آہنی دروازہ: صفحہ 1 - 13

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
(1)

عمران نے کار روک دی۔۔۔ دور تک سرسبز پہاڑیاں بکھری ہوئی تھیں اور سورج ان پر نارنجی رنگ بکھیرتا ہوا مغرب میں چھپ رہا تھا۔۔۔ دور کی پہاڑیوں پر ہلکی سی دُھند چھائی ہوئی تھی۔۔۔ وہ کار سے نیچے اُتر کر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔

اسے اندازہ نہیں تھا کہ ابھی اور کتنا چلنا پڑے گا۔ ان اطراف میں پہلی بار اس کا گذر ہوا تھا۔ ابھی تو اسے سڑک کے کنارے وہ نشان بھی نہیں ملا تھا جہاں رک کر اسے آگے جانے کے لئے راستہ تلاش کرنا تھا۔

سردار گڈھ پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔ اسے سردار گڈھ سے دس میل آگے جانا تھا۔۔۔ اس نے دور بین آنکھوں پر سے ہٹا دی اور کار سے کافی کا تھرماس نکال کر اس کے ڈھکن میں کافی انڈیلی اور ٹھنڈی پائیوں کے ساتھ اسے ختم کرنے کے بعد پھر اسٹیرنگ سنبھال لیا۔۔۔ لیکن ابھی کار اسٹارٹ بھی نہیں کی تھی کہ پچھلے موڑ پر اُسے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں اور ساتھ ہی فضا میں دو سُریلے قسم کے قہقہے بھی لہرائے ۔۔۔ عمران مُڑ کر دیکھنے لگا۔۔۔

دو نوجوان لڑکیاں ٹٹوؤں پر سوار اسی طرف آ رہی تھیں۔۔۔ مگر یہ پہاڑی دہقانوں میں سے نہیں تھیں۔۔۔ کیونکہ ان کے جسموں پر جدید طرز کا شہ سواری کا لباس تھا اور ان کے گھونگھریالے بال مغربی تراش کے تھے وہ عمران کو گھورتی ہوئی قریب سے گذر گئیں۔۔۔

یہ سڑک زیادہ چوڑی نہیں تھی۔۔۔ اور ان کے ٹٹو برابری سے اتنے فاصلے پر چل رہے تھے کہ ان کے درمیان سے کار نکال لے جانا آسان کام نہیں تھا۔۔۔ جب وہ اگلے موڑ پر نظروں سے اوجھل ہو گئیں تو عمران نے دوبارہ اپنی ٹوسیٹر اسٹارٹ کر دی۔۔۔ لیکن اس موڑ سے گذرنے کے بعد بھی وہی مسئلہ درپیش رہا۔ یعنی اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہ دونوں کے درمیان سے کار نکال لے جاتا۔

اس نے پے در پے کئی بار ہارن دیا ٹٹوؤں کے درمیانی فاصلے میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی اور لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر صرف ہنس پڑیں۔

"میں اس تفریح میں ضرور شرکت کرتا۔۔۔" عمران چیخ کر بولا۔ "لیکن مجھے جلدی ہے۔۔۔ براہِ کرم اپنے ٹٹوؤں کو ایک طرف کر لیجئے!"

لیکن۔۔۔ بے سود ۔۔۔ ٹٹو اسی انداز میں چلتے رہے۔۔۔

"خدا تم سے سمجھے۔" عمران آہستہ سے بڑبڑایا۔۔۔ اور اس کی کار آہستہ آہستہ سے رینگتی رہی۔۔۔ لیکن وہ اس ویران سڑک پر ان "ٹٹوؤں" کی موجودگی پر متحیر ضرور تھا۔۔۔

وہ کار روک کر اتر پڑا اور پھر اس نے ٹٹوؤں کے سامنے پہنچ کر ان کی باگیں پکڑ لیں۔۔۔ لڑکیاں اس کی بے تکلفی پر متحیر رہ گئیں۔۔۔ لیکن وہ قطعی خوفزدہ نہیں تھیں کیونکہ عمران کی شخصیت میں کوئی ایسی چیز تھی ہی نہیں جس کا رعب دوسروں پر پڑ سکتا۔۔۔

وہ سر سے پیر تک احمق نظر آ رہا تھا۔۔۔ لڑکیاں اسے چند لمحے گھورتی رہیں پھر ایک نے جھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا، "کیا بات ہے؟"

"اللہ کے نام پر۔۔۔" عمران نے کسی گھسے ہوئے فقیر کی طرح دانت نکال دئے۔

"کیا بکواس ہے۔۔۔"

"ہمیشہ دعا دیتا رہوں گا۔۔۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔"


"تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا! یہ نہ سمجھنا کہ ہم تنہا ہیں!" دوسری لڑکی آنکھیں نکال کر بولی۔

"میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے ساتھ ٹٹو بھی ہیں۔۔۔ اللہ کے نام پر۔۔۔ ایسا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہاں آس پاس کوئی نہیں ہے۔"

"پیچھے ہٹو!۔۔۔" پہلی لڑکی غرائی اور یک بیک اس نے اعشاریہ دو پانچ کا پستول نکال لیا۔

"ارے۔۔۔باپ رے۔۔" عمران بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا۔ "میں تو بھیک مانگ رہا تھا۔"

"مرمت!" دوسری لڑکی نے پہلی کی طرف دیکھ کر آنکھ دبائی۔

"ایک پیکٹ چیونگم اللہ کے نام پر" عمران نے پھر ہانک لگائی۔

"چونگم چاہئے؟" دوسری لڑکی نے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ خدا بھلا کرے۔۔۔"

"قریب آؤ۔۔۔۔ "

عمران آگے بڑھا۔ پھر بڑی تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ کیونکہ لڑکی کا داہنا ہاتھ پوری قوت سے گھوما تھا اور وہ عمران کے پیچھے ہٹ جانے پر جھونک میں گرتے گرتے بچی۔

"خدا غارت کرے تمہیں۔" عمران بسور کر بولا۔ "فقیروں سے ہاتھا پائی کرتی ہو۔ ابھی بھسم کر دوں گا۔ اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے مگر خاندانی فقیر ہوں۔۔۔ کبھی کبھی برکت کے لئے بھیک مانگ لیتا ہوں۔۔۔ مگر ایسی ہی جگہ جہاں کوئی یہ نہ جانتا ہو کہ ڈپٹی کلکٹر ہوں۔"

عمران نے یہ سب انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا۔ لڑکیاں اب پھر اسے گھور رہی تھیں۔

"راستے سے ہٹ جاؤ!" اس لڑکی نے کہا جس کے ہاتھ میں پستول تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top