آہنی دروازہ۔۔ص40 - 52

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
آہنی دورازہ

ص 40 - 52


“ہاں اگر ضرورت پڑے۔ میں ان سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں۔“
“لیکن تم ان کی جان بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔۔۔۔کیوں۔۔۔ میں تم سے جو کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں وہ بہت ضروری ہے۔مجھے ان اعزہ کی لسٹ چاہیے جو کیسل کی حدود میں رہتے ہیں۔ویسے بھی اگر کوئی حقدار باہر ہو تو اس کا نام بھی تم لے سکتی ہو۔“
“بہتر ہے اس سلسلہ میں آپ بابا سے گفتگو کریں۔“
“بابا۔۔۔ آخروٹ ہیں۔۔۔۔“
“کیا مطلب۔۔۔“
“ہارڈ نٹ۔ میں جاسوسی ناولوں کی زبان استعمال کرتا ہوں۔“
“کچھ ایسی ہی بات ہے کہ میں تفصیل سے نہ بتا سکوں گی۔۔۔اعزہ کے بارے میں وہ ضرور بتا دیں گے لیکن میرا دعوٰی ہے کہ وہ کسی پر شبہ نہیں ظاہر کریں گے۔“
“خیر میں انہیں سے پوچھ لوں گا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ کیسل کی حدود میں تمھارے اور ڈاکٹر نجیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔“
“ہے۔۔۔۔بابا سے پوچھئے گا۔“
“ارے تو تم ہی بتا دو گی تو کیا ہو جائے گا۔ کیا تم بھی بابا ہی کی طرح کریک ہو۔“
“آپ بہت بدتمیز ہیں۔ آپ کو گفتگوکا بھی سلیقہ نہیں۔ آپ کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھتے!“
“میری عادت ہے ہمیشہ سچی بات کہتا ہوں۔“
“میں آپ سے گفتگوکرنا نہیں چاہتی۔“
“میں خود بھی نہیں کرنا چاہتا۔“ عمران آنکھیں بند کر کے اپنی کنپٹیاں رگڑتے ہوئے بولا۔“اتنی ہی سی دیر میں تم نے میرے دماغ کی چولیں ہلا دیں۔۔۔۔ٹائیں ٹائیں کسی طرح رکتی ہی نہیں لاحول ولا قوۃ۔۔۔۔بڑی بوڑھیوں سے سنتا آیا ہوں کہ کنواری لڑکیوں کو نہ عطر لگانا چاہیے اور نہ زیادہ ٹائیں ٹائیں کرنا چاہیے ورنہ آسمان ٹوٹ پڑتا ہے سر پر۔۔۔۔لہٰذا قبل اس کے کہ آسمان ٹوٹے میں کھسک جانا چاہتا ہوں۔۔۔ٹاٹا۔۔۔۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
(7)​


عمران ڈائیننگ ہال سے نکل کر اس کمرے کی طرف روانہ ہو گیا جہاں سردار دراب رات کے کھانے کے بعد شطرنج کھیلا کرتا تھا لیکن آج یہاں اندھیرا نظر آیا۔۔۔۔شائد سردار دراب تھک گیا تھا۔
عمران اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔۔۔۔کمرے میں داخل ہوئے مشکل سے تین منٹ گزرے ہوں گے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔
“آ جاؤ۔۔۔۔“ عمران نے کہا۔
ایک نوکر نے اندر آ کر کہا۔“کیا آپ عقیل صاحب سے ملنا پسند کریں گے۔“
“کون۔۔۔۔عقیل صاحب؟میں نہیں جانتا۔۔۔۔“
“مینار والے۔۔۔۔“
“مینار والے۔“ عمران نے حیرت سے دہرایا۔
“جی ہاں۔۔۔۔مجھ سے نہیں بنتا۔۔۔۔آبیڑی۔۔۔۔میں اسے مینار ہی کہتا ہوں۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
(9)​

“سردار صاحب۔۔۔!“ عمران نے سردار دراب کو مخاطب کیا جو رائفل کی نال صاف کر رہا تھا!
“کیا ہے۔۔۔۔کیوں آئے ہو۔۔۔۔؟“اس نے ایک آنکھ بند کر کے دوسری رائفل کی نال سے لگاتے ہوئے کہا!
“یہ عقیل آپ کا کون ہے۔۔۔۔!“
سردار دراب نے ایک طویل سانس لے کر رائفل کی نال میز پر رکھ دی اور عمران کی طرف مڑا۔۔۔۔“کیوں؟“
“یونہی تفریحاّ پوچھ رہا ہوں! ویسے میرا دل چاہتا ہے کہ اسے گولی مار دوں۔“
“بیٹھ جاؤ!“ سردار دراب نے خلافِ توقع نرم لہجے میں کہا! عمران بیٹھ گیا! سردار اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا!
“تو تم نے بہتیری معلومات حاصل کر لی ہیں۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔
“لیکن میرے خیال میں عقیل خارج از بحث ہے۔۔۔۔“
“کیوں!“
“تب پھر تمھیں! عقیل کے متعلق کچھ بھی نہیں معلوم!“
“وہ شاہدہ کا سوتیلا بھائی ہے!“
“کون کہتا ہے۔۔۔۔؟“
“خود عقیل نے مجھے بتایا تھا۔۔۔۔؟“
“اور کیا بتایا تھا۔۔۔“
“اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔“
سردار دراب یک بیک مغموم نظر آنے لگا۔اس کا سر جھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔“وہ شاہدہ کے مرحوم باپ کی ہوس کا نتیجہ ہے! ایک ایسی عورت کا لڑکا جو غیر منکوحہ تھی!“
“ - - تب تو وہ قطعی خارج از بحث ہے۔ مگر سردار صاحب یہ بچھوؤں والا معاملہ تو وصیت نامہ کے سلسلے میں بھی خامیاں رکھتا ہے۔ظاہر ہے آپ ہاتھ اچھا ہو جانے پر وصیت نامے کی تکمیل کر سکتے تھے۔“
“میں نے کافی غور کرنے کے بعد سر سلطان سے مدد طلب کی تھی۔ انھوں نے ایک بار کسی پرائیویٹ سراغرساں کا تذکرہ کیا تھا۔میں نے سوچا کہ انہیں سے مدد لی جائے۔میں اپنا اطمینان کیے بغیر اس معاملے کو پولیس کی نظر میں نہیں لانا چاہتا! سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ آخر وہ بچھو سگار کے ڈبے میں کیوں رکھے گئے تھے؟رکھنے والا کیا چاہتا تھا!“
“میں عنقریب معلوم کر لوں گا!آپ ان لوگوں کی فہرست مرتب کرا دیجئے ، جو کیسل میں رہتے ہیں۔۔۔۔یا کیسل کے باہر۔۔۔۔میرا مطلب ہے ایسے اعزہ کے نام جو آپ کے وارث ہو سکتے ہوں!“
“ایسے اعزہ میں! شاہدہ، نجیب اور سجاد کے علاوہ کوئی نہیں ہے!“
“سجاد! کون- - ! مجھے ان کے متعلق کچھ نہیں معلوم!“
“میرا ایک اپاہج بھائی۔۔۔۔! جو خود سے اٹھ کر چل پھر نہیں سکتا۔وہ کیسل کے مغربی سرے والی پیلی عمارت میں رہتا ہے۔پیدائشی اپاہج ہے۔وہاں اس کی دیکھ بھال کے لئے دو ملازم ہیں۔۔۔۔! مگر عمران۔۔۔۔وصیت نامہ بھی میرے خیال سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔تم اس لائن پر مت سوچو!اگر میں اس تاریخ کو اس پر دستخط نہ کر پاتا تو فرق کیا پڑتا!“
“یہی اس کیس کا خاص نقطہ ہے۔۔۔۔ہو سکتا ہے کسی طرح فرق پڑ ہی جاتا۔“
“تب تو پھر وہ فرق پڑ چکا ہو گا! کیونکہ میں نے ابھی تک وصیت نامے پر دستخط کر کے اس کے استحکام کے لئے کاروائیاں نہیں کیں!۔۔۔۔جس نے بھی بچھو رکھے تھے وہ اس بات سے واقف تھا کہ میں اس دن وصیت نامے پر دستخط کروں گا۔لہٰذا وہ اس سے بھی واقف ہو گا کہ میں نے دستخط نہیں کئے!“
“ہو سکتا ہے وہ کسی خاص مقصد کے تحت وقتی طور پر آپ کو دستخط کرنے سے باز رکھنا چاہتا ہو!“
“میں اس کے امکانات پر بھی غور کر چکا ہوں!“
“یعنی اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا!“ عمران نے پوچھا!
“قطعی نہیں! - - میں کسی کی حق تلفی کبھی نہیں کروں گا! سب اسے جانتے ہیں! یعنی میرے اعزہ! میں ان پر یہ بات واضح کر چکا ہوں کہ میری کوڑی کوڑی ان میں تقسیم ہو جائے گی۔پھر آخر اس حرکت کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟“
“ممکن ہے کوئی آپ کی ساری املاک اکیلے ہی ہڑپ کرنا چاہتا ہو!“
“لیکن وہ اتنا احمق بھی نہ ہو گا کہ اسے قانونی چارہ جوئی کا ڈر نہ ہو!اگر میں کسی ایک کو اپنی ساری املاک دے بھی دوں ۔۔ تو میرے مرنے کے بعد دوسرے حقدار قانونی چارہ جوئی کر کے اپنے حصے نکال لیں گے! لیکن بچھو کیوں؟۔۔۔۔“
“بچھو تو اس وقت تک میرے ذہن میں ڈنک مارتےرہیں گے جب تک کہ میں معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ جاؤں! کیا خیال ہے۔“
“شاہدہ صاحبہ رکھ سکتی ہیں بچھو!“
“ہر گز نہیں - - ! میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا!“
“ڈاکٹر نجیب- - !“
“وہ بھی نہیں! حالانکہ میں اسے پسند نہیں کرتا!لیکن وہ بھی ایسا نہیں کر سکتا!مجھے یقین ہے!“
“آپ کے بھائی سجاد صاحب!“
“میرا خیال ہے کہ اس میں سازش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے!“
“یہ نہ کہئیے!وہ کسی طرح دوسرے کو بھی آلہ کار بنا سکتے ہیں! مثال کے طور پر میں عقیل کا نام لوں گا! کیا وہ ان کا آلہ کار نہیں بن سکتا۔آپ کی املاک سے ایک حبہ کی بھی توقع نہیں۔ایک معقول حصے کا وعدہ اسے اس کام پر ابھار سکتا ہے!“
میں یہ سب کچھ نہیں جانتا! مگر کسی ثبوت کے بغیر یقین کر لینا میرے بس سے باہر ہے!۔۔۔۔ابھی تک بچھوؤں کا ہی مقصد واضح نہیں ہوا۔تم خومخواہ چھلانگیں لگا رہے ہو!“
“میں اسی طرح چھلانگیں لگاتے لگاتے کہیں نہ کہیں قدم جما ہی لیتا ہوں!“
“ضرور جماؤ! میں منع نہیں کرتا!۔۔۔۔“ سردار دراب نے کہا اور پھر رائفل صاف کرنے میں مشغول ہو گیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
(10)​

عمران مغربی گوشے والی زرد عمارت کے سامنے رک گیا!۔۔۔۔عمارت مختصر سی مگر خوبصورت تھی!۔۔۔۔یہاں ساری ہی عمارتوں میں نفاست اور سلیقے کو دخل تھا!
ایک ملازم نے اسے سردار دراب کے اپاہج بھائی سجاد تک پہنچا دیا! وہ اس وقت ایک آرام کرسی میں پڑا ہوا تھا!۔۔۔۔اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ رہی ہو گی!۔۔۔۔چہرے پر کچھ اس قسم کی توانائی تھی کہ وہ اپاہج معلوم نہیں ہوتا تھا! اس نے اپنے پیر کمبل میں لپیٹ رکھے تھے - - عمران کو اس کا جسم بھی خاصا توانا معلوم ہوا۔۔۔۔اس کے بازو بھرے ہوئے تھے۔ اور سینہ کافی فراخ تھا۔آنکھیں سرخ تھیں!۔۔۔۔ چہرے پر گھنی ڈاڑھی اور اوپر چڑھی ہوئی موٹی مونچھیں تھیں!
“تشریف رکھیئے!میں نے آپ کو پہچانا نہیں!۔۔۔۔“ اس نے مسکرا کر کہا!
“میں سردار صاحب کا نیا پرائیویٹ سیکرٹری ہوں!“
“اوہ - - اچھا! کیسے تکلیف کی - - !“
“کچھ نہیں یونہی ملنے چلا آیا۔اب جب کہ مجھے یہاں رہنا ہی ہے تو سب سے جان پہچان پیدا کرنی چاہئے!“
“ٹھیک ہے۔۔۔۔یہ تو بہت ضروری بات ہے!“ سجاد نے جواب دیا پھر اس نے کسی نوکر کو آواز دی ،جو جلد ہی واپس پہنچ گیا! مگر عجیب ہئیت میں۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈوری تھی جس میں دس پندرہ بڑے بڑے زندہ بچھو لٹک رہے تھے - - ! عمران نے اس طرح اپنے ہونٹ سکوڑ لئے جیسے سیٹی بجانے کا ارادہ رکھتا ہو۔

مگر دوسرے ہی لمحہ میں سجاد کی چنگھاڑ سے سارا کمرہ گونجنے لگا!وہ بُری طرح نوکر پر برس رہا تھا!
“ابے تجھے کب عقل آئے گی الو کے پٹھے! کیا انہیں رکھ کر نہیں آ سکتا تھا۔ صورت حرام کتے کے پلے!“
“صاحب یہ ابھی آئے ہیں۔۔۔۔!“ نوکر مردہ سی آواز میں بیزار سے لہجے میں بولا!“میں انہیں رکھنے جا رہا تھا کہ آپ نے آواز دی!“
“آواز کے بچے! - - - دفع ہو جاؤ۔۔۔۔اصغر سے کہو کہ سیکرٹری صاحب کے لئے چائے تیار کرے۔۔۔۔سنا الو کے پٹھے!“ نوکر چپ چاپ چلا گیا!
سجاد بہت زیادہ غصے میں تھا اور اسے ٹھنڈا ہونے میں تقریباّ پانچ منٹ لگے۔ اس دوران میں وہ عمران کو کچھ اس انداز میں بار بار گھورتا رہا جیسے وہ بدتمیز نوکر کا کوئی قریبی رشتے دار رہا ہو!
“سیکرٹری صاحب!“دفعتاّ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!“یہاں اچھے نوکروں کے علاوہ اور سب کچھ مل سکتا ہے! یہ کم بخت اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ ان کی شکلیں دیکھی جائیں!“
“جی ہاں!“ عمران سر ہلا کر بولا!“یہ واقعی بیہودگی ہے! اگر وہ کم بخت مداری ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کو بھی ان بچگانے کھیلوں سے دلچسپی ہو!“
“ارے لاحول ولا قوۃ۔۔۔۔آپ بھی کمال کرتے ہیں!“ وہ زبردستی مسکرایا۔ “نہ وہ مداری ہے اور نہ مجھے ایسی کھیلوں سے دلچسپی ہے!۔۔۔۔وہ تو دوا کے لئے منگوائے ہیں میں نے- - ! میری ٹانگیں بالکل ہی بے جان نہیں ہیں۔ ان میں سردیوں کے زمانے میں اتنا درد ہوتا ہے کہ زندگی محال نظر آنے لگتی ہے!بچھوؤں کے تیل سے آرام رہتا ہے۔۔۔۔!“
“یقیناّ رہتا ہو گا!۔۔۔۔بچھو بہت گرم ہوتے ہیں!“ عمران سر ہلا کر بولا!
بچھو ہی نہیں مسٹر! اس میں اور بھی گرم چیزیں پڑتی ہیں اور بھی کیڑے مکوڑے شامل ہیں! شیر کی چربی۔۔۔۔گوہ کی چربی۔۔۔۔اور سوینا مچھلی۔۔۔۔اور نجانے کیا کیا الا بلا۔۔۔۔بڑا قیمتی تیل ہوتا ہے۔۔۔۔ایک بار سامان اکٹھا کیا تھا۔۔۔۔مگر کچھ بچھو کم پڑ گئے۔۔۔۔انہیں گدھوں کی غفلت کی وجہ سے بھاگ نکلے! مجھے تو راتوں کو نیند نہیں آتی ۔۔۔۔اگر ان کھوئے ہوئے بچھوؤں میں سے کوئی پلنگ پر چڑھ آئے تو۔۔۔۔“ وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر خاموش ہو گیا!
“وہ واقعی تشویش کی بات ہے!“ عمران فکرمندانہ لہجے میں بولا! چند لمحے خاموش رہا پھر بولا! “ کتنے عرصے کی بات ہے! میرا مطلب یہ ہے کہ بعض اقسام کے بچھو۔۔۔۔اپنے مخصوص ٹھکانے سے الگ ہونے کے بعد پندرہ دن سے زیادہ زندہ نہیں رہتے!“
“اوہو- - ! تب تو وہ ابھی زندہ ہوں گے!“ سجاد نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا! “ یہ پچھلے ہی ہفتے کی بات ہےتاریخ مجھے یاد نہیں ۔۔!“
“تب تو وہ جناب ابھی زندہ ہی ہوں گے۔۔!“
“اللہ مالک ہے!“ سجاد نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا!۔۔۔۔“مشیت۔۔۔۔میں کسے دخل ہو سکتا ہے۔۔۔۔اب یہ دیکھئے ۔۔۔۔“ سجاد نے اپنے پیروں پر سے کمبل ہٹا دیا۔ اس کی پتلی پتلی ٹانگیں بھاری بھرکم جسم پر عجیب معلوم ہو رہی تھیں۔
“مجھے ان پیروں پر ہنسی آتی ہے!“ سجاد مسکرا کر بولا!“ آپ خود دیکھئے۔۔۔۔ہے نا مضحکہ خیز بات۔۔۔۔کمر سے اوپر میں ہاتھی ہوں۔۔۔۔اور کمر سے نیچے ہرن۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر گہرے غم کے آثار نظر آنے لگے۔۔۔۔اور اس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا!“ٹھیک ہے جناب مشیت میں کسے دخل ہو سکتا ہے!“
“آپ اس سے پہلے کہاں تھے سیکرٹری صاحب!“ سجاد نے دفعتاّ خلوص سے کہا! “ نہ جانے کیوں آپ سے بڑی محبت معلوم ہوتی ہے!“
“ارے یہاں آپ سب لوگ بہت اچھے ہیں!مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں! عقیل صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ سے بڑی محبت معلوم ہوتی ہے!۔۔۔ڈاکٹر نجیب صاحب بھی یہی کہہ رہے تھے!۔۔۔۔سردار صاحب مگر نہیں سردار صاحب کبھی مجھے پسند کرتے ہیں اور کبھی ناپسند!“
“وہ بہت اچھے آدمی ہیں سیکرٹری صاحب!“ سجاد نے محبت آمیز لہجے میں کہا! “آہستہ آہستہ ان سے واقف ہوں گے۔ وہ دل کے برے نہیں ہیں۔۔۔۔اور زبان کا کیا!۔۔۔۔دل صاف ہونا چاہئے۔۔۔۔کیوں جناب!“
“درست فرمایا۔۔۔۔!“
“لیکن ٹھہرئیے ۔۔! ابھی آپ نے عقیل کا نام لیا تھا!۔۔۔۔کیا اس نے آپ سے گھل مل جانے کی کوشش کی تھی!“
“جی ہاں۔۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں!“
“دنیا کا کوئی آدمی برا نہیں ہے جناب! لیکن۔۔۔۔آپ اس کے چکر میں ہر گز نہیں پڑئیے گاورنہ آپ کو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے! میں آج تک سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ کس قماش کا آدمی ہے۔۔۔۔مگر میں یہ بات فضول ہی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔جس کی اصلیت میں فرق ہو!“
“میں نہیں سمجھا!اصلیت سے کیا مراد ہے آپ کی!“
“کچھ نہیں جانے دیجیئے! یہ ہمارے لئے کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے! بہر حال میں آپ کو ایک مفید مشورہ دے رہا ہوں۔۔۔۔اس سے زیادہ ربط ضبط نہ رکھئیے گا!ورنہ نقصان کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا!“
“میں آپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
(11)​


آسمان ابر آلود ہونے کی بناء پر رات تاریک تھی!۔۔۔۔عمران آبزرویٹری کے قریب کھڑا عقیل کا انتظار کر رہا تھا!اس نے اپنی چمکدار ہندسوں والی گھڑی دیکھی ! ایک بج چکا تھا! ۔۔ دراب کیسل پر سناٹے کی حکمرانی تھی۔
ایک بج کر دس منٹ پر عقیل آبزرویٹری سے باہر آیا!۔۔ اور عمران کی نبض ٹٹولتا ہوا بولا “دیکھوں آپ کا دل تو نہیں دھڑک رہا!۔۔۔۔“ پھر ہنس کر کہا!
“واقعی آپ کافی نڈر آدمی ہیں! آپ کی نبض معمول سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔!“
“یار کیوں باتیں بناتے ہو خود تمھارا دم نکلا جا رہا ہے۔ اتنی دیر لگا دی! واہ یار۔۔۔۔!“
“آہا۔۔۔۔!“ عقیل پھر ہنسا “اچھا آؤ۔۔۔۔!“
وہ دونوں لمبے لمبے قدم اٹھاتے آسیب زدہ عمارت کی طرف روانہ ہو گئے!راستے بھر وہ خاموش ہی رہے۔عقیل عمارت سے تھوڑے فاصلے پر رک گیا۔
“ایک بار پھر سوچ لیجئے!“ اس نے کہا!“ ہم ایک آسیب زدہ عمارت میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی ایک کو نقصان پہنچا تو دوسرا اس کے لئے ذمہ دار نہ ہو گا۔!“
“اور اگر دونوں ساتھ مرے تو۔۔۔۔!“
“اس کی سو فیصدی ذمہ داری میرے باپ پر ہوگی!“ عقیل نے عجیب سے لہجے میں کہا! پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “میں اپنی زندگی ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں!“

“آپ کے باپ پر کیوں ہو گی اس کی ذمہ داری!“ عمران نے بڑی معصومیت سے پوچھا!۔
“کیونکہ اس نے مجھ پر مستقبل کے دروازے بند کر دئیے ہیں! کیا آپ کو ابھی نہیں معلوم ہوا کہ میں حرامی ہوں!“
“ارے لاحول ولا قوۃ۔ کیا باتیں کرتے ہیں آپ بھی!“ عمران نے بوکھلا جانے کی ایکٹنگ کی!
یہ حقیقت ہے! دوست! میں حرامی ہوں! اس لئے مجھ پر مستقبل کے دروازے بند ہیں!۔۔۔۔میں سردار دراب کے بیٹے کا نطفہ ہوں! لیکن کوئی بھنگن بھی مجھے اپنی فرزندی میں لینا پسند نہیں کرے گی۔۔! عمران صاحب میرے دل میں بھی یہ خواہش چٹکیاں لیتی ہے کہ اپنا ایک گھر بناؤں۔۔۔۔ایک خوش اخلاق بیوی ہو! ننھے منے بچے ہوں۔۔۔۔! زندگی کی سچی مسرتوں کی گنگناہٹ سنوں!۔۔۔۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہو سکے گا۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو مجھے افسوس ہے مسٹر عقیل!“
“یہ میں نے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ افسوس ظاہر کر کے میرا مضحکہ اڑائیں!“ عقیل نے تلخ لہجے میں کہا! “کیا حقیقتاّ آپ کو افسوس ہے میں نہیں مان سکتا!۔۔۔۔لولے۔۔۔۔لنگڑے۔۔۔۔اپاہج آدمیوں کے لئے لوگ افسوس کرتے ہیں۔۔۔۔حرامی سے کسی کو ہمدردی نہیں ہوتی۔۔۔۔حالانکہ وہ ہمدردی ہی کے قابل ہوتا ہے!“
“یقیناّ۔۔۔۔یقیناّ۔۔۔۔لیکن آپ آخر اتنے مایوس کیوں ہیں!“ عمران آہستہ سے بولا!“ کیا آپ بھی اپنے اپنے باپ کے روئیے کا اعادہ نہیں کر سکتے!۔۔۔۔“
“ہر گز۔۔نہیں! کبھی نہیں! ۔۔ میں حرامی ضرور ہوں۔۔۔۔لیکن مجھ سے حرامی پن کبھی سر زد نہیں ہو سکتا!۔۔۔۔یہ نسل آگے نہیں بڑھ سکے گی۔۔۔۔!“
“آپ کو سردار دراب سے بھی بڑی نفرت ہو گی۔ قدرتی بات ہے!“ عمران نے کہا۔
“ہر گز نہیں!“ عقیل بولا “ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں! وہ بڑا عظیم آدمی ہے! عظیم ترین آپ نہیں جانتے۔۔۔۔! اس کے علاوہ دنیا میں اور کسی سے مجھے محبت نہیں! کیونکہ وہی ایک ایسا آدمی ہے ، جو مجھ سے نفرت نہیں کرتا جسے مجھ سے ہمدردی ہے،جو اکثر میرے لئے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتا ہے۔۔۔۔! وہ کہتا ہے ۔۔۔۔بیٹے میں تیرے لئے کچھ نہ کر سکا! کیونکہ میں تجھے تیرے صحیح مقام پر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔میں تیرے لئے گھر نہیں بنا سکتا! میں کچھ نہیں کر سکتا تیرے لئے!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
(12)​

عمران کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ وہ سگار کیس میں بچھو رکھنے والے کا پتہ لگا لیتا لیکن سوال تھا مقصد کا۔۔۔۔اس جرم کا مقصد ابھی تک اس کی سمجھ میں نہیں آ سکا تھا! بعض اوقات تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ کسی نے سردار دراب سے ایک خطرناک مذاق کیا تھا۔۔۔۔ہو سکتا ہے کبھی کسی کو اس کا کوئی مذاق اسی حد تک گراں گزرا ہو! کیونکہ سردار دراب کے مذاق قطعی غیر متوقع طور پر ظہور پذیر ہوا کرتے تھے! خود عمران کو ایک بار اس کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا! ۔۔ یعنی لڑکیوں کے کالج میں غیر متوقع طور پر تقریر کرنا! یقیناّ وہ عمران کے لئے ایک تشویش کن لمحہ تھا جب سردار نے اچانک تقریر کے لئے اس کے نام کا اعلان کیا تھا! ہو سکتا ہے کبھی کسی نے اس کے کسی مذاق پر اس سے بھی زیادہ بدحواسی محسوس کی ہو! اور اسی وقت تہیہ کیا ہو کہ وہ بھی سردار دراب سے اب اس کا انتقام لئے بغیر نہ رہے گا!
عمران نے سردار دراب کو بھی اپنے اس خیال سے آگاہ کیا لیکن سردار دراب اسے محض مذاق تسلیم کرنے کیلئے تیار نییں تھا! اکثر عمران کا دل چاہتا تھا کہ اس بوڑھے کو چھت میں الٹا لٹکا کر اس سے پوچھے کہ اسے کس پر شبہ ہے! اس نے سجاد کے بچھوؤں کا قصہ بھی سنایا تھا!لیکن سردار کا جواب تھا ممکن ہے کسی نے اس کے بچھو چرا کر سگار کیس میں رکھے ہوں!
“یہی۔۔۔۔خود سجاد کے ایما پر ایسا نہیں ہو سکتا!“ عمران نے پوچھا!
“ہر گز نہیں! میں کبھی تسلیم نہیں کر سکتا!“
“پھر آپ یہ تسلیم کیجئے کہ وہ بچھو میں نے رکھے تھے!“ عمران جھلا کر بولا۔
اس پر سردار دراب خاموش ہی رہا!۔۔۔۔پھر عمران نے آہنی دروازے کا قصہ چھیڑتے ہوئے عقیل کی حرکت کے متعلق بتایا۔!
“اوہ۔۔۔۔ وہ بعض اوقات پاگلوں کی سی حرکتیں کرتا ہے!“ سردار کا جواب تھا! “لیکن تم خود سوچو کہ وہ ایسی حرکت کیوں کرنے لگا جب کہ مجھے یقین ہے کہ ان بچھوؤں کا تعلق صرف وصیت نامے سے ہو سکتا ہے!“
“ڈاکٹر نجیب کے متعلق کیا خیال ہے۔۔۔۔!“
“اس کے بارے میں بھی میں کوئی برا خیال نہیں رکھتا!۔۔۔۔“
“تب پھر یہ حرکت شاہدہ کے علاوہ اور کسی کی نہیں ہو سکتی!“
“یہ تو بالکل ہی لغو خیال ہے۔۔۔۔!“
“پھر میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ اپنا راج پاٹ چھوڑ کر بن باس لے لیجئے تا کہ مجھے بھی فارغ البالی اور اطمینان نصیب ہو!۔۔۔۔“
“تم۔۔۔۔تم تو یہاں سے جا ہی نہیں سکتے! خواہ یہ محض مذاق ہی کیوں نہ رہا ہو!“
“ہائیں! کیا مطلب!“
“کچھ بھی نہیں! تمہاری بدتمیزیوں کے باوجود بھی میں تمہیں بے حد پسند کرنے لگا ہوں!“
“لیکن میں آپ کو قطعی پسند نہیں کرتا!“ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا!“ زیادہ شریف آدمی مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے!“
“تمہاری صاف گوئی اور بکواس مجھے پسند ہے!“
“لیکن میں یہاں نہ صاف گوئی کے لئے آیا ہوں اور نہ بکواس کے لئے!“
“اور تم سے کچھ ہو بھی نہیں سکتا!“
“کیا نہیں ہو سکتا!۔۔۔آپ کسی کے خلاف شبہ تو ظاہر کیجئے!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔​
 

رضوان

محفلین
(7)​


عمران ڈائیننگ ہال سے نکل کر اس کمرے کی طرف روانہ ہو گیا جہاں سردار دراب رات کے کھانے کے بعد شطرنج کھیلا کرتا تھا لیکن آج یہاں اندھیرا نظر آیا۔۔۔۔شائد سردار دراب تھک گیا تھا۔
عمران اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔۔۔۔کمرے میں داخل ہوئے مشکل سے تین منٹ گزرے ہوں گے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔
“آ جاؤ۔۔۔۔“ عمران نے کہا۔
ایک نوکر نے اندر آ کر کہا۔“کیا آپ عقیل صاحب سے ملنا پسند کریں گے۔“
“کون۔۔۔۔عقیل صاحب؟میں نہیں جانتا۔۔۔۔“
“مینار والے۔۔۔۔“
“مینار والے۔“ عمران نے حیرت سے دہرایا۔
“جی ہاں۔۔۔۔مجھ سے نہیں بنتا۔۔۔۔آبیڑی۔۔۔۔میں اسے مینار ہی کہتا ہوں۔“

“اوہو۔۔۔۔آبزرویٹری۔۔ عقیل ۔۔۔۔وہ تو نہیں۔۔۔۔ جو لمبے سے ہیں۔“
“جی ہاں۔۔۔۔وہی۔۔۔۔“
“بھیج دو! میں ان سے ملوں گا۔۔۔۔“
نوکر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہی لمبا آدمی کمرے میں داخل ہوا جس کے متعلق سردار دراب نے بتایا تھا کہ وہ آبزرویٹری میں کام کرتا ہے۔۔۔۔عمران نے کرسی سے اٹھ کر بڑے احترام سے اس کا استقبال کیا۔
“میں نے بے وقت آپ کو تکلیف دی ہے۔“ وہ ہنستا ہوا بولا۔
“کوئی بات نہیں جناب۔۔۔۔تشریف رکھیئے۔۔۔۔“
وہ بیٹھتا ہوا بولا ۔“ کالج میں آپ کی تقریر بڑی شاندار تھی۔ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔“
“شکریہ!جناب! وہ تقریر تو میں نے بہت جلدی میں کی تھی۔کسی دن تیار کر کے آپ کو تقریر سناؤں گا۔“
“مگر جناب۔ آپ بہت ہمت والے ہیں!“عقیل بولا!“کمال ہے! میرے حلق سے تو آواز بھی نہیں نکلتی۔۔۔۔اور آپ نے اتنی بے تکلفی سے عورتوں کی دھجیاں اڑا دیں!۔۔۔“
“اس میں ہمت کی کیا بات ہے۔“
“دیکھیے بتاتا ہوں۔ مجھے یقین ہے آپ کو علم نہ رہا ہو گا کہ آپ کو تقریر بھی کرنی پڑے گی۔سردار صاحب کچھ اسی قسم کے آدمی ہیں۔۔۔۔لیکن مجھے حیرت ہے کہ آپ کو سردار صاحب کے غصے کا بھی خیال نہیں آیا اور آپ اپنی رو میں بولتے ہی رہے۔“

ص250
“میں نے انہیں کی خواہش ہر تقریر شروع کی تھی۔“
“کچھ بھی ہو۔آپ کافی مضبوط قسم کے اعصاب رکھتے ہیں اور اسی لئے میں حاضر ہوا ہوں۔۔۔۔“
“بہت خوب! آپ اس لئے تشریف لائے ہیں کہ میں مضبوط قسم کے اعصاب کا مالک ہوں۔“
“جی ہاں! دراصل مجھے ایک مضبوط دل والے ساتھی کی ضرورت ہے!“
“عمران خاموش رہا۔۔۔۔عقیل پھر بولا!“میں رات کو پرانی حویلی میں گھسنا چاہتا ہوں۔“
“ابھی آپ ادھر ہی سے گزر کر آئے ہیں! میں آپ لوگوں کے پیچھے تھا! آپ لوگ دروازہ ہلنے کی آواز سن کر رک گئے تھے۔۔۔۔“
“اوہ - - اچھا! وہ آسیب زدہ عمارت۔۔۔۔“
“ جی ہاں! - - مجھے بھوتوں سے ملنے کا بڑا شوق ہے!“
“یعنی آپ کو بھوتوں پر یقین نہیں ہے۔“ عمران نے کہا!
“ایک فیصد بھی نہیں! لہٰذا میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ دروازہ کون ہلاتا ہے اور وہ کیسل والوں کو کیوں خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔“
“کیسل والوں کو تو آپ بھی خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔“
“میں!“ عقیل یک بیک چونک کر عمران کو گھورنے لگا۔“میں کیوں اور کس طرح خوفزدہ کرنا چاہتا ہوں۔“
“آسمانی روشنیوں کا تذکرہ کر کے- - بھلا چاندنی رات میں آسمان پر کسی دوسری روشنی کا دھبہ کب نظر آتا ہے!“ عقیل ہنسنے لگا!۔۔۔۔پھر بولا۔“ میں دراصل۔۔۔۔اس کام کے لئے سردار صاحب کو تیار کرنا چاہتا تھا۔وہ بھی کافی مضبوط اعصاب کے آدمی ہیں۔اس بڑھاپے میں بھی! وہ آسیبوں سے قطعی متاثر نہیں ہیں! میں انہیں اسی بہانے سے!۔۔۔۔آبزرویٹری تک لے جانا چاہتا تھا! - - وہاں پہنچ کر انہیں موڈ میں لانے کی کوشش کرتا ۔پھر ہم دونوں آسیبوں کی تلاش میں روانہ ہو جاتے!“
“اچھا!۔۔۔۔“عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا!“مگر وہ راستے میں یک بیک ہوا سے کیوں لڑنے لگے تھے۔۔۔۔اور آپ کو واپس کیوں کر دیا تھا۔۔۔۔“
“اوہو- - آپ کو کیسے معلوم ہوا۔۔۔۔وہ کسی بات کا تذکرہ دوسروں سے نہیں کرتے!“
“میں ان کا نیا پرائیویٹ سیکرٹری ہوں نا! اس لئے ہر وقت دم کے ساتھ پیچھے لگا رہتا ہوں!ایک پرائیویٹ سیکرٹری کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالک کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرے۔“
“کمال ہے۔۔۔۔“ اس نے متحیرانہ انداز میں سر ہلا کر کہا ۔۔۔۔پھر بولا۔“شاید وہ آپ ہی کی


ص 251
(جاری)
 

رضوان

محفلین
“ آہٹ پر بھڑک گئے تھے۔“
“مگر بھڑکے کیوں تھے۔۔۔۔کیا انہیں یہاں کسی قسم کا خطرہ ہے۔“
“خدا جانے- - سردار صاحب کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔۔۔۔ہو سکتا ہے وہ مجھے بیوقوف بنانے اور خوف زدہ کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہوں۔۔۔۔“
“کیا وہ اس قسم کی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔!“
“انتہائی سنجیدگی سے۔۔۔۔آخیر وقت تک آپ کو علم نہیں ہو سکتا کہ ان کے ذہن میں کیا ہے---!“
“خیر ہٹائیے! ہاں تو آپ صرف آبزرویٹری میں کام کرتے ہیں!“
“جی ہاں-- ! میں نے فلکیات کا کافی مطالعہ کیا ہے! میرے پاس اس سبجیکٹ کی ڈگریاں بھی ہیں۔سردار صاحب میں ایک بڑی اچھائی ہے۔۔۔۔وہ ہے تکمیل کی دھن - -! وہ ہر کام کو اس کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔۔۔۔میرا رجحان فلکیات کی طرف دیکھ کر میرے لئے ایک آبزرویٹری تیار کرا دی۔۔۔۔ہزاروں روپے خرچ کر کے آلہ جات خریدے۔۔۔۔!“
“کیوں - -!“ عمران نے حیرت سے کہا۔“کیا وہ آپ کے عزیز ہیں؟۔۔۔۔“
“جی ہاں - - !“
“کیا رشتہ ہے - - ؟“
“وہ- - دیکھئے! آپ شاہدہ سے تو ملے ہی ہوں گے۔۔۔۔میں اس کا سوتیلا بھائی ہوں۔۔۔۔“
“اوہ۔۔۔۔اچھا!۔۔۔۔“عمران کی آنکھیں نکل پڑیں! - - وہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی بات شاہدہ اسے نہیں بتا سکتی تھی! آخر اس نے چھپایا کیوں اور یہ کیوں کہا کہ سردار دراب ہی سے اس کے متعلق معلومات حاصل کی جائیں! - - پھر اسے سردار کا رویہ یاد آیا۔۔۔۔اس نے عقیل سے عزیزوں کے سے انداز میں گفتگو نہیں کی تھی! بلکہ طرزِ مخاطب مالکانہ تھا!اور ساتھ ہی عقیل نے بھی کچھ اسی انداز میں گفتگو کی جیسے اس کا ملازم ہو۔
“ہاں- - تو آپ اس آسیب زدہ عمارت میں جانا چاہتے ہیں۔“
“یقیناّ یہ میری سب سے بڑی خواہش ہے۔“
“لیکن اگر سردار کو اس کی اطلاع ہو گئی تو کیا ہو گا۔“
“کچھ بھی نہیں! میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ پر الزام نہیں آنے دوں گا۔“
“اچھا تو پھر کل رات پر رکھیئے! - -“ عمران نے سر ہلا کر کہا۔
“کل!“ عقیل کے لہجے میں مایوسی تھی۔“خیر کل ہی سہی! لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہ کیجیئے گا۔ورنہ ہم قیامت تک وہاں نہ جا سکیں گے۔“

ص252
“کیوں؟“
اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا!“یہ دراصل سردار صاحب کے موڈ پر منحصر ہے۔ پتہ نہیں اس وقت ان کا موڈ کیسا ہو جب یہ خبر ان تک پہنچے! لہٰذا ایسا کام کیوں کیا جائے جس سے اس قسم کے خدشات لاحق ہوں!“
“سردار صاحب آپ کے دادا ہوئے۔کیا آپ انہیں دادا نہیں کہتے!“
“نہیں! میں انہیں صرف سردار صاحب کہتا ہوں!بچپن ہی سے!لیکن انہیں کبھی اس پر اعتراض نہیں ہوا۔“
:بہت شاندار آدمی ہیں سردار دراب۔“عمران سر ہلا کر بولا۔“ایک بار میں نے پیار سے اپنے والد صاحب کا سر سہلا دیا تھا تو انہوں نے اس زور کا چانٹا مارا تھا کہ آج تک ہر قسم کے والدین کا سامنا ہاتے ہی روح لرزنے لگتی ہے۔۔۔۔!“
عقیل ہنسنے لگا۔ اس کے سفید دانت کسی بھیڑئیے کے دانتوں کا تصور پیش کر رہے تھے! کچھ دیر بعد وہ دوسرے دن ملنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا!۔
 

رضوان

محفلین
“اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو مجھے افسوس ہے مسٹر عقیل!“
“یہ میں نے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ افسوس ظاہر کر کے میرا مضحکہ اڑائیں!“ عقیل نے تلخ لہجے میں کہا! “کیا حقیقتاّ آپ کو افسوس ہے میں نہیں مان سکتا!۔۔۔۔لولے۔۔۔۔لنگڑے۔۔۔۔اپاہج آدمیوں کے لئے لوگ افسوس کرتے ہیں۔۔۔۔حرامی سے کسی کو ہمدردی نہیں ہوتی۔۔۔۔حالانکہ وہ ہمدردی ہی کے قابل ہوتا ہے!“
“یقیناّ۔۔۔۔یقیناّ۔۔۔۔لیکن آپ آخر اتنے مایوس کیوں ہیں!“ عمران آہستہ سے بولا!“ کیا آپ بھی اپنے اپنے باپ کے روئیے کا اعادہ نہیں کر سکتے!۔۔۔۔“
“ہر گز۔۔نہیں! کبھی نہیں! ۔۔ میں حرامی ضرور ہوں۔۔۔۔لیکن مجھ سے حرامی پن کبھی سر زد نہیں ہو سکتا!۔۔۔۔یہ نسل آگے نہیں بڑھ سکے گی۔۔۔۔!“
“آپ کو سردار دراب سے بھی بڑی نفرت ہو گی۔ قدرتی بات ہے!“ عمران نے کہا۔
“ہر گز نہیں!“ عقیل بولا “ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں! وہ بڑا عظیم آدمی ہے! عظیم ترین آپ نہیں جانتے۔۔۔۔! اس کے علاوہ دنیا میں اور کسی سے مجھے محبت نہیں! کیونکہ وہی ایک ایسا آدمی ہے ، جو مجھ سے نفرت نہیں کرتا جسے مجھ سے ہمدردی ہے،جو اکثر میرے لئے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتا ہے۔۔۔۔! وہ کہتا ہے ۔۔۔۔بیٹے میں تیرے لئے کچھ نہ کر سکا! کیونکہ میں تجھے تیرے صحیح مقام پر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔میں تیرے لئے گھر نہیں بنا سکتا! میں کچھ نہیں کر سکتا تیرے لئے!“
“آج یہ دروازہ ساکت کیوں ہے مسٹر عقیل!“ عمران نے آہنی دروازے کی طرف اشارہ کیا!
“وہ کچھ بھی ہو! لیکن آج میں۔۔دیکھوں گا! ۔۔ میں دیکھوں گا ان آسیبوں کو! آپ یہیں ٹھہرئیے ! میں تالا کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔میرے پاس مختلف قسم کی کنجیوں کا گچھا ہے!“
عمران نے کچھ کہنا چاہا! مگر پھر خاموش ہی رہ گیا!
عقیل آگے بڑھ گیا!۔۔۔۔عمران وہیں کھڑا کنجیوں کی کھنکھناہٹ سنتا رہا۔۔۔۔آسمان کا کچھ حصہ کھل گیا تھا! اور اب تاریکی پہلے کی طرح گہری نہیں تھی!
عمران اس لمبے آدمی کے متعلق بہت کچھ سوچ رہا تھا! دفعتاّ اس نے اسے واپس آتے دیکھا۔
“کیوں؟ کیا بات ہے!“ عمران نے پوچھا!
“میں نہیں کھولوں گا۔۔!“
“کیوں؟“
“کیا فائدہ۔۔! اگر یہاں آسیب ہیں تو میرا کیا بگڑتا ہے۔۔۔۔اگر یہ ہمارے کیسل میں پھیل


ص260
جائیں، تب بھی میرا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔۔میں کہیں چلا جاؤں گا!“
“مگر میں تو اب جاؤں گا اندر۔۔!“
“میں آپ کو نہیں روک سکتا!“ عقیل نے کہا اور وہاں سے جانے کے لئے آگے بڑھا! لیکن عمران اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولا “ آخر یک بیک آپ نے ارادہ ملتوی کیوں کر دیا۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔یہ دیکھیے آپ کی نبض بھی ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے ۔ یعنی آپ خوفزدہ نہیں!“
“سنیئے جناب! کل کسی کو یہاں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو آپ ہی تمام کہتے پھریں گے کہ عقیل نے دروازہ کھولا تھا!“
“اوہ۔۔۔۔ایسی صورت میں بھلا یہ کیسے میری زبان سے نکلے گا جب کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں!“
“نہیں مجھے خوامخواہ کیا پڑی ہے!“
“اچھی بات ہے! دوست! لیکن میں تم سے یہاں تک آنے کا مقصد معلوم کیے بغیر نہیں رہوں گا! آخر تم نے پروگرام ہی کیوں بنایا تھا جب کہ کیسل کا ہر فرد اندھیرے میں ادھر آتے ہوئے کانپتا ہے!“
“ اگر میں وجہ نہ بتاؤں تو میرا کیا بگڑے گا!“
“یہ تو مستقبل ہی بتائے گا!“ عمران نے لاپرواہی سے کہا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر آگے بڑھ گیا!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top