آنکھوں سےفکرِ ذات کے منظر چلے گئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آنکھوں سےفکرِ ذات کے منظر چلے گئے
اشکوں کے بے کنار سمندر چلے گئے

محور سے جب ہٹا گئی مرکز گریزیت
ذرے سے آفتاب کے جوہر چلے گئے

دھیمی ہوئی ہے عشق فسوں گر کی جب سے آنچ
حسن ِ ستم طراز کے تیور چلے گئے

دیکھی جو خوش عقیدگی اہل ِ زمین کی
کچھ لوگ آسماں کے برابر چلے گئے

- ق -

بے خال وخد سے رہ گئے کردارِ بے نقوش
رعنائیء خیال کے پیکر چلے گئے

شایانِ زیب و زینتِ گلشن نہیں کوئی
ہم قامتِ چنار و صنوبر چلے گئے

رندانِ خوش ادا رہے مقتل میں سر بکف
جتنے تھے کج نوا سرِ منبر چلے گئے

-

بیٹھے رہو اب اپنی انا کو سنبھال کر
جن کا تھا انتظار وہ آکر چلے گئے

باقی ہیں اس خرابہء ہجرت میں ہم ظہیر
واپس ہمارے ساتھ کے اکثر چلے گئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی
 
Top