ابو حنیفہ - جمع و ترتیب عبدالباسط قاسمی

الف عین

لائبریرین
ابو حنیفہؒ
ماخوذ
سیرۃالنعمان علامہ شبلی نعمانیؒ
تذکرۃالنعمان علامہ محمد بن یوسف دمشقیؒ



جمع و ترتیب :عبد الباسط قاسمی
 

الف عین

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعارف

تقریباً تیرہ سو برس سے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے مسلمان امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کے اجتہادی مسائل سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دنیا کا غالب حصہ آپ کے مسائل کا پیرو ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عربی، فارسی ، ترکی بلکہ یورپ کی زبانوں میں بھی آپؒ کی نہایت کثرت سے سوانح عمریاں لکھی گئیں افسوس کہ ان میں سے اکثر کتابیں ہمارے ملک میں ناپید ہیں اور آپ کی سیرت پر اردو زبان میں معیاری کتب کی بے حد کمی ہے ۔
بعض معتقدین نے جوشِ اعتقاد میں امام صاحبؒ کی ایسی تصویر کھینچی ہے جس سے ان کی اصلی صورت پہچانی نہیں جاتی مثلاً تیس برس تک متصل روزے رکھنا ، تورات میں آپ کی بشارت کا موجود ہونا، چالیس سال تک عشا کے وضوسے فجر کی نماز پڑھنا وغیرہ وغیرہ‘‘ بالکل اسی طرح کچھ حاسدین نے تقلید کی مخالفت اور بغض و عداوت میں آپ کی بلند بالا شخصیت کو مجروح اور داغدار بنانے کی کوشش بھی کی ہے، کچھ لوگوں نے تو (معاذ اللہ) آپؒ پر ملحد ، گمراہ اور مخالفِ سنتِ نبویﷺ کا الزام تک لگایا ہے۔
اس مدح سرائی اور الزام بازی کا سلسلہ آپؒ کے دور سے لے کر آج تک جاری ہے ۔
لہذا اقراء و یلفیئر ٹرسٹ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسی کتاب زیرِ طبع لائی جائے جو آپؒ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو نیز افراط و تفریط سے بالا تر ہو ۔
’’تذکرۃ النعمان‘‘ جو در اصل علامہ شیخ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسفؒ صالحی دمشقی شافعی متوفی ۹۴۲ھ کی تصنیف’’ عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمانؒ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جسے حضرت مولانا عبد اللہ بن عبدالوہاب بستوی مہاجر مدنیؒ نے کیا ہے، اپنے موضوع پر نہایت ہی معرکۃ الآرا اور استنادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسی طرح علامہ شبلی نعمانیؒ کی تالیف’’ سیرۃ النعمان‘‘ امام اعظمؒ کے سوانح حیات ، انکے فقہ کی خصوصیات اور شاگردوں کے حالات پر ایک جامع اور بصیرت افروز کتاب ہے۔
زیرِ نظر کتاب کا ماخذ انہی دونوں کتابوں کو بنایا گیا ہے جس میں امام اعظمؒ کی قوتِ ایجاد، جدتِ طبع، دقتِ نظر ،وسعتِ معلومات ، حیات و خدمات ،شانِ اجتہاد اور ان کے ذریعہ سے مسلمانوں میں جو تفقہ فی الدین کا شعور بیدار ہوا اس کا مختصر خاکہ، حتی الوسع غیر مستند واقعات اور اختلافی روایات و مسائل سے گریز کر تے ہوئے مثبت انداز میں آپ کے شیوخِ حدیث ، تلامذہ ، تدوینِ فقہ کا پسِمنظر ، فقہ حنفی کی ترجیحات، تلامذہ، تصنیفات، آپ کی امتیازی خصوصیات، حیرت انگیز واقعات، دلپذیر باتیں اور آپ کی زندگی کے آخری احوال مثلاً عہدۂ قضا کی پیش کش ، ایک سازش اور قید خانہ میں درد ناک موت وغیرہ وغیرہ کو ایک خاص اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ غرض یہ کتاب امام اعظم ابو حنیفہؒ کے تمام احوال و کمالات کا ایک مختصر علمی آئینہ ہے جو امام صاحبؒ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔
دعا ء ہے کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ ( آمین)
عبد الباسط قاسمی
ریسرچ اسکالر
اقرا ء ویلفیئر ٹرسٹ، بنگلور
 

الف عین

لائبریرین
شخصی احوال

نام و نسب

نعمان نام، ابو حنیفہ کنیت اور امام اعظم آپ کا لقب ہے ۔ خطیب بغدادیؒ نے شجرۂ نسب کے سلسلہ میں امام صاحبؒ کے پوتے اسماعیل کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ہوں۔ہم لوگ نسلِ فارس سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں آئے۔ ہمارے دادا ابو حنیفہ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ہمارے پر دادا ثابت بچپن میں حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، حضرت علیؓ نے ان کے لئے بر کت کی دعا کی، اللہ نے یہ دعا ہمارے حق میں قبول فرمائی۔‘‘
امام صاحبؒ عجمی النسل تھے۔ آپؒ کے پوتے اسماعیل کی روایت سے اس قدر اور ثابت ہے کہ ان کا خاندان فارس کا ایک معزز اور مشہور خاندان تھا۔ فارس میں رئیسِ شہر کو مر زبان کہتے ہیں جو امام صاحبؒ کے پر دادا کا لقب تھا ۔
اکثر مورخین فر ماتے ہیں کہ آپ ۸۰ھ میں عراق کی دارالحکومت کوفہ میں پیدا ہوئے ۔ اُس وقت وہاں صحابہ میں سے عبداللہ بن ابی اوفیؓ موجود تھے ، عبد الملک بن مروان کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا ۔
یہ وہ عہد تھا کہ رسول اللہﷺ کے جمالِ مبارک سے جن لوگوں کی آنکھیں روشن ہوئی تھیں (یعنی صحابہؓ ) ان میں سے چند بزرگ بھی موجود تھے جن میں سے بعض امام حنیفہؒ کے آغازِ شباب تک زندہ رہے۔ مثلاً انس بن مالکؓ جو رسول ﷺ کے خادمِ خاص تھے ۹۳ھ میں انتقال کیا او ر ابو طفیل عامر بن واثلہؓ ۱۱۰ھ تک زندہ رہے۔ابن سعد نے روایت کی ہے ۔ جس کی سند میں کچھ نقصان نہیں ۔ کہ امام ابو حنیفہؒ نے انس بن مالکؓ کو دیکھا تھا حافظ ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ امام صاحبؒ نے بعض صحابہؓ کو دیکھا تھا ۔
 

الف عین

لائبریرین
جائے ولادت

کوفہ جو امام ابوحنیفہؒ کا مولدومسکن ہے ،اسلام کی وسعت وتمدن کا گویا دیباچہ تھا ۔ اصل عرب کی روز افزوں ترقی کے لئے عرب کی مختصر آبادی کافی نہ تھی ۔ اس ضرورت سے حضرت عمرؓ نے سعد بن وقاصؓ کو جو اس وقت حکومت ِکسریٰ کا خاتمہ کرکے مدائن میں اقامت گزیں تھے، خط لکھا : ’’ مسلمانوں کے لئے ایک شہر بساؤ جو ان کا دارالہجرت اور قرار گاہ ہو ‘‘ سعدؓ نے کوفہ کی زمین پسند کی ۔
۱۷ ھ میں اس کی بنیاد کا پتھر رکھا گیا ۔اور معمولی سادہ وضع کی عمارتیں تیار ہوئیں ۔اسی وقت عرب کے قبائل ہر طرف سے آ کر آباد ہونے شروع ہوئے ۔ یہاں تک کہ تھوڑے د نوں میں وہ عرب کا ایک خطہ بن گیا ۔
حضرت عمرؓ نے یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمیوں کے لئے جو وہاں جا کر آباد ہوئے روزینے مقرر کر دیئے۔ چند روز میں جمعیت کے اعتبار سے کوفہ نے وہ حالت پیدا کی کہ جنابِ فاروقؓ کوفہ کو ’’رمح اﷲ ، کنزالایمان ، جمجمۃ العرب‘‘ یعنی خدا کا علم ،ایمان کا خزانہ ، عرب کا سر،کہنے لگے ۔ اور خط لکھتے تو اس عنوان سے لکھتے تھے ’’الیٰ رأس الا سلام، الی رأس العرب۔ ‘‘ بعد میں حضرت علیؓ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا ۔
صحابہؓ میں سے ایک ہزار پچاس شخص جن میں چوبیس وہ بزرگ تھے جو غزوۂ بدر میں رسول اﷲ ﷺکے ہمرکاب رہے تھے،وہاں گئے اور بہتوں نے سکونت اختیار کر لی ۔ ان بزرگوں کی بدولت ہر جگہ حدیث وروایت کے چرچے پھیل گئے تھے اور کوفہ کا ایک ایک گھر حدیث و روایت کی درسگاہ بنا ہوا تھا ۔

بشارتِ نبویﷺ

ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا: لوکان الا یمان عند الثریا لاتنالہ العرب لتناولہ رجل من ابناء فارس‘‘
اگر ایمان ثریا ستارہ کے پاس بھی ہو اور عرب ا س کو نہ پاسکتے ہوں تو بھی اس کو ایک فارسی آدمی پالے گا۔
جلیل القدر عالم و حافظ علامہ جلال الدین سیوطیؒ اس حدیث سے قطعی طور پر امام ابو حنیفہؒ کو مراد لیتے ہیں اس لئے کہ کوئی بھی فارس کا رہنے والا امام صاحبؒ کے برابر علم والا نہیں ہو سکا۔
 

الف عین

لائبریرین
شکل و صورت

خطیب بغدادیؒ نے امام ابو یوسفؒ سے روایت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ متوسط قد ، حسین وجمیل، فصیح و بلیغ اور خوش آواز تھے،دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ امام صاحبؒ خوبصورت داڑھی ، عمدہ کپڑے ، اچھے جوتے، خوشبودار اور بھلی مجلس والے رعب دار آدمی تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت شیریں ، آواز بلند اور صاف ہوا کرتی تھی ۔کیسا ہی پیچیدہ مضمون ہو نہایت صفائی اور فصاحت سے ادا کرسکتے تھے ۔مزاج میں ذرا تکلف تھا۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے، ابو مطیعانؒ کے شاگرد کا بیان ہے کہ ’’ میں نے ایک دن ان کو نہایت قیمتی چادر اور قمیص پہنے دیکھا جن کی قیمت کم از کم چار سو درہم رہی ہو گی ۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
بچپن کا زمانہ

امام صاحبؒ کے بچپن کا زمانہ نہایت پر آشوب زمانہ تھا۔ حجاج بن یوسف، خلیفہ عبد الملک کی طرف سے عراق کا گورنر تھا۔ ہر طرف ایک قیامت بر پاتھی ۔حجاج کی سفاکیاں زیادہ تر انہیں لوگوں پر مبذول تھیں جو ائمہ مذاہب اور علم و فضل کی حیثیت سے مقتدائے عام تھے ۔خلیفہ عبد الملک نے ۸۶ھ میں وفات پائی اور اس کا بیٹا ولید تخت نشین ہوا۔
اس زمانہ کی نسبت حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کر تے تھے۔’’ولید شام میں ، حجاج عراق میں، عثمان حجازمیں ، قرہ مصر میں، واللہ تمام دنیا ظلم سے بھری تھی ‘‘۔
ملک کی خوش قسمتی تھی کہ حجاج ۹۵ھ میں مر گیا۔ولید نے بھی ۹۶ھ میں وفات پائی۔ ولید کے بعد سلیمان بن عبد الملک نے مسندِ خلافت کو زینت دی جس کی نسبت مورخین کا بیان ہے کہ خلفاءِ بنوامیہ میں سب سے افضل تھا۔ سلیمانؒ نے اسلامی دنیا پر سب سے بڑا یہ احسان کیا کہ مرتے دم تحریری وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیزؒ تخت نشیں ہوں۔ سلیمان نے ۹۹ھ میں وفات پائی اور وصیت کے موافق عمر بن عبدالعزیزؒ مسندِ خلافت پر بیٹھے جن کا عدل و انصاف اور علم و عمل معروف و مشہور ہے۔
غرض حجاج و ولید کے عہد تک تو امام ابو حنیفہؒ کو تحصیلِ علم کی طرف متوجہ ہونے کی نہ رغبت ہو سکتی تھی نہ کافی موقع مل سکتا تھا۔ تجارت باپ دادا کی میراث تھی ا س لئے خز ( ایک خاص قسم کے کپڑے ) کا کارخانہ قائم کیا اور حسنِ تدبیر سے اسکو بہت کچھ ترقی دی۔
 

الف عین

لائبریرین
تعلیم و تربیت، شیوخ و اساتذہ

تعلیم وتربیت

سلیمان کے عہدِ خلافت میں جب درس و تدریس کے چرچے زیادہ عام ہوئے تو آپ کے دل میں بھی ایک تحریک پیدا ہوئی، حسنِ اتفاق کہ ان ہی دنوں میں ایک واقعہ پیش آیا جس سے آپ کے ارادہ کو اور بھی استحکام ہوا۔
امام صاحبؒ ایک دن بازار جارہے تھے ۔ امام شعبیؒ جو کوفہ کے مشہور امام تھے ،ان کا مکان راہ میں تھا ،سامنے سے نکلے تو انہوں نے یہ سمجھ کر کہ کوئی نوجوان طالب علم ہے بلا لیا اور پوچھا ’’کہا ں جارہے ہو؟‘‘ انہوں نے ایک سودا گر کا نام لیا۔ امام شعبیؒ نے کہا ’’میرا مطلب یہ نہ تھا۔ بتاؤ تم پڑھتے کس سے ہو ؟ ‘‘ انہوں نے افسوس کے ساتھ جواب دیا ’’ کسی سے نہیں۔ ‘‘ شعبیؒ نے کہا ’’مجھ کو تم میں قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں ، تم علماء کی صحبت میں بیٹھاکرو۔‘‘ یہ نصیحت ان کے دل کو لگی اور نہایت اہتمام سے تحصیلِ علم پر متوجہ ہوئے۔
 

الف عین

لائبریرین
علمِ کلام کی طرف توجہ

علمِ کلام زمانۂ ما بعد میں اگر چہ مدون و مرتب ہوکر اکتسابی علوم میں داخل ہو گیا۔ لیکن اس وقت تک اس کی تحصیل کے لئے صرف قدرتی ذہانت اور مذہبی معلومات درکارتھیں ۔قدرت نے امام ابوحنیفہؒ میں یہ تمام باتیں جمع کردی تھیں ۔ رگوں میں عراقی خون اور طبیعت میں زور اور جدت تھی ۔امام ابو حنیفہؒ نے اس فن میں ایساکمال پیدا کیا کہ بڑے بڑے اساتذۂ فن بحث کر نے میں ان سے جی چراتے تھے۔
تجارت کی غرض سے اکثر بصرہ جانا ہوتا تھا جو تمام فرقوں کادنگل اور خاص کر خارجیوں کامر کز تھا۔ اباضیہ ، صغزیہ ، حشویہ وغیرہ سے اکثر بحثیں کیں اور ہمیشہ غالب رہے ۔بعد میں انہوں نے قانون میں منطقی استدلال اور عقل کے استعمال کا جو کمال دکھایا اور بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے میں جو شہرت حاصل کی وہ اسی ابتدائی ذہنی تربیت کا نتیجہ تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
علم فقہ کی تحصیل کا پسِ منظر

شروع شروع میں تو امام صاحبؒ علمِ کلام کے بہت دلدادہ رہے لیکن جس قدر عمر اور تجربہ بڑھتا جاتا تھا ان کی طبیعت رکتی جاتی تھی خود ان کا بیان ہے کہ ’’ آغازِ عمر میں اس علم کو سب سے افضل جانتا تھا ، کیونکہ مجھ کو یقین تھا کہ عقیدہ و مذہب کی بنیاد انہی باتوں پر ہے ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ صحابہ کبارؓ ان بحثوں سے ہمیشہ الگ رہے ۔حالانکہ ان باتوں کی حقیقت ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا۔ان کی توجہ جس قدر تھی ،فقہی مسائل پر تھی اور یہی مسائل وہ دوسروں کو تعلیم دیتے تھے ۔ساتھ ہی خیال گزرا کہ جو لوگ علمِ کلام میں مصروف ہیں ان کا طرزِ عمل کیا ہے ۔اس خیال سے اور بھی بے دلی پیدا ہوتی کیونکہ ان لوگوں میں وہ اخلاقی پاکیزگی اور روحانی اوصاف نہ تھے جو اگلے بزرگوں کا تمغہ امتیاز تھا ۔
اسی زمانہ میں ایک دن ایک عورت نے آ کر طلاق کے سلسلے میں مسئلہ پوچھا۔ امام صاحب خود تو بتا نہ سکے ۔ عورت کو ہدایت کی کہ امام حمادؒ جن کا حلقۂ درس یہاں سے قریب ہے جا کر پوچھے، یہ بھی کہہ دیا کہ حماد جو کچھ بتائیں مجھ سے کہتی جانا ۔تھوڑی دیر کے بعد آئی اور کہا کہ حماد نے یہ جواب دیا۔ امام صاحبؒ فرماتے ہیں ۔مجھ کو سخت حیرت ہوئی اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور حماد کے حلقۂ درس میں جا بیٹھا۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
حمادؒ کی شاگردی

حمادؒ کوفہ کے مشہور امام اور استادِ وقت تھے۔ حضرت انسؓ سے جو رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص تھے،حدیث سنی تھی اور بڑے بڑے تابعین کے فیضِ صحبت سے مستفید ہوئے تھے ۔اس وقت کوفہ میں انہی کا مدرسہ مرجعِعام سمجھا جاتا تھا۔ اس مدرسۂ فکر کی ابتداء حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے شاگرد شریحؒ، علقمہؒ اور مسروقؒ اس مدرسہ کے نامور ائمہ ہوئے جن کا شہرہ اس وقت تمام دنیائے اسلام میں تھا۔ پھر ابراہیم نخعیؒ اور ان کے بعد حمادؒ تک اس کی امامت پہنچی۔
حضرت علیؓ و عبد اللہ بن مسعودؓ سے فقہ کا جو سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مدار انہی پر رہ گیا تھا۔ ان وجوہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علمِفقہ پڑھنا چاہا تو استادی کے لئے انہی کو منتخب کیا۔ ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روزکے بعد جب حماد کو تجربہ ہو گیاکہ تمام حلقہ میں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ’’ ابو حنیفہؒ سب سے آگے بیٹھا کریں۔‘‘
حضرت حمادؒ کے حلقۂ درس میں ہمیشہ حاضر ہو تے رہے۔ خود امام صاحبؒ کابیان ہے کہ ’’میں دس برس تک حمادؒ کے حلقہ میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کاتعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں حمادؒ کا ایک رشتہ دار جو بصرہ میں رہتا تھا انتقال کر گیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر بغرض تعزیت سفرپرروانہ ہو گئے۔‘‘
چونکہ مجھ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے، تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کیلئے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینہ کے بعد حماد بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ کل ساٹھ مسئلے تھے، ان میں سے انہوں نے بیس غلطیاں نکالیں، باقی کی نسبت فرمایا کہ تمہارے جواب صحیح ہیں ۔میں نے عہد کیا کہ حمادؒ جب تک زندہ ہیں ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا ۔
متعدد طریق سے یہ بھی مروی ہے کہ آپؒ نے قرأت امام عاصمؒسے سیکھی جن کا شمار قراءِسبعہ میں ہو تا ہے اور انہیں کی قرأت کے مطابق قرآن حفظ کیا۔
 

الف عین

لائبریرین
حدیث کی تحصیل

حمادؒ کے زمانہ میں ہی امام صاحبؒ نے حدیث کی طرف توجہ کی کیونکہ مسائلِ فقہ کی مجتہدانہ تحقیق جو امام صاحبؒ کو مطلوب تھی حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہذاکوفہ میں کوئی ایسا محدث باقی نہ بچا جس کے سامنے امام صاحبؒ نے زانوئے شاگردی تہ نہ کیا ہواور حدیثیں نہ سیکھیں ہوں ۔ ابو المحاسن شافعیؒ نے جہاں ان کے شیوخِ حدیث کے نام گنائے ہیں ، ان میں ترا نوے (۹۳) شخصوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ لوگ کوفہ کے رہنے والے یااس اطراف کے تھے۔ اور ان میں اکثر تابعی تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
مکہ کا سفر

امام ابو حنیفہؒ کو اگرچہ ان درسگاہوں سے حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا ۔ تاہم تکمیل کی سند حاصل کر نے کے لئے حرمین جانا ضروری تھا جو علومِ مذہبی کے اصل مرا کز تھے ۔جس زمانہ میں امام ابوحنیفہؒ مکہ پہنچے۔ درس و تدریس کا نہایت زور تھا۔ متعدداساتذہ جو فنِ حدیث میں کمال رکھتے تھے اور اکثر صحابہؓ کی خدمت سے مستفید ہوئے ، انکی الگ الگ درسگاہ قائم تھی ۔ان میں عطا ئؒ مشہور تابعی تھے جو اکثر صحابہؓ کی خدمت میں رہے اور ان کی فیضِ صحبت سے اجتہاد کا رتبہ حاصل کیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ ، اسامہ بن زیدؓ، جابر بن عبداللہؓ، زید بن ارقمؓ، ابو دردائؓ ، ابوہریرہؓ ، اور بہت سے صحابہ سے حدیثیں سنی تھیں۔ مجتہدین صحابہؓ ان کے علم و فضل کے معترف تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ’’عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے لوگ میرے پاس کیوں آتے ہیں؟‘‘ بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً اوزاعی، زُہریؒ ،عمرو بن دینارؒ انہی کے حلقۂ درس سے نکل کر استاد کہلائے۔
امام ابو حنیفہؒ استفادہ کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔روز بروز امام صاحبؒ کی ذہانت و طباعی کے جوہر ظاہر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ استاد کی نظر میں آپ کا وقار بھی بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ جب حلقۂ درس میں جاتے تو عطاء اوروں کو ہٹا کر امام صاحبؒ کو اپنے پہلو میں جگہ دیتے ۔عطائؒ ۱۱۵ھ تک زندہ رہے اس مدت میں امام ابو حنیفہؒ ان کی خدمت میں اکثر حاضر رہے اور مستفید ہو ئے۔
عطاؒ ء کے سوا مکہ معظمہ کے اور محدثین جن سے امام صاحبؒ نے حدیث کی سند لی ۔ ان میں عکرمہؒ کا ذکر خصوصیت سے کیا جاسکتا ہے۔ عکرمہؒ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے غلام اور شاگرد تھے۔ انہوں نے نہایت توجہ اور کوشش سے ان کی تعلیم و تربیت کی تھی یہاں تک کہ اپنی زندگی ہی میں اجتہاد و فتویٰ کا مجاز کر دیا تھا۔ امام شعبیؒ کہا کرتے تھے کہ قرآن کا جاننے والا عکرمہؒ سے بڑھ کر نہیں رہا۔ سعید بن جبیرؒ سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے فرمایا: ہاں!
 

الف عین

لائبریرین
مدینہ کا سفر

اسی زمانہ میں ابو حنیفہؒ نے مدینہ کا قصد کیا کہ حدیث کا مخزن اور نبوت کا اخیر قرار گاہ تھی۔ صحابہ کے بعد تابعین کے گروہ میں سے سات شخص علمِ فقہ و حدیث کے مرجع بن گئے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ جب مدینہ پہنچے تو ان بزرگوں میں سے صرف دو شخص زندہ تھے سلیمانؒ اور سالم بن عبد اللہؒ۔سلیمان حضرت میمونہؓ کے جو رسولﷺ کی ازواج مطہراتؓمیں سے تھیں ، غلام تھے ۔اور فقہاء سبعہ میں فضل و کمال کے لحاظ سے ان کادوسرا نمبر تھا۔ سالمؒ حضرت فاروق اعظمؓ کے پوتے تھے اور اپنے والد بزرگوار سے تعلیم پائی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیثیں روایت کیں ۔
امام ابو حنیفہؒ کے تعلیم کا سلسلہ اخیر زندگی تک قائم رہا اکثر حرمین جاتے اور مہینوں قیام کر تے تھے۔آپ نے وہاں کے فقہاء و محدثین سے تعارف حاصل کیا اور حدیث کی سند لی۔
 

الف عین

لائبریرین
امام صاحبؒ کے اساتذہ

امام ابو حفص کبیرؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کے شمار کرنے کا حکم دیا۔ حکم کے مطابق شمار کئے گئے تو ان کی تعداد چار ہزار تک پہنچی۔ علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں جہاں ان کے شیوخِ حدیث کے نام گنائے ہیں اخیر میں لکھ دیا ہے ’’وخلق ٌکثیرٌ‘‘۔ حافظ ابو المحاسن شافعیؒ نے تین سوانیس(۳۱۹) شخصیتوں کے نام بقیدِ نسب لکھے ہیں ۔
امام صاحبؒ نے ایک گروہِ کثیر سے استفادہ کیا جو بڑے بڑے محدث اور سند و روایت کے مرجعِ عام تھے۔ مثلاً اما م شعبیؒ ، سلمہ بن کہیلؒ، ابو اسحاق سبعیؒ ، سماک بن حربؒ، محارب بن ورثائؒ، عون بن عبد اللہؒ ، ہشام بن عروہؒ، اعمشؒ، قتادہؒ، شعبہؒاور عکرمہؒ۔ ہم مختصرا آپؒ کے خاص خاص شیوخ کا ذکرکر رہے ہیں جن سے آپؒ نے مدتوں استفادہ کیا ہے۔
امام شعبیؒ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اول اول امام ابو حنیفہؒ کو تحصیلِ علم کی رغبت دلائی تھی۔ بہت سے صحابہؓ سے حدیثیں روایت کی تھیں۔مشہور ہے کہ پانسو صحابہؓ کو دیکھا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ان کو ایک بار مغازی کا درس دیتے دیکھا تو فرمایا کہ ’’ واللہ! یہ شخص اس فن کو مجھ سے اچھا جانتا ہے‘‘ ۔ ۱۰۶ھ میں وفات پائی۔
سلمہ بن کہیلؒ مشہور محدث اور تابعی تھے۔ ابن سعدؒ نے ان کو کثیر الحدیث لکھا ہے ۔ابن مہدیؒ کا قول تھا کہ کوفہ میں چار شخص سب سے زیادہ صحیح الروایت تھے: منصورؒ ، سلمہ بن کہیلؒ ، عمرو بن مرہؒ، ابو حصینؒ۔
ابو اسحاق سبیعیؒ کبارِ تابعین میں سے تھے۔ عبد اللہؓبن عباسؒ ، عبد اللہ بن عمرؓ ، ابن زبیرؓ ،نعمان بن بشیرؓ ، زید بن ارقمؓ سے حدیثیں سنی تھیں ۔ عجلیؒ نے کہا ہے کہ اڑتیس صحابہؓ سے ان کو بالمشافہ روایت حاصل ہے ۔
محاربؒ بن ورثاء نے عبد اللہ بن عمرؓ اور جابرؓ وغیرہ سے روایت کی ۔ امام سفیان ثوریؒ کہا کر تے تھے کہ ’’ میں نے کسی زاہد کو نہیں دیکھا جس کو محاربؒ پر ترجیح دوں‘‘۔ علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ’’ محاربؒ عموماً حجت ہیں۔ ‘‘ کوفہ میں منصبِ قضا پر معمور تھے۔ ۱۱۶ھ میں وفات پائی
عونؒ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعودؓ ،حضرت ابو ہریرہؓ اور عبد اللہ بن عمرؓ سے حدیثیں روایت کیں ۔ نہایت ثقہ اور پر ہیزگار تھے۔
ہشام بن عروہؒ معزز و مشہور تابعی تھے بہت سے صحابہؓ سے حدیثیں روایت کیں ۔ بڑے بڑے ائمۂ حدیث مثلاً سفیان ثوریؒ ، امام مالکؒ ، سفیان بن عیینہؒ ان کے شاگرد تھے ۔خلیفہ منصور ان کا احترام کیا کر تا تھا۔ان کے جنازہ کی نماز بھی منصور نے ہی پڑھائی تھی ابن سعدؒنے لکھا ہے وہ ثقہ اور کثیر الحدیث تھے۔
اعمشؒ کوفہ کے مشہور امام تھے ۔ صحابہؓ میں سے انس بن مالکؓ سے ملے تھے اور عبدللہ بن اونیؒ سے حدیث سنی تھی ۔ سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ ان کے شاگرد ہیں۔
قتادہؒ بہت بڑے محدث اور مشہور تابعی تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ و عبد اللہ بن سرخسؓ و ابو الطفیلؓ اور دیگر صحابہ سے حدیثیں روایت کیں۔ حضرت انسؓ کے دو شاگرد جو نہایت نامور ہیں ان میں ایک ہیں۔ اس خصوصیت میں ان کو نہایت شہرت تھی کہ حدیث کو بعینہ ادا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی فقہ و واقفیتِ اختلاف و تفسیر دانی کی نہایت مدح کی ہے اور کہا ہے کہ ’’کو ئی شخص ان باتو ں میں ان کے برا بر ہو تو ہو مگر ان سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔‘‘
شعبہؒ بھی بڑے رتبہ کے محدث تھے۔ سفیان ثوریؒ نے فن حدیث میں ان کو امیرالمومنین کہا ہے ۔ عراق میں یہ پہلے شخص ہیں جس نے جرح و تعدیل کے مراتب مقرر کئے ۔ امام شافعیؒ فرمایا کر تے تھے کہ شعبہؒ نہ ہو تے تو عراق میں حدیث کا رواج نہ ہوتا۔ شعبہؒ کا امام ابو حنیفہ کے ساتھ ایک خاص ربط تھا۔ غائبا نہ ان کی ذہانت و خوبئ فہم کی تعریف کر تے تھے۔ ایک بار امام صاحبؒ کا ذکر آیا تو کہا جسیقین کے ساتھ میں یہ جانتا ہوں کہ آفتاب روشن ہے اسی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علم اور ابو حنیفہؒ روشن ہیں۔
یحیٰ بن معین( جو امام بخاریؒ کے استاذ ہیں) سے کسی نے پوچھا کہ آپ ابو حنیفہؒ کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں ؟ فرمایا اس قدر کافی ہے کہ شعبہؒ نے انکو حدیث و روایت کی اجازت دی اور شعبہ آخر شعبہؒہی ہیں۔ بصرہ کے اور شیوخ جن سے ابو حنیفہؒ نے حدیثیں روایت کیں ۔ ان میں عبد الکریم بن امیہؒ اور عاصم بن سلیمان الاحولؒ زیادہ ممتاز ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
استاد کی عزت

امام صاحبؒ کو طلبِ علم میں کسی سے عار نہ تھی ۔امام مالکؒ عمر میں ان سے تیرہ برس کم تھے ۔ ان کے حلقۂ درس میں بھی اکثر حاضر ہوئے اور حدیثیں سنیں ۔علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ امام مالکؒ کے سامنے ابوحنیفہؒ اس طرح مؤدب بیٹھتے تھے جس طرح شاگرد استاد کے سامنے بیٹھتا ہے۔ اس کو بعض کوتاہ بینوں نے امام صاحبؒ کی کسرِ شان پر محمول کیا ہے لیکن ہم اس کو علم کی قدر شناسی اور شرافت کا تمغہ سمجھتے ہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
امام صاحبؒ کی قدر

امام صاحبؒ کے اساتذہ ان کااس قدر ادب و احترام کرتے تھے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا ۔محمد بن فضلؒ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ امام ابوحنیفہؒ ایک حدیث کی تحقیق کے لئے خطیبؒ کے پاس گئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ خطیبؒ نے ان کو آتے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تعظیم کے ساتھ لا کر اپنے برابر بٹھایا۔
عمرو بن دینارؒ جو مکہ کے مشہور محدث تھے ۔ابوحنیفہؒ کے ہوتے ہوئے حلقۂ درس میں اور کسی کی طرف خطاب نہیں کرتے تھے ۔
امام مالکؒ بھی ان کا نہایت احترام کرتے تھے۔عبداﷲ بن مبارکؒ کی زبانی منقول ہے کہ میں امام مالکؒ کے درسِ حدیث میں حاضر تھا۔ ایک بزرگ آئے جن کی انہوں نے نہایت تعظیم کی اور اپنے برابر بٹھایا۔ ان کے جانے کے بعد فرمایا ’’ جانتے ہو یہ کون شخص تھا ؟ یہ ابوحنیفہؒ عراقی تھے جو اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔‘‘ ذرا دیر کے بعد ایک اور بزرگ آئے امام مالکؒ نے ان کی بھی تعظیم کی لیکن نہ اس قدر جتنی ابوحنیفہؒ کی کی تھی، وہ اٹھ گئے تو لوگوں سے کہا ’’یہ سفیان ثوریؒ تھے۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
علمی ترقی کا ایک سبب

امام صاحبؒ کی علمی ترقی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ان کو ایسے بڑے بڑے اہل کمال کی صحبتیں میسر آئیں جن کا ابھی تذکرہ گزرا ۔اور جن شہروں میں ان کو رہنے کا اتفاق ہوا یعنی کوفہ ، بصرہ ، مکہ اور مدینہ ، یہ وہ مقامات تھے کہ مذہبی روایتیں وہاں کی ہوا میں سرایت کر گئی تھیں۔ علماء سے ملنے اور علمی جلسوں میں شریک ہو نے کا شوق امامؒ کی خمیر میں داخل تھا۔ساتھ ہی ان کی شہرت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جہاں جاتے تھے استفادہ ، ملاقات ، مناظرہ کی غرض سے خود ان کے پاس ہزاروں آدمیوں کا مجمع رہتا تھا۔
تاریخِ بغداد کے حوالہ سے شیخ ابو زہرہ لکھتے ہیں ۔’’ ایک روز امام ابو حنیفہؓ منصور کے دربار میں آ ئے وہاں عیسی بن موسی بھی موجود تھا اس نے منصور سے کہا یہ اس عہد کے سب سے بڑے عالم دین ہیں۔
منصور نے امام صاحب کو مخاطب ہو کر کہا۔۔۔۔۔’’نعمان ! آپ نے علم کہاں سے سیکھا؟‘‘ فرمایا ’’حضرت عمرؓ کے تلامذہ سے، نیز شاگردانِ علیؓ سے اور تلامذۂ عبداللہ بن مسعودؓ سے۔‘‘ منصور بولا’’ آپ نے بڑا قابلِ اعتماد علم حاصل کیا۔‘‘(حیات حضرت امام ابوحنیفہؒ)
 

الف عین

لائبریرین
درس کا آغاز

امام صاحبؒ کے خاص استاد حضرت حمادؒ نے ۱۲۰ھ میں وفات پائی۔ چونکہ ابراہیم نخعیؒ کے بعد فقہ کا دارو مدار انہی پر رہ گیا تھا ان کی موت نے کوفہ کو بے چراغ کر دیا لہٰذا تمام بزرگوں نے متفقاً امام ابو حنیفہؒ سے درخواست کی کہ مسندِ درس کو مشرف فرمائیں۔ اس وقت امام صاحبؒ کی عمر چالیس سال تھی بنا بریں جسم و عقل میں کامل ہو نے کے بعد آپ نے مسندِ درس کو سنبھالا۔
ابوالولیدؒ کا بیان ہے کہ لوگوں نے ان کے پاس وہ سب کچھ پایا جو ان کے بڑوں کے پاس نہیں ملا اور نہ ہی ان کے ہم عمروں میں چنانچہ لوگ آپؒ کی صحبت میں آ گئے او ر غیروں کو چھوڑ دیا ۔
انہی دنوں میں امام صاحبؓ نے خواب دیکھا کہ پیغمبرﷺکی قبرِمبارک کھود رہے ہیں ۔ ڈر کر چونک پڑے اور سمجھے کہ ناقابلیت کی طرف اشارہ ہے ۔ امام ابن سیرینؒ علمِ تعبیر کے استاد مانے جاتے تھے انہوں نے تعبیر بتائی کہ اس سے ایک مردہ علم کو زندہ کر نا مقصود ہے۔ امام صاحبؒ کو تسکین ہو گئی اور اطمینان کے ساتھ درس و افتاء میں مشغول ہو گئے ۔
 

الف عین

لائبریرین
درس کے اوقات

معمول تھا صبح کی نماز کے بعد مسجد میں درس دیتے ، دور دور سے استفتا آئے ہوتے۔ ان کے جواب لکھتے۔ پھر تدوینِ فقہ کی مجلس منعقد ہو تی، بڑے بڑے نامور شاگردوں کا مجمع ہو تا ۔ پھر ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آتے گرمیوں میں ہمیشہ ظہر کے بعد سورہتے۔ نمازِ عصر کے بعد کچھ دیر تک درس و تعلیم کا مشغلہ رہتا۔ باقی دوستوں سے ملنے ملانے، بیماروں کی عیادت ،تعزیت اور غریبوں کی خبر گیری میں صرف ہوتا ۔ مغرب کے بعد پھر درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور عشاء تک رہتا۔نمازِ عشاء پڑھ کر عبادت میں مشغول ہوتے اور اکثر رات رات بھر نہ سوتے۔
 
Top