منیب احمد فاتح
محفلین
آسماں پر سحاب حیرت ہے
یہ نقاب النقاب حیرت ہے
کعبہ پر ہے گمان پانی کا
در طوافِ سراب حیرت ہے
جبکہ عالم تمام ہے نشہ
مے کدوں میں شراب حیرت ہے
آنا اپنا ہزار دقت سے
اور جانا شتاب حیرت ہے
صبح تھا میں سوال پر حیران
شام پا کر جواب حیرت ہے
بندہ دیکھے یا بندہ پرور میرؔ
خواب در ہر نقاب حیرت ہے
٭ میرؔ استعمال کیا ہے کہ مجھے ذاتی طور پر یہ تخلص پسند ہے۔ بہرحال اگر غزل شائع کی تو اسے فاتحؔ سے تبدیل کر دوں گا۔