اب کی بار مرد رو پڑا ہے۔

جاسمن

لائبریرین
پاکستان کے روتے ہوئے مرد کو دلاسے کی ضرورت ہے!

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ کچھ عناصر جان بوجھ کر مایوسی پھیلا رہے ہیں لیکن میں نے آج سے پہلے پاکستانی مردوں کے چہروں پر ایسی بے بسی اور پژمردگی کبھی نہیں دیکھی۔ ایسی اکتاہٹ، افسردگی، تفکرات اور بے چارگی ہے کہ فکریں چہروں سے اُمڈ رہی ہیں۔

کوئی ایک بندہ ہاتھ میں مائیک پکڑے پوچھتا ہے، مہنگائی ہو گئی ہے آپ کے حالات کیسے ہیں؟ جواباً منہ سے ٹوٹے پھوٹے چند فقرے نکلتے ہیں، ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ ایسی کوئی ایک ویڈیو نہیں ہے، ایسی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

ایک ویڈیو میں تو ایک موٹر سائیکل سوار انتہائی متانت والا ہے، کسی طرح بھی نہیں لگ رہا تھا کہ غریب ہے یا اس کے حالات مشکل ہوں گے۔ ایک مائیک والا بس ایک فقرہ کہتا ہے کہ پیٹرول مزید مہنگا ہو گیا ہے۔
وہ شخص کچھ توقف کے بعد بڑے حوصلے سے جواب دیتا ہے، ’’یہ بھی سہہ لیں گے۔‘‘

یہ فقرہ ابھی مکمل نہیں ہوتا لیکن آنسو ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کے طرح آنکھ سے گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہے تا کہ آنسوؤں کا سیلاب بند نہ توڑ پائے لیکن جنموں کے مارے آنسوکہاں رکتے ہیں، غیرت ایسی ہے کہ فوراً اپنے سر پر ہیلمٹ پہن لیتا ہے تاکہ اُسے روتا ہوا نہ کوئی دیکھ لے۔

یہ کیسی بے بسی ہے، آپ چیخنا چاہتے ہیں، آپ چلانا چاہتے ہیں، آپ حکومت کو کوسنا چاہتے ہیں، آپ حاکم اور منصف کا گریبان پکڑنا چاہتے ہیں لیکن آپ اپنا غصہ، اپنا غم اندر ہی اندر پیتے جا رہے ہیں، اپنی ہی موٹر سائیکلیں توڑتے جا رہے ہیں اور یہ گھن آپ کو اندر ہی اندر کھاتا جا رہا ہے۔ ریاست جبر کے سامنے آپ خاموش ہیں، کوئی سننے والا نہیں اور احتجاج کرنے والے جیلوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

پاکستان ایک روایتی معاشرہ ہے، جہاں خاندان کا سارے کا سارا معاشی بوجھ زیادہ تر ایک مرد پرڈال دیا جاتا ہے۔ کہاں اسکول چھوڑتے ہی فکر معاش شروع ہوتی ہے اور پھر زندگی بھر یہ تگ و دو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بیٹی یا بہن کے جہیز سے شروع ہونے والی یہ جمع تفریق موت کی آخری ہچکیوں تک جاری رہتی ہے۔

اس مہنگائی اور اس بیروزگاری میں ایک غریب مرد اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ اسے کوئی چھوٹا سا سوال کرتا ہے اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی رونا شروع کر دیتا ہے۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ بیوی کو کیسے بتائے کہ چیزیں اور اخراجات اس کے بس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، وہ بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو کیسے سمجھائے کہ وہ سب کا بوجھ تنہا نہیں اٹھا سکتا، وہ اپنے بچوں کو کیسے بتائے کہ میں تمہارے لیے نئے کپڑے، نئے جوتے لینے کی سکت نہیں رکھتا۔

مہنگائی، بیروزگاری یا کم تنخواہوں کی وجہ سے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب ایک باپ، بڑا بھائی یا بڑا بیٹا باقی مردوں کی نسبت خود کو ناکام تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ آگے پیچھے گاڑیوں کی ریل پیل دیکھتا ہے، امرا کے بڑے بڑے شاپنگ بیگز دیکھتا ہے تو خودکو ناکارہ تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مرد اپنا موازنہ باقی لوگوں سے کرتا ہے اور خود اپنے جسم سے نفرت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب ایک مرد اپنا دکھ نہ اپنی ماں، نہ باپ، نہ بیوی اور نہ ہی اپنے بچوں سے شیئر کر پاتا ہے۔

ایسے لمحات میں فقط خودکُشیاں باقی بچتی ہیں، لڑائی جھگڑے سروں پر کھڑے رہتے ہیں، تنہائی میں اپنا ہاتھ اور اپنا ہی گریبان ہوتا ہے یا پھر سڑک پر کوئی آپ سے سوال پوچھتا ہے اور آپ جواب دینےکی بجائے آسمان کو تکتے ہیں اور آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔

یقین کیجیے پاکستان کی اشرافیہ آج بھی اپنے لانز میں پانچ پانچ ٹن کے اے سی لگا کر بیٹھی ہوئی ہے، انہیں بس آپ پر حکمرانی کرنے سے سروکار ہے۔ ان کی طرف سے بس یہی بیان آنا ہے کہ احتجاج میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
عوام اپنے پسینے میں اتنا ڈوب چکے ہیں کہ ان کا سانس لینا محال ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ قول مشہور ہے کہ مرد روتا نہیں ہے لیکن اس ملک کی فوج، سیاستدانوں، جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور اشرافیہ نے مل کر اتنا ظلم کیا ہے کہ اب یہ مرد رو پڑا ہے۔

اس مرد کو حوصلہ دیجیے، اس کا درد بھی سمجھیے، اس کو گلے سے لگائے، ایک دوسرے کے آنسو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔ ایسے مشکل حالات میں گھروں کی کفالت کرنے والے مردوں اور خواتین کی صورت حال کو سمجھیں۔

آپ کے اردگرد ایسی لاکھوں آنکھیں ہوں گی، جو رونا چاہتی ہیں لیکن بزدل نہ بنو اور مرد روتا نہیں ہے، جیسے فقرے ان کے سامنے اژدھے بن کر کھڑے ہیں۔
ایسے طعنے سننے والے مردوں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو حوصلہ درکار ہے۔ گھر کی خواتین، رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے ایک تھپکی اور’’بے فکر ہو جاؤ، سب ٹھیک ہو جائے گا، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ایسا کوئی ایک چھوٹا سا ایک فقرہ درکار ہے۔ اب کی بار مرد رو پڑا ہے۔
امتیاز احمد
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
کوئی شبہ نہیں کہ ملکی حالات خراب ہیں اور یہ تب تک خراب رہیں گے جب تک ہم بیماری کے اسباب کو نہیں جان لیتے ہیں۔ ہم دوا بھی اُن سے لینا چاہ رہے ہیں یا اُن سے لینے پر مجبور ہیں جو بیماری کا اصل سبب رہے ہیں۔ انہیں عیاشی کی لت لگی پڑی ہے سو سب سے زیادہ وہی ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طور سسٹم چلتا رہے۔ دیکھتے ہیں کہ کب تک وہ ایسا کر پاتے ہیں۔ قرض لے کر ملکی معیشت کا پہیہ چلانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

مستقبل میں بہتری کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور رکھنی چاہیے کہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ فی الوقت تو یہ ہو سکتا ہے کہ آمدنی کو ممکنہ حد تک بڑھانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور اخراجات میں کمی لائی جائے۔ اس کے علاوہ گھر کے ہر فرد کو ہر ممکنہ حد تک معاشرے کا فعال فرد بننا چاہیے تاکہ ملکی معیشت پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایسے ہنر اور مہارتیں سیکھی جائیں کہ بین الاقوامی طور پر جن کی مانگ ہے۔
 
Top