آزادی ۔۔۔ مگر کس سے ؟

علی ذاکر

محفلین
آجکل کے نوجوانوں کی سوچ بھی تو یہیں تک ھے ورنہ شیخ‌رشید جیسے لوگ ہی کیوں منظر عام پہ آئیں ،

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں :)

یہیں پر اپ غلط ہیں آجکل کے نوجوانوں کی سوچ کا پھر شاید آپ کو اندازہ نہیں ہے اب وہ دور نہیں رہا کہ جب ہماری جنریشن آسمان میں جہاز کو اڑتا دیکھ کر دل میں حسرت لیئے مر جاتے تھے کہ کبھی ہم بھی اس اڑن کھٹولے میں بیٹھیں گے یا ہماری جنریشن یہ نہیں کہ ہمارے ملک کی بھاگ دوڑ آکر کس کے ہاتھ میں ہے کمپیوٹر،ڈیفنس،ٹیکنالوجی،سیاست،اب اگر گننے میں آؤں تو نجانے کتنے شعبے ایسے ہیں جن میں ہم خودمختار ہیں بات وہی ہے کہ ہمیں منظرعام پر نہیں آنے دیا جاتا !

مع السلام
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ زونی ۔ آپ نے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا ۔ مگر لفظوں کی پٹاری کھل جائے تو کہاں کبھی کوئی مطمئن ہوا ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے اس وقت نعرے لگانے والے اور اب بھی خواب دیکھنے والے کم نہیں ۔ مگر عارف کریم نے جو علم کا دریا بہایا ہے اسی میں سے "چند موتی" نکال کر رکھ دوں کہ غدار نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں ۔ کسی کے ڈانڈے سعودی عرب سے جا ملتے ہیں ، کوئی پس پردہ گریٹر ایران ہی کو اپنا اصل وطن سمجھتا ہے اور کسی کو متحدہ ہندوستان کی "پیڑ" اٹھتی ہے ۔ مگر یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اگرچہ وطن پرستی ملت اسلامیہ کے متضاد چیز معلوم ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوئی چیز نہیں رہی البتہ وطن سے آپ ایک ملت ضرور تشکیل دے سکتے اور وہ تمام تر نظریات و عقائد پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئی ہے ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔وسلام

آپ اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، سچ اس سے اسان اور واضح تو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آپ یوں سمجھیں "زمینی حقائق" بیان کرنے کی کوشش کی ہے :)
وسلام

السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
آپ کے تحریر کردی زمینی حقائق تو یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ
" ملت اسلامیہ " صرف نام کی اک ملت ہے ،
جس کے افراد ذاتی مفادات کے غلام بن کر دوسری قوموں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ۔
کیا " وطن پرستی " " ملت اسلامیہ کے مخالف ہے ۔؟
اگر وطن پرستی ملت اسلامیہ کے مخالف ہے تو کیسے اک ملت کی تشکیل ہو سکتی ہے ۔؟
نایاب
 

شمشاد

لائبریرین
تعمیری قسم کی بحث ہے تو جاری رہنی چاہیے، دوسری صورت تو آپ کو معلوم ہی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
یاا للہ یہ پھر بحث شروع ہو گئی :sad2:

السلام علیکم
محترمہ زونی بہنا
اللہ کی امان سدا آپ پر آمین
یہ کوئی بحث نہیں ہے ۔
اس سوال کا پس منظر یہ ہے کہ
میرے حلقہ احباب میں کچھ انڈینز بھی شامل ہیں ۔
اور یہاں سعودی عرب میں تلاش رزق میں مصروف سب ہی ایک
نیشنلٹی رکھتے ہیں ۔ جسے خارجی کہا جاتا ہے ۔
اور اصل نیشنلٹی ( پاکستانی ہندوستانی بنگلہ دیشی ) صرف وطن کا سفر
شروع ہونے پر سامنے آتی ہے ۔
میں آزادی کارڈ بنا رہا تھا جب اک مسلم انڈین دوست نے یہ سوال کیا ۔
تو اس سوال کو اپنے الفاظ میں محفل میں پیش کر دیا ۔
آپ نے اور محترم اراکین نے اچھے جواب لکھے جن سے مجھے اپنے دوست کو سمجھانے میں آسانی ہوئی ۔
انشااللہ اس دھاگے میں کوئی ناخوشگوار بات نہیں ہو گی ۔
نایاب
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
آپ کے تحریر کردی زمینی حقائق تو یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ
" ملت اسلامیہ " صرف نام کی اک ملت ہے ،
جس کے افراد ذاتی مفادات کے غلام بن کر دوسری قوموں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ۔
کیا " وطن پرستی " " ملت اسلامیہ کے مخالف ہے ۔؟
اگر وطن پرستی ملت اسلامیہ کے مخالف ہے تو کیسے اک ملت کی تشکیل ہو سکتی ہے ۔؟
نایاب
آپ سمجھنے میں تھوڑی غلطی کر گئے ۔ ملت اسلامیہ کا وجود اب باقی نہیں رہا۔ اور موجودہ حالات کے تناظر میں ہم جس طرح پہلی صدی کی ملت اسلامیہ چاہتے ہیں وہ بنتی نظر نہیں آتی ۔ آپ کا یہ سوالیہ تجزیہ درست ہے کہ "جس کے افراد ذاتی مفادات کے غلام بن کر دوسری قوموں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ۔ " وطن پرستی کسی بھی طور پر ملت اسلامیہ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ۔ مگر اصل مسئلہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے دوبارہ وجود کے لئے جو حالات درکار ہیں وہ ہمیں میسر نہیں ۔ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو مسلمانوں کی عظمت ایک بنیادی چیز کے سبب رہی۔ اور وہ انصاف ہے۔ انصاف وہ بنیاد ہے جو کسی بھی ملت کو لازوال عروج بخشتی ہے ۔ اور انصاف کے لئے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو۔ اور قانون کی حکمرانی بغیر کسی تعلیم و ترقی یافتہ وطن کے ممکن نہیں۔ اور ایسا وطن تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب آپ اپنے وطن کی محبت میں بری طرح مبتلا ہوں ۔ اسے اوپر دیکھنا چاہیں روشن دیکھنا چاہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں جو اخلاقی قدریں دینی طور پر حاصل ہیں وہ کسی اور ملت کے پاس نہیں ۔ اگر ہمارا ملک اس مقام پر ہو کہ جہاں ہم دیگر اقوام مسلمین کی سربراہی و رہنمائی کر سکیں تو بلاشبہ ملت اسلامیہ کو دوبارہ موجود کیا جا سکتا ہے ۔ چونکہ نظریاتی و مادی مسائل میں ہم بری طرح جکڑے گئے ہیں اسلئے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اس حالت میں کسی بھی قسم کی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔
چونکہ ہم ساٹھ پینسٹھ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اسلئے یہ سوچنا بےکار ہے کہ ہم سب ایک ہو جائیں اور پھر کچھ کر دکھائیں ۔ بجائے اس کے کہ ہم چھو منتر کر کے سب کچھ بدلنے کی فکر میں مبتلا ہوں بہتر یہ ہے کہ کسی ایک سمت سے بہتری شروع کی جائے اور پھر بتدریج اس عمل کو آگے بڑھایا جائے ۔ اور بحیثیت پاکستانی وہ ایک سمت ہمیں پاکستان کو اختیار کرنا چاہیے ۔ اور اس سلسلے کی پہلی کڑی تعلیم ہونا چاہیے ۔ تعلیم میں ہمیں بجائے اپنے نظریات اپنی نسل پر تھوپنے کے انھیں صرف اسلام کی ببنیادی قدروں سے روشناس کراتے ہوئے ان کی ذہنوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے ماحول کی مناسبت سے بنیادی قدروں میں رہتے ہوئے مناسب باتوں کو اختیار کر سکیں ۔ اور یہ طویل سلسلے ہیں اور بڑا صبر آزما مراحل ۔
وطن پرستی کا جذبہ انتہائی قوت رکھتا ہے اور یہی ایک معاملہ رہ گیا ہے جس پر ہمارے درمیان اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اسی کو استعمال کرتے ہوئے نئی نسل اور اس کے بعد آنے والی نسلیں اس مقام پر پہنچ سکیں گی جب ہم پھر سے اسلامی ملت کو دیکھ سکیں گے ۔
اب اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اسلام کی بنیادی قدریں بھی ہوں اور وطن پرستی بھی ۔ تو بنیادی قدر تو یہ ٹھہری کہ تمام مسلمان ایک ملت ہیں ۔ اور اس ملت کو بنانے کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے اس کے لئے ایک پلیٹ فارم درکار ہے جو کوئی ایک ملک یا قوم ہو سکتی ہے ۔ اور یہ ملک یا قوم وطن پرستی کے جذبے کے تحت ہی وہ پلیٹ فارم بن سکتا ہے ۔
یاا للہ یہ پھر بحث شروع ہو گئی :sad2:
ہائے اللہ آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ۔ سلیقے سے بات ہو تو اچھا ہے نا ۔ ورنہ ہمارا یہ ذہنی جمود ہمیں کہاں لے آیا ہے آپ بھی جانتی ہیں ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
شکریہ طالوت۔ آپکی باتیں بالکل درست ہیں۔ مگر یہ کہنا کہ اب دوبارہ ملت اسلامیہ کا قیام ممکن نہیں۔ یہ خود ہی اپنی ہار پستگی کا اقرار ہے۔ یاد رہے کہ صیہونیت محض 1897 کو شروع ہوئی تھی اور 1948 میں صیہونی ایک اسلامی خلافت عثمانیہ کو توڑ کر اپنی ریاست اسرائیل وہاں قائم کر چکے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پہلی اور دوسری جنگی عظیم کا اصل مقصد صیہونی اسرائیل کے قیام کیلئے خلافت عثمانیہ کو توڑنا تھا تاکہ صیہونی اپنا اصل ایجنڈا "نیو ورلڈ آرڈر" وہاں سے لیڈ کر سکیں۔
جب وہ لوگ صرف 50 سال کے عرصہ میں اسرائیل حاصل کر سکتے ہیں تو ہم مسلمان محض 25 سال کے عرصہ میں اپنے ممالک واپس جوڑ کر ایک ریاست بنا سکتے ہیں۔ صیہونیوں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں پہلے بھی بہت کم تھی اور آجکل تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اسوقت مسلمان دنیا کے ہر خطہ میں‌پائے جاتے ہیں۔ اور یورپ کے بعض ممالک میں تو یہ تعداد کچھ سالوں تک نیٹوز کے نسبت زیادہ ہونے کا بھی امکان ہے۔
اصل مسئلہ وہی ہے کہ صیہونی عقل سے جنگ کرتے ہیں اور ہم جذبات سے۔ خالی تعلیم دینا کافی نہیں ہے کیونکہ ہماری موجودہ تعلیمی نظام سارا کا سارا صیہونی ایجنڈا کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ تعلیم وہ ہونی چاہئے جسمیں سچائی ہو، کچھ نیا کرنے کی جدت ہو- موجودہ تعلیم نظام معاشرے کے روبوٹس تو پیدا کر سکتا ہے لیکن ایک سوچنے والا انسان نہیں ۔ اسلئے اگر مسلمان واقعی اپنی فلاح چاہتے ہیں تو تمام مسلمان ممالک کو واپس متحد کرنے کی کوشش کریں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو کافر قرار دیکر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دنیا سے ہی اٹھ گئے!
 

زونی

محفلین
آپ پرسدا سلامتی ہو زونی بہنا
جن شخصیات نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔
انہیں بیک جنبش قلم " دوغلا ' کہہ دینا مناسب نہیں ۔
کہ وہ شخصیات بھی اپنی مخالفت کی اک دلیل رکھتی ہیں ۔
اور 1947 سے لیکر 2009 تک ہند کے کچھ " صدور" کو اقلیت سے ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
اس لیے ' اقلیت ' سے نکل کر ' اکثریت ' میں آنا ہی صرف آزادی کا مقصد نہیں تھا ۔
نایاب




نایاب بھائی بات اکثریت اور اقلیت کی نہیں تھی ، بلکہ مسلم نمائندگی کی تھی (اور باقی سب چیزیں بھی اسی سے مشروط تھیں) جو کہ انہیں میسر نہ تھی اور انگیزوں کے جانے کے بعد حالات شاید مزید خراب ہو جاتے ۔

مسلم صدور کی بات تو میرا خیال رہنے ہی دیں کیونکہ میں نہیں سمجھتی کہ وہ اب بھی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ، باقی اس موضوع پہ زیادہ بحث نہیں کرونگی کیونکہ ہمارے بھارتی دوست بھی یہاں موجود ہیں اور ہو سکتا ھے انہیں یہ بات پسند نہ آئے ۔
 

زونی

محفلین
برطانوی راج سے صرف ثانوی آزادی حاصل کی تھی ۔ کیونکہ بعد کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہمنے اپنا سرکاری، سیاسی، معاشی، عدلی اور تعلیمی نظام وہی برطانوی راج کے وقت جیسا ہی رکھا۔ اور ابھی تک ہے۔ اگر آزادی کیلئے واقعی جدو جہد کی تھی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک منفرد اور بہتر نظام زندگی متعارف کر وانا چاہئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ نعرہ آزادی کا لیکن نظام وہی پرانے آقاؤں کا! :grin:
پھر چلیں برطانوی راج کو چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان ہی کے دور سے پاکستان نے ریاست ہائے ہائے امریکہ سے قریبی مراسم جوڑنا شروع کر دئے۔ اور پھر امپورٹڈ جنگی دفاعی نظام جسکی اولً تو کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومتی بجٹ کا حصہ بنا رہا۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک ابھی آزاد ہوا ہے تواسکو خود مختار رکھنے کیلئے اور عوام کی فلاح کیلئے لانگ ٹرمز ترقیاتی کام شروع کئے جاتے۔ ملک کو از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے تحت ڈیزائن کیا جاتا۔ یہ وہ کام تھا جو ابتدائی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ اسکے بر عکس ہم تو بس کبھی فوجی آمروں اور کبھی غیر قوموں کے آلہ کار بنے رہے۔ پھر انتہائی غربت و مصیبت کی حالت میں امپورٹڈ جنگی سامان کیساتھ نکل پڑے بھارت سے دو جنگیں کرنے۔ جسکا خمزیادہ ابھی تک معاشی بھونچال اور کبھی نہ ختم ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی صورت میں‌بھگت رہے ہیں۔ جنگیں کرنے سے پہلے ملک کی معاشی و اقتصادی حالت تو دیکھ لیتے۔ یہ تو سمجھ لیتے کہ ان جنگوں کا حقیقی فائدہ بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ محض ان غیر قوتوں کی صنعتوں کو ہونا ہے جنکی روزی روٹی اسکی سیل پر منحصر ہے۔ہائے پاکستان کا اللہ حافظ!





ہاہا کمال ھے ، جنگ سے پہلے یہ سب سوچ لیتے تو آج ہم بھارت کا حصہ ہوتے ، قائل ہو گئی ہوں میں آپکی دور اندیشی کی ۔ :rolleyes:
 

فرخ منظور

لائبریرین
زونی بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں عارف۔ ہمیں بھارت کو سمجھانا چاہیے تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرے کیونکہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں اور ہمارے پاس اپنے ہتھیار نہیں ہیں۔ ;)
 

arifkarim

معطل
زونی بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں عارف۔ ہمیں بھارت کو سمجھانا چاہیے تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرے کیونکہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں اور ہمارے پاس اپنے ہتھیار نہیں ہیں۔ ;)

یہ زونی اور سخنور مجھے ایک ہی آئیڈی لگ رہی ہے! :grin:
خیر۔ اگر پاکستان اور بھارت مغربی اسلحہ خریدنے کی بجائے اپنا سرمایہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں‌لگاتے تو نہ بھارت کو پاکستان سے کوئی خطرہ ہوتا اور نہ پاکستان کو بھارت سے! ایک ملک کو دوسرے سے صرف اسلئے خوف محسوس ہوتا ہے جب ایک پاس تو حملے کی طاقت ہو جبکہ دوسرا خدا کے رحم و کرم پر ہو!
جاپان کو دیکھ لیں۔ انکے پاس بہت کم فوج ہے اور وہ بھی دوسرے ممالک میں "امن کے قیام" کیلئے موجود ہے، جبکہ علم و ہنر کے میدان میں وہ لوگ مغرب سے آگے ہیں۔
 

زونی

محفلین
یہ زونی اور سخنور مجھے ایک ہی آئیڈی لگ رہی ہے! :grin:
خیر۔ اگر پاکستان اور بھارت مغربی اسلحہ خریدنے کی بجائے اپنا سرمایہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں‌لگاتے تو نہ بھارت کو پاکستان سے کوئی خطرہ ہوتا اور نہ پاکستان کو بھارت سے! ایک ملک کو دوسرے سے صرف اسلئے خوف محسوس ہوتا ہے جب ایک پاس تو حملے کی طاقت ہو جبکہ دوسرا خدا کے رحم و کرم پر ہو!
جاپان کو دیکھ لیں۔ انکے پاس بہت کم فوج ہے اور وہ بھی دوسرے ممالک میں "امن کے قیام" کیلئے موجود ہے، جبکہ علم و ہنر کے میدان میں وہ لوگ مغرب سے آگے ہیں۔




آپ اسوقت کہاں تھے عارف ؟ اسوقت سمجھا دیتے تو دونوں ملکوں میں ایسی کشدگی پروان نہ چڑھتی ۔ ۔:grin:
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہرحال یہ بات اتنی آسان نہیں بلکہ بہت پیچیدہ ہے۔ بعض اوقات لوگ تاریخ کے حوالے لکھ لکھ لاتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی بات واضح نہیں ہوتی جبکہ ایک ادب کا افسانہ نگار یا شاعر ایک ہی شعر یا افسانے میں وہ بات واضح کر دیتا ہے۔ افسوس مجھے ایک ہندو ادیب کا لکھا افسانہ "پارٹیشن" نہیں مل رہا ورنہ میں وہ ضرور شئیر کرتا۔ خیر یہ ایک طویل بحث ہے قطعِ نظر اس سے کہ ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا۔ اس سلسلے میں تو انڈیا کے حکمران قابلِ مثال ہیں کہ جو انہوں نے اپنی قوم کے لئے کیا وہ مسلمانوں کے لیڈروں نے نہیں کیا۔ تاہم میرے خیال میں انڈیا کے حکمرانوں نے انڈیا کے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ انہیں مزید پستی کی طرف دھکیلا ہے۔
 
Top