شمشاد
لائبریرین
ابن الوقت
ابن الوقت اردو محفل مواد دھاگہ
ابن الوقت ٹائپنگ اپڈیٹ دھاگہ
ابن الوقت ریختہ ربط
ابن الوقت گوگل ڈاکس پر
ریختہ صفحہ 26
فصل اول
ابن الوقت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن الوقت کی تقریب
آج کل 1 کا سا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے وقت میں انگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں کہ ریل میں بہ ضرورت کوئی بھلا مانس چرٹ پیتا تو جان پہچان والوں سے چراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بندوبست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا۔ ہندوستانی جوتی اس رپڑ میں کیا ٹھہرتی۔ ناچار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے مگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میں کبھی کے پڑے ہوئے پھٹے پرانے لیترے ڈھونڈ کر پاؤں میں ہلگا لیتے' تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔ دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں
-----------------------------------------
1- یہ کتاب ء1888 میں لکھی گئی تھی۔
ریختہ 27
پر تھا۔ ملکی لاٹ آئے اور تمام درسگاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ قدردانی ہو تو ایسی ہو کہ جس جماعت میں جاتے مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوعاً کرہاً بادل نخواستہ آدھا مصافحہ کیا تو سہی، مگر اس ہاتھ کو عضو نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منہ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ (انگریزی صابون سے نہیں بلکہ مٹی سے) رگڑ رگڑ کر اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔ ابن الوقت جیسے ملامتی نہیں تو اس کے ہم خیال خال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا انگریزی کالج میں انگریزی پڑھتے تھے۔ اب لڑکوں میں سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آ نکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوا ڈالتے۔
ہر چند تعصبات ِ لغو کی کوئی حد نہ تھی، بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسے ان دنوں کی مطمئن تھی۔ آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار بہ منزلہ مہربان باپ کے تھی اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لئے کچھ ایسے نا سزا وار ہوا جیسے آدم اور اس کی نسل کے حق میں گہیوں کا کھا لینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی وضع کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو،اختلاط ہو، مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ” دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر“ ۔ دیکھیں آخر کار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
ذرا مشکل سے اس بات کا پتہ لگے گا کہ کون سی چیز ابن الوقت کو انگریزی وضع کے اختیار کرنے میں محرک ہوئی۔ وہ ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا جس کے لوگ پاس وضع کو شرط شرافت سمجھتے تھے۔ شرف ِ علم ان میں متوارث تھا۔ اس خاندان کے لوگ بعض طبیب تھے۔ بعض مدرس( سرکاری نہیں) بعض مفتی بعض
ریختہ 28
واعظ بعض حافظ بعض صاحب سجادہ طریقت ۔ الغرض ع “ایں خانہ تمام آفتاب است” لوگ سب نہیں تو اکثر وللاِکثَرِ حُکُمُ الکُلِّ ہر طرح کے ہنروں سے متصف اور ہر طرح کے کمالات سےمتجلّے تھے۔ شاہی قلعہ ان سب کے معاش کا متکفل تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان لوگوں کو اگر تعلق تھا تو اسی قدر کہ انگریزی عمل داری میں رہتے تھے وہ بھی اپنے زعم میں نہیں ۔ ابن الوقت کے کالج میں داخل ہونے کا بھی یہ سبب ہوا کہ شہر کے مشاہیر جو عربی فارسی میں مستند تھے سرکار نے چن چن کر سب کو پابند مدرسہ کرلیا تھا۔ پس ابن الوقت مدرسے میں داخل کیا گیا نہ اس غرض سے کہ مدرسے کی طالب العلمی کو ذریعہ معاش قرار دے بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی عربی فارسی ٹکسالی ہو ۔ ابن الوقت اپنے وقت کے منتخب نہیں بھی تو اچھے لڑکوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ مناسب طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض ہم جماعت اس سے خاص خاص چیزوں میں اچھے بھی تھے مگر اس کے مجموعی نمبر کبھی کسی سے ہیٹے نہیں رہے۔ وجہ کیا تھی کہ جس قدر وہ ریاضی میں کچا تھا، تاریخ، جغرافیہ، سیاست مدن، اخلاق وغیرہ سے جن کا اس کو شوق تھا، اس خامی کی تلافی بخوبی ہوتی رہتی تھی۔ مدرسے کی ساری پڑھائی میں اس کی پسند کی چیز تاریخ تھی، کسی ملک اور کسی وقت کی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت عام باتوں میں خوب لگتی تھی۔ جواب مضمون پر ہر سال ایک نقرئی تمغہ ملا کرتا تھا۔ چھ سال ابن الوقت مدرسے میں رہا،کسی برس کسی وقت اس نے وہ تمغہ انگریزی، عربی، فارسی،سنسکرت میں کسی کو لینے ہی نہیں دیا۔ جب موقع ملتا تھا ابن الوقت پرانی دلی کے کھنڈروں میں تعطیل کے دنوں کو ضرور صرف کرتا۔غیر ممالک کے لوگ تجارت، سیاحت یا کسی دوسری ضرورت سے شہر میں آنکلتے تو ابن الوقت اوبدا کران سے ملتا اور ان کے ملک کے حالات و عادات کی تفتیش کرتا۔ اس کا حافظہ معلومات تاریخی کے ذخیرے سے اس قدر معمور تھا کہ وہ معمولی بات چیت میں واقعات زمانہ گزشتہ سے اکثر استشہاد کیا کرتا۔ ایک بار اس نے باتوں ہی باتوں میں سلیٹ پر اپنی یاداشت سے ایشیا کا
ریختہ 29
نقشہ کھینچا اور مشہور شہروں اور پہاڑوں اور دریاﺅں کے مواقع اس میں ثبت کئے ۔ پھر جو ملا کر دیکھا تو یہ بہ تفاوت ِ یسیر اکثر صحیح ۔وہ دنیا کی قوموں اور ذاتوں اور رسموں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ مذہب کے بارے میں اس کی معلومات کتاب الملل و النمل سے کہیں زیادہ تھی ۔جب کوئی نئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی، اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا؟ کہاں کا رہنے والا تھا؟ کس زمانے میں تھا؟ کس سے اس نے پڑھا؟ اس کے معاصر کون کون تھے؟ اس کی وقاع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے؟ تعزز اور ترفع ابن الوقت کے مزاج میں اس درجے کا تھا کہ لوگ اس کی خود داری کو منجربہ کبر خیال کرتے ۔ دوسرے کا احسان اٹھانے کی اس کو سخت عار تھی‘ یہاں تک کہ وہ استاد کی بجائے کسی ہم جماعت سے پوچھنے تک میں مضائقہ کرتا۔ وہ ہمیشہ ایسے مدرس کی جماعت میں رہنا چاہتا جس کی پرنسپل زیادہ عزت کرتا ہو اور اسی سبب سے وہ کئی بار عربی سے فارسی اور فارسی سے عربی میں بدلتا پھرا۔ ابن الوقت اپنی رائے بہ دیر قائم کرتا تھا مگر جب ایک بار قائم کر لیتا اس کو بدلنے کی گویا اس کو قسم تھی۔ اس کی یہ رائے کسی سے مخفی نہ تھی۔ کہ کسی قوم میں سلطنت کا ہونا اس بات کی کافی دلیل ہے کی اس قوم کے مراسم، عادات، خیالات، افعال، اقوال، حرکات، سکنات یعنی کل حالات فرداً فرداً نہیں تو مجتمعاً ضرور بہتر ہیں۔ وہ نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے قوم کی برتری کا انگریزی نوکری کی نہ اس کو ضرورت تھی اور نہ طلب۔ پس وہ اپنی اسی رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو اگرچہ گھٹکا بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس خیال کے آدمی کو خصوصاً جب کہ وہ کالج میں داخل بھی تھا، انگریزی خوان ہونا چاہیے تھا اور اس کے دل میں انگریزی پڑھنے کا تقاضا بھی ضرور پیدا ہوتا ہو گا مگر باپ کی وفات پا جانے سے نواب معشوق محل بیگم کی سرکار کی موروثی مختاری اس کے سر پڑی۔ ہر چند اس کے بڑے بھائی ایک اور بھی تھے اور چاہتے تو مختاری کو وہ سنبھال لیتے مگر
ریختہ 30
ان کو اپنے اوراد و وظائف سے مطلق فرصت نہ تھی اور وہ آدمی تھے بھی وحشت زدہ سے، ناچار ابن الوقت کو اس سرکار کا بڑا بھاری کارخانہ سنبھالنا پڑا۔ چند روز تک ابن الوقت نے یوں بھی کر کے دیکھا کہ خارج از اوقات مدرسہ قلعے کا کام دیکھتا بھالتا۔ بیگم کی طرف سے تو خدانخواستہ کسی طرح کی سختی نہ تھی مگر خود ابن الوقت دیکھتا تھا کہ اس کا وقت دونوں کاموں کے لیے مساعدت نہیں کرتا۔ پس اس نے مجبور ہو کر مدرسے سے اپنا نام کٹوا لیا۔ پھر بھی وہ تاریخ وغیرہ اپنے ڈھب کی کتابوں کے لیے شاہی کتب خانے اور اخباروں کے واسطے مطبع سلطانی کے بلاناغہ حاضر باشوں میں تھا۔ تاریخ اور اخبار کی اس کو ایسی دھت تھی کہ وہ کبھی ان چیزوں سے ملول ہوتا ہی نہ تھا۔
ابن الوقت نے مدرسہ چھوڑا تو گو وہ عربی فارسی جماعتوں کا طالب علم تھا تاہم اس کو مشق کے لیے ریاضی کی انگریزی کتابوں سے مدد لینے کی ہمیشہ ضرورت واقع ہوا کرتی تھی۔ ناچار اس کو انگریزی کے حروف پہچاننے پڑے۔ طبیعت تھی اخاذ 1حرفوں کا پہچاننا تھا کہ چند روز میں اٹکل سے سوالات کا طریقہ حل سمجھنے لگا اور یوں ریاضی کے روکن میں اس کی انگریزی کی استعداد ترقی کرتی گئی۔ جب وہ انگریزی وضع اختیار کر کے اپنے پندار میں پورا صاحب لوگ بن گیا۔ اس زمانے میں بھی وہ انگریزی سمجھ تو خاصی طرح لیتا تھا مگر زبان انگریزی میں بے تکلف بات چیت کرنے کی اس کو ساری عمر قدرت حاصل نہ ہوئی۔ ہم نے اس کو زمان طالب العلمی میں یا اس کے بعد سَبقاً سَبقاً انگریزی پڑھتے تو نہیں دیکھا اور اس کی خود داری مدرسے کے بعد اس کو سینگ کٹوا کر بچھڑوں میں کیوں ملنے دینے لگی تھی؟ مگر اتنا تحقیق معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لیے بہتیری ہی کوشش کرتا تھا۔ سنے سنائے سے جو اس نے اس قدر ترقی کی، سچ پوچھو تو
_________________________________
1- بڑی اخذ کرنے والی
ریختہ 31
یہ بھی اسی کا کام تھا ورنہ اپنا تو یہ مقولہ ہے کہ آدمی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کا زبان دان، جیسا کہ زبان دانی کا حق ہے، ہو ہی نہیں سکتا۔
کیا صاحب قاموس کی حکایت نہیں سنی؟ بھلا خیر، اتنا تو سنا ہو گا کہ زبانِ عربی کی لغت کی بہت سے کتابیں ہیں، سب میں زیادہ مبسوط اور مستند قاموس ہے۔ صاحبِ قاموس ذات کا عجمی، اس کو بچپن سے زبانِ عربی کی تکمیل کا شوق ہوا۔ جہاں تک عجم میں ممکن تھا سیکھ پڑھ لیا، نجد اور تمامہ اور یمن اور شام اور حضارہ اور بداوہ میں برسوں زبان کے پیچھے خاک چھانتا پھرا۔ آخرکار ساری عمر کی تفتیش اور تلاس کے بعد قاموس بنائی تو پھر کیسی بنائی کہ ساری دنیا اس کی سند پکڑتی ہے۔ زبان دانی کا پردو خدا کو فاش کرنا تھا، عرب کی ایک بی بی سے نکاح کیا۔ رات کے وقت گھر کی لونڈی سے کہتے تھے کہ چراغ گل کر دے۔ طوطے کی ٹین ٹین کہا جائے، "اطفئی السراج" کی جگہ فارسی محاورے کے مطابق بے ساختہ "اقتلی الراج" بول اٹھے۔ بی بی تاڑ گئی۔ صبح اڑھ کر دارالقضا میں جا نالش کی۔ خدا جانے بی بی رہی یا گئی مگر میاں کی عربیت کی تو خوب کرکری ہوئی۔
انگریزی اخباروں میں جن کے اڈیٹر انگریز ہیں بابوانہ انگریزی کی ہمشہ خاک اڑائی جاتی ہے۔ اگرچہ نام تو بنگالیوں کا ہوتا ہے مگر حقیقت میں ملاحی گالیاں سبھی انگریی دانوں پر پڑتی ہیں بلکہ دوسروں پر بدرجہ اُولیٰ کیوں کہ بنگالیوں نے تو یہاں تک انگریزی میں ترقی کی ہےکہ انگریزی گویا ان کی مادری زبان ہوتی جاتی ہے اور بعض بنگالی تو انگریزی میں اس درجے کے گویا اور فصیح اور بلیغ ہو کر گزرے ہیں اور ہیں کہ انگریز بھی ان کا لوہا مانتے ہیں مگر ایسی مثالیں شاذ ہیں۔
ایک دوست ناقل تھے کہ ایک بار ان کو ایک انگریز سے ملنے کی ضرورت تھی۔ کوٹھی پر معلوم ہوا کہ یہ وقت ان کے کلب میں رہنے کا ہے۔ ناچار ان کو کلب جانا پڑا۔ چپڑاسی اطلاع کا موقع دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے کانوں سنا کہ اندر بہت سے انگریز جمع ہیں
ریختہ 32
اور ہندوستانیوں کی انگریزی کی نقل کر کرکے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ دوست یہ بھی کہنے لگے کہ جس انگریزی کی ہنسی ہورہی تھی بے شک وہ ہنسی کے قابل بھی تھی اور اہلِ زبان کو ہمیشہ دوسرے ملک والوں پر ہنسنے کا حق ہے مگر ہندوستانیوں کی انگریزی اگر ہنسنے کے قابل ہے تو اس کے مقابلے میں انگریزوں کی اردو رونے کے لائق ہے۔ ہندوستانی صرف کتاب کی مدد سے انگریزی سیکھتے ہیں، برخلاف انگریزوں کے کہ کتاب کے علاوہ ساری ساری عمر ہندوستانی سوسائٹی میں رہتے ہیں اور پھر وہی "ول ٹم کیا مانگٹا"۔
یہ مصیبت کس کے آگے روئیں کہ انگریزی عملداری نے ہماری دولت، ثروت، رسم و رواج، لباس، وضع، طور، طریقہ، تجارت، مذہب، علم، ہنر، عزت، شرافت سب چیزوں پر تو پانی پھیرا ہی تھا، ایک زبان تھی اب اس کا بھی یہ حال ہے کہ ادھر انگریزوں نے عجز و ناواقفیت کی وجہ سے اکھڑی اکھڑی، ٖلط، نا مربوط اردو بولنی شروع کی، ادھر ہر عیب کی سلطاں بہ پسندد ہنر است، ہمارے بھائی بند لگے اس کی تقلید کرنے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے کہ اچھی خاصی ریش و بروت، آغازِ جوانی میں ولایت گئے۔ چار پانچ برس ولایت رہ کر آئے تو ایسی سٹی بھولے کہ انگریزی اردو میں بہ ضرورت کبھی بات کرتے تو رک رک اور ٹھہر ٹھہر کر اور آنکھیں میچ میچ کر جیسے کوئی سوچ سوچ کر مغز سے بات اتارتا ہے۔
صفحہ 33
فصلِ دوم
ابن الوقت نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں مسٹر نوبل ایک انگریز کو پناہ دی اور اس کے ساتھ ارتباط کا ہونا اس امر کی طرف منجر ہوا کہ ابن الوقت نے آخر کار انگریزی وضع اختیار کرلی
ابن الوقت کے وقائع عمری میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کو اس کی تبدیلِ وضع میں بہت کچھ دخل ہو سکتا ہے اور وہ ذرا قصہ طلب سی بات ہے۔ بہادر شاہ کے آخری عہد میں منصبِ ولی عہدی متنازع فیہ تھا، مرزا فخر الملک اور مرزا جواں بخت میں۔ مرزا فخر الملک کے اکبر اولاد اور لائق اور روادار ہونے کی وجہ سے ان کے طرف دار بہت تھے حتیٰ کہ انگریز اور اسی گروہ میں نواب معشوق محل بیگم بھی تھیں جو مرزا فخر الملک کی خالہ ہوتی تھیں۔ مرزا جواں بخت اپنی والدہ نواب زینت محل بیگم کے کھونٹے پر کودتے تھے جن کو بادشاہ کے مزاج میں بڑا درخور تھا۔ بادشاہ کا زور طلتا تو جواں بخت کو اپنے حینِ حیات تخت نشین کر دیتے مگر انگریزوں کی پچر بڑی زبردست تھی۔ مرزا جواں بخت کے ساتھ سارے برتاؤ ولی عہدی کے برتے جاتے تھے۔ صرف دو باتوں کی کسر تھی، ایک تو ولی عہدی کی تنخواہ خوانۂ شاہی کی تحویل میں رہتی تھی، دوسرے انگریزوں نے ولی عہد کا ادب قاعدہ ان کے ساتھ نہیں رکھا۔ اس کشمکش میں طرف دارانِ مرزا فخر الملک کو برے بڑے نقصان پنہچے۔نواب معشوق محل نے جو بادشاہ کی نظر کسی قدر پھری ہوئی دیکھی ' قلعے کے باہر شہر میں کشمیری دروازے کے
ریختہ 34
قریب راحت گاہ'جوان کا بڑا نامی محل تھا' درست کراکے تبدیل آب ہوا کے حیلے سے شہر میں رہنے لگیں۔ قلعے کی آمدو رفت بھی بند نہیں کی مگر مال و متاع اور ساز و سامان سب کچھ راحت گاہ اٹھوالیا منگوالیا تھا۔
ہر چند دو ایک برس وہ جواں بختی شورش فرو بھی ہوگئی تھی مگر راحت گاہ میں نواب معشوق محل کا کچھ ایسا جی لگ گیا تھا کہ انہوں نے اپنا وہی قاعدہ رکھا۔صبح کا ناشتہ کر کے قلعے چلی جاتیں اور عصر کی نماز راحت گاہ میں پڑھتیں اور یہیں شب کے وقت آرام بھی فرماتیں' یہاں تک کہ دہلی کے حصے کی قیامت آئی یعنی سن ۵۷ء کاغدر۔غدر کے بعدنواب معشوق محل بیگم صاحب نے قلعے کے باہر پائوں نہیں رکھا۔ سےغدر سے کوئی ڈھائی پونے تین مہینے بعد وہ چار گھڑی رات گئے جو پہلا گولا دیوانِ عام میں گر کر پھٹا جس کے دھماکے سے سارا قلعہ ہل گیا' بس گولے کا پھٹنا تھا کہ نواب معشوق محل بیگم صاحب کے دل میں کچھ ایس اہول سمایا کہ اختلاجِ قلب کے صدمے سے تیسرے دن انتقال فرمایا۔ اِنّااللہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُون۔ بڑی نیک نیت اور خدا پرست اور سیر چشم بی بی تھیں۔خدا نے ان کو ان رسوائیوں اور فضیحتوں سے جو خاندانِ تیمور کی تقدیر میں لکھی تھیں بچالیا۔ ہاں تو غدر کے اگلے ہی دن نواب معشوق محل نے ابن الوقت کو حکم دیا کہ راحت گاہ کا سارا سامان رتی رتی اٹھوالائو اور راحت گاہ کے مکانوں میں تالے چڑھوادو۔اسباب سا اسباب تھا! بیس چھکڑے دن میں چار چار چکر کرتے تھے تب وہ الگاروں اسباب کہیں مہینے سوا مہینے میں جاکر ٹھکانے لگا۔
غدر کے چوتھے دن کا ذکر ہے کہ ابن الوقت کوئی دو گھڑی دن رہے آخری کھیپ روانہ کرنے کے بعد قلعے کی طرف چلا آرہا تھا'ایک آپ تھا اور دو نوکر'تینوں مسلح، اور ان دنوں جب دو آدمی آپس میں بات کرتے تھے تو بس غدر کا مذکور ہوتا تھا'یہ لوگ بھی اس طرح کا تذکرہ کرتے چلے جاتے تھے۔جوں محسن خان کے کنٹرے سے آگے بڑھ کر اس کھلے
ریختہ 35
میدان واقع تھا،دیکھتے کیا ہیں، سڑک کے بائیں طرف کچھ انگریزوں کی لاشین پڑی ہیں۔ یہ دیکھ کر ابن الوقت کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔اس وقت وہ موقع ایسا خطرناک تھا کے اکیلا کیسا ہی کوئی سورما کیوں نہ ہوتا'ڈر کے مارے گھگی بنھ جاتی مگر یہ تین آدمی تھے۔ابن الوقت لاشوں کے مقابل ذرا ٹھٹکا اور نہایت غصے اور افسوس کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:دیکھو تو ظالموں نے کیا بے جا حرکت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہر پر بڑا سخت عذاب آنے والا ہے۔خون ناحق کبھی خالی جاتے نہیں سنا۔۔خدا جانے شاہ جہاں نے کونسی منحوس تاریخ میں اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی کہ امن کی کوئی پوری صدی اس بستی پر نہ گزری مگر اس بار تو کچھ ایسا سامان نظر آتا ہے۔کہ لوگ نادر شاہ کے واقعے کو بھول جائیں گے۔" ابن الوقت کے ساتھی بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ابھی نماز مغرب میں کوئی آدھے گھنٹے کی دیر تھی۔ادھر آفتاب کا جنازہ کفن خون آلودہ شفق پہنا کر تیار کرچکے تھے کہ قبر مغرب میں اتار دیں ادھر بے کفن کی لاشیں دیواروں کے سائے کا ماتمی کفن پہن چکی تھیں۔ دہلی جیسا شہر اور شام کا وقت اور روزوں کے دن اور ایس اموقع اور دن ہوتے تو اس مقام پر کھوئے سے کھوئے چھلتا ہوتا مگر اپنے وقت ابن الوقت چوراہے پر کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہےآدم زاد کا پتا نہیں۔شہر کے بد معاشوں کے ڈر سے لوگ کچھ دن رہے سے کواڑوں میں پتھر اڑا اڑا کر گھروں میں بند ہو بیٹھے تھے۔ابن الوقت ہکا بکا سناٹے میں کھڑا تھا کہ ایک ساتھی بولا:"حضرت!افطار کا وقت قریب ہے اور قلعہ دور ' جو ہونا تھا سو ہوا اور جو تقدیر کا لکھا ہے سو ہو کر رہے گا۔ پس معلوم ہوا کہ نا بکار تلنگو کے گیہوں کے ساتھ بہتریوں کا گھن پستا ہے'چلئے تشریف لے چلئے۔"
پن چکیوں سے ادھر تھے کے ادھر پیچھے سے پیروں کی اہٹ آئی کہ کوئی شخص لپکا ہوا چلا آرہا ہے۔ لاشوں کے دیکھنے سے یہ لوگ کچھ اس قدر ہول زدہ ہوگئے تھے کہ آواز
ریختہ 36
کے ساتھ سب کے دل دھڑکنا شروع ہوئےاور بے اختیار لگے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے۔بارے شکر کہ وہ شخص نہتا تھا۔وہ تو جھپٹا ہوا چلا آرہا تھا 'ان کے قدم جو پڑے ڈھیلے' پن چکیوں سے اترتے اترتے اس نے آ ہی لیا۔ اس شخص نے دور سے ان شخصوں کی پیٹھیں ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ ان میں آقا کون ہے۔ برابر آکر اس نے ابن الوقت کو مودب اور باسلیقہ نوکروں کی طرح سلام کیا۔ ابن الوقت نے آنکھ بھر کر دیکھا تو کوئی اٹھائیس تیس برس کی عمر کا جوان آدمی تھا اور انگریزی خدمت کاروں یا اردلیوں کی سی وضع رکھتا ہے۔ دوپٹہ سر سے باندھا ہے اور پٹکا کمر سے' گویا نوکری سے چلا آ رہا ہے۔ خوف اور رنج اور اضطراب ہے کہ چہرے سے ٹپکا پڑتا ہے' ہونٹوں پر پیٹریاں بندھ گئی ہیں' سانس پیٹ میں نہیں سماتا۔ ابن لوقت سے بات کرنا چاہتا ہے مگر بار بار پھر پھر کر لاشوں کی طرف کو تاکتا جاتا ہے۔ ہر چند چھوٹا میگزین بیچ میں حائل ہے مگر پھر بھی جی نہیں مانتا اور بے دیکھے رہا نہیں جاتا۔ وہ ابن الوقت کے پوچھنے کا ہی منتظر نہ رہا اور چھوٹتے ہی بولا کہ میرا نام جانثار ہے اور میں بہادر پور کے پٹھانوں میں سے ہوں۔ چار برس سے رہتک کے جنٹ مجسٹریٹ نوبل صاحن کی اردلی میں ہوں۔ ہمارے صاحب کئی مہینے سےے بیمار ہیں۔ رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے اور بمبئی تک مجھے اپنے ساتھ لیے جاتے تھے۔ آج چوتھا دن ہے' ہم لوگ داک بنگلے میں آکر ٹھہرے۔ دوپہر کو غدر ہو گیا۔ صاحب کا مزاج نادرست تھا' بھاگ کر کہیں نہ جا سکے۔ تلنگوں نے ان کو لے جا کر کشمیری دروازے کے گارد میں قید کیا' وہاں اور بھی چند انگریزی پکڑے ہوئے تھے۔ آج سب قیدیوں کو کھڑا کر کے ناحق ناروا باڑ مار دی۔ ہمارے صاحب بھی زخمی ہو کر گرے مگر اس وقت تک ان میں جان ہے۔ میں ڈر کے مارے ان کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکا مگر آںکھ بچا کر مسجد سے پانی بدھنی ان کے پاس رکھ آیا ہوں۔ یہ خدا واسطے کا کام ہے' اگر آپ سے ہو سکے تو ہمارے صاحب کی جاب بچایئے۔ آپ کو بڑا درجہ ہو گا۔ صاحب ہیں تو انگریز مگر شریف اور شریف پرور، نیک مزاج
ریختہ 37
اور پرلے درجے کے رحم دل۔ رہتک والوں سے آپ پوچھیئے' بیسوں یتیموں اور بیواؤں کئ تنخوائیں مققر کر رکھی ہیں۔ فوجداری کے مقدموں میں مجبور ہو کر جرمانہ کرتے ہیں تو اپنے پاس سے سرکار میں بھر دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر جانثار ابن الوقت کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ "آپ لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے جو باتیں کر رہے تھے' میں دروازے کی آڑ میں چھپا سب سُن رہا تھا۔ اس سے مجھ کو آپ سے کہنے کی ہمت بھی پڑی اور میرا دل اندر سے گواہی دیتا ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے وقت صرف ہمارے صاحب کی جان بچانے کو بھیجا ہے۔
ابن الوقت نے جانثار کو زمین پر سے اٹھایا اور کہا کہ جو کچھ یہ بدذات'پاجی'نمک حرام' باغی تلنگے کر رہے ہیں' کچھ شک نہیں کہ ظلم صریح ہے اور کسی مذہب و ملت میں روا نہیں اور اگر میں تمہارے صاحب کی حفاظت کر سکوں تو میں اس کو فرض انسانیت سمجھتا ہوں مگر ان لوگوں کو کس وقت باڑ ماڑی؟
جان نثار: " دوبجے۔"
ابن الوقت: " "اوہو' دو بجے! (ایک نوکر کی طرف مخاطب ہو کر) وہ جو اس وقت غیر سن پڑی تھی وہ یہی باڑ ہو گی۔ (جان نثار) اچھا پھر تم نے کیوں کر جانا کہ تمہارے صاحب ہنوز زندہ ہیں؟"
جان نثار: "حضور کے تشریف لانے سے تھوڑی دیر پہلے تک لاشوں پر دھوپ تھی اور لاشیں تو بالکل سفید پڑ گئی تھیں مگر ہمارے صاحب کے چہرے پر سرخی جھلکتی تھی اور میں نے اپنی آنکھ سے صاحب کے جسم میں حرکت بھی دیکھی ہے۔ پانی رکھنے گیا تو سانس چلتا سا دکھائی دیا ۔ خدا جانے کہاں چوٹ لگی ہے کہ بے ہوش ہیں۔ جس وقت سے صااحب ڈاک بنگلے میں پکڑے گئے اس وقت سے میں دائیں بائیں برابر صاحب کے پاس لگا رہا ہوں' ایک دم کو جدا نہیں ہوا۔ زخموں کی نسبت تو میں کچھ عرض نہیں کر سکتا مگر
ریختہ 38
اس وقت ان میں جان تو ضرور ہے۔ آپ للہ ذرا چل کر دیکھ لیجیئے' اگر کچھ جان باقی ہے تو ان کو اپنی حفاظت میں لیجیئے' شاید خدا کرے بچ جائیں اور اگر ہو چکے ہیں تو وہ کیا مرے' ہم جیسے پچاس غریب ان کے ساتھ مر لیے۔ ہوں تو چار کوڑی کا پیادہ اور آپ کے روبرو عرض جرنا بھی گستاخی ہے مگر جناب یہ عمل داری تو اٹھنے والی نہیں۔ یہ بھی کوئی دن کا غل غپاڑا ہے۔ اگر صاحب آپ کے طفیل سے بچ گئے تو پھر دیکھیئے گا کیسے کیسے سلوک آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔"
ابن الوقت نے جس وقت سے سنا تھا کہ ایک صاحب مجروح ہوئے پڑے ہیں اور زندہ ہیں' اسی وقت سے وہ اپنے ذہن میں صاحب کی حفاظے کی تدبیریں سوچنے لگا تھا۔ جان نثار کی طرف ظاہر میں متوجہ رہا مگر اس کی بہت سی باتیں اس نے مطلق دھیا ن سے نہیں سنیں۔ آکر ابن الوقت نے اپنے دونوں نوکروں سے کہا : ” کیوں بھئی تمہاری کیا اصلاح ہے؟“ ایک نے کہا : ”ہم خانہ زاد جان و مال سے حاضر ہیں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کریں۔“ ابن الوقت نے کہا : ” بس تم سے اتنی مدد درکار ہے کہ اول تو ہم سب روزے سے ہیں‘ راز داری کا حلف کریں دوسرے‘ صاحب اگر زندہ ہوں تو جو طرح بن پڑے‘ اٹھا کر گھر تک لے چلیں۔"
ابن الوقت کے دونوں نوکروں نے قبلے کی طرف کو ہاتھ اٹھا کر قسم کھائی اور چاروں شخص لوٹ کر پھر لاشوں کے پاس گئے۔ جان نثار نے سب کو نوبل صاحب کے سر پر لے جا کر کھڑا کردیا۔ جھٹپٹا ہو چلا تھا۔ جان نثار نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو بدن گرم تھا۔ خون میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے اس وقت معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں اور کس قسم کے ہیں۔ ہر چند کوئی آدمی کہیں چلتا پھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا مگر خوف کے مارے ذرا کہیں پتا کھڑکتا تو یہ لوگ سہم جاتے ۔بارے جان نثار نے ابن الوقت اور اس کے نوکروں کی مدد سے صاحب کو چڈھی چڑھایا۔ صاحب اس قدر بے ہوش تھے کہ ان کو سنبھلنا دشوار تھا۔ سارے رستے بن الوقت اور اس کے نوکر سہارا لگاتے آئے۔
ریختہ 39
ان لوگوں کو اس سے بڑی تسلی اور تقویت تھی کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتے تھے کسی طرف کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ابن الوقت مجروح کو اٹھوانے کو تو اٹھوا لایا مگر اس وقت تک اس نے ذرا بھی نہیں سوچا تھا کہ گھر پہنچ کر کیا کرنا ہوگا۔ حقیقت میں اس کو اس بات کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ جان نثار کی درناک حکایت سنتے ہی وہ مجروح کو اتھانے دوڑا گیا اور مجروح کو اٹھائے پیچھے سارے رستے اس کی روک تھام میں لگا رہا ۔ گھر کی نکڑ پر پہنچ گیا تھا کہ اس کو تنبہ ہوا کہ میں نے یہ کیا کیا اور اس کے نباہ کی کیا صورت ہوگی۔ ابن الوقت کی بیوہ پھوپھی شروع بیوگی سے بال بچوں سمیت اسی کے گھر میں رہتی تھیں اور شوہری ترکے کی وجہ سے ان کو بڑی مقدرت تھی۔ اب ان کے بچے سیانے ہوئے تو انہوں نے اپنا مکان علیحدہ بنوانا چاہا۔ پدری ترکے سے ان کو ابن الوقت کے مکان کے پہلو میں زمین ملی تھی اور وہ زمین مدتوں سے یوں ہی پڑی تھی ۔ اب کوئی چار مہینے سے کھلے موسم کے آتے ہی اس میں مدد لگی تو اس وقت تک مکان ہر طرح سے بن بناکر تیار ہوچکا تھا۔ صرف استر کاری باقی تھی کہ غدر ہوا۔ مدد بند کردی گئی۔ سامان تعمیر کی حفاظت کے لیے اور اس غرض سے بھی کہ مکان میں رات کو چراغ چلنا ضرور ہے‘ ابن الوقت کے انہی دو نوکروں میں سے جو نوبل صاحب کے لانے میں شریک تھے ‘ باری باری سے ایک شخص رات کو آپڑتا ۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو اسی خالی مکان میں اتروایا اور اپنے آدمیوں میں سے جس کی باری مکان میں سونے کی تھی‘ جان نثار کے ساتھ متعین کردیا کہ اندر سے کواڑ بند رکھو اور میرے آنے تک صاحب کے زخموں کی شست و شو کرو مگر خبردار جو کسی نے آہٹ پائی۔
ابن الوقت نے گھبراہٹ اور جلدی میں اتنا خیال البتہ کرلیا تھا کہ باغیوں اور شہر کے بدمعاشوں نے تو اس قدر سر اٹھا رکھا ہے کہ ناحق انگریزوں کے لگاﺅ کا چھدا رکھ رکھ کر لوگوں کی جان اور آبرو کے خواہاں ہیں بے کسی زبردست کے آسرے کے اتنی بڑی
ریختہ 40
جوکھم اپنے سر لینا ٹھیک نہیں ۔ کل کلاں کو ” دیوار ہم گوش دارو“ خدا بری گھڑ ی نہ لائے‘ بات کھل پڑی تو میں اکیلا چنا بھاڑ کا کیا کرلوں گا ۔ پاس تھی شاہ حقانی صاحب کی خانقاہ اور ایک اعتبار سے سارا شہر ان کا معتقدتھا اور ہزارہا ولایتیوں کو اس خانقاہ سے بیعت تھی اور چالیس پچاس بلکہ بعض اوقات سو سو ولایتی فیضان تلقین حاصل کرنے کے لیے خانقاہ میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن الوقت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر شاہ حقانی صاحب اس ارادے میں میرے سر پر ہاتھ رکھیں توبس پھر کسی طرح کا خدشہ نہیں ۔ ابن الوقت کو اس بات کا بھی پورا بھروسا تھا کہ اگر شاہ صاحب راضی بھی نہ ہوئے تاہم ان کی شان اس سے ارفع ہے کہ کسی پر اس راز کو ظاہر کریں۔ پس ابن الوقت نے مکان کے اندر پاﺅں بھی نہ رکھا اور سیدھا خانقاہ کو ہولیا۔ وہاں¾ پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ ساری خانقاہ میں کچھا کھچ آدمی بھرے پڑے ہیں کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ سرغنہ باغیاں علمائے خانقاہ سے جہاد کے فتوے پر مہریں کرانے لایا ہے ۔ ظہر کے وقت سے حجت ہورہی ہے ‘ شاہ حقانی صاحب ہیں کہ کسی طرح نہیں مانتے اور انگریزوں سے لڑنے کو غدر اور ”فساد فی الارض “ کہے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہجوم میں شاہ صاحب تک پہنچنا اور تخلیہ کرانا کسی طرح ممکن نہ تھا۔ ناچار ابن الوقت کسی قدر ناامید ہوکر لوٹا مگر دل میں علمائے خانقاہ کے فتوے کی تصویب کرتا تھا اور اس خیال سے خوش تھا کہ ایک سرغنہ نہیں اگر ساری دنیا ایک طرف ہو تو خانقاہ والے مذہبی معاملے ڈرنے دھمکنے والے نہیں اور باغی خانقاہ والوں کا کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ اگر خانقاہ میں سے کسی کا بال بھی بیکا ہوا تو کشتوں سے پشتے لگ جائیں گے۔ بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔
مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجودیکہ صبح و شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت
ریختہ 41
جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہو گیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔ تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔ ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے
ریختہ 42
جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔ ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے کرید کرید کر اور کھود کھود کر پوچھا کرتا تھا ، نوبل صاحب سے اس نے خوب ہی دل کھول کر جو جو کچھ جی میں آیا تھا اور نوبل صاحب نے بھی جہاں تک زبان نے یاری دی بھلی یا بری کوئی بات اپنے وطن اور اپنی قوم کی اٹھا نہ رکھی۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کی ہم نشینی میں انگریزوں کے تفصیلی حالات سے اس قدر واقفیت حاصل کی کہ بس آنکھوں سے دیکھنے کی کسر باقی رہ گئی تھی ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ابن الوقت کو انگریزوں کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت تو پہلے سے تھی ہی ۔ تین سوا تین مہینے نوبل صاحب کے ساتھ رہ کر اس کے خیالات اور بھی راسخ ہو گئے اور عجب نہیں اسی اثنا میں اس نے
ریختہ 43
تبدیل وضع کا ارادہ کیا ہو۔ ہم کو نوبل صاحب یا ابن الوقت کے حالات غدر لکھنے منظور نہیں ، تسلسل سخن کے لیے اتنا لکھنا ضرور ہے کہ نوبل صاحب کو جس وقت سے ابن الوقت کے گھر ہوش ہوا ، آخر تک انھوں نے اپنی ذاتی تکلیف اور مصیبت کی کبھی شکایت کی ہی نہیں ۔ ہاں یہ ان کا تکیہ کلام تھا کہ افسوس میں ایسی حالت میں ہوں کہ کسی طرح اپنی قوم کی مدد اور اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا ۔ وہ کاہل اور بیکار زندگی سے مرنے کو بہ مدارج بہتر سمجھتے تھے اور خبروں کے نہ ملنے سے ان کا وقت سخت پریشانی میں گزرتا تھا ۔ جتنی دیر ابن الوقت ان کے پاس رہتا ، باتیں کرتے ورنہ دالان میں ٹہلتے رہتے ۔ ابھی ان کے زخم اچھی طرح بھرے بھی نہ تھے کہ انھوں نے ابن الوقت پر تقاضا شروع کیا کہ کسی ڈھب سے مجھے انگریزی کیمپ میں پہنچاؤ۔ ابن الوقت ان کے بے موقع اور بے جا اصرار سے دل میں سخت آزردہ ہوتا ، مگر جانتا تھا کہ "اہل الغرض مجنون" باہر چلتے پھرتے ہوتے تو دیکھتے کہ چاروں طرف کیسی آگ لگی ہوئی ہے ، ہمارے ملک کی عورتوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں مقید ہیں ، دنیا و مافیہا سے خاک خبر نہیں ، شاید دل میں خیال کرتے ہیں کہ میں عمدا پہلوتہی کرتا ہوں ۔ زخموں کے اچھا ہوتے ہی نوبل صاحب اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ کئی بار بگڑ بگڑ کر ابن الوقت کو دھمکایا کہ اگر مجھ کو زیادہ روکو گے تو میں نکل بھاگوں گا۔ ابن الوقت ان کی ایسی ایسی باتیں سن کر ہنستا اور کبھی جھنجھلاتا کہ ایسی ہی جان دوبھر ہے اور خود کشی کرنی ہے تو مجھی کو ثواب غذا حاصل کرنے کی اجازت دیجئے ۔
ریختہ 44
فصل سوم
ابھی غدر فرو بھی نہ ہوا تھا کہ نوبل صاحب انگریزی کیمپ میں جا داخل ہوئے
ہر چند ہر بار ابن الوقت بات کو کسی نہ کسی تدبیر سے ہنسی میں اڑا دیا کرتا تھا مگر دل میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ایسا نہ ہو گھٹ گھٹ کر بیمار پڑ جائیں تو وہی مثل ہو کہ کھلائے پلائے کا نام نہیں رلائے کا الٹا الزام ۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ نوبل صاحب حاکم فوج انگریزی کو چٹھی لکھیں اور جان نثار اس کو چھپا کر گوڑگانوہ ، رہتک ، کرنال ، تین ضلعوں کے دیہات میں چکر کاٹتا ہوا کسی جگہ پنجاب کے راستے میں جا ملے اور وہاں سے ابگریزی کیمپ میں داخل ہو ۔ جان نثار نے اس کا بیڑا اٹھایا اور چٹھی لے کر روانہ ہوا۔ اس کا پیٹھ موڑنا تھا کہ یہاں نوبل صاحب اور ابن الوقت لگے اس کی واپسی کا حساب کرنے ۔ ہر چند دونوں چپے چپے سے زمین کے جغرافیے سے آگاہ تھے مگر باوجودیکہ کئی دن تک برابر رد و کد ہوتی رہی ، جان نثار کی واپسی کی تاریخ پر متفق نہ ہو سکے۔ وجہ کیا تھی کہ جان نثار کو آمد و شد میں جن اتفاقات کے پیش آنے کا احتمال تھا اگر چہ کوئی شخص حتیٰ جان نثار بھی ان کو نہیں جان سکتا تھا مگر ابن الوقت پھر بھی ان کا کسی قدر ناقص ، ناتمام ، ادھورا اندازہ کرتا تھا اور نوبل صاحب چونکہ خود مستعجل تھے ، کسی احتمال مخالف کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں
ریختہ 45
دیتے تھے ۔ تاہم انھوں نے نے آپ ہی اپنے نزدیک یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جان نثار کو آج کے پندرھویں دن ضرور ضرور واپس آنا چاہیئے۔ ہرچند نوبل صاحب بڑے ہی مستقل مزاج آدمی تھے مگر سچ کہتے ہیں "الانتظار اشد من الموت" جان نثار کی واپسی کے انتظار میں تو ان سے بھی ضبط نہ ہو سکا۔ جان نثار کو گئے ہوئے ایک ہی ہفتہ گذرا تھا کہ انہوں نے مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور دسویں دن سے تو یہ حال ہوا کہ سارے سارے دن دروازے میں کھڑے رہنے لگے۔ ہر چند ابن الوقت گھسیٹ گھسیٹ کر اندر لے لے جاتا تھا مگر قابو ملا اور دروازے میں۔ جب پندرہ دن بھی گذر گئے اور جان نثار کا کہیں پتا نہیں تو نوبل صاحب کی اس دن کی یاس دیکھ کر ابن الوقت بھی بدحواس ہو گیا۔ زخمی ہونے کی حالت میں پھر بھی ان کے چہرے پر ایک طرح کی رونق تھی یا دفعتہً ان کی حالت اس قدر جلد جلد متغیر ہونے لگی کہ جان نثار کے سامنے سے آدھے بھی نہیں رہے تھے۔ بھوک بالکل بند ہو گئی، نیند ایسی اچاٹ ہوئی کہ ساری ساری رات کروٹیں بدل بدل کر صبح کر دیتے تھے۔ آخر جان نثار کی روانگی سے انیسویں دن ابن الوقت نے کہا کہ جان نثار کو جو اس قدر دیر لگی، آپ اس کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
نوبل صاحب: "کیا بتاؤں، جان نثار کی وفاداری پر شبہ کرنے کی تو میں کوئی وجہ نہیں پاتا۔ اس نے اس مصیبت میں جس قدر میری رفاقت کی، آپ کو معلوم ہے۔ شاید ایسا ہو کہ وہ لوگ جواب کے عوض میرے نکال لے جانے کی فکر میں ہوں اور جان نثار کو میری نشان دہی کے لئے ٹھہرا لیا ہو۔"
ابن الوقت: "میں آپ کی دل شکنی کے ڈر سے عرض نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال تو یہ ہے کہ جان نثار کو ابھی تک انگریزی کیمپ میں پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا ہو تو عجب نہیں۔"
ریختہ 46
نوبل صاحب: "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میری چٹھی پکڑی گئی۔ نہیں نہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جانثار نہایت ہوشیار آدمی ہے اور اس نے چٹھی کو ضرور ایسی طرح چھپایا ہوگا کہ کوئی گمان نہ کر سکے اور خود جانثار کی صورت اور وضع ایسی ہے کہ اس پر جاسوسی یا مخبری کا گمان نہیں ہو سکتا۔ نہیں نہیں، مجھ کو پورا اطمینان ہے کہ وہ چٹھی سمیت صحیح سلامت کیمپ میں پہنچا۔"
ابن الوقت: "آپ کو کچھ مفصلات کی بھی خبر ہے؟ تمام دیہات میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، راستے بند پڑے ہیں، اکے دکے کی مجال نہیں کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا قصد کرے اور ایسی بے تمیزی کہ ناحق ناروا کوئی کسی کو مار دے تو کیا لگتا ہے۔"
نوبل صاحب: "اگر آپ نے یہ حال مجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ہرگز جانثار کے بھیجنے کا ارادہ نہ کرتا۔ افسوس ہے کہ میں نے اپنے فائدے کے لئے اس کی جان کو خطرے میں ڈالا۔"
ابن الوقت: "میں نے احتمال عقلی کے طور پر عرض کیا ورنہ جانثار ان گنواروں کے بس میں آنے والی اسامی نہیں۔ اس کی جان کی تو انشاء اللہ سب طرح سے خیر ہے، ہاں راستے میں کہیں اٹک گیا ہو تو خبر نہیں۔ مگر خدا نے چاہا تو صبح شام پہنچنے ہی والا ہے۔"
نوبل صاحب: "آپ صرف دیر کی وجہ سے ایسا قیاس کرتے ہیں یا۔۔۔۔۔
ابن الوقت: "(ہنس کر) نہیں، ایک کوا چھجے پر بیٹھا ہوا کاؤں کاؤں کر رہا تھا، میں نے اپنے ملک کی رسم کے مطابق شگون لیا اور کوے سے کہا جانثار آتا ہو تو اڑ جا۔ یہ کہنا تھا کہ کوا اڑ گیا۔"
ابن الوقت اور نوبل صاحب یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر کے کواڑوں میں سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ سنتے ہی ابن الوقت بول اٹھا: "لیجئے، الحمدللہ وہ جانثار آ پہنچا۔"
ریختہ 47
ابن الوقت نے دوڑ کر کواڑ کھولے تو سچ مچ جانثار تھا۔ دور سے نوبل صاحب نے پوچھا "کہو خیر ہے؟"
جان نثار: (قاعدے کے مطابق سلام کر کے) "خداوندا حضور کے اقبال سے جواب لایا۔"
نوبل صاحب نے ایسی جلدی کی کہ جوتی کے تلے سے چٹھی نکالنا دشوار کردیا۔بارے خدا خدا کرکے چٹھی نکلی تو نوبل صاحب ا س کو بغور پڑھ رہے تھے اور ان کے منہ کی طرف ابن الوقت کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی ۔نوبل صاحب کے چہرے سے فکر کے سوائے اور کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی تھی‘ چاہتے تھے کہ چٹھی کو دوبارہ پڑھیں‘ ابن الوقت نے چٹھی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا : "آپ کو ہمارے انتظار کی قدر کرنی بھی ضروری ہے ۔چٹھی کہیں بھاگی نہیں جاتی ۔پہلے خلاصہ فرما دیجئے تب دوبارہ سہ بارہ جب تک جی چاہے پڑھا کیجئے گا۔"
نوبل صاحب : "کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا ۔لکھتے ہیں کہ ابھی تک ہم لوگ دشمن کے حملوں کو ہٹا رہے ہیں ۔قلعہ شکن توپیں منگوائی گئی ہیں‘ وہ پہنچ جائیں تب ہمارے دھاوے شروع ہوں ۔اس وقت تک جہاں ہو چپ چاپ بیٹھے رہو۔جس وقت ہماری طرف سے گولے جامع مسجد کے پار جانے لگیں یا قلعے میں گرنا شروع ہوں تو جاننا کہ توپیں پہنچ گئیں اور پھر وہ امید کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاؤں جلد اکھڑ جائیں گے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارا آدمی سولہویں دن کیمپ میں پہنچا اور اس کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس کو راہ میں بڑی مشکلیں پیش آئیں ۔پس تم دوبارہ اس کو بھیجنے کا قصد مت کرنا ۔شہرمیں صدہا آدمی ہندو مسلمان سرکار کے خیرخواہ موجود ہیں اور شہر کی خبریں برابر چلی آتی ہیں ۔جب موقع ہوگا تو کسی خیر خواہ کے ذریعے سے تم کو ایما کردیا جائے گا اور تم نکل آنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور جن صاحب کے گھر میں تم نے پناہ لی ہے ان کے تفصیل حالات اور
ریختہ 48
ان کے مکان کا پتا سب تمہارے آدمی سے دریافت کرلیا گیا ہے ۔ان پر سرکار اور تمام سرکاری عہدہ دار ان ملکی وفوجی کی احسان مندی کماحقہ طور پر ظاہر کردینا اور یقین ہے کہ وہ ان تمام وعدوں سے جن کا اس وقت کرلینا بہت آسان ہے‘ اس کی بہت زیادہ قدر کریں گے ۔
ابن الوقت : اس سے بہتر اور کیا جواب ہوسکتا تھا۔اس جواب کی نسبت کافی اور شافی اور معقول اور مناسب جو کچھ کہا جائے سب بجا ہے ۔
نوبل صاحب : مگر یوں بے کار پڑے پڑے ضرور مر جاؤں گا۔
ابن الوقت : "آپ مرنے والے ہوتے تو مرنے کے بہت سے مواقع تھے‘ اب آپ کی زندگی کا میں بیمہ لیتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ آپ کی طبیعت بے کاری سے اکتاتی ہے مگر جہاں اتنی مصیبتیں جھیلی ہیں‘ چند ے اور صبر کیجئے۔میں سمجھتا ہوں مہینے سوا مہینے کے آپ ہمارے مہمان اور ہیں ۔"
نوبل صاحب :افوہ! مہینے سوا مہینے ۔
ابن الوقت : اس مدت کے لیے کیا اچھا مشغلہ اس وقت خیال میں آیا ہے ۔"
نوبل صاحب : وہ کیا؟
ابن الوقت : حالاتِ غدر کی یادداشت۔
نوبل صاحب : "واہ - واہ بہت اچھی صلاح ہے ۔مگر بہت سی باتیں اب مجھ کو اچھی طرح یاد بھی نہیں رہیں ۔
ابن الوقت : جہاں تک آپ کو یاد ہے اپنی یاداشت سے لِکھیےاور زیادہ درکار ہو تومیرے پاس ہر روز کے واقعات کی تفصیلی کیفیت لکھی ہوئی تیار ہے‘ آپ چاہیں تو اسے لے سکتے ہیں ۔میرے اور آپ کےدرمیان یہ قول رہا کہ اس یاداشت سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔"
ریختہ 49
نوبل صاحب : "میں نہیں جانتا کہ غدر کے بارے میں گورنمنٹ کی کیا رائے ہو گی مگر باوجودیکہ غدر سے مجھ کو بڑی تکلیفیں پہنچیں‘ میں ولایت جانے سے رہا ‘ میرے اعزہ و احباب نے مجھے مرا ہوا فرض کرکے خدا جانے اپنا کیا حال کیا ہوگا‘ میں زخمی ہوا‘ میری زندگی معرضِ تلف میں رہی‘ میری گیارہ برس کی کمائی سب برباد ہوئی ۔تین مہینے ہونے کو آئے کہ میں بیکار محض پڑا سڑتا ہوں اور ابھی نہیں معلوم کہ کب تک یوں ہی پڑا سڑوں گا‘ مجھ کو اپنے یگانوں اور دوستوں کے مرنے جینے کی مطلق خبر نہیں اور یہ بھی خبر نہیں کہ اس ہنگامے کے فرو ہونے تک کیا کیا ایذائیں اور مصیبتیں پیش آنے والی ہیں ۔باوجود ان تمام صدمات کے میں اس ملک کے لوگوں کو‘ سب کو نہیں تو اکثر کو کسی قدر معذور سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک غدر ایک شورش جاہلانہ ہے ۔ ہندوستانی فوج نے سرکاری قوت کے اندازہ کرنے میں غلطی کی ۔انہوں نے سمجھا کہ یہ ملک کمپنی بہادر نے ہماری مدد سے سر کیا ہے اور ہماری ہی مدد سے اس ملک پر قابض ہے ۔لوگوں کو‘ کیا رعایا کیا فوج‘ سرکاری ضوابط اور قواعد سے بھی کسی قدر نارضامندی ضروری تھی اور سرکاری عہدہ داروں نے اس نارضامندی کی مطلق پروا نہیں کی‘ اور ہزار باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ صرف بہ زور شمشیر اپنی حکومت قاہرہ کو بٹھانا چاہا اور سلطنتِ مطمئنہ کی شرط ضروری ،خوشنودی رعایا ‘ افسوس ہے کہ تمام تر نہیں تو اس کو بڑا حصہ فوت ہوا اور گورنمنٹ کا منشا پا کر عہدہ داران سرکار نے بھی استمالت قلوب خلائق کی طرف ذرا توجہ نہ کی ۔اس صورت میں کمپنی بے شک ہندوستان کی بادشاہ ہے مگر اسی طرح کی بادشاہ جیسے جنگل میں شیر۔میری ہرگز یہ رائے نہیں ہے کہ غدر کی کھچڑی مدت سے پک رہی تھی یا سوچ بچار کر صلاح و مشورے سے یہ فساد ہوا۔پس اگر میری رائے پر عمل ہوا اور وہ رائے اس حیثیت سے کہ میری رائے ہے‘ ہرگز قابل وقعت نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ گورنر جنرل جیسا مدبر اور منتظم اور صاحب الرائے ضرور تمام اطراف و جوانب پر نظر
ریختہ 50
کرکے حلم اور درگزر کے اصول پر عمل کرے گا اور تب ہی یہ آگ بجھے گی بھی ۔انتقام کا لینا تو ابقائے رعب اور سیاست کے لیے ضرور ہوگا مگر معمم کے ساتھ نہیں ۔جن لوگوں نے کھلم کھلا بغاوت کی اور بغاوت کو پھیلایا اور مسلح ہو کر سرکار کے مقابلے میں معرکہ آرا ہوئے اور جنہوں نے انگریزوں یا ان کے بی بی بچوں کو صرف اس وجہ سے کہ انگریز ہیں‘ ناحق‘ ناروا قتل کیا‘ ایسے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو سخت سزا دینی چاہیے ۔
ابن الوقت : "اب مجھ کو پوراطمینان ہے کہ میرا روز نامچہ مجھ سے بہتر محفوظ ہاتھ میں رہے گا۔لیجئے کتاب حاضر ہے۔"
نوبل صاحب کے کئی ہفتے اس روز نامچے کی بدولت آسانی سے کٹ گئے اور یوں ان کی حالت منتظرہ جو تھی سو تھی ہی مگر روز نامچے کا مشغلہ نہ مل گیا ہوتا تو نوبل صاحب شاید اکتا کر اور بولا کر باہر نکل کھڑے ہوتے ۔نوبل صاحب کا روز نامچہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ غدر کے کوئی دو مہینے اور بیس یا بائیس دن بعد عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں کہ پہلا گولا قلعے کے دیوانِ عام میں گر کر پھٹا۔سارے شہر میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس وقت نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں ایک ہی جگہ تھے۔ جوں گولے کا دھماکہ ہوا ، ابن الوقت چونک پڑا اور یہ کہہ کر اٹھا کہ لیجئے جناب ، دہلی کی فتح اور آپ کا انشاء اللہ مع الخیر و العافیۃ کیمپ انگریزی میں داضل ہونا مبارک ، مبارک ، مبارک۔ یہ ضرور قلعے کی آواز ہے۔ جاؤں ذرا اپنی سرکار کی خبر لوں ۔ بیگم صاحب تو شہر کی توپوں کی آواز سن کر سن کر کانپ کانپ اٹھتی تھیں۔ خدا جانے یہ گولہ کس مقام پر گرا۔ الٰہی خیر ہو۔
نوبل صاحب: شاید قلعے سے توپ چلی ہو ۔
ابن الوقت: نہیں جناب ، جب قلعے پر توپیں چڑھائی گئیں تو بہت سی بیگمات بلکہ مرشد زادے حضور والا میں فریاد لے کر آئے تھے کہ ہم کو ڈر لگتا ہے ، ایسا نہ ہو کہ
ابن الوقت اردو محفل مواد دھاگہ
ابن الوقت ٹائپنگ اپڈیٹ دھاگہ
ابن الوقت ریختہ ربط
ابن الوقت گوگل ڈاکس پر
ریختہ صفحہ 26
فصل اول
ابن الوقت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن الوقت کی تقریب
آج کل 1 کا سا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے وقت میں انگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں کہ ریل میں بہ ضرورت کوئی بھلا مانس چرٹ پیتا تو جان پہچان والوں سے چراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بندوبست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا۔ ہندوستانی جوتی اس رپڑ میں کیا ٹھہرتی۔ ناچار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے مگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میں کبھی کے پڑے ہوئے پھٹے پرانے لیترے ڈھونڈ کر پاؤں میں ہلگا لیتے' تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔ دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں
-----------------------------------------
1- یہ کتاب ء1888 میں لکھی گئی تھی۔
ریختہ 27
پر تھا۔ ملکی لاٹ آئے اور تمام درسگاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ قدردانی ہو تو ایسی ہو کہ جس جماعت میں جاتے مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوعاً کرہاً بادل نخواستہ آدھا مصافحہ کیا تو سہی، مگر اس ہاتھ کو عضو نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منہ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ (انگریزی صابون سے نہیں بلکہ مٹی سے) رگڑ رگڑ کر اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔ ابن الوقت جیسے ملامتی نہیں تو اس کے ہم خیال خال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا انگریزی کالج میں انگریزی پڑھتے تھے۔ اب لڑکوں میں سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آ نکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوا ڈالتے۔
ہر چند تعصبات ِ لغو کی کوئی حد نہ تھی، بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسے ان دنوں کی مطمئن تھی۔ آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار بہ منزلہ مہربان باپ کے تھی اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لئے کچھ ایسے نا سزا وار ہوا جیسے آدم اور اس کی نسل کے حق میں گہیوں کا کھا لینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی وضع کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو،اختلاط ہو، مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ” دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر“ ۔ دیکھیں آخر کار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
ذرا مشکل سے اس بات کا پتہ لگے گا کہ کون سی چیز ابن الوقت کو انگریزی وضع کے اختیار کرنے میں محرک ہوئی۔ وہ ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا جس کے لوگ پاس وضع کو شرط شرافت سمجھتے تھے۔ شرف ِ علم ان میں متوارث تھا۔ اس خاندان کے لوگ بعض طبیب تھے۔ بعض مدرس( سرکاری نہیں) بعض مفتی بعض
ریختہ 28
واعظ بعض حافظ بعض صاحب سجادہ طریقت ۔ الغرض ع “ایں خانہ تمام آفتاب است” لوگ سب نہیں تو اکثر وللاِکثَرِ حُکُمُ الکُلِّ ہر طرح کے ہنروں سے متصف اور ہر طرح کے کمالات سےمتجلّے تھے۔ شاہی قلعہ ان سب کے معاش کا متکفل تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان لوگوں کو اگر تعلق تھا تو اسی قدر کہ انگریزی عمل داری میں رہتے تھے وہ بھی اپنے زعم میں نہیں ۔ ابن الوقت کے کالج میں داخل ہونے کا بھی یہ سبب ہوا کہ شہر کے مشاہیر جو عربی فارسی میں مستند تھے سرکار نے چن چن کر سب کو پابند مدرسہ کرلیا تھا۔ پس ابن الوقت مدرسے میں داخل کیا گیا نہ اس غرض سے کہ مدرسے کی طالب العلمی کو ذریعہ معاش قرار دے بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی عربی فارسی ٹکسالی ہو ۔ ابن الوقت اپنے وقت کے منتخب نہیں بھی تو اچھے لڑکوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ مناسب طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض ہم جماعت اس سے خاص خاص چیزوں میں اچھے بھی تھے مگر اس کے مجموعی نمبر کبھی کسی سے ہیٹے نہیں رہے۔ وجہ کیا تھی کہ جس قدر وہ ریاضی میں کچا تھا، تاریخ، جغرافیہ، سیاست مدن، اخلاق وغیرہ سے جن کا اس کو شوق تھا، اس خامی کی تلافی بخوبی ہوتی رہتی تھی۔ مدرسے کی ساری پڑھائی میں اس کی پسند کی چیز تاریخ تھی، کسی ملک اور کسی وقت کی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت عام باتوں میں خوب لگتی تھی۔ جواب مضمون پر ہر سال ایک نقرئی تمغہ ملا کرتا تھا۔ چھ سال ابن الوقت مدرسے میں رہا،کسی برس کسی وقت اس نے وہ تمغہ انگریزی، عربی، فارسی،سنسکرت میں کسی کو لینے ہی نہیں دیا۔ جب موقع ملتا تھا ابن الوقت پرانی دلی کے کھنڈروں میں تعطیل کے دنوں کو ضرور صرف کرتا۔غیر ممالک کے لوگ تجارت، سیاحت یا کسی دوسری ضرورت سے شہر میں آنکلتے تو ابن الوقت اوبدا کران سے ملتا اور ان کے ملک کے حالات و عادات کی تفتیش کرتا۔ اس کا حافظہ معلومات تاریخی کے ذخیرے سے اس قدر معمور تھا کہ وہ معمولی بات چیت میں واقعات زمانہ گزشتہ سے اکثر استشہاد کیا کرتا۔ ایک بار اس نے باتوں ہی باتوں میں سلیٹ پر اپنی یاداشت سے ایشیا کا
ریختہ 29
نقشہ کھینچا اور مشہور شہروں اور پہاڑوں اور دریاﺅں کے مواقع اس میں ثبت کئے ۔ پھر جو ملا کر دیکھا تو یہ بہ تفاوت ِ یسیر اکثر صحیح ۔وہ دنیا کی قوموں اور ذاتوں اور رسموں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ مذہب کے بارے میں اس کی معلومات کتاب الملل و النمل سے کہیں زیادہ تھی ۔جب کوئی نئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی، اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا؟ کہاں کا رہنے والا تھا؟ کس زمانے میں تھا؟ کس سے اس نے پڑھا؟ اس کے معاصر کون کون تھے؟ اس کی وقاع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے؟ تعزز اور ترفع ابن الوقت کے مزاج میں اس درجے کا تھا کہ لوگ اس کی خود داری کو منجربہ کبر خیال کرتے ۔ دوسرے کا احسان اٹھانے کی اس کو سخت عار تھی‘ یہاں تک کہ وہ استاد کی بجائے کسی ہم جماعت سے پوچھنے تک میں مضائقہ کرتا۔ وہ ہمیشہ ایسے مدرس کی جماعت میں رہنا چاہتا جس کی پرنسپل زیادہ عزت کرتا ہو اور اسی سبب سے وہ کئی بار عربی سے فارسی اور فارسی سے عربی میں بدلتا پھرا۔ ابن الوقت اپنی رائے بہ دیر قائم کرتا تھا مگر جب ایک بار قائم کر لیتا اس کو بدلنے کی گویا اس کو قسم تھی۔ اس کی یہ رائے کسی سے مخفی نہ تھی۔ کہ کسی قوم میں سلطنت کا ہونا اس بات کی کافی دلیل ہے کی اس قوم کے مراسم، عادات، خیالات، افعال، اقوال، حرکات، سکنات یعنی کل حالات فرداً فرداً نہیں تو مجتمعاً ضرور بہتر ہیں۔ وہ نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے قوم کی برتری کا انگریزی نوکری کی نہ اس کو ضرورت تھی اور نہ طلب۔ پس وہ اپنی اسی رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو اگرچہ گھٹکا بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس خیال کے آدمی کو خصوصاً جب کہ وہ کالج میں داخل بھی تھا، انگریزی خوان ہونا چاہیے تھا اور اس کے دل میں انگریزی پڑھنے کا تقاضا بھی ضرور پیدا ہوتا ہو گا مگر باپ کی وفات پا جانے سے نواب معشوق محل بیگم کی سرکار کی موروثی مختاری اس کے سر پڑی۔ ہر چند اس کے بڑے بھائی ایک اور بھی تھے اور چاہتے تو مختاری کو وہ سنبھال لیتے مگر
ریختہ 30
ان کو اپنے اوراد و وظائف سے مطلق فرصت نہ تھی اور وہ آدمی تھے بھی وحشت زدہ سے، ناچار ابن الوقت کو اس سرکار کا بڑا بھاری کارخانہ سنبھالنا پڑا۔ چند روز تک ابن الوقت نے یوں بھی کر کے دیکھا کہ خارج از اوقات مدرسہ قلعے کا کام دیکھتا بھالتا۔ بیگم کی طرف سے تو خدانخواستہ کسی طرح کی سختی نہ تھی مگر خود ابن الوقت دیکھتا تھا کہ اس کا وقت دونوں کاموں کے لیے مساعدت نہیں کرتا۔ پس اس نے مجبور ہو کر مدرسے سے اپنا نام کٹوا لیا۔ پھر بھی وہ تاریخ وغیرہ اپنے ڈھب کی کتابوں کے لیے شاہی کتب خانے اور اخباروں کے واسطے مطبع سلطانی کے بلاناغہ حاضر باشوں میں تھا۔ تاریخ اور اخبار کی اس کو ایسی دھت تھی کہ وہ کبھی ان چیزوں سے ملول ہوتا ہی نہ تھا۔
ابن الوقت نے مدرسہ چھوڑا تو گو وہ عربی فارسی جماعتوں کا طالب علم تھا تاہم اس کو مشق کے لیے ریاضی کی انگریزی کتابوں سے مدد لینے کی ہمیشہ ضرورت واقع ہوا کرتی تھی۔ ناچار اس کو انگریزی کے حروف پہچاننے پڑے۔ طبیعت تھی اخاذ 1حرفوں کا پہچاننا تھا کہ چند روز میں اٹکل سے سوالات کا طریقہ حل سمجھنے لگا اور یوں ریاضی کے روکن میں اس کی انگریزی کی استعداد ترقی کرتی گئی۔ جب وہ انگریزی وضع اختیار کر کے اپنے پندار میں پورا صاحب لوگ بن گیا۔ اس زمانے میں بھی وہ انگریزی سمجھ تو خاصی طرح لیتا تھا مگر زبان انگریزی میں بے تکلف بات چیت کرنے کی اس کو ساری عمر قدرت حاصل نہ ہوئی۔ ہم نے اس کو زمان طالب العلمی میں یا اس کے بعد سَبقاً سَبقاً انگریزی پڑھتے تو نہیں دیکھا اور اس کی خود داری مدرسے کے بعد اس کو سینگ کٹوا کر بچھڑوں میں کیوں ملنے دینے لگی تھی؟ مگر اتنا تحقیق معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لیے بہتیری ہی کوشش کرتا تھا۔ سنے سنائے سے جو اس نے اس قدر ترقی کی، سچ پوچھو تو
_________________________________
1- بڑی اخذ کرنے والی
ریختہ 31
یہ بھی اسی کا کام تھا ورنہ اپنا تو یہ مقولہ ہے کہ آدمی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کا زبان دان، جیسا کہ زبان دانی کا حق ہے، ہو ہی نہیں سکتا۔
کیا صاحب قاموس کی حکایت نہیں سنی؟ بھلا خیر، اتنا تو سنا ہو گا کہ زبانِ عربی کی لغت کی بہت سے کتابیں ہیں، سب میں زیادہ مبسوط اور مستند قاموس ہے۔ صاحبِ قاموس ذات کا عجمی، اس کو بچپن سے زبانِ عربی کی تکمیل کا شوق ہوا۔ جہاں تک عجم میں ممکن تھا سیکھ پڑھ لیا، نجد اور تمامہ اور یمن اور شام اور حضارہ اور بداوہ میں برسوں زبان کے پیچھے خاک چھانتا پھرا۔ آخرکار ساری عمر کی تفتیش اور تلاس کے بعد قاموس بنائی تو پھر کیسی بنائی کہ ساری دنیا اس کی سند پکڑتی ہے۔ زبان دانی کا پردو خدا کو فاش کرنا تھا، عرب کی ایک بی بی سے نکاح کیا۔ رات کے وقت گھر کی لونڈی سے کہتے تھے کہ چراغ گل کر دے۔ طوطے کی ٹین ٹین کہا جائے، "اطفئی السراج" کی جگہ فارسی محاورے کے مطابق بے ساختہ "اقتلی الراج" بول اٹھے۔ بی بی تاڑ گئی۔ صبح اڑھ کر دارالقضا میں جا نالش کی۔ خدا جانے بی بی رہی یا گئی مگر میاں کی عربیت کی تو خوب کرکری ہوئی۔
انگریزی اخباروں میں جن کے اڈیٹر انگریز ہیں بابوانہ انگریزی کی ہمشہ خاک اڑائی جاتی ہے۔ اگرچہ نام تو بنگالیوں کا ہوتا ہے مگر حقیقت میں ملاحی گالیاں سبھی انگریی دانوں پر پڑتی ہیں بلکہ دوسروں پر بدرجہ اُولیٰ کیوں کہ بنگالیوں نے تو یہاں تک انگریزی میں ترقی کی ہےکہ انگریزی گویا ان کی مادری زبان ہوتی جاتی ہے اور بعض بنگالی تو انگریزی میں اس درجے کے گویا اور فصیح اور بلیغ ہو کر گزرے ہیں اور ہیں کہ انگریز بھی ان کا لوہا مانتے ہیں مگر ایسی مثالیں شاذ ہیں۔
ایک دوست ناقل تھے کہ ایک بار ان کو ایک انگریز سے ملنے کی ضرورت تھی۔ کوٹھی پر معلوم ہوا کہ یہ وقت ان کے کلب میں رہنے کا ہے۔ ناچار ان کو کلب جانا پڑا۔ چپڑاسی اطلاع کا موقع دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے کانوں سنا کہ اندر بہت سے انگریز جمع ہیں
ریختہ 32
اور ہندوستانیوں کی انگریزی کی نقل کر کرکے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ دوست یہ بھی کہنے لگے کہ جس انگریزی کی ہنسی ہورہی تھی بے شک وہ ہنسی کے قابل بھی تھی اور اہلِ زبان کو ہمیشہ دوسرے ملک والوں پر ہنسنے کا حق ہے مگر ہندوستانیوں کی انگریزی اگر ہنسنے کے قابل ہے تو اس کے مقابلے میں انگریزوں کی اردو رونے کے لائق ہے۔ ہندوستانی صرف کتاب کی مدد سے انگریزی سیکھتے ہیں، برخلاف انگریزوں کے کہ کتاب کے علاوہ ساری ساری عمر ہندوستانی سوسائٹی میں رہتے ہیں اور پھر وہی "ول ٹم کیا مانگٹا"۔
یہ مصیبت کس کے آگے روئیں کہ انگریزی عملداری نے ہماری دولت، ثروت، رسم و رواج، لباس، وضع، طور، طریقہ، تجارت، مذہب، علم، ہنر، عزت، شرافت سب چیزوں پر تو پانی پھیرا ہی تھا، ایک زبان تھی اب اس کا بھی یہ حال ہے کہ ادھر انگریزوں نے عجز و ناواقفیت کی وجہ سے اکھڑی اکھڑی، ٖلط، نا مربوط اردو بولنی شروع کی، ادھر ہر عیب کی سلطاں بہ پسندد ہنر است، ہمارے بھائی بند لگے اس کی تقلید کرنے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے کہ اچھی خاصی ریش و بروت، آغازِ جوانی میں ولایت گئے۔ چار پانچ برس ولایت رہ کر آئے تو ایسی سٹی بھولے کہ انگریزی اردو میں بہ ضرورت کبھی بات کرتے تو رک رک اور ٹھہر ٹھہر کر اور آنکھیں میچ میچ کر جیسے کوئی سوچ سوچ کر مغز سے بات اتارتا ہے۔
صفحہ 33
فصلِ دوم
ابن الوقت نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں مسٹر نوبل ایک انگریز کو پناہ دی اور اس کے ساتھ ارتباط کا ہونا اس امر کی طرف منجر ہوا کہ ابن الوقت نے آخر کار انگریزی وضع اختیار کرلی
ابن الوقت کے وقائع عمری میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کو اس کی تبدیلِ وضع میں بہت کچھ دخل ہو سکتا ہے اور وہ ذرا قصہ طلب سی بات ہے۔ بہادر شاہ کے آخری عہد میں منصبِ ولی عہدی متنازع فیہ تھا، مرزا فخر الملک اور مرزا جواں بخت میں۔ مرزا فخر الملک کے اکبر اولاد اور لائق اور روادار ہونے کی وجہ سے ان کے طرف دار بہت تھے حتیٰ کہ انگریز اور اسی گروہ میں نواب معشوق محل بیگم بھی تھیں جو مرزا فخر الملک کی خالہ ہوتی تھیں۔ مرزا جواں بخت اپنی والدہ نواب زینت محل بیگم کے کھونٹے پر کودتے تھے جن کو بادشاہ کے مزاج میں بڑا درخور تھا۔ بادشاہ کا زور طلتا تو جواں بخت کو اپنے حینِ حیات تخت نشین کر دیتے مگر انگریزوں کی پچر بڑی زبردست تھی۔ مرزا جواں بخت کے ساتھ سارے برتاؤ ولی عہدی کے برتے جاتے تھے۔ صرف دو باتوں کی کسر تھی، ایک تو ولی عہدی کی تنخواہ خوانۂ شاہی کی تحویل میں رہتی تھی، دوسرے انگریزوں نے ولی عہد کا ادب قاعدہ ان کے ساتھ نہیں رکھا۔ اس کشمکش میں طرف دارانِ مرزا فخر الملک کو برے بڑے نقصان پنہچے۔نواب معشوق محل نے جو بادشاہ کی نظر کسی قدر پھری ہوئی دیکھی ' قلعے کے باہر شہر میں کشمیری دروازے کے
ریختہ 34
قریب راحت گاہ'جوان کا بڑا نامی محل تھا' درست کراکے تبدیل آب ہوا کے حیلے سے شہر میں رہنے لگیں۔ قلعے کی آمدو رفت بھی بند نہیں کی مگر مال و متاع اور ساز و سامان سب کچھ راحت گاہ اٹھوالیا منگوالیا تھا۔
ہر چند دو ایک برس وہ جواں بختی شورش فرو بھی ہوگئی تھی مگر راحت گاہ میں نواب معشوق محل کا کچھ ایسا جی لگ گیا تھا کہ انہوں نے اپنا وہی قاعدہ رکھا۔صبح کا ناشتہ کر کے قلعے چلی جاتیں اور عصر کی نماز راحت گاہ میں پڑھتیں اور یہیں شب کے وقت آرام بھی فرماتیں' یہاں تک کہ دہلی کے حصے کی قیامت آئی یعنی سن ۵۷ء کاغدر۔غدر کے بعدنواب معشوق محل بیگم صاحب نے قلعے کے باہر پائوں نہیں رکھا۔ سےغدر سے کوئی ڈھائی پونے تین مہینے بعد وہ چار گھڑی رات گئے جو پہلا گولا دیوانِ عام میں گر کر پھٹا جس کے دھماکے سے سارا قلعہ ہل گیا' بس گولے کا پھٹنا تھا کہ نواب معشوق محل بیگم صاحب کے دل میں کچھ ایس اہول سمایا کہ اختلاجِ قلب کے صدمے سے تیسرے دن انتقال فرمایا۔ اِنّااللہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُون۔ بڑی نیک نیت اور خدا پرست اور سیر چشم بی بی تھیں۔خدا نے ان کو ان رسوائیوں اور فضیحتوں سے جو خاندانِ تیمور کی تقدیر میں لکھی تھیں بچالیا۔ ہاں تو غدر کے اگلے ہی دن نواب معشوق محل نے ابن الوقت کو حکم دیا کہ راحت گاہ کا سارا سامان رتی رتی اٹھوالائو اور راحت گاہ کے مکانوں میں تالے چڑھوادو۔اسباب سا اسباب تھا! بیس چھکڑے دن میں چار چار چکر کرتے تھے تب وہ الگاروں اسباب کہیں مہینے سوا مہینے میں جاکر ٹھکانے لگا۔
غدر کے چوتھے دن کا ذکر ہے کہ ابن الوقت کوئی دو گھڑی دن رہے آخری کھیپ روانہ کرنے کے بعد قلعے کی طرف چلا آرہا تھا'ایک آپ تھا اور دو نوکر'تینوں مسلح، اور ان دنوں جب دو آدمی آپس میں بات کرتے تھے تو بس غدر کا مذکور ہوتا تھا'یہ لوگ بھی اس طرح کا تذکرہ کرتے چلے جاتے تھے۔جوں محسن خان کے کنٹرے سے آگے بڑھ کر اس کھلے
ریختہ 35
میدان واقع تھا،دیکھتے کیا ہیں، سڑک کے بائیں طرف کچھ انگریزوں کی لاشین پڑی ہیں۔ یہ دیکھ کر ابن الوقت کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔اس وقت وہ موقع ایسا خطرناک تھا کے اکیلا کیسا ہی کوئی سورما کیوں نہ ہوتا'ڈر کے مارے گھگی بنھ جاتی مگر یہ تین آدمی تھے۔ابن الوقت لاشوں کے مقابل ذرا ٹھٹکا اور نہایت غصے اور افسوس کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:دیکھو تو ظالموں نے کیا بے جا حرکت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہر پر بڑا سخت عذاب آنے والا ہے۔خون ناحق کبھی خالی جاتے نہیں سنا۔۔خدا جانے شاہ جہاں نے کونسی منحوس تاریخ میں اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی کہ امن کی کوئی پوری صدی اس بستی پر نہ گزری مگر اس بار تو کچھ ایسا سامان نظر آتا ہے۔کہ لوگ نادر شاہ کے واقعے کو بھول جائیں گے۔" ابن الوقت کے ساتھی بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ابھی نماز مغرب میں کوئی آدھے گھنٹے کی دیر تھی۔ادھر آفتاب کا جنازہ کفن خون آلودہ شفق پہنا کر تیار کرچکے تھے کہ قبر مغرب میں اتار دیں ادھر بے کفن کی لاشیں دیواروں کے سائے کا ماتمی کفن پہن چکی تھیں۔ دہلی جیسا شہر اور شام کا وقت اور روزوں کے دن اور ایس اموقع اور دن ہوتے تو اس مقام پر کھوئے سے کھوئے چھلتا ہوتا مگر اپنے وقت ابن الوقت چوراہے پر کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہےآدم زاد کا پتا نہیں۔شہر کے بد معاشوں کے ڈر سے لوگ کچھ دن رہے سے کواڑوں میں پتھر اڑا اڑا کر گھروں میں بند ہو بیٹھے تھے۔ابن الوقت ہکا بکا سناٹے میں کھڑا تھا کہ ایک ساتھی بولا:"حضرت!افطار کا وقت قریب ہے اور قلعہ دور ' جو ہونا تھا سو ہوا اور جو تقدیر کا لکھا ہے سو ہو کر رہے گا۔ پس معلوم ہوا کہ نا بکار تلنگو کے گیہوں کے ساتھ بہتریوں کا گھن پستا ہے'چلئے تشریف لے چلئے۔"
پن چکیوں سے ادھر تھے کے ادھر پیچھے سے پیروں کی اہٹ آئی کہ کوئی شخص لپکا ہوا چلا آرہا ہے۔ لاشوں کے دیکھنے سے یہ لوگ کچھ اس قدر ہول زدہ ہوگئے تھے کہ آواز
ریختہ 36
کے ساتھ سب کے دل دھڑکنا شروع ہوئےاور بے اختیار لگے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے۔بارے شکر کہ وہ شخص نہتا تھا۔وہ تو جھپٹا ہوا چلا آرہا تھا 'ان کے قدم جو پڑے ڈھیلے' پن چکیوں سے اترتے اترتے اس نے آ ہی لیا۔ اس شخص نے دور سے ان شخصوں کی پیٹھیں ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ ان میں آقا کون ہے۔ برابر آکر اس نے ابن الوقت کو مودب اور باسلیقہ نوکروں کی طرح سلام کیا۔ ابن الوقت نے آنکھ بھر کر دیکھا تو کوئی اٹھائیس تیس برس کی عمر کا جوان آدمی تھا اور انگریزی خدمت کاروں یا اردلیوں کی سی وضع رکھتا ہے۔ دوپٹہ سر سے باندھا ہے اور پٹکا کمر سے' گویا نوکری سے چلا آ رہا ہے۔ خوف اور رنج اور اضطراب ہے کہ چہرے سے ٹپکا پڑتا ہے' ہونٹوں پر پیٹریاں بندھ گئی ہیں' سانس پیٹ میں نہیں سماتا۔ ابن لوقت سے بات کرنا چاہتا ہے مگر بار بار پھر پھر کر لاشوں کی طرف کو تاکتا جاتا ہے۔ ہر چند چھوٹا میگزین بیچ میں حائل ہے مگر پھر بھی جی نہیں مانتا اور بے دیکھے رہا نہیں جاتا۔ وہ ابن الوقت کے پوچھنے کا ہی منتظر نہ رہا اور چھوٹتے ہی بولا کہ میرا نام جانثار ہے اور میں بہادر پور کے پٹھانوں میں سے ہوں۔ چار برس سے رہتک کے جنٹ مجسٹریٹ نوبل صاحن کی اردلی میں ہوں۔ ہمارے صاحب کئی مہینے سےے بیمار ہیں۔ رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے اور بمبئی تک مجھے اپنے ساتھ لیے جاتے تھے۔ آج چوتھا دن ہے' ہم لوگ داک بنگلے میں آکر ٹھہرے۔ دوپہر کو غدر ہو گیا۔ صاحب کا مزاج نادرست تھا' بھاگ کر کہیں نہ جا سکے۔ تلنگوں نے ان کو لے جا کر کشمیری دروازے کے گارد میں قید کیا' وہاں اور بھی چند انگریزی پکڑے ہوئے تھے۔ آج سب قیدیوں کو کھڑا کر کے ناحق ناروا باڑ مار دی۔ ہمارے صاحب بھی زخمی ہو کر گرے مگر اس وقت تک ان میں جان ہے۔ میں ڈر کے مارے ان کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکا مگر آںکھ بچا کر مسجد سے پانی بدھنی ان کے پاس رکھ آیا ہوں۔ یہ خدا واسطے کا کام ہے' اگر آپ سے ہو سکے تو ہمارے صاحب کی جاب بچایئے۔ آپ کو بڑا درجہ ہو گا۔ صاحب ہیں تو انگریز مگر شریف اور شریف پرور، نیک مزاج
ریختہ 37
اور پرلے درجے کے رحم دل۔ رہتک والوں سے آپ پوچھیئے' بیسوں یتیموں اور بیواؤں کئ تنخوائیں مققر کر رکھی ہیں۔ فوجداری کے مقدموں میں مجبور ہو کر جرمانہ کرتے ہیں تو اپنے پاس سے سرکار میں بھر دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر جانثار ابن الوقت کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ "آپ لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے جو باتیں کر رہے تھے' میں دروازے کی آڑ میں چھپا سب سُن رہا تھا۔ اس سے مجھ کو آپ سے کہنے کی ہمت بھی پڑی اور میرا دل اندر سے گواہی دیتا ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے وقت صرف ہمارے صاحب کی جان بچانے کو بھیجا ہے۔
ابن الوقت نے جانثار کو زمین پر سے اٹھایا اور کہا کہ جو کچھ یہ بدذات'پاجی'نمک حرام' باغی تلنگے کر رہے ہیں' کچھ شک نہیں کہ ظلم صریح ہے اور کسی مذہب و ملت میں روا نہیں اور اگر میں تمہارے صاحب کی حفاظت کر سکوں تو میں اس کو فرض انسانیت سمجھتا ہوں مگر ان لوگوں کو کس وقت باڑ ماڑی؟
جان نثار: " دوبجے۔"
ابن الوقت: " "اوہو' دو بجے! (ایک نوکر کی طرف مخاطب ہو کر) وہ جو اس وقت غیر سن پڑی تھی وہ یہی باڑ ہو گی۔ (جان نثار) اچھا پھر تم نے کیوں کر جانا کہ تمہارے صاحب ہنوز زندہ ہیں؟"
جان نثار: "حضور کے تشریف لانے سے تھوڑی دیر پہلے تک لاشوں پر دھوپ تھی اور لاشیں تو بالکل سفید پڑ گئی تھیں مگر ہمارے صاحب کے چہرے پر سرخی جھلکتی تھی اور میں نے اپنی آنکھ سے صاحب کے جسم میں حرکت بھی دیکھی ہے۔ پانی رکھنے گیا تو سانس چلتا سا دکھائی دیا ۔ خدا جانے کہاں چوٹ لگی ہے کہ بے ہوش ہیں۔ جس وقت سے صااحب ڈاک بنگلے میں پکڑے گئے اس وقت سے میں دائیں بائیں برابر صاحب کے پاس لگا رہا ہوں' ایک دم کو جدا نہیں ہوا۔ زخموں کی نسبت تو میں کچھ عرض نہیں کر سکتا مگر
ریختہ 38
اس وقت ان میں جان تو ضرور ہے۔ آپ للہ ذرا چل کر دیکھ لیجیئے' اگر کچھ جان باقی ہے تو ان کو اپنی حفاظت میں لیجیئے' شاید خدا کرے بچ جائیں اور اگر ہو چکے ہیں تو وہ کیا مرے' ہم جیسے پچاس غریب ان کے ساتھ مر لیے۔ ہوں تو چار کوڑی کا پیادہ اور آپ کے روبرو عرض جرنا بھی گستاخی ہے مگر جناب یہ عمل داری تو اٹھنے والی نہیں۔ یہ بھی کوئی دن کا غل غپاڑا ہے۔ اگر صاحب آپ کے طفیل سے بچ گئے تو پھر دیکھیئے گا کیسے کیسے سلوک آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔"
ابن الوقت نے جس وقت سے سنا تھا کہ ایک صاحب مجروح ہوئے پڑے ہیں اور زندہ ہیں' اسی وقت سے وہ اپنے ذہن میں صاحب کی حفاظے کی تدبیریں سوچنے لگا تھا۔ جان نثار کی طرف ظاہر میں متوجہ رہا مگر اس کی بہت سی باتیں اس نے مطلق دھیا ن سے نہیں سنیں۔ آکر ابن الوقت نے اپنے دونوں نوکروں سے کہا : ” کیوں بھئی تمہاری کیا اصلاح ہے؟“ ایک نے کہا : ”ہم خانہ زاد جان و مال سے حاضر ہیں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کریں۔“ ابن الوقت نے کہا : ” بس تم سے اتنی مدد درکار ہے کہ اول تو ہم سب روزے سے ہیں‘ راز داری کا حلف کریں دوسرے‘ صاحب اگر زندہ ہوں تو جو طرح بن پڑے‘ اٹھا کر گھر تک لے چلیں۔"
ابن الوقت کے دونوں نوکروں نے قبلے کی طرف کو ہاتھ اٹھا کر قسم کھائی اور چاروں شخص لوٹ کر پھر لاشوں کے پاس گئے۔ جان نثار نے سب کو نوبل صاحب کے سر پر لے جا کر کھڑا کردیا۔ جھٹپٹا ہو چلا تھا۔ جان نثار نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو بدن گرم تھا۔ خون میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے اس وقت معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں اور کس قسم کے ہیں۔ ہر چند کوئی آدمی کہیں چلتا پھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا مگر خوف کے مارے ذرا کہیں پتا کھڑکتا تو یہ لوگ سہم جاتے ۔بارے جان نثار نے ابن الوقت اور اس کے نوکروں کی مدد سے صاحب کو چڈھی چڑھایا۔ صاحب اس قدر بے ہوش تھے کہ ان کو سنبھلنا دشوار تھا۔ سارے رستے بن الوقت اور اس کے نوکر سہارا لگاتے آئے۔
ریختہ 39
ان لوگوں کو اس سے بڑی تسلی اور تقویت تھی کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتے تھے کسی طرف کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ابن الوقت مجروح کو اٹھوانے کو تو اٹھوا لایا مگر اس وقت تک اس نے ذرا بھی نہیں سوچا تھا کہ گھر پہنچ کر کیا کرنا ہوگا۔ حقیقت میں اس کو اس بات کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ جان نثار کی درناک حکایت سنتے ہی وہ مجروح کو اتھانے دوڑا گیا اور مجروح کو اٹھائے پیچھے سارے رستے اس کی روک تھام میں لگا رہا ۔ گھر کی نکڑ پر پہنچ گیا تھا کہ اس کو تنبہ ہوا کہ میں نے یہ کیا کیا اور اس کے نباہ کی کیا صورت ہوگی۔ ابن الوقت کی بیوہ پھوپھی شروع بیوگی سے بال بچوں سمیت اسی کے گھر میں رہتی تھیں اور شوہری ترکے کی وجہ سے ان کو بڑی مقدرت تھی۔ اب ان کے بچے سیانے ہوئے تو انہوں نے اپنا مکان علیحدہ بنوانا چاہا۔ پدری ترکے سے ان کو ابن الوقت کے مکان کے پہلو میں زمین ملی تھی اور وہ زمین مدتوں سے یوں ہی پڑی تھی ۔ اب کوئی چار مہینے سے کھلے موسم کے آتے ہی اس میں مدد لگی تو اس وقت تک مکان ہر طرح سے بن بناکر تیار ہوچکا تھا۔ صرف استر کاری باقی تھی کہ غدر ہوا۔ مدد بند کردی گئی۔ سامان تعمیر کی حفاظت کے لیے اور اس غرض سے بھی کہ مکان میں رات کو چراغ چلنا ضرور ہے‘ ابن الوقت کے انہی دو نوکروں میں سے جو نوبل صاحب کے لانے میں شریک تھے ‘ باری باری سے ایک شخص رات کو آپڑتا ۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو اسی خالی مکان میں اتروایا اور اپنے آدمیوں میں سے جس کی باری مکان میں سونے کی تھی‘ جان نثار کے ساتھ متعین کردیا کہ اندر سے کواڑ بند رکھو اور میرے آنے تک صاحب کے زخموں کی شست و شو کرو مگر خبردار جو کسی نے آہٹ پائی۔
ابن الوقت نے گھبراہٹ اور جلدی میں اتنا خیال البتہ کرلیا تھا کہ باغیوں اور شہر کے بدمعاشوں نے تو اس قدر سر اٹھا رکھا ہے کہ ناحق انگریزوں کے لگاﺅ کا چھدا رکھ رکھ کر لوگوں کی جان اور آبرو کے خواہاں ہیں بے کسی زبردست کے آسرے کے اتنی بڑی
ریختہ 40
جوکھم اپنے سر لینا ٹھیک نہیں ۔ کل کلاں کو ” دیوار ہم گوش دارو“ خدا بری گھڑ ی نہ لائے‘ بات کھل پڑی تو میں اکیلا چنا بھاڑ کا کیا کرلوں گا ۔ پاس تھی شاہ حقانی صاحب کی خانقاہ اور ایک اعتبار سے سارا شہر ان کا معتقدتھا اور ہزارہا ولایتیوں کو اس خانقاہ سے بیعت تھی اور چالیس پچاس بلکہ بعض اوقات سو سو ولایتی فیضان تلقین حاصل کرنے کے لیے خانقاہ میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن الوقت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر شاہ حقانی صاحب اس ارادے میں میرے سر پر ہاتھ رکھیں توبس پھر کسی طرح کا خدشہ نہیں ۔ ابن الوقت کو اس بات کا بھی پورا بھروسا تھا کہ اگر شاہ صاحب راضی بھی نہ ہوئے تاہم ان کی شان اس سے ارفع ہے کہ کسی پر اس راز کو ظاہر کریں۔ پس ابن الوقت نے مکان کے اندر پاﺅں بھی نہ رکھا اور سیدھا خانقاہ کو ہولیا۔ وہاں¾ پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ ساری خانقاہ میں کچھا کھچ آدمی بھرے پڑے ہیں کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ سرغنہ باغیاں علمائے خانقاہ سے جہاد کے فتوے پر مہریں کرانے لایا ہے ۔ ظہر کے وقت سے حجت ہورہی ہے ‘ شاہ حقانی صاحب ہیں کہ کسی طرح نہیں مانتے اور انگریزوں سے لڑنے کو غدر اور ”فساد فی الارض “ کہے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہجوم میں شاہ صاحب تک پہنچنا اور تخلیہ کرانا کسی طرح ممکن نہ تھا۔ ناچار ابن الوقت کسی قدر ناامید ہوکر لوٹا مگر دل میں علمائے خانقاہ کے فتوے کی تصویب کرتا تھا اور اس خیال سے خوش تھا کہ ایک سرغنہ نہیں اگر ساری دنیا ایک طرف ہو تو خانقاہ والے مذہبی معاملے ڈرنے دھمکنے والے نہیں اور باغی خانقاہ والوں کا کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ اگر خانقاہ میں سے کسی کا بال بھی بیکا ہوا تو کشتوں سے پشتے لگ جائیں گے۔ بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔
مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجودیکہ صبح و شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت
ریختہ 41
جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہو گیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔ تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔ ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے
ریختہ 42
جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔ ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے کرید کرید کر اور کھود کھود کر پوچھا کرتا تھا ، نوبل صاحب سے اس نے خوب ہی دل کھول کر جو جو کچھ جی میں آیا تھا اور نوبل صاحب نے بھی جہاں تک زبان نے یاری دی بھلی یا بری کوئی بات اپنے وطن اور اپنی قوم کی اٹھا نہ رکھی۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کی ہم نشینی میں انگریزوں کے تفصیلی حالات سے اس قدر واقفیت حاصل کی کہ بس آنکھوں سے دیکھنے کی کسر باقی رہ گئی تھی ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ابن الوقت کو انگریزوں کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت تو پہلے سے تھی ہی ۔ تین سوا تین مہینے نوبل صاحب کے ساتھ رہ کر اس کے خیالات اور بھی راسخ ہو گئے اور عجب نہیں اسی اثنا میں اس نے
ریختہ 43
تبدیل وضع کا ارادہ کیا ہو۔ ہم کو نوبل صاحب یا ابن الوقت کے حالات غدر لکھنے منظور نہیں ، تسلسل سخن کے لیے اتنا لکھنا ضرور ہے کہ نوبل صاحب کو جس وقت سے ابن الوقت کے گھر ہوش ہوا ، آخر تک انھوں نے اپنی ذاتی تکلیف اور مصیبت کی کبھی شکایت کی ہی نہیں ۔ ہاں یہ ان کا تکیہ کلام تھا کہ افسوس میں ایسی حالت میں ہوں کہ کسی طرح اپنی قوم کی مدد اور اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا ۔ وہ کاہل اور بیکار زندگی سے مرنے کو بہ مدارج بہتر سمجھتے تھے اور خبروں کے نہ ملنے سے ان کا وقت سخت پریشانی میں گزرتا تھا ۔ جتنی دیر ابن الوقت ان کے پاس رہتا ، باتیں کرتے ورنہ دالان میں ٹہلتے رہتے ۔ ابھی ان کے زخم اچھی طرح بھرے بھی نہ تھے کہ انھوں نے ابن الوقت پر تقاضا شروع کیا کہ کسی ڈھب سے مجھے انگریزی کیمپ میں پہنچاؤ۔ ابن الوقت ان کے بے موقع اور بے جا اصرار سے دل میں سخت آزردہ ہوتا ، مگر جانتا تھا کہ "اہل الغرض مجنون" باہر چلتے پھرتے ہوتے تو دیکھتے کہ چاروں طرف کیسی آگ لگی ہوئی ہے ، ہمارے ملک کی عورتوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں مقید ہیں ، دنیا و مافیہا سے خاک خبر نہیں ، شاید دل میں خیال کرتے ہیں کہ میں عمدا پہلوتہی کرتا ہوں ۔ زخموں کے اچھا ہوتے ہی نوبل صاحب اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ کئی بار بگڑ بگڑ کر ابن الوقت کو دھمکایا کہ اگر مجھ کو زیادہ روکو گے تو میں نکل بھاگوں گا۔ ابن الوقت ان کی ایسی ایسی باتیں سن کر ہنستا اور کبھی جھنجھلاتا کہ ایسی ہی جان دوبھر ہے اور خود کشی کرنی ہے تو مجھی کو ثواب غذا حاصل کرنے کی اجازت دیجئے ۔
ریختہ 44
فصل سوم
ابھی غدر فرو بھی نہ ہوا تھا کہ نوبل صاحب انگریزی کیمپ میں جا داخل ہوئے
ہر چند ہر بار ابن الوقت بات کو کسی نہ کسی تدبیر سے ہنسی میں اڑا دیا کرتا تھا مگر دل میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ایسا نہ ہو گھٹ گھٹ کر بیمار پڑ جائیں تو وہی مثل ہو کہ کھلائے پلائے کا نام نہیں رلائے کا الٹا الزام ۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ نوبل صاحب حاکم فوج انگریزی کو چٹھی لکھیں اور جان نثار اس کو چھپا کر گوڑگانوہ ، رہتک ، کرنال ، تین ضلعوں کے دیہات میں چکر کاٹتا ہوا کسی جگہ پنجاب کے راستے میں جا ملے اور وہاں سے ابگریزی کیمپ میں داخل ہو ۔ جان نثار نے اس کا بیڑا اٹھایا اور چٹھی لے کر روانہ ہوا۔ اس کا پیٹھ موڑنا تھا کہ یہاں نوبل صاحب اور ابن الوقت لگے اس کی واپسی کا حساب کرنے ۔ ہر چند دونوں چپے چپے سے زمین کے جغرافیے سے آگاہ تھے مگر باوجودیکہ کئی دن تک برابر رد و کد ہوتی رہی ، جان نثار کی واپسی کی تاریخ پر متفق نہ ہو سکے۔ وجہ کیا تھی کہ جان نثار کو آمد و شد میں جن اتفاقات کے پیش آنے کا احتمال تھا اگر چہ کوئی شخص حتیٰ جان نثار بھی ان کو نہیں جان سکتا تھا مگر ابن الوقت پھر بھی ان کا کسی قدر ناقص ، ناتمام ، ادھورا اندازہ کرتا تھا اور نوبل صاحب چونکہ خود مستعجل تھے ، کسی احتمال مخالف کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں
ریختہ 45
دیتے تھے ۔ تاہم انھوں نے نے آپ ہی اپنے نزدیک یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جان نثار کو آج کے پندرھویں دن ضرور ضرور واپس آنا چاہیئے۔ ہرچند نوبل صاحب بڑے ہی مستقل مزاج آدمی تھے مگر سچ کہتے ہیں "الانتظار اشد من الموت" جان نثار کی واپسی کے انتظار میں تو ان سے بھی ضبط نہ ہو سکا۔ جان نثار کو گئے ہوئے ایک ہی ہفتہ گذرا تھا کہ انہوں نے مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور دسویں دن سے تو یہ حال ہوا کہ سارے سارے دن دروازے میں کھڑے رہنے لگے۔ ہر چند ابن الوقت گھسیٹ گھسیٹ کر اندر لے لے جاتا تھا مگر قابو ملا اور دروازے میں۔ جب پندرہ دن بھی گذر گئے اور جان نثار کا کہیں پتا نہیں تو نوبل صاحب کی اس دن کی یاس دیکھ کر ابن الوقت بھی بدحواس ہو گیا۔ زخمی ہونے کی حالت میں پھر بھی ان کے چہرے پر ایک طرح کی رونق تھی یا دفعتہً ان کی حالت اس قدر جلد جلد متغیر ہونے لگی کہ جان نثار کے سامنے سے آدھے بھی نہیں رہے تھے۔ بھوک بالکل بند ہو گئی، نیند ایسی اچاٹ ہوئی کہ ساری ساری رات کروٹیں بدل بدل کر صبح کر دیتے تھے۔ آخر جان نثار کی روانگی سے انیسویں دن ابن الوقت نے کہا کہ جان نثار کو جو اس قدر دیر لگی، آپ اس کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
نوبل صاحب: "کیا بتاؤں، جان نثار کی وفاداری پر شبہ کرنے کی تو میں کوئی وجہ نہیں پاتا۔ اس نے اس مصیبت میں جس قدر میری رفاقت کی، آپ کو معلوم ہے۔ شاید ایسا ہو کہ وہ لوگ جواب کے عوض میرے نکال لے جانے کی فکر میں ہوں اور جان نثار کو میری نشان دہی کے لئے ٹھہرا لیا ہو۔"
ابن الوقت: "میں آپ کی دل شکنی کے ڈر سے عرض نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال تو یہ ہے کہ جان نثار کو ابھی تک انگریزی کیمپ میں پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا ہو تو عجب نہیں۔"
ریختہ 46
نوبل صاحب: "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میری چٹھی پکڑی گئی۔ نہیں نہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جانثار نہایت ہوشیار آدمی ہے اور اس نے چٹھی کو ضرور ایسی طرح چھپایا ہوگا کہ کوئی گمان نہ کر سکے اور خود جانثار کی صورت اور وضع ایسی ہے کہ اس پر جاسوسی یا مخبری کا گمان نہیں ہو سکتا۔ نہیں نہیں، مجھ کو پورا اطمینان ہے کہ وہ چٹھی سمیت صحیح سلامت کیمپ میں پہنچا۔"
ابن الوقت: "آپ کو کچھ مفصلات کی بھی خبر ہے؟ تمام دیہات میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، راستے بند پڑے ہیں، اکے دکے کی مجال نہیں کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا قصد کرے اور ایسی بے تمیزی کہ ناحق ناروا کوئی کسی کو مار دے تو کیا لگتا ہے۔"
نوبل صاحب: "اگر آپ نے یہ حال مجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ہرگز جانثار کے بھیجنے کا ارادہ نہ کرتا۔ افسوس ہے کہ میں نے اپنے فائدے کے لئے اس کی جان کو خطرے میں ڈالا۔"
ابن الوقت: "میں نے احتمال عقلی کے طور پر عرض کیا ورنہ جانثار ان گنواروں کے بس میں آنے والی اسامی نہیں۔ اس کی جان کی تو انشاء اللہ سب طرح سے خیر ہے، ہاں راستے میں کہیں اٹک گیا ہو تو خبر نہیں۔ مگر خدا نے چاہا تو صبح شام پہنچنے ہی والا ہے۔"
نوبل صاحب: "آپ صرف دیر کی وجہ سے ایسا قیاس کرتے ہیں یا۔۔۔۔۔
ابن الوقت: "(ہنس کر) نہیں، ایک کوا چھجے پر بیٹھا ہوا کاؤں کاؤں کر رہا تھا، میں نے اپنے ملک کی رسم کے مطابق شگون لیا اور کوے سے کہا جانثار آتا ہو تو اڑ جا۔ یہ کہنا تھا کہ کوا اڑ گیا۔"
ابن الوقت اور نوبل صاحب یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر کے کواڑوں میں سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ سنتے ہی ابن الوقت بول اٹھا: "لیجئے، الحمدللہ وہ جانثار آ پہنچا۔"
ریختہ 47
ابن الوقت نے دوڑ کر کواڑ کھولے تو سچ مچ جانثار تھا۔ دور سے نوبل صاحب نے پوچھا "کہو خیر ہے؟"
جان نثار: (قاعدے کے مطابق سلام کر کے) "خداوندا حضور کے اقبال سے جواب لایا۔"
نوبل صاحب نے ایسی جلدی کی کہ جوتی کے تلے سے چٹھی نکالنا دشوار کردیا۔بارے خدا خدا کرکے چٹھی نکلی تو نوبل صاحب ا س کو بغور پڑھ رہے تھے اور ان کے منہ کی طرف ابن الوقت کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی ۔نوبل صاحب کے چہرے سے فکر کے سوائے اور کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی تھی‘ چاہتے تھے کہ چٹھی کو دوبارہ پڑھیں‘ ابن الوقت نے چٹھی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا : "آپ کو ہمارے انتظار کی قدر کرنی بھی ضروری ہے ۔چٹھی کہیں بھاگی نہیں جاتی ۔پہلے خلاصہ فرما دیجئے تب دوبارہ سہ بارہ جب تک جی چاہے پڑھا کیجئے گا۔"
نوبل صاحب : "کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا ۔لکھتے ہیں کہ ابھی تک ہم لوگ دشمن کے حملوں کو ہٹا رہے ہیں ۔قلعہ شکن توپیں منگوائی گئی ہیں‘ وہ پہنچ جائیں تب ہمارے دھاوے شروع ہوں ۔اس وقت تک جہاں ہو چپ چاپ بیٹھے رہو۔جس وقت ہماری طرف سے گولے جامع مسجد کے پار جانے لگیں یا قلعے میں گرنا شروع ہوں تو جاننا کہ توپیں پہنچ گئیں اور پھر وہ امید کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاؤں جلد اکھڑ جائیں گے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارا آدمی سولہویں دن کیمپ میں پہنچا اور اس کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس کو راہ میں بڑی مشکلیں پیش آئیں ۔پس تم دوبارہ اس کو بھیجنے کا قصد مت کرنا ۔شہرمیں صدہا آدمی ہندو مسلمان سرکار کے خیرخواہ موجود ہیں اور شہر کی خبریں برابر چلی آتی ہیں ۔جب موقع ہوگا تو کسی خیر خواہ کے ذریعے سے تم کو ایما کردیا جائے گا اور تم نکل آنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور جن صاحب کے گھر میں تم نے پناہ لی ہے ان کے تفصیل حالات اور
ریختہ 48
ان کے مکان کا پتا سب تمہارے آدمی سے دریافت کرلیا گیا ہے ۔ان پر سرکار اور تمام سرکاری عہدہ دار ان ملکی وفوجی کی احسان مندی کماحقہ طور پر ظاہر کردینا اور یقین ہے کہ وہ ان تمام وعدوں سے جن کا اس وقت کرلینا بہت آسان ہے‘ اس کی بہت زیادہ قدر کریں گے ۔
ابن الوقت : اس سے بہتر اور کیا جواب ہوسکتا تھا۔اس جواب کی نسبت کافی اور شافی اور معقول اور مناسب جو کچھ کہا جائے سب بجا ہے ۔
نوبل صاحب : مگر یوں بے کار پڑے پڑے ضرور مر جاؤں گا۔
ابن الوقت : "آپ مرنے والے ہوتے تو مرنے کے بہت سے مواقع تھے‘ اب آپ کی زندگی کا میں بیمہ لیتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ آپ کی طبیعت بے کاری سے اکتاتی ہے مگر جہاں اتنی مصیبتیں جھیلی ہیں‘ چند ے اور صبر کیجئے۔میں سمجھتا ہوں مہینے سوا مہینے کے آپ ہمارے مہمان اور ہیں ۔"
نوبل صاحب :افوہ! مہینے سوا مہینے ۔
ابن الوقت : اس مدت کے لیے کیا اچھا مشغلہ اس وقت خیال میں آیا ہے ۔"
نوبل صاحب : وہ کیا؟
ابن الوقت : حالاتِ غدر کی یادداشت۔
نوبل صاحب : "واہ - واہ بہت اچھی صلاح ہے ۔مگر بہت سی باتیں اب مجھ کو اچھی طرح یاد بھی نہیں رہیں ۔
ابن الوقت : جہاں تک آپ کو یاد ہے اپنی یاداشت سے لِکھیےاور زیادہ درکار ہو تومیرے پاس ہر روز کے واقعات کی تفصیلی کیفیت لکھی ہوئی تیار ہے‘ آپ چاہیں تو اسے لے سکتے ہیں ۔میرے اور آپ کےدرمیان یہ قول رہا کہ اس یاداشت سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔"
ریختہ 49
نوبل صاحب : "میں نہیں جانتا کہ غدر کے بارے میں گورنمنٹ کی کیا رائے ہو گی مگر باوجودیکہ غدر سے مجھ کو بڑی تکلیفیں پہنچیں‘ میں ولایت جانے سے رہا ‘ میرے اعزہ و احباب نے مجھے مرا ہوا فرض کرکے خدا جانے اپنا کیا حال کیا ہوگا‘ میں زخمی ہوا‘ میری زندگی معرضِ تلف میں رہی‘ میری گیارہ برس کی کمائی سب برباد ہوئی ۔تین مہینے ہونے کو آئے کہ میں بیکار محض پڑا سڑتا ہوں اور ابھی نہیں معلوم کہ کب تک یوں ہی پڑا سڑوں گا‘ مجھ کو اپنے یگانوں اور دوستوں کے مرنے جینے کی مطلق خبر نہیں اور یہ بھی خبر نہیں کہ اس ہنگامے کے فرو ہونے تک کیا کیا ایذائیں اور مصیبتیں پیش آنے والی ہیں ۔باوجود ان تمام صدمات کے میں اس ملک کے لوگوں کو‘ سب کو نہیں تو اکثر کو کسی قدر معذور سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک غدر ایک شورش جاہلانہ ہے ۔ ہندوستانی فوج نے سرکاری قوت کے اندازہ کرنے میں غلطی کی ۔انہوں نے سمجھا کہ یہ ملک کمپنی بہادر نے ہماری مدد سے سر کیا ہے اور ہماری ہی مدد سے اس ملک پر قابض ہے ۔لوگوں کو‘ کیا رعایا کیا فوج‘ سرکاری ضوابط اور قواعد سے بھی کسی قدر نارضامندی ضروری تھی اور سرکاری عہدہ داروں نے اس نارضامندی کی مطلق پروا نہیں کی‘ اور ہزار باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ صرف بہ زور شمشیر اپنی حکومت قاہرہ کو بٹھانا چاہا اور سلطنتِ مطمئنہ کی شرط ضروری ،خوشنودی رعایا ‘ افسوس ہے کہ تمام تر نہیں تو اس کو بڑا حصہ فوت ہوا اور گورنمنٹ کا منشا پا کر عہدہ داران سرکار نے بھی استمالت قلوب خلائق کی طرف ذرا توجہ نہ کی ۔اس صورت میں کمپنی بے شک ہندوستان کی بادشاہ ہے مگر اسی طرح کی بادشاہ جیسے جنگل میں شیر۔میری ہرگز یہ رائے نہیں ہے کہ غدر کی کھچڑی مدت سے پک رہی تھی یا سوچ بچار کر صلاح و مشورے سے یہ فساد ہوا۔پس اگر میری رائے پر عمل ہوا اور وہ رائے اس حیثیت سے کہ میری رائے ہے‘ ہرگز قابل وقعت نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ گورنر جنرل جیسا مدبر اور منتظم اور صاحب الرائے ضرور تمام اطراف و جوانب پر نظر
ریختہ 50
کرکے حلم اور درگزر کے اصول پر عمل کرے گا اور تب ہی یہ آگ بجھے گی بھی ۔انتقام کا لینا تو ابقائے رعب اور سیاست کے لیے ضرور ہوگا مگر معمم کے ساتھ نہیں ۔جن لوگوں نے کھلم کھلا بغاوت کی اور بغاوت کو پھیلایا اور مسلح ہو کر سرکار کے مقابلے میں معرکہ آرا ہوئے اور جنہوں نے انگریزوں یا ان کے بی بی بچوں کو صرف اس وجہ سے کہ انگریز ہیں‘ ناحق‘ ناروا قتل کیا‘ ایسے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو سخت سزا دینی چاہیے ۔
ابن الوقت : "اب مجھ کو پوراطمینان ہے کہ میرا روز نامچہ مجھ سے بہتر محفوظ ہاتھ میں رہے گا۔لیجئے کتاب حاضر ہے۔"
نوبل صاحب کے کئی ہفتے اس روز نامچے کی بدولت آسانی سے کٹ گئے اور یوں ان کی حالت منتظرہ جو تھی سو تھی ہی مگر روز نامچے کا مشغلہ نہ مل گیا ہوتا تو نوبل صاحب شاید اکتا کر اور بولا کر باہر نکل کھڑے ہوتے ۔نوبل صاحب کا روز نامچہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ غدر کے کوئی دو مہینے اور بیس یا بائیس دن بعد عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں کہ پہلا گولا قلعے کے دیوانِ عام میں گر کر پھٹا۔سارے شہر میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس وقت نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں ایک ہی جگہ تھے۔ جوں گولے کا دھماکہ ہوا ، ابن الوقت چونک پڑا اور یہ کہہ کر اٹھا کہ لیجئے جناب ، دہلی کی فتح اور آپ کا انشاء اللہ مع الخیر و العافیۃ کیمپ انگریزی میں داضل ہونا مبارک ، مبارک ، مبارک۔ یہ ضرور قلعے کی آواز ہے۔ جاؤں ذرا اپنی سرکار کی خبر لوں ۔ بیگم صاحب تو شہر کی توپوں کی آواز سن کر سن کر کانپ کانپ اٹھتی تھیں۔ خدا جانے یہ گولہ کس مقام پر گرا۔ الٰہی خیر ہو۔
نوبل صاحب: شاید قلعے سے توپ چلی ہو ۔
ابن الوقت: نہیں جناب ، جب قلعے پر توپیں چڑھائی گئیں تو بہت سی بیگمات بلکہ مرشد زادے حضور والا میں فریاد لے کر آئے تھے کہ ہم کو ڈر لگتا ہے ، ایسا نہ ہو کہ
آخری تدوین: