ٹائپنگ مکمل اب شام نہیں ڈھلتی۔ از۔ باقی احمد پوری سے انتخاب

شیزان

لائبریرین
ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک ترے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا
زندگی ہے نہ اُس پہ سبزہ و گل
چاند کب ہے مری زمیں جیسا
آبرُوئے سُخن ہوں میں باقی
میرا ہر لفظ ہے نِگیں جیسا
 

شیزان

لائبریرین
جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
ہمیں اُسی کی ضرُورت بہت زیادہ تھی
اب ایک لمحۂ مفقُود کو ترستے ہیں
وہ دن بھی تھے، ہمیں فُرصت بہت زیادہ تھی
ہمارے گھر کی تباہی کا یہ سبب ٹھہرا
ہمارے گھر میں سیاست بہت زیادہ تھی
ہر ایک جرم کے پیچھے تھا جس کا ہاتھ یہاں
اُسی کی شہر میں عزت بہت زیادہ تھی
اِسی لیے تو وہ دستِ سِتم دراز رہا
کہ ہم میں ضبط کی عادت بہت زیادہ تھی
اُسی نے شہر کا سارا جمال چھین لیا
جو سَربلند عمارت بہت زیادہ تھی
حقیقتوں پہ تو ٹھہری نہیں نظر اپنی
خیال و خواب کی صُورت بہت زیادہ تھی
نہ اُس کی آنکھ بھر آئی، نہ میرا دل رویا
دمِ فراق یہ حیرت بہت زیادہ تھی
تھکن سے ٹوٹ گرا ہوں تو اب یہ سوچتا ہوں
کہ بےخیال مسافت بہت زیادہ تھی
تمہارا قُرب جو ملتا تو جانے کیا کرتے
ہمیں تو دُور کی نِسبت بہت زیادہ تھی
اب اُس کا نام بھی لیتے ہیں سوچ کر باقی
کِسی سے ہم کو محبت بہت زیادہ تھی

 

شیزان

لائبریرین
ہمیں اُن بستیوں کی جُستجو ہے
جہاں امن و اماں کی گفتگو ہے
ابھی تکمیل کی منزل کہاں ہے
ابھی تو آرزُو بس آرزُو ہے
تصور کو مجسّم کر لیا ہے
اِدھر سوچا، اُدھر وہ رُو برُو ہے
اکیلی شمع آخر کیا کرئے گی
اندھیرا تو جہاں میں چار سُو ہے
زرِ اسود کے مالک ناسمجھ ہیں
وہ قاتل ہے جو ان کا چارہ جُو ہے
یہاں کی فصل گل بھی ہے خزاں سی
یہ کیسا گلشنِ بےرنگ و بُو ہے
اُسی کی اِک نظر سب کچھ ہے باقی
وہی مینا، وہی جام و سبُو ہے
 

شیزان

لائبریرین
تجھ بن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا
ڈُوبا ہے چاند، رات میں کچھ بھی نہیں رہا
تیری صدا نہیں ہے تو ہم کان کیوں دَھریں
اب تو کِسی کی بات میں کچھ بھی نہیں رہا
پلکوں پہ ضُوفشاں جو سِتارے تھے، گِر گئے
پھر اُس کے بعد رات میں کچھ بھی نہیں رہا
آنکھیں کھلی ہیں اور نِگاہوں میں کچھ نہیں
لگتا ہے شش جہات میں کچھ بھی نہیں رہا
اب فیصلہ نصیب پہ چھوڑیں، جو ہو سو ہو
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مغُرور کِس قدر تھا یہ شاخِ بلند پر
جڑ کٹ گئی تو پات میں کچھ بھی نہیں رہا
اِک حرف بھی نہیں جو مرے غم کا ساتھ دے
باقی کسی لُغات میں کچھ بھی نہیں رہا
 

شیزان

لائبریرین
حسرت ہی رہی ہے اُسے ارماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اُس کو ہواؤں نے کہیں کا
خُوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اُس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے
منسُوب ہر اِک میری حکایت ہے اُسی سے
افسانۂ ہستی کا وہ عُنواں ہی رہا ہے
چاہا بھی تو اُس حد سے وہ آگے نہیں آیا
اِتنا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہی رہا ہے
سب کچھ کیا باقی نے مگر دل نہیں توڑے
کافر تھا مگر پھر بھی مسلماں ہی رہا ہے
 

شیزان

لائبریرین
رات بھر جاگتا ہی رہتا ہوں
کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا ہوں
میری منزل کوئی نہیں پھر بھی
راستہ پُوچھتا ہی رہتا ہوں
اپنی تعمیر دن میں کرتا ہوں
رات بھر ٹوٹتا ہی رہتا ہوں
تُو صنم بھی نہیں، خُدا بھی نہیں
میں تجھے پُوجتا ہی رہتا ہوں
تجھ سے باتیں ہزار کرنی ہیں
پر تجھے دیکھتا ہی رہتا ہوں
کوئی گوہر بھی مل ہی جائے گا
خاک تو چھانتا ہی رہتا ہوں
جانتا ہوں کوئی نہیں سُنتا
پھر بھی محوِ دُعا ہی رہتا ہوں
اپنے عیبوں پہ ہے نظر باقی
آئینہ دیکھتا ہی رہتا ہوں
 

شیزان

لائبریرین
میری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
اُس نے رکھ لیں سنبھال کر آنکھیں
ہم نے جب بھی سوالِ وَصل کیا
اُس نے دیکھا نکال کر آنکھیں
بےبصیرت ہیں اِس جہاں کے لوگ
یا رب اِن کی بحال کر آنکھیں
مر بھی جائیں تو اُس کو دیکھ سکیں
ایسی کچھ لازوال کر آنکھیں
ہر طرف حُسن ہے زمانے میں
حُسن سے مالا مال کر آنکھیں
جانے والا بھی لوٹ آئے گا
یُوں نہ رو رو کے لال کر آنکھیں
اب وہ صُورت نہیں رہی باقی
اب نہ رکھنا سنبھال کر آنکھیں
 

شیزان

لائبریرین
صبح تا شام سوچتا ہوں میں
سو ترے نام سوچتا ہوں میں
یہ جو اِک تازہ آگ بھڑکی ہے
اُس کا انجام سوچتا ہوں میں
سامنے ہے قلم بھی ، کاغذ بھی
اور پیغام سوچتا ہوں میں
تجھ سے اِس دل کا جو تعلق ہے
اُس کا کچھ نام سوچتا ہوں میں
ایک شامِ فراق ڈھل بھی گئی
پھر بھی ہر شام سوچتا ہوں میں
کیا سبَب ہے غمِ زمانہ کا
لا ذرا جام، سوچتا ہوں میں
اب کوئی فکر ہی نہیں باقی
بس ترا نام سوچتا ہوں میں
 

شیزان

لائبریرین
وحشت میں تار تار لبادہ نہیں کیا
اِتنا بھی ہم نے عِشق زیادہ نہیں کیا
عیش و سُکوں سے اپنی گزرتی ہے زندگی
دامانِ آرزُو ہی کُشادہ نہیں کیا
وہ بےنیازِ غم ہے ، اُسے کیا بتائیں ہم
کیوں ترک شغلِ ساغر و بادہ نہیں کیا
ترکِ تعلُقات کا اُس کو بھی غم نہیں
ہم نے بھی اُس کو یاد زیادہ نہیں کیا
رنگین بنا دیا ہے تری داستان کو
تیرا کِیا جو ذکر تو سادہ نہیں کیا
باقی ہمیں تو فُرصتِ امروز بھی نہیں
کل کیا کریں گے، اِس کا ارادہ نہیں کیا
 

شیزان

لائبریرین
دلِ دہقاں جو کھیتوں میں نہیں ہے
تقّدس اب وہ فصلوں میں نہیں ہے
سفر کرتے ہیں لیکن بےدلی سے
یقیں شامل ارادوں میں نہیں ہے
ہمارے عہد کے وہ مسئلے ہیں
کہ جن کا حل کتابوں میں نہیں ہے
جو ظالم ہے ، اُسے ظالم ہی کہہ دیں
خلُوص اِتنا بھی لوگوں میں نہیں ہے
ہوائیں سنسناتی پھر رہی ہیں
کوئی چہرہ دریچوں میں نہیں ہے
جسے ہم قید کرنا چاہتے ہیں
وہی اک لمحہ، لمحوں میں نہیں ہے
چھلک جائیں تو آسُودہ ہوں آنکھیں
مگر ہمت ہی اشکوں میں نہیں ہے
نئی قاموسِ غم لکھتا ہوں باقی
اثر اب کہُنہ لفظوں میں نہیں ہے
 

شیزان

لائبریرین
مال و متاعِ درد زیادہ ہے اِن دِنوں
لُٹنے کا اپنا پھر سے اِرادہ ہے اِن دِنوں
بےسَمت پھر رہے ہیں مُسافر یہاں وہاں
منزل کا کوئی نام نہ جادہ ہے اِن دِنوں
اِک ہاتھ میں کہاں ہے عناں رخشِ وقت کی
کل تک تھا جو سوار، پیادہ ہے اِن دِنوں
خلوت میں اپنے آپ کو دُہرا رہا ہوں میں
گزرے ہوئے دنوں کا اعادہ ہے اِن دِنوں
اہلِ خرد کی بات کوئی مانتا نہیں
وحشت میں تار تار لبادہ ہے اِن دِنوں
سامان ہو رہے ہیں بڑے زور و شور سے
باقی کہو، کہاں کا ارادہ ہے اِن دِنوں
 

شیزان

لائبریرین
نہ ہاتھ اُٹھا کے اُسے روز و شب پکارا کر
جو مِل گیا ہے اُسی میں گزر گزارا کر
ترا بھی عکس بِکھر جائے گا زمانے میں
تُو میرے شیشۂ دل کو نہ پارہ پارہ کر
تہوں میں جا کے ہی ملتا ہے گوہرِ کم یاب
سفینہ سینۂ گرداب میں اُتارا کر
مرا علَم تو چمکتا ہے چاند تارے سے
مری زمیں کا مقدر بھی چاند تارا کر
ہمیشہ مشکلِ ہستی کی فکر کیا کرنی
کِسی کی زلفِ گرہ گیِر بھی سنوارا کر
میں صرف تیرا ہُوں، جیسا ہُوں، جو بھی ہُوں باقی
تُو مجھ کو چاہے کِسی نام سے پکارا کر
 

شیزان

لائبریرین
کوئی فصیل اُٹھائی نہ دَر بنایا ہے
پھر اُس پہ خوش ہیں کہ ہم نے بھی گھر بنایا ہے
اُسی نے چھین لیا اعتبارِ چشم و نظر
جسے بھی ہم نے یہاں معتبر بنایا ہے
ہم اُس کی بات کا پھر بھی یقین کرتے ہیں
وہ شوخ جس نے ہمیں عُمر بھر بنایا ہے
تمہارے حُسن کی تعریف اور کیا ہو گی
خدا نے تم کو بہت سوچ کر بنایا ہے
ہم اُس کے قبضۂ قُدرت میں ہیں مگر خُوش ہیں
کہ اہلِ زَر نہیں، اہلِ ہُنر بنایا ہے
اُسی میں رہ کے نظر کو قرار ملتا ہے
جو اُس نے حلقۂ دامِ اثر بنایا ہے
ہوائے تُند اُسے بھی اُڑا کے چھوڑے گی
اِک آشیاں سرِ شاخِ شجر بنایا ہے
زمانہ روک سکے گا ہمیں کہاں باقی
فصیلِ وقت میں ہم نے بھی دَر بنایا ہے
 

شیزان

لائبریرین
ہم کریں جا کے عرضِ حال کہاں
وہ سُنے گا کوئی سوال کہاں
شہریاروں سے دوستی کر لیں
اِس ہُنر میں ہمیں کمال کہاں
مُفلسی آئینہ دکھاتی ہے
شوقِ آرائشِ جمال کہاں
اب تو کچھ اور ہی مسائل ہیں
اب ترا بھی ہمیں خیال کہاں
جامِ جم کے نشے میں ہیں سب لوگ
مستئ ساغرِ سفال کہاں
تجھ سے حیرت چھپا سکیں اپنی
اِس قدر آئینوں میں حال کہاں
منزلوں تک تھے رابطے سارے
اب وہ پوچھیں گے میرا حال کہاں
تھی کبھی اپنی آبرو باقی
لوگ کرتے ہیں اب خیال کہاں
 

شیزان

لائبریرین
دُھول اُڑتی ہے چار سُو کیسی
بےنشاں کی ہے جُستجُو کیسی
واسطہ ہی کوئی نہیں جس سے
اِس کے بارے میں گفتگو کیسی
اب نہ دامن رہا نہ دستِ جنوں
اب ہمیں حاجتِ رفُو کیسی
شبِ ہجراں بھی نم نہیں آنکھیں
یہ عبادت ہے بےوضُو کیسی
خُون کی ندّیاں رواں ہیں یہاں
اپنی دھرتی ہے سُرخُرو کیسی
دل تو اُس کے سُپرد ہے باقی
بےدلی ہو تو آرزُو کیسی
 

شیزان

لائبریرین
ہے سرِ خامہ شکستہ کاتبِ تقدیر کا
اور ہی کچھ رنگ ہوتا جائے ہے تحریر کا
بندشِ بابِ کرم کو بھی زمانہ ہو گیا
اب دُعا میں بھی کوئی عنصر نہیں تاثیر کا
عہدِ آزادی میں بھی شورِ سلاسل کم نہیں
لمحہ لمحہ بڑھ رہا ہے دائرہ زنجیر کا
دوسری جانب کسی کی بھی نظر جاتی نہیں
ایک ہی رُخ دیکھتے رہتے ہیں سب تصویر کا
ہے سمندر کے شکنجے میں زمیں جکڑی ہوئی
اِک اشارہ چاہیئے بس آسمانِ پیر کا
مشقِ تخریبِ وطن میں ہر کوئی مصُروف ہے
ایک بھی پہلُو نظر آتا نہیں تعمیر کا
ہر کوئی شہرِ طرب کی سمت ہجرت کر گیا
اِک محافظ میں ہوں باقی، درد کی جاگیر کا
 

شیزان

لائبریرین
بےنام منزلوں سے پکارا گیا ہوں میں
اِک کربِ مُستقل سے گزارا گیا ہوں میں
مجھ پر خُدا کا فیصلہ اب تک نہیں کُھلا
کیا سوچ کر زمیں پہ اُتارا گیا ہوں میں
شبیار بستیوں کا مقدّر وہی رہا
ہرچند لے کے چاند ستارا گیا ہوں میں
رُخصت کے وقت اُس کے بھی آنسُو نکل پڑے
بن کر کسِی کی آنکھ کا تارا گیا ہوں میں
میرے مقابلے پہ کوئی اور تو نہ تھا
اپنے ہی برخلاف اُبھارا گیا ہوں میں
دل کی لگی میں کچھ بھی تو باقی نہیں رہا
اُس کے لئے تو کھیل تھا، مارا گیا ہوں میں
 

شیزان

لائبریرین
دل ہے پارہ پارہ شہر کی گلیوں میں
کس کا کون سہارا شہر کی گلیوں میں
رات کو اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے
بیت گیا دن سارا شہر کی گلیوں میں
کتنے پاگل ڈُھونڈ رہے ہیں برسوں سے
جگنُو، چاند ، ستارا، شہر کی گلیوں میں
مصر میں اِک پیغمبر بِکنے آیا تھا
یہ بھی تھا نظارہ شہر کی گلیوں میں
باقی شاہ فقیر کہاں اب ملتا ہے
آیا تھا بےچارہ شہر کی گلیوں میں
 

شیزان

لائبریرین
عشق کی منزلِ پُرخار پہ آ جاتے ہیں
سب سمجھتے ہیں مگر دار پہ آ جاتے ہیں
گُل تو اپنی ہی نمُائش سے بِکھر جاتا ہے
پھر بھی اِلزام کئی خار پہ آ جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مری عرضِ تمنّا کا خیال
رنگ کیا کیا تیرے رخسار پہ آ جاتے ہیں
میری خوشیوں کا ٹھکانا نہیں رہتا باقی
جب مرے شعر لبِ یار پہ آ جاتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
کوئی جب سے ہمارا ہو گیا ہے
ہر اِک آنسُو سِتارا ہو گیا ہے
بسر کیسے ہوئی ہے، یہ نہ پُوچھو
کِسی صُورت گذارا ہو گیا ہے
کِسی نے پیار سے اِک بار دیکھا
کئی زخموں کا چارہ ہو گیا ہے
نہ بام و در، نہ دیواریں ، دریچے
یہ کیسا گھر ہمارا ہو گیا ہے
ہمارے دل میں اب کیا ڈھونڈتے ہو
یہ شیشہ پارہ پارہ ہو گیا ہے
یہی کیا کم ہے گردابِ جہاں میں
کہ تنِکے کا سہارا ہو گیا ہے
یہ دل رہتا ہے کِس کے بس میں باقی
تمہیں دیکھا، تمہارا ہو گیا ہے
 
Top