درِ نمود و شہود
اور طبیعت پہ بار ویرانے

شب ڈھلے اوس کی محبت میں
ہو گئے اشکبار ویرانے

چند شاداب مرغزار بھی ہیں
اور ہیں شرمسار ویرانے

سقفِ شہرِ نگار گونج اٹھے
اس طرح سے پکار ویرانے!

کھا گئیں جن کو بےایماں سڑکیں
بستیوں پر نثار ویرانے

ایک مدت سے منتظر ہیں تیرے
اور نسیمِ بہار، ویرانے!

کب سے ساون کی راہ دیکھتے ہیں
خشک سینہ فگار ویرانے

دیکھ سنسان قریۂ جاں کو
جس پہ قرباں ہزار ویرانے

کارگاہیں دھواں دھواں اختر
وقف ِ گرد و غبار ویرانے!​
 

شیزان

لائبریرین
گل نے کِھل کے بکھر ہی جانا ہے
کشتِ جاں سے گزر ہی جانا ہے

جب بھی اس دشت شام غربت سے
جان چھوٹے گی ، گھر ہی جانا ہے

وقت ناسازگار ہے، پھر بھی
کچھ نہ کچھ کام کر ہی جانا ہے

رفتہ رفتہ یہ ساغرِ ہستی
تلخ صہبا سے بھر ہی جانا ہے

ہر گھڑی زندگی کا ماتم کیوں؟
آخر اک روز مر ہی جانا ہے

ہم نے مقصودِ بندگی زاہد!
احترامِ بشر ہی جانا ہے

بخت کی دھوپ چھاؤں کو ہم نے
اک فریبِ نظر ہی جانا ہے

روشنی کا سفیر ہے اختر
اس کو وقتِ سحر ہی جانا ہے​
 

شیزان

لائبریرین

صداقتوں سے سدا اجتناب کرتے ہیں
عجیب ڈھنگ سے تعبیرِ خواب کرتے ہیں

سرشتِ نوعِ بشر کا شعور ہے جن کو
خود اپنی ذات کا بھی احتساب کرتے ہیں

بہت دنوں سے تمنائے بازدید لئے
ہم انتظارِ شب ماہتاب کرتے ہیں

جفا کشانِ خرد کو جنوں کی راہ ملے
جو ہو سکے تو یہ کارِ ثواب کرتے ہیں

مچل کے عہدِ جوانی میں سیم تن اختر
سحاب زلف تو چہرہ گلاب کرتے ہیں​
 

شیزان

لائبریرین
ایک سا اب تو شام سویرا رہتا ہے
ہر دم دل میں یاس کا ڈیرا رہتا ہے

ہر لحظہ ، ہر آن بدلتی دنیا میں
وقت نہ تیرا اور نہ میرا رہتا ہے

دل میں غم و آلام کا جھرمٹ ہے جیسے
مرگھٹ میں آسیب کا گھیرا رہتا ہے

میری بستی میں بھی سکھ کے چاند نکل
اس بستی میں گھور اندھیرا رہتا ہے

شوق سے کھلنے والے اُجلے پُھولوں کا
شاخ پہ کچھ دن رین بسیرا رہتا ہے

خوف سے جس کا کوئی نام نہیں لیتا
میرے شہر میں ایک لٹیرا رہتا ہے

لاکھ بھلاؤ دردِ طلب اختر صاحب!
عمر کے ساتھ کچھ اور گھنیرا رہتا ہے​
 

شیزان

لائبریرین

شعورِ لُطف و محبت کو عام کرنا تھا
جہاں میں رہ سکے باقی جو کام کرنا تھا

وفا کے نام پر مٹ کر مسافرانِ عدم
کچھ اہتمامِ بقائے دوام کرنا تھا

نوازشِ نگہِ التفات کا مطلب
ہمیں اسیرِ تمنائے خام کرنا تھا

یہ کیا کہ جس کو ہمارے وجود سے نفرت
اسی کا ذکر ہمیں صبح و شام کرنا تھا

جناب شیخ کی منطق عجیب، ان کے لیے
وہ سب حلال جو ہم پر حرام کرنا تھا

کہاں تلک دلِ خانہ خراب کی سنتے
کہ ایک روز تو قصہ تمام کرنا تھا

کسی کے وہم و گماں میں بھی یہ نہ تھا اختر
کہ آدمی کو خلد میں خرام کرنا تھا!​
 

شیزان

لائبریرین
عہدِ وفا کا قرض ادا کر دیا گیا
محرومیوں کا درد عطا کر دیا گیا

پُھولوں کے داغ ہائے فروزاں کو دیکھ کر
ارزاں کچھ اور رنگِ حنا کر دیا گیا

وارفتگان شوق کا شکوہ سُنے بغیر
گلشن سپردِ اہلِ جفا کر دیا گیا

دل سے اُمنگ، لب سے فغاں چھین لی گئی
کہتے ہیں اہلِ دل کو رہا کر دیا گیا

مانگی تھی عافیت کی دُعا، آگہی کا غم
پہلے سے بھی کچھ اور سوا کر دیا گیا

یک دو نفس بھی کارِ زیاں ہم نہ کر سکے
خُوشبُو کو پیرہن سے جدا کر دیا گیا

اختر ہوس گرانِ عقیدت کے فیض سے
وہ بھی جو ناروا تھا، روا کر دیا گیا​
 

شیزان

لائبریرین

مجھ سے وہ سرگراں سا رہتا ہے
فاصلہ درمیاں سا رہتا ہے

عشق کی بےقراریاں توبہ!
ہر گھڑی امتحاں سا رہتا ہے

ان سے ملنے کے بعد مجھ پہ محیط
حسن کا آسماں سا رہتا ہے

اک سمن پوش کے تصور میں
فصلِ گل کا سماں سا رہتا ہے

داغِ فرقت کبھی نہیں مٹتا
دھندلا دھندلا نشاں سا رہتا ہے

زندگی جیسے غم کے ساگر میں
اک سفینہ رواں سا رہتا ہے

جس پہ دونوں جہاں لٹا بیٹھے
وہ کچھ بدگماں سا رہتا ہے

مصلحت کوش فکر کے درپے
عقل کا پاسباں سا رہتا ہے

لُطفِ خُوباں کے فیض سے اختر
شعر میرا جواں سا رہتا ہے​
 

شیزان

لائبریرین

دل گرفتارِ زیاں لے ڈوبا
جلوہء حسنِ بتاں لے ڈوبا

عشق کی دھوپ میں بھٹکے برسوں
سایۂ ابرِ رواں لے ڈوبا

پار اترنے کی تمنا تھی، مگر
ہم کو اندیشۂ جاں لے ڈوبا

ہر نئی سانس پہ اک اور طلب
زیست کو بارِ گراں لے ڈوبا

ان کو ساحل کا یقیں تھا کہ نہیں
جن کو گردابِ گماں لے ڈوبا

ہم کو ہر لہر میں طوفان ملے
ناخدا جانے کہاں لے ڈوبا

خواب دیکھے تو نہ تعبیر ملی
نام چاہا تھا، نشاں لے ڈوبا

کچھ تو حالات بھی ناساز ہی تھے
کچھ ہمیں عزمِ جواں لے ڈوبا

بعض لوگوں کو، یہ سچ ہے، اختر
تیرا اندازِ بیاں لے ڈوبا!​
 

شیزان

لائبریرین
مانا کہ خواب خواب ہے، تعبیر کچھ تو ہو
دھندلا سہی پہ منظرِ تصویر کچھ تو ہو

اس شہر میں ہے دہشت و غارتگری کا راج
فرمانروائے وقت کی تعزیر کچھ تو ہو

رہنے دو میرے چاکِ گریباں کو تار تار
اہلِ جنوں کی بزم میں توقیر کچھ تو ہو

لو دے اٹھے گی میرے لہو سے جبینِ دار
کچھ بھی ہو اس کے ظلم کی تشہیر کچھ تو ہو

محتاط! مٹ نہ جائے کہیں آرزو کا داغ
بجھتے ہوئے چراغ کی تنویر کچھ تو ہو

چلنے نہ دیں گے حیلہ گروں کا کوئی فسوں
کٹ جائے اب کے جبر کی زنجیر، کچھ تو ہو

چھایا ہوا ہے حلقۂ دانش میں کیوں سکوت؟
آخر نجاتِ خلق کی تدبیر کچھ تو ہو

تخریبِ انقلاب کا کھٹکا ہے ہر گھڑی
اختر ظہورِ صورت تعمیر کچھ تو ہو​
 
Top