آسماں پر سحاب حیرت ہے - منیب احمد فاتحؔ

آسماں پر سحاب حیرت ہے​
یہ نقاب النقاب حیرت ہے​
کعبہ پر ہے گمان پانی کا
در طوافِ سراب حیرت ہے​
جبکہ عالم تمام ہے نشہ
مے کدوں میں شراب حیرت ہے​
آنا اپنا ہزار دقت سے
اور جانا شتاب حیرت ہے​
صبح تھا میں سوال پر حیران​
شام پا کر جواب حیرت ہے​
بندہ دیکھے یا بندہ پرور میرؔ
خواب در ہر نقاب حیرت ہے​
٭ میرؔ استعمال کیا ہے کہ مجھے ذاتی طور پر یہ تخلص پسند ہے۔ بہرحال اگر غزل شائع کی تو اسے فاتحؔ سے تبدیل کر دوں گا۔
 
خوب! بہت خوب! ہم تو میرؔ دیکھ کر دھوکہ کھا گئے کہ شاید واقعی میرؔ صاحب کی ہے۔ خیر نیچے آپ کا نوٹ پڑھ کر تسلی ہوئی۔ جیتے رہیے۔ غزل پڑھ کر خوشی ہوئی۔ بہت لطف آیا۔ انداز اس غزل کا مِیری سا ہی ہے۔
 
Top