آہ سید ذاکر علی

یوسف-2

محفلین
رجب طیب اردگان جھکے ،جھک کر سامنے موجود شخص کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اوپر اٹھائے اور گردن جھکا کر انھیں بوسہ دیا اور کہا:
’’اس بڑھاپے میں آپ نے جو کچھ کردیا،وہ ہم لوگ اپنی تمام تر توانائی اور وسائل کے باوجود نہ کرسکے‘‘
عالم اسلام کا یہ طاقت ور اور زیرک حکمراں جس بزرگ کا عقیدت مند تھا، پرسوں شب وہ اس عالم میں دنیا سے رخصت ہوا کہ اپنے دیس کے متحرک اور اپنی دانست میں باخبر ترین الیکٹرانک میڈیا کو تو اس کی خبر ہی نہ ہوسکی اور اخبارات میں بھی یہ خبر کہیں چھپی ،کہیں نہ چھپی ۔جہاں کہیں یہ خبر چھپی ،وہاں بھی عالم یہ تھا کہ ڈیسک پر بیٹھے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یہ کون صاحب ہیں جن کے مرنے کی خبر آج آئی ہے ۔ جب کوئی شافی جواب نہ ملا تو مقامی خبروں کے صفحے پر کہیں کونے کھدرے میں دو چار سطریں ڈال دی گئیں ۔ یوں جو لوگ انھیں جانتے تھے ،انھیں بھی وقت پر معلوم نہ ہوسکا کہ سید ذاکر علی اس دنیا سے گزر گئے۔
سید ذاکر علی کو جماعت اسلامی کے لوگ اس لیے جانتے ہیں کہ وہ اس کے رکن تھے اور اس کے ترجمان اخبار ’’جسارت‘‘ کے کسی زمانے میں چیف ایگزیکٹو رہے تھے لیکن بعد کے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ اس اخبار کے چیف ایگزیکٹو نہیں رہے لیکن اس کے باوجود اخبار کی پرنٹ لائین پر ان کا نام چھپا کرتا تھا۔وہ جسارت کے اس زمانے میں سربراہ تھے جسے اس کا سنہری دور کہا جاتا ہے ۔اس زمانے میں جسارت میں کوئی خبر یا اداریہ چھپ جاتا تھا تو پورے ملک میں اس کی گونج سنائی دیتی تھی اور اس اخبارمیں صرف جماعت اسلامی کے وابستگا ن ہی کو دلچسپی نہیں ہوتی تھی بلکہ ملک کا ہر سیاسی کارکن اس خبار کے مطالعے کے بغیر خود کو نامکمل محسوس کر تا تھا۔سید ذاکر علی اس اخبار کے صرف منتظم اعلیٰ ہی نہ تھے بلکہ اس کے ناشر بھی تھے۔پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اخبار نکالنے اور نکال کر چلانے کی تاریخ کوئی زیادہ تابناک نہیں رہی ۔ پیپلز پارٹی نے خود اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت اور نگرانی میں ’’مساوات ‘‘ نکالا اور حنیف رامے جیسی بھاری بھرکم شخصیت اس کی مدیر رہی لیکن یہ اخبار اب تاریخ کا حصہ ہے۔اسی طرح ایم کیوایم جیسی منظم جماعت نے ’’انجام‘‘ نکالا لیکن یہ اخبار بھی زیادہ دن دیکھ نہ سکا۔پھر جسارت میں ایسی کون سی خوبی تھی کہ ایک سیاسی جماعت کا ترجمان ہونے کے باوجود یہ اخبار غیر معمولی شہرت اختیار کر گیا۔ صحافت کی تاریخ جب ان عوامل کا کھوج نکالنے نکلے گی تو سید ذاکر علی کو یقیناًاچھے الفاظ میں یاد کرے گی لیکن میری زیادہ دلچسپی ’’جسارت‘‘ والے سید ذاکر علی سے نہیں۔
میں ایک بہت ہی مختلف سید ذاکر علی کو جانتا ہوں۔بیس بائیس برس ہوئے ہیں،سندھ کے صحرائے تھر میں سوکھا پڑ گیا۔صرف کھیتیاں اور مال مویشی ہی نہیں انسان بھی پیاس سے بلکنے لگے۔یہ زمانہ تھا جب بعض غیر سرکاری تنظیموں کی توجہ تھر کی طرف ہوئی اور انھوں نے وہا ں کنویں کھدوانے شروع کیے۔تھر جیسے صحرا میں کنواں کھودنا کوئی آسان کام نہیں۔ کتنی ہی گہرائی میں تو جا کر پانی نکلتا ہے اور پھر یہ بھی کیا خبر کہ کنواں کھد جائے تو اس میں سے پانی بھی برآمد ہو یا نہ ہو؟یا پانی برآمد تو ہو جائے لیکن وہ پینے کے قابل نہ ہو۔لوگ انسانوں کی محبت میں تھر کا رخ کرتے،کثیر سرمایہ خرچ کر کے کنویں کھدواتے اور اکثرمایوس ہوتے۔اس زمانے میں جماعت اسلامی کے رفاہی شعبے نے بھی تھر میں بہت کام کیا لیکن مسئلہ نتائج کا تھا۔اس زمانے میں سید ذاکر علی کی، یوں سمجھئے ایک نئی طرح سے دریافت ہوئی۔انھوں نے کہا :جہاں آپ کھدائی کرنے جا رہے ہوں،مجھے وہاں لے جائیے،میں آپ کو بتادوں گا کہ وہاں کھدائی ہونی چاہئے یا نہیں،سرمایہ خرچ کرنا چاہئے یا نہیں۔عجیب سی بات تھی لیکن چونکہ جماعت کا معاملہ تھا،اس لیے شک وشبہے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔لہٰذا ان کی خدمات خاصل کر لی گئیں۔ذاکر صاحب ایک چھڑی ہاتھ میں لے کر متعلقہ جگہ پر چہل قدمی کرتے اور چند منٹ بعد کسی جگہ پر چھڑی رکھ کربتا دیتے کہ کہاں سے پانی نکلے گا اور کہاں کھدائی کرنی چاہئے۔وہ صرف اس جگہ کی نشان دہی نہیں کرتے تھے کہ پانی کہاں ہے بلکہ یہ بتاتے دیتے کہ پانی کیسا ہے یعنی میٹھا ہے یا کھاری۔صرف پانی کی نوعیت ہی سے آگاہ نہ کرتے بلکہ یہ بھی بتا دیا کرتے کہ یہاں پانی کا جو ذخیرہ مدفون ہے ،کتنے عرصے کے لیے کار آمد ہے۔صحرائے تھر میں ہزاروں ایسے کنویں ہوں گے جو ذاکر صاحب کی نشاندہی پر کھودے گئے ہوں گے۔ہوتے ہوتے ان کی یہ شہرت جماعت کے دائرے سے نکل کر عام لوگوں میں بھی پھیل گئی اور دیگر لوگوں نے بھی خدمات حاصل کرنا شروع کردیں۔ ایک بار حکومت بلوچستان امریکیوں کی مدد سے پانی کی تلاش کے کسی منصوبے پر کام کررہی تھی۔امریکیوں نے متعلقہ علاقے میں سروے کر کے بتایا کہ یہاں پانی نہیں ہو سکتا ،اس لیے اخراجات کا کوئی فائدہ نہیں۔کسی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو ذاکر صاحب کے بارے میں بتایا تو انہیں بلایا گیا۔انھوں نے بتایا کہ یہاں پانی ہے ۔اس پر امریکی فرم کے ماہرین ناراض ہو گئے کہ یہاں لوگ سائنس پر نہیں توہم پرستی پر یقین رکھتے ہیں لیکن ذاکر صاحب نے چیلنج کیا کہ کھدائی کی جائے ۔اگر پانی نہ ملا تو تمام اخراجات میرے ذمے اور ذاکر صاحب اس امتحان میں سرخرو نکلے۔آج میں سوچتا ہوں کہ یوم آخر جب آقائے کائنات ﷺ جب پیاسے مومنوں کو حوض کوثر سے سیراب فرمارہے ہوں گے تو ذاکر صاحب پر کتنی شفقت فرمائیں گے۔
خیر اس تذکرے میں طیب اردگان کی کہانی تو درمیان میں ہی رہ گئی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد ذاکر صاحب نے خود کو اس مشن پر مامور کرلیا کہ قرآن پاک کا ترجمہ روسی زبان میں ہونا چاہئے اور اس کی ترسیل بھی وہاں ہونی چاہئے چنانچہ پہلے ا نھوں نے اس کا ترجمہ اپنی نگرانی میں مکمل کرایا ۔ ترجمہ ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ یہ کسی ایسی جگہ سے چھپے جہاں سے روس کو ترسیل آسان ہو۔اس کے خیال میں مناسب ترین جگہ ترکی ہی تھی ۔بس ان کا ترکی آنا جانا شروع ہو گیا اور انھوں نے قریباً تن تنہا اتنا بڑا کام کر ڈالا۔رجب طیب اردگان کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ حیران رہ گئے اور جب دھان پان سے سید ذاکر علی کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو بے اختیا ر ان کے ہاتھ چوم لیے۔ (فاروق عادل کا کالم روزنامہ نئی دنیا 20 دسمبر 2012 ء)
 

نایاب

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
حق مغفرت فرمائے بلاشبہ محترم سید ذاکر علی اک عظیم نابغہ شخصیت تھے ۔
کسی بھی وابستگی سے بالاتر اک سچا انسان جو ساری عمر خدمت انسانیت میں محو رہا ۔
 

یوسف-2

محفلین
چونکہ یہ احقر روزنامہ جسارت کا قاری نہیں ہے، اس لئے مجھے اُن کی وفات کی بروقت اطلاع نہین مل سکی اور میں کراچی میں ہونے کے باوجود مرحوم کے جنازہ میں شرکت نہ کرسکا۔ جمعیت اتحاد علماء کراچی شرقی کے صدر مولانا ابراہیم حنیف سے مرحوم کے قریبی مراسم تھے۔ مولانا نےمیری تالیف ”پیغام قرآن و حدیث“ انہیں دی تو انہوں نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے احقر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ ایک روز میں مولانا کے ہمراہ اُن کے گھرواقع ماڈل ٹاؤن پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی کام سے باہر نکلے ہوئے ہیں، واپسی کا کوئی پتہ نہیں اور وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے موبائل بھی نہیں لے جاتے کہ لوگ انہیں تنگ نہ کریں۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی ۔ پھر میں اپنی مصروفیات میں کھو گیا کہ ایک دن مولانا کا فون آیا کہ ہم سید ذاکر صاحب کے ساتھ آپ کے گھر آرہے ہیں۔ سید صاحب عصر کے وقت پہنچے، قبل اس کے کہ میں انہیں کچھ کہتا، انہون نے یہ کہہ کر کہ آپ میرے گھر آئے اور میں نہ ملا تو میرا یہ فرض تھا کہ میں آپ کے گھر آکر اس کی تلافی کروں، مجھے شرمندہ کردیا۔ اور قبل اس کے کہ میں اپنی اس ’عزت افزائی‘ پر کچھ کہتا اور ان کا شکریہ ادا کرتا، وہ میرا مدعا سمجھتے ہوئے مجھے روک کر کہنے لگے پہلے یہ توسُن لیجئے کہ آپ آئے تو میں کیوں نہیں ملا اور اتنے دنوں کے بعد میں کیوں آیا۔
پھر انہوں نے وہی ”کہانی“ اختصار کے ساتھ سنائی جس پر ترکی کے صدر نے بھی ان کی تعریف کی تھی۔ روس کی آزاد شدہ مسلم ریاستوں میں سویت یونین کا بنایا ہوا قانون آج بھی موجود ہے کہ وہاںقرآن کا ترجمہ چھاپنا غیر قانونی ہے۔ ان ریاستوں سے ترکی کی تجارت بہت عام ہے اور اکثر تاجروں نے قرآن کے روسی ترجمہ کی خواہش ظاہر کی تو سید ذاکر علی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور قرآن کے روسی ترجمہ شدہ کی تلاش شروع کردی۔ کافی تلاش بسیار کے بعد انہیں ایک مستند روسی ترجمہ کا نسخہ ملا تو اس کی چھپائی پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ ان ریاستوں میں اسے چھاپنے کی اجازت نہ تھی اور بیروں ملک سے چھاپ کر وہاں ایکسپورٹ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پھر مقامی تاجروں نے تجویز دی کہ آپ اسے ترکی میں چھاپ کر یہیں کسی گودام میں اسٹور کردیں۔ ان ریاستوں سے تاجر روزانہ متعدد فلائٹس سے ترکی آتے جاتے ہیں۔ یہ اپنے پرسنل سامان میں یہ نسخے یہاں سے بتدریج لے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ ترکی کے ایک بڑے چھاپہ خانہ سے بات چیت ہوئی اور غالباً 25 لاکھ پاکستانی روپے پر معاہدہ ہوگیا کہ
یہ کام ہوجائے گا۔ ذاکر صاحب پاکستان آئے اور ایک سال کے اندر اندر مخیر حضرات سے اس رقم کے وعدے کا انتطام کرکے ترکی پہنچے تاکہ پرنٹنگ کا آگاز ہوسکے تو پرنٹرز نے بتلایا کہ اب تو لاگت دگنی ہوچکی ہے۔ القصہ مختصر وہاں ایک مقامی صاحب کے اثر رسوخ سے پرنٹرز نے یہ آفر کی کہ اگر اگلے 15 دن کے اندر اندر 40 لاکھ روپے اداکردیں تو وہ یہ کام کردیں گے۔ ذاکر صاحب بھاگم بھاگ کراچی آئے اور 15 دن کی شبانہ محنت سے بقیہ 15 لاکھ چندے کا اہتمام کیا اورکل رقم لے کر ترکی گئے اور قرآن کے روسی ترجمہ کی چھپائی شروع کروادی۔ یہ وہی دن تھے جب میں ماڈل کالونی مین ان کے گھر ان سے ملنے گیا تھا اور وہ اسی مصروفیت کے سبب نہ ملے تھے۔
اسی ملاقات مین انہوں نے زیر زمین میٹھے پانی کے بارے مین ”اپنی پیشنگوئی“ پر بھی روشنی ڈالی کہ انہیں یہ ”علم“ کیسے ملا۔ وہ بتلاتے ہیں کہ ایک مرتبہ پرانے لاہور میں اپنے کسی عزیز کے ہمراہ مٹر گشت کر رہے تھے کہ ایک مجذوب سا شخص ملا۔ وہ ذاکر صاحب کو دیکھتے ہی کہنے لگا کہ تم زیر زمین میٹھے پانی کے چشمہ کا پتہ لگا سکتے ہو۔ ترکیب جاننی ہو تو کسی روز میرے حجرہ میں دو کلو مٹھائی لے کر آجانا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے ایک مجذوب کی بڑ جانا اور اسے سنجیدگی سے نہ لیا لیکن ان کے لاہوری دوست یا عزیز نے کہا کہ چیک کرنے مین کیا ہرج ہے۔ دو کلو مٹھائی کا ہی تو خرچہ ہے۔ بصد اصرار ذاکر صاحب مٹھائی لے کر اس مجذوب کے ڈیرے پر پہنچے۔ مجذوب نے ان سے مٹھائی کا ڈبہ لے کر گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کو بلایا اور ساری مٹھائی ان میں تقسیم کردی۔ پھر ذاکر صاحب سے کہا کہ تم ایک فولادی چھڑی لے کر اسے زمین کے افقی سمت مین پکڑ کر راستہ پر چلتے جاؤ۔ جس قدم پر اس چھڑی کا رُخ تبدیل ہوجائے، بس وہیں کھدائی کروالو۔ ان شاء اللہ میٹھا پانی نکلے گا۔ اور یہ کام صرف تم کرسکتے ہو، کوئی اور نہیں۔ میں تمہیں دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ تم ایسا کرسکتے ہو۔ ذاکر صاحب کے بقول انہوں نے اسے مذاق ہی سمجھا۔ اور وہ کراچی چلے آئے۔ پھر عرصہ دراز بعد غالباً ان کے کسی واقف نے ویسے ہی بتلایا کہ کل ہم لوگ اپنی مسجد میں پانی کے لئے بورنگ کروارہے ہیں۔ ذاکر صاحب کو اُس مجذوب والی بات یاد آگئی تو سوچا کہ اسے آزمانے مین کیا حرج ہے۔ واضح رہے کہ کراچی بالعموم بورنگ سے بہت کھارا پانی نکلتا ہے۔ اس پہلے تجربہ میں ایک جگہ فولودی چھڑی مڑ گئی۔ وہیں بورنگ کا تو میٹھا پانی نکل آیا۔ بس اس طرح ذاکرصاحب کی شہرت اور ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ مجذوب نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ یہ کام تم کبھی پیسے لے کر نہ کرنا ورنہ تم سے یہ ”صلاحیت“ چھین لی جائے گی۔ ذاکر صاحب بتلا رہے تھے کہ اب تک وہ سینکڑوں کنوں کی نشاندہی کرچکے ہیں اور صرف چند ایک کی کھدائی ناکام ہوئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کھدائی کرنے والون نے بتلائی ہوئی عین اسی جگہ پر کھدائی نہ کی ہو
اسی ملاقات مین انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ وہ کامیڈین معین اختر سے بھی ملتے رہتے ہیں۔ دونون ایک ہی بستی میں رہتے تھے۔ بقول ان کے انہوں نے میری کتاب (پیغام قرآن و حدیث) کا تذکرہ معین اختر سے بھی کیا تھا اور معین اختر نے اس احقر سے ملوانے کو کہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ابھی ہم معین اختر سے ملاقات کا منصوبہ بنا ہی رہے تھے کہ اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔ واضح رہے کہ آخری برسوں میں معین اختر خاصے مذہبی ہوگئے تھے اور انہوں نے قرآن کو ترجمہ و تفسیر سے بھی مطالعہ کر رہے تھے۔ سید ذاکر علی سے اپنی ملاقاتوں میں وہ اسلامک ایشوز پر مکالمہ بھی کیا کرتے تھے۔
کل میں کراچی سے روانہ ہونے سے قبل والد محترم سے ملا تو پتہ چلا کہ سید ذاکر علی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اتفاق سےذاکر صاحب سے یادگار ملاقات میں وہ بھی موجود تھے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی کوتاہیوں سے در گذر کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
 
Top