طارق شاہ

محفلین

آدمی ہے نہ آدمی کی ذات
کیسی ویراں ہے تیرے شہر کی رات

پوُچھ لے اِن اُجاڑ گلیوں سے
تُجھے ڈھونڈا ہے ساری ساری رات

میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہُوں
تُو کہاں تک چلے گا میرے سات

اپنا سایہ بھی چھُپ گیا ناصر
یہاں سُنتا ہے کون کِس کی بات

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

شب نہ کٹتی تو نئی آگ نہ جلتی دل میں
صبح کی ساری شرارت ہے ، مگر شام کا نام

دل کی چیخوں میں سُنائی نہیں دیتا کچھ بھی
شبِ خاموش ہے شاید اِسی کُہرام کا نام

کتنے معصُوم ہیں اِنساں ، کہ بہل جاتے ہیں
اپنی کوتاہی کو دے کر غم و آلام کا نام

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

اب کی فصلِ بہار سے پہلے
رنگ تھے گُلستاں میں کیا کیا کُچھ

کیا کہُوں اب تمہیں خِزاں والو
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

رفتہ رفتہ عِشق ، مانوسِ جہاں ہوتا چلا !
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم

حُسن کو اِک حُسن ہی سمجھے نہیں اور،اے فراق
مہرباں ، نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

کہاں کا وصل ، تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دَم بھر کے مِل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

بُھلادِیں ایک مُدّت کی جَفائیں ، اُس نے یہ کہہ کر !
تجھے اپنا سمجھتے تھے، تجھے اپنا سمجھتے ہیں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

ہر سانس میں کِھلتی ہُوئی کلیوں کی مہک تھی
یہ بات ہے اُس دَور کی جب دل میں کسک تھی

اب چاند کے ہمراہ نکلتے نہیں وہ لوگ
اِس شہر کی رونق مِری آوارگی تک تھی

ناصر کاظمی
 
Top